donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Mumbai Ke Aik Cinema Hall Me Numaishi Desh Bhakti Ka Muzahra


ممبئی کے ایک سنیما ہال میں نمائشی دیش بھکتی کا مظاہرہ

 

عارف عزیز

(بھوپال)

 

     قومی گیت کے بارے میں بحث عرصہ سے ہوتی رہی ہے۔ بعض حلقے، اس کے احترام پر زور دیتے ہیں لیکن قانونی پہلوؤں کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں، ممبئی کے ایک سنیما گھر میں فلم شروع ہونے سے پہلے قومی گیت سنایا گیا اور اِس کے دوران کھڑے نہ ہونے والے ایک خاندان کو جو اقلیت سے تعلق رکھتا تھا بے عزت کرکے سنیما ہال سے نکال دیا گیا۔ جبر و قہر کے ایسے واقعات ہندوستانی معاشرہ میں بڑھتے جارہے ہیں ہیں جو جمہوری آب و ہوا کے لحاظ سے قطعی غیر مناسب بلکہ مضر ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب کو قومیت سے جوڑ دینے کی ایک ہوڑ چل پڑی ہے، جس کے تحت کچھ لوگوں نے وطن پرستی اور قومیت کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے، وہ کسی بھی عمل کے لئے دوسروں کو مجبور کرنے یا ان پر پابندی لگانے میں سرگرم رہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک منفی ذہنیت کا اظہار ہے اور اِس کی وجہ سے ملک میں خوف کا ماحول پیدا ہورہا ہے جو جمہوری اصول و آداب سے تو قطعی میل نہیں کھاتا لیکن ایک نظریہ کے ماننے والوں کو یہ رویہ کچھ زیادہ ہی راس آرہا ہے۔

    جذباتی طور پر قومی گیت اور ترنگے کا احترام ہونا چاہئے اس میں وہ رائیں نہیں ہوسکتیں، جہانتک قانون کا سوال ہے تو جب کوئی اِس کے احترام میں کھڑا نہیں ہوتا یا اس کے الفاظ اپنی زبان سے نہیں دہراتا تو اُسے نہ سزا دی جاسکتی ہے، نہ اس کا مواخذہ ہوسکتا ہے۔ جب معاشرہ کا کوئی غیر ذمہ دار قومی ترانہ گانے سے روکتا ہو یا خود قومی پرچم کی توہین کا مرتکب ہوتا ہو تو وہ ضرور سزا کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ لیکن قومی گیت گانے کے دوران پرسکون بیٹھے رہنے والا ہرگز مجرم نہیں گردانا جاسکتا۔

    لیکن ملک کی موجودہ سیاسی فضا میں وطن پرستی کا یہ دکھاوٹی رنگ زیادہ ہی گہرا ہورہا ہے۔ ممبئی کی مذکورہ واردات پر یہ سوال ذہن میں شدت کے ساتھ ابھر رہا ہے کہ فلم شروع ہونے سے پہلے قومی گیت سنانے کا جواز کیا ہے؟ کافی پہلے ملک کے سنیما ہالوں میں فلم ختم ہونے کے بعد قومی گیت بجانے کی روایت تھی، اس وقت بھی سنیما ہال میں موجود ناظرین اِس کو سننے یا احترام میں کھڑے ہونے سے پہلو بجاتے تھے اور فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ہال سے باہر نکل جاتے تھے۔ اِس رویہ کے پیش نظر یہی مناسب سمجھا گیا کہ سنیما کو وطن پرستی سے جوڑنا ضروری نہیں ہے لہٰذا ملک کی بیشتر ریاستوں کے سنیما گھروں میں قومی گیت بجانا بند کر دیا گیا، پہلے بھی یہ کوئی قانون نہیں تھا، لیکن ممبئی میں بارہ سال پہلے کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس کی حکومت نے کچھ زیادہ ہی وطن پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنیما شروع ہونے سے پہلے ہی قومی گیت سنانے کی روایت شروع کردی۔ حالانکہ ایسا کوئی قانون ملک کے کسی حصے میں نہیں ہے، جس کے تحت کسی شہری کو کہیں بھی اور کبھی بھی قومی گیت گانے پر مجبور کیا جاسکے، اس کے بجائے ٹکٹ خرید کر تفریح کے لئے سنیما ہال پہنچے، ایک خاندان کو بے عزت کیا جانا تو اور بھی شرمناک عمل ہے۔ اسی طرح کی دکھاوٹی دیش بھگتی پوری دنیا میں ہمیں احمق ثابت کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا میں زور و شور سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے نیشنل سانگ (قومی گیت) کو دنیا کا سب سے اچھا قومی گیت منتخب کیا گیا ہے۔ بعد میں خود یونسکو نے اِس کی تردید کر دی، اسی طرح قومی گیت سے لفظ ’سندھ‘ کو ہٹانے کا مطالبہ ہوا تھا کیونکہ سندھ اب پاکستان کا ایک صوبہ ہے، راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ نے قومی ترانے سے ’ادھینایک‘ لفظ ہٹانے کی مانگ کی تھی۔ جبکہ اس طرح کی دلیلوں کو رابیندر ناتھ ٹیگور خود ۱۹۳۹ء میں مسترد کر چکے ہیں،حقیقت میں وطن پرستی یا دیش بھکتی کوئی ٹانک نہیں ہے کہ اُسے پی لیا جائے، ملک کے تئیں اپنی محبت و تعلق کی نمائش نہیں کی جاتی، اس کو زندگی کا حصہ بنا کر جیا جاتا ہے۔ اس طرح کا رویہ لوگوں میں ملک سے محبت بڑھانے کے بجائے ان میں خوف پیدا کرکے وطن سے ان کی محبت کو کچھ کم ہی کرے گا۔

(یو این این )


٭٭٭

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 542