donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   Adam Rawadari Aur Sarkar Ki Zimmedari


عدم رواداری اور سرکار کی ذمہ داری


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

9810371907

 

عدم تحمل و بڑھتی فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف زبانی و قلمی بحث ایوارڈ واپسی کے راستہ ملک کی پارلیمنٹ تک جا پہنچی ۔آج سب کے من میں سوال ہے کہ کیا واقعی دیش میں رواداری کا فقدان ہے ؟ پارلیمنٹ میں اظہار رائے کی آزادی اور عدم تحمل پر چلے دو دن کے مباحثہ کا کوئی نتیجہ تو نہیں نکلا لیکن