donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M.Z. Khan
Title :
   Ghazal Numa Ka Qazia

غزل نما کا قضیہ
 
ایم زیڈ خان ، رانچی
 
رسالہ ،ادب ساز،دہلی کے ۲۰۱۰کے شمارہ ساحرلدھیانوی نمبر،میں گوشہ اختلاف کے کالم کے تحت ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مضمون کے جواب میں ناوک حمزہ پوری کاغزل نما کے تعلق سے چھپا مضمون دیکھ کر اور پڑھ کر کچھ بہت زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے اس بات کااندازہ تھا کہ ناوک صاحب کچھ ایسا ہی کریںگے۔ لوگ ناموری کے لئے یا کہہ لیں خبروں میں وہ متنازعہ، بنے رہنے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کسی حدتک جاسکتے ہیں تسلیمہ نسرین لجا اور سلمان رشدی سیٹنک ورسز کی مثالیں کچھ زیادہ پرانی نہیںہوئی ہیں۔ صرف متنازعات کھڑا کردینا ان کی فطرت میں شامل ہوجاتاہے۔ شاید انہیں کسی قسم کی روحانی تسکین ملتی ہویا کچھ اور؟خداجانے! اس سے قبل میں اپنی بات آگے بڑھائوں، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ اس قبضے کی شروعات کیسے اور کہا ہوئی۔ غزل نما کے تعلق سے ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی صاحب کاایک مضمون غزل نما کاموجدکون، پندار، پٹنہ، فاروقی تنظیم، رانچی، اور روزنامہ سہارا میں اپریل ۲۰۰۹میں شائع ہواتھا۔ اس کے بعد فاروقی تنظیم، رانچی میں مضمون کی حمایت اور مخالفت میں درجنوں خطوط شائع ہوئے۔ غزل نما کے موجدہونے کا تاج چھنتا دیکھ ظہیرغازی پوری سے رہانہ گیا اور انہوں نے اپنا ایک طویل مضمون، غزل نمااور مناظر عاشق کی غلط بیانیاں لگاتار تین قسطوں میں فاروقی تنظیم، رانچی میں چھپواکر تنازعہ کوہوادے دی، کیونکہ اس مضمون میں ڈاکٹر مناظر عاشق کی ذات کو نشانہ بنایاگیاتھا۔اس مضمون کے رد عمل میں راقم الحروف کایک مضمون، غزل نما اور ظہیرغازی پوری کی لن ترانیاں، فاروقی تنظیم، رانچی میں شائع ہواتھا۔ جس میںڈاکٹر مناظرکی اردو خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نئی تحقیق کے حوالے سے یہ بات کہنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تکنیک ، ہئیت ور فنی اعتبار سے شاہد جمیل کا۱۹۷۳میں کیاگیا لاشعور تجربہ ہی غزل نما ہے جوظہیرغازی پوری کے شعوری تجربہ کے آٹھ سال قبل وجود میں آیاتھا، پھر اسے ظہیرصاحب کوقبول کرنے میں کیا حرج ہے؟کشادہ دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے ظہیرصاحب کو مان لیناچاہئے تھا اور ایسی ہی گزارش ناوک صاحب نے بھی اپنے ایک مراسلہ کے توسط سے کی تھی بحث کایہ طویل سلسلہ فاروقی تنظیم کے صفحات پر تقریبا تین ماہ تک چلا۔ اخلاقیات کی حدود کوپارکرتامباحثے کایہ سلسلہ مدیر فاروقی تنظیم کے ۱۶،جولائی ۲۰۰۹کے نوٹ، کے بعد تھم گیا، پھر اس لایعنی بحث کوفنون، اورنگ آبادگل بن لکھنو،اور دوسرے رسائل میں لے جایاگیا۔
 
