donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Athar Farooqui
Title :
   Aam Aadmi Party Aur Musalman

 

عام آدمی پارٹی اور مسلمان


  اطہر فاروقی


    عام آدمی پارٹی کی حمایت میں دہلی کے مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہے، اس لیے اب بجا طور پر وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی ان کے مسائل پر نہ صرف سنجیدگی سے توجہ دے گی بلکہ ان کے مسائل کو ترجیحی حیثیت اس لیے بھی ملے کیوںکہ پندرہ سال کے کانگریس کے دورِ حکومت میں مسلمان سب سے زیادہ خسارے میں دو وجہوں سے رہے۔ اول تو یہ کہ کانگریس ابھی بھی مسلمانوں کو اپنا غلام سمجھتی ہے، اس لیے، شیلا دکشت سرکار نے عموماً اور خود شیلا دکشت نے خصوصاً میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے علاوہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہر طرح کی پس ماندگی کے سبب مسلمانوں میں ہر سطح پر رونما انتشار اور دانش ورانہ قیادت نیز ایسے دانش وروں کی کثرت جنھیں مسلمانوں کے مسائل کی نہ سمجھ ہے نہ ان سے ہمدردی اور انھیں مسلمانوں کی یاد صرف کسی ذاتی مفاد کے سبب آتی ہے، نے شیلا دکشت حکومت کی چاندی کردی اور انھوں نے پندرہ برس مسلمانوں کے لیے کچھ بھی کیے بغیر ایسے آسانی سے نکال دیے جیسے کانگریس نے آزادی کے بعد کوئی 60 برس۔ دوم شیلا دکشت کی اپنی ذہنی ساخت اور دہلی میں متوسط طبقے کی بڑی تعداد کی وجہ سے فلاح کے کام عموماً بھی کچھ اس طرز پر کیے گئے کہ ان کا فائدہ صرف متوسط طبقے کو ہو جس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی طور پر پس ماندہ طبقات کے علاقوں میں بنیادی سہولیات کم تر ہوتی گئیں بلکہ جھگی جھونپڑیوں کی تعداد میں کوئی کمی اس لیے نہیں آئی کہ متوسط طبقے کو ہر طرح کی آسائش فراہم کرنے کے کا رخانے تو یہی جھگی جھونپڑیاں ہیں۔

    افسوس ناک بات یہ ہے جو خواہ وہ کتنی ہی تلخ کیوںنہ ہو کہ مسلمانوں کے تمام علاقوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں شیلا دکشت کا رویّہ وہی تھا جو جھگی جھونپڑیوں کے لیے مخصوص تھا۔

    یہ بھی صحیح ہے کہ عمومی فرقہ واریت کے شکار مسلمان جس طرح کے نفسیاتی خوف میں مبتلا ہیں انھیں بی جے پی کا خوف دکھاکر ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے کا حربہ دہلی میں کانگریس نے اس بار بھی کامیابی کے ساتھ اپنایا۔ عام آدمی پارٹی کے انتخابی منشور کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے نظریہ سازوں کو مسلمانوں کی خربوزہ نما حیثیت کا اندازہ تھا، اسی لیے، کانگریس کے آٹھ فاتحین میں سے پانچ مسلمان ہیں اور وہ مسلم اکثریتی علاقوں سے جیتے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسلمان صرف مودی کے خوف کی وجہ سے جیت گئے مگر یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس نے مودی کا ہوّا دکھاکر ان امیدواروں کی جیت کی راہ ہموار ضرور کی مگر ان کے جیتنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں سے کوئی ڈھنگ کا امیدوار عام آدمی پارٹی کے پاس تھا ہی نہیں۔

    عام آدمی پارٹی سے جو توقعات دہلی کے دیگر شہریوں کو ہیں وہی جائز طور پر مسلمانوں کو بھی ہیں اور عام آدمی پارٹی کے رویّے سے ایسا بالکل نہیں لگتا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا جانب دارانہ رویّہ اپنائے گی۔

