donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : A. P. Singh
Title :
   Jee HaN MaiN Talibani Sonch Wala HooN

جی ہاں، میں طالبانی سوچ والا ہوں

 

اے پی سنگھ


ہندوستان کی حکومت نے دہلی گینگ ریپ پر بنی دستاویزی فلم پر پابندی لگا دی ہے
میڈیا اور پارلیمنٹ میں اس معاملے پر کافی کچھ کہا گیا ہے

جہاں کچھ لوگ آزاد فلم ساز لےذلي اڈون کی دستاویزی پر پابندی کی حمایت کر رہے ہیں، دوسری طرف، پابندی کی تنقید بھی ہو رہی ہے

دستاویزی پر پابندی لگائے جانے کے بعد بی بی سی کی روپا جھا نے واقعہ کے مجرم مکیش سنگھ کے وکیل اے پی سنگھ سے بات کی
اس بات چیت کے کچھ حصے
کیا دستاویزی فلم پر پابندی لگنا چاہئے تھا؟

دستاویزی فلم پر پابندی نہیں لگنی چاہئے. خیالات کی آزادی ہونی چاہئے. ملزم کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہئے. وہ متوفیہ کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے، یہ اس کی اپنی سمجھ کی بات ہے

اگرچہ متوفیہ کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اس سے جذبات وابستہ ہوتے ہیں، لیکن اسے آپ کے خیالات سے کس طرح روک لیں گے؟

پابندی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کے، خیالات کو فورم دینے سے ماحول خراب ہو رہا ہے

میڈیا پولیس نہیں ہے، اسے دونوں فریق کی بات رکھنی چاہئے. ایک فریق نے یہ کہا، دوسرے نے یہ کہا. آپ فیصلہ نہیں کر سکتے

لیکن لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر مردوں کی ذہنیت ایسی ہی ہے
نہیں، مردوں کی ذہنیت ایسی نہیں ہے. عورت کو بچانے والا کون ہوتا ہے؟ مرد ہی ہوتا ہے. عورت کو ماں، بہن مرد ہی کہتا ہے. مرد ہی شوہر بن کر عورت کی حفاظت بھی کرتا ہے، اس کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دیتا ہے. بیٹی کا باپ بھی مرد ہی ہوتا ہے

آدمی اپنی پوری زندگی خاندان کے لئے لگا دیتا ہے. اس خاندان میں ماں بھی ہوتی ہے، بہن، بیوی، بیٹی، بھتیجی بھی ہوتی ہے. خواتین کی حفاظت کرنے کا جذبہ مرد سے زیادہ كس میں ہو سکتا ہے؟
اس دستاویزی فلم میں آپ نے جو باتیں کہیں ہیں ....

میں آج بھی ان پر قائم ہوں. میری ماں، میری بیوی، میری بیٹي- ان کے لئے میں ذمہ دار ہوں، میں ان کا ولی ہوں. انہیں کوئی شکایت نہیں ہے. اگر وہ بی بی سی سے شکایت کرنے جائیں تو آپ اس کی مخالفت کریں. وہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے پاس جائیں تو وہ کارروائی کریں. وہ دہلی پولس كمشنر کے پاس جائیں تو وہ ایکشن لیں

آپ نے اس دستاویزی میں کہا ہے کہ اگر آپ کی بیٹی اپنی مرضی سے یا آپ کی مرضی کے خلاف کسی کے ساتھ گھومنے جائے تو آپ اسے مار دیں گے؟

جی ہاں، وہ بغیر اجازت کے کسی مرد کے ساتھ باہر جائے اور کسی سے تعلقات برقرار رکھے تو بالکل مار دوں گا. اسے آگ لگا کر جلا دوں گا

تو کیا خواتین کو یہ منتخب کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں؟
خواتین کی پسند کا ان کے والدین پر انحصار ہونا چاہیے، خواتین کی پسند کا بھائی پر انحصار ہونا چاہیے، خواتین کی پسند کا اپنے خاندان کے سربراہ پر انحصار ہونا چاہئے. اس سربراہ پر، جس نے اپنی زندگی خاندان کے لئے، اس عورت کے لئے، اس بچی کے لئے وقف کر دیا ہے

کیا یہی بات آپ اپنے بیٹے پر بھی لاگو کرتے ہیں؟

بالکل. بیٹی کو تھپڑ بعد میں ماروںگا، بیٹے کو تو پکڑ کر پیٹنا شروع کر دیتا ہوں کہ یہ غلط کیسے کیا تو نے. بالکل ماروںگا، مار ڈالوں گا اور لوگ ایسے لڑکوں کو مار ڈالتے ہیں. میرٹھ میں آپ دیکھ لیجئے، یوپی میں آپ دیکھ لیجئے

کیا یہ صحیح ہے؟ عورتوں کو اس طرح قتل کیا جانا صحیح ہے؟

بالکل صحیح ہے. لوگوں کا رویہ اصلاحی ہونا چاہئے، سزا دینا ہونا چاہئے. آپ کہتے ہیں اس کو سزا نہیں دینا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ گڑگائوں میں ایک چھوٹا سا بچہ پستول لے کر پہنچ جاتا ہے اور اپنے ساتھی کو گولی مار دیتا ہے

آپ نے جو نظم و ضبط ختم کر دیا، بچوں میں خوف ختم کر دیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک بچہ اپنا اغوا کرواکر اپنے والد سے تاوان وصول کرتا ہے

لیکن نربھيا اگر اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھنے گئی تو کیا اس کا وہ حشر ہونا چاہئے تھا؟
میں نے اس کے لئے تو کچھ کہا ہی نہیں ہے. میں نے جو کہا ہے وہ میری بہن، میری بیٹی کے لئے تھا.