ان سب کودیکھ کرمجھے خیال آیا کہ نہ غزل نما کے تعلق سے ایک معیاری کتاب ترتیب دی جائے تاکہ اس کتاب کی روشنی میں صحیح اور غلط کافیصلہ ہوسکے اور میں نے جھارکھنڈ سے کتاب کی اشاعت کااعلان فنون اپریل ۲۰۰۹کے شمارے میں ایک مراسلہ کے ذریعے کردیا اور اسی تعلق سے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ادب ساز میں چھپے تحقیقی مضمون کے حوالے سے ہندوپاک کے دودرجن سے زائد مشاہیرادب سے غزل نما کے بارے میں جامع مضمون کی گزارش کی تھی۔میں نے مناظر کے مضمون کی زیراکس کاپی بھیج کرناوک سے جامع مجمون بھیجنے کی گزارش کی تو مضمون اور میراخط ملنے کے بعد ناوک نے مجھ سے فون پر رابطہ قائم کیا اور کہنے لگے، میں زوردار مضمون لکھوں گا جو آپ کی کتاب کوہٹ کردے گا، ان کی مراد متنازعہ مضمون سے تھی ، کمپوزنگ کیلئے مبلغ ۳۰۰روپیہ بھیج دیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ اپنا مضمون مجھے بھیج دیں، میں رانچی میںکمپوزکر الوں گا وہ اس کیلئے تیارنہیں ہوئے اور اصرارکرتے رہے کہ بذریعہ منی آرڈر روپیہ ارسال کردیں۔ ان کے اصرار پر میں نے روپیہ بھیج دیا۔ ڈیڑھ دو ماہ کے بعد مجھے بذریعہ ڈاک مضمون تحقیق یاسوکن ڈاہ، موصول ہوا، مضمون کے غیرادبی عنوان کودیکھ کرمجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کس سمت جارہاہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مضمون غزل نما کی بحث کوکنارہ کرڈاکٹر مناظر عاشق کی شخصیت پرسوالیہ نشان کھڑاکرتاہے۔ اس میں ادبی بحث کو غیرادبی تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب میں ذاتیات پر اس قسم کے رکیک حملے کی قطعی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے نقصان تو ادب ہی کاہوتاہے۔
 
بہرکیف میں مضمون پڑھ کراپنے آپ کونہ روک سکا اور اپنے رد عمل کابرملا اظہار کرتے ہوئے ناوک صاحب سے فون پر کہا کہ آپ کا یہ مضمون ذاتیات کے ارد گردگھوم رہا ہے۔ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔یہ تنازعہ پیدا کرےگا۔ اس مضمون میں غزل نما کے فنی اور تکنیکی پہلوئوں پر بحث نہیں کی گئی ہے۔ میرے تیکھے وتلخ رد عمل پرناوک صاحب، ڈاکٹر ہرگانوی کی ذات کوسامنے رکھ کربے جادلیلوں سے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن میں ان کی دلیلوں سے مطمئن نہیں ہوا۔ اور سب سے غیر اخلاقی حرکت جوناوک صاحب سے سرزدہوئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اس مضمون کو ہندوستان کے کئی رسائل وجرائد یں چھپنے کیلئے بھیج دیا۔ فاروقی تنظیم، میں بھی یہ مضمون بھیج گیا تھاپتہ نہیں ،کیوں نہیں چھپ پایا؟
 