    ہندستان کی سیاسی پارٹیوں کے لیے ان کا انتخابی منشور محض خانہ پُری کی چیز ہوتا ہے مگر چوںکہ عام آدمی پارٹی دیگر پارٹیوں سے مختلف ہے، اس لیے یہ توقع کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے نفاذ کو سنجیدگی سے نہ لے۔ عام آدمی پارٹی باربار کہتی رہی ہے کہ اس نے اپنا منشور تیار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر لوگوں سے مشورے کیے جو نہایت مستحسن اور پارٹی کے دوسرے رویّوں کی طرح منفرد بات ہے۔ اس منشور کے غائر مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے باب میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے لیے پارٹی کو مسلم دانش وروں کی طرف سے کوئی رہ نمائی نہیں مل سکی، اس لیے مسلمانوں کے تعلق سے کہی گئی اکثر باتیں مبہم اور کچھ اس شکل میں بیان کی گئی ہیں کہ ان کا نفاذ اس طرح تو یقینا نہیں ہوسکتا جس طرح منشور میں وعدہ کیا گیا ہے۔ منشور میں مسلمانوں سے متعلق حصے کا عنوان eqfLye lekt dks veu] bUlkQ+ vkSj cjkcjh ds vOklj fnyk,saxs ہے۔ بہ وجوہ منشوراردو میں دستیاب نہیں۔ ابتدائی حصے کی شروعات خطیبانہ ہے اور اس میں وہی بلند آہنگی ہے جو مسلمانوں کو مرغوب ہے، مگر  اس حصے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ عام آدمی پارٹی کی نیک نیتی کا غماز ضرور ہے۔

    منشور کے دوسرے پیراگراف میں بہت سے اہم موضوعات گڈمڈ اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئے ہیں، مثلاً ریزرویشن کو جھنجھنا کہنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کا جھنجھنا بھی کہاں ملا۔ بس کانگریس گزشتہ دس برسوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ریزرویشن کو مدعا بناکر اس پر بحث کرتی رہی مگر عملاً ریزرویشن دینے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مسلمان ہر سطح پر جس درجہ پس ماندہ ہوچکا ہے اس میں ریزرویشن کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام طبقات بلکہ وہ سیاسی پارٹیاں بھی متفق ہیں جو اولاً ریزرویشن ہی کی اس لیے مخالف تھیں کیوںکہ ریزرویشن ان کی نظریاتی اساس سے متصادم ہوتا ہے، مگر منڈل کمیشن کے نفاذ کے بعد ہندستان کی سماجی حقیقتوں کے دباو میں انھیں بھی اصولی طور پر ریزرویشن کو قبول کرنا پڑا اور اب وہ مسلمانوں کے ریزرویشن کی مخالف نہیں۔ وقف بورڈ دہلی ہی نہیں ہندستان بھر میں انتہا درجے کی اور خود مسلمانوں کے ذریعے کی جانے والی بدعنوانی کے اڈّے ہیں مگر وقف بورڈ کے پاس مسلم جائیدادوں کا جو سرمایہ ہے اس کے پیشِ نظر ایسا سخت قانون نہ صرف دہلی بلکہ ہندستان بھر میں بنانے کی ضرورت ہے جو بدعنوانی کا تدارک اور مسلم املاک کی حفاظت کرسکے۔ کانگریس نے وقف ایکٹ کی تشکیلِ نو کا شور تو بہت مچایا مگر آخرش ہمیشہ کی طرح کیا کچھ نہیں۔
    منشور کی شق 30.1 جو وعدے کرتی ہے ان میں سے کچھ کا وفا ہونا تو دہلی میں اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک دلّی پولس دہلی حکومت کا حصہ نہ ہو اور باقی وعدوں کا اس وقت تک نفاذ نہیں ہوسکتا جب تک عام آدمی پارٹی مرکز میں زیرِ اقتدار نہ ہو کیوںکہ ہندستان کے وفاقی نظام میں خود مختار صوبے بھی (دہلی تو ابھی مکمل طور پر خود مختار صوبہ بھی نہیں ہے) مرکزی حکومت کے تعاون کے بغیر متعدد معاملات میں کچھ نہیں کرسکتے۔