اگر آپ کی بہن یا بیٹی باہر نکلتی ہیں، جیسے نربھيا نکلی تھی ....

جی ہاں، اگر میری بیٹی گھر کے باہر نکلتی ہے اور رات کے دو بجے تک میں پتہ نہیں کرنا چاہتا کہ وہ کہاں ہے، تو دنیا میں میں نہیں هوںگا یا وہ نہیں ہوگی. ہو سکتا ہے اگلی صبح اس دنیا میں دونوں ہی نہیں ہوں

میں اس راج گھرانے سے نہیں ہوں کہ ڈرائیور اور دوست رات کو دو بجے میری بیٹی کو شراب کے نشے میں گھر میں لٹا کر جائیں. میں دروازہ كھولوں اور دیکھوں کہ اچھا یہ میری بیٹی کا بوائے فرینڈ ہے. رات کو تین بجے کوئی میری بیٹی کو شراب کے نشے میں دھت گھر چھوڑ جائے اور اس کے کپڑے ہٹے ہوئے ہوں. ایسے میں اگلی صبح اس دنیا میں یا تو میں نہیں رہوں گا یا وہ نہیں ہوگی

تو ہندوستان میں عورتوں کو مردوں یعنی والد، شوہر اور بھائی کی بات ہی سننی چاہئے اور انہیں کے حساب سے زندگی جینا چاہئے؟

بالکل. تبھی معاشرہ بنے گا، تبھی ملک کی تعمیر ہوگی. ہماری سوچ ہے کہ دولت گیا تو کچھ نہیں گیا، صحت گئی تو کچھ گیا لیکن کردار چلا گیا تو ہمارا سب کچھ چلا گیا.

لیکن اگر 21 ویں صدی میں کوئی عورت، کوئی لڑکی اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ لینا چاہتی ہے تو کیا وہ قابل سزا جرم ہے؟

نہیں، ایسا نہیں ہے. وہ آئے اور کہے کہ والد صاحب میری خواہش رات کے دو بجے تک گھومنے کی ہے. میں کہوں گا، بہت اچھا بیٹی. میں اپنے بیٹے یا بھائی کو کہوں گا کہ چلو بیٹھو گاڑی میں، آج رات دو بجے تک گھومیں گے، صبح چار بجے تک گھومیں گے

لیکن، وہ لڑکی دو بجے رات تک کسی دوست کے ساتھ بھی تو گھوم سکتی ہے، کسی سے محبت بھی تو کر سکتی ہے؟

نہیں، شادی سے پہلے مرد دوست کے ساتھ گھومنے کا کوئی مطلب نہیں ہے. پھر آپ كهینگي کہ جنسی تعلق بھی بنا سکتی ہے، وہ حاملہ بھی ہو سکتی ہے، اسقاط حمل بھی کروا سکتی ہے. معاف کیجئے، میں اس خاندان سے نہیں ہوں کہ میں جب اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کرانے جاؤں تو میرے پاس ایک فہرست ہو. میں کہوں کہ میری بیٹی سے شادی کر لو اور یہ اس کے بوائے فرینڈ کی لسٹ ہے، اور وہ اتنی بار اسقاط حمل کروا چکی ہے. اب آپ بتاؤ کہ کب بارات لے کر میرے گھر آ رہے ہو؟

لیکن مکیش اور اس کے ساتھیوں نے جو کیا
وہ بالکل مختلف موضوع ہے. وہ مجھ سے متعلق نہیں ہے. وہ بالکل غلط کیا. عورت کی عزت کرنی چاہئے. ہر صورت میں عورت کو عزت دینا
چاہئے، سیکورٹی دینی چاہئے

اور اگر آپ کیس کی بات کریں تو لڑکے کو چوٹیں نہیں آئیں اور لڑکی نے اپنی جان دے دی. اگر سچی محبت ہوتی، اگر واہیات محبت نہ ہوتی، اگر محبوباؤں اور بوائے فرینڈ کی محبت نہ ہوتی تو لڑکا اپنی جان دے دیتا اور لڑکی کو بچا لیتا. ایسا ہوتا ہے ہماری تہذیب اور ثقافت میں
آج وقت بدل رہا ہے، معاشرے کو تبدیل کر رہا ہے، عورتیں بدل رہی ہیں. ایسے میں آپ کی باتیں 18 ویں صدی کی نہیں لگتے؟

ہمارے خیالات دقيانوسي ہے، ہماری سوچ طالبان ہے. لیکن اگر ہمارا خاندان بچتا ہے، ہمارا ملک بچتا ہے، ہمارے ملک میں عصمت دری ختم ہو جاتے ہیں تو ہم طالبان ہیں. ہمیں طالبان بننا اچھا لگتا ہے، دقیانوسی بننا اچھا لگتا ہے. اگر ہمارے گھر نہیں ٹوٹتے ہیں، آج عدالتوں میں طلاق کے کیس اگر ہم کم کر لیتے ہیں تو دقیانوسی ہونے میں میں فخر محسوس کرتا ہوں

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 558