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ناوک صاحب نے یہ مضمون میری گزارش پر میری زیرترتیب کتاب کے لے لکھاتھا۔ اس کامعاوضہ بھی مجھ سے لیا تھا۔ اخلاقی طور پر اس مضمون پر میرا پہلاحق تھا۔ بنامیری اجازت اسے دوسری جگہوں پر چھپواناوہ بھی کتاب کے منظر عام پر آنے سے قبل غیراخلاقی فعل ہے۔ناوک صاحب مضمون کے اخیر میں ایک تنبیہی نوٹ دے کر مجھ سے امید بھی کرتے ہیں، گمان ہے یہ مضمون آپ کی کتاب کی دلچسپی بڑھائے گا، کتاب چھپ جانے سے پہلے اس مضمون کی بھنک کسی کونہ لگے۔ اس مخصوص قسم کی بھنک پر انہوں نے کافی زوردیا ہے۔ بھنک کیا لگے انہوں نے خودہی پورے ہندوستان بھر میں ڈھونڈوراپیٹ دیا۔ کتاب چھپنے سے قبل یہ تین جگہوں سے چھپ چکاہے۔ اب تکاب کیلئے اس کی کیا افادیت ہے۔ ناوک صاحب ایک طرف مجھے اخلاقیات کادرس دیتے ہیں اور دوسری طرف خوداخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں یہ کیسا اخلاقی سبق ہے؟اس مضمون کو کتاب چھپنے سے قبل کئی رسائل میں چھپوانے میں ناوک صاحب کی کیا مصلحت تھی محترم اتنی عجلت میں کیوں تھے۔ اتناڈھنڈوراپیٹنے کی کون سی ضرورت آن پڑی تھی؟لیکن مجھے لگتاہے اس کے پیچھے ایک ہی مقصد کافرماتھا کہ کسی طرح غزل نما کے بہانے مناظر صاحب کی شخصیت کو داغدار کیاجائے، اور انہیں نشانہ ہدف بنایاجئے۔ ان کی کردارکشی کران کی ادبی خدمات، ۱۴۰کتابیں، پر سوالیہ نشان کھڑا کیا جائے۔ لیکن عزیزمحترم اس میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ مجھے اور دوسروں کوبھی جواب سے تعلق رکھتے ہیں یہ قطعی پسند نہیں ہوگا کہ ادب کے نام پر غیرادبی بات پھیلائی جائے۔ کسی کی ذات پرکیچڑاچھالے جائیں، اخلاقی حدوں کوپار کرغیراخلاقی حرکتیں سرانجام دی جائیں۔ نام ونمود کی خاطر مذہب کاسہارا لے کرکسی کی دل آزاری کے سامان فراہم کیے جائیں اس سے احترازبہتر ہے ورنہ ادب کی دنیا کیچڑوں سے لت پت ہوجائے گی۔
 
مثبت بحث کوراہ نہ دے کر ذاتیات کوگرفت میں لانا ارادہ قطعی غیر اخلاقی وغیرادبی فعل ہے۔ ناوک صاحب جیسے بزرگ شاعر سے اس قسم کے غیر اخلاقی فعل کی امید نہیں تھی۔ناوک صاحب ظہیرغازی پوری کی ہم نشینی کی اندھی حمایت میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ اخلاقی قدریں ہی پامال ہوگئیں۔ اصولوں اور اعلیٰ قدروں کی دہائی دینے والے ناوک صاحب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ سماج کے لئے تعمیری ادب تخلیق کریں۔ بے ادبی بے اصولی کوادب میں راہ نہ دیں ورنہ ادب کے گلشن میں تنازعات کے صرف خارہی خار نظر آئیںگے۔
 
ناوک صاحب کی قلابازیاں ملاحظہ ہوں،وہ فاروقی تنظیم،رانچی کے ۱۶؍جولائی ۲۰۰۵کے شمارہ میں چھپے ایک مراسلہ میں شاہدجمیل کے سرغزل نما کے موجد ہونے کاسہراباندھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ،اگر ظہیرغازی پوری سے قبل شاہد جمیل نے یہ ہئیت برتی اور اس کے مطبوعہ شواہدان کے پاس ہیں تو سیدھے سیدھے ظہیرصاحب کو ان کی اولیت تسلیم کرلینی چاہیے، اب یہ ضرور ہے کہ مطبوعہ شواہد کی روشنی میں شاہد جمیل کوغزل نما کا بانی تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں، مدیر کے نوٹ کے بعد جھار کھنڈ میں یہ بحث بند کردی جاتی ہے۔
 
مذکورہ کلمات سے ، کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟ناوک صاحب سوکن ڈاہ والے مضمون میں کیا فرمارہے ہیں اور ان کا یہ مراسلہ کیا کہہ رہاہے؟اس میں حتمی رائے دے رہے ہیں کہ شاہد جمیل کو غزل نما کا موجد مان لینے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں پھر یہ قلابازیاں کیوں؟کیوں شاہد جمیل کی غزل نما کو بچوں کی اچھل کودسے زیادہ نہیں مان رہے ہیں؟اور کیوں خود کوسعی رائیگا بنانے پرتلے ہیں؟اپنے آپ میں سوکن ڈاہ کاجذبہ پیدا کرکے گرہن کیوں لگارہے ہیں۔غزل نماشاہد جمیل کے نام سے منسوب ہے جس سے فکر انگیزفضا قائم ہوتی رہے گی!
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 952