    منشور کی اگلی شق میں مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کی بات کہی گئی ہے اور ان کے بچوں کو داخلے کے وقت جس تعصب سے سابقہ پڑتا ہے اسے دور کرنے کا وعدہ یہ منشور کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی بہت پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن اگر اسکول کی سطح پر مسلم بچوں کو اچھی تعلیم مل سکے تو ان کی عمومی صورتِ حال بہتر ہوسکے گی۔ دہلی میں ایسے اسکولوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جنھیں غیر مسلم حضرات کے زیرِ انتظام سوسائٹیز یا ٹرسٹ چلاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کے پاس ایسے معدودے چند اسکول ہوں گے۔ اگر عام آدمی پارٹی واقعی ہندستانی مسلمانوں کو یکساں حقوق کا حامل شہری بنانا چاہتی ہے تو اسے مسلمانوں کے زیرِ انتظام سوسائٹیز اور ٹرسٹس کو اسکولوں کے قیام کے لیے اسی طرح معمولی نرخ پر زمینیں دینی ہوں گی جس طرح کچھ عرصے پہلے تک دوسرے اسکولوں کو ملتی رہی تھیں۔ لبرالائزیشن کے نام پر تعلیم جس طرح ایک نہایت کامیاب کاروبار میں تبدیل ہوگئی ہے، اس میں حکومت کی پالیسی کا بدلنا بھی لازمی تھا اور اب دہلی میں اسکولوں کو زمینیں بھی جس دام پر ملتی ہیں، مسلم ادارے ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ حکومت کو مسلمانوں کے ذیل میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جو سوسائٹی یا ٹرسٹ زمین کے لیے درخواست دے رہے ہیں ان کے پیچھے کوئی سرمایہ دار یا کاروباری گھرانہ ہے یا پھر عام مسلمان کی یہ خواہش کہ اس کا بچہ بھی سلیقے کی تعلیم حاصل کرسکے۔ عام مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان بڑھانے کے لیے حکومت کو غیر معمولی اقدام کرنے اور نہایت فہم و فراست اور ہمدردی کے ساتھ مسلمانوں کا کیس سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی وقف بورڈ کو دلالوں کے شکنجے سے چھڑانے کی بات کہی ہے مگر وقف بورڈ کے معاملات میں اس وقت تک اصلاح ممکن نہیں جب تک وقت سے ہم آہنگ وقف ایکٹ موجود نہ ہو مگر وقف ایکٹ کی تشکیلِ جدید کے مسئلے پر عام آدمی پارٹی کا منشور خاموش ہے۔

    عام آدمی پارٹی نئی پارٹی ہے جس کی نیک نیتی میں کسی کو شبہ نہیں مگر مسلمانوں کے معاملات جس درجہ سنجیدہ ہیں اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے جس قسم کے اقدام کرنے کی ضرورت ہے ان کو کرنے اور کرنے سے بھی 

زیادہ ان کی سماجیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عام مسلمانوں کو عام آدمی پارٹی سے بڑی توقعات ہیں جس نے سرِدست کانگریس کے تعاون سے دہلی میں حکومت بناکر ایک بات تو صاف کردی کہ مستقبل میں اس کی سیاست کا رخ سیکولر سیاست کی طرف ہوگا جو نہ صرف بی جے پی کے لیے بُری خبر ہے بلکہ عام آدمی پارٹی کے عمائدین کی اُس سیاسی فہم کی غماز بھی کہ ہندستان کے تکثیریتی سماج میں فرقہ وارانہ سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں، اسی لیے ہندستان کے مسلمان کی عام آدمی پارٹی سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔


    مضمون نگار، انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ہیں، اس مضمون میں پیش کیے گئے

(معروضات ان کے ذاتی خیالات پر مبنی ہیں۔)

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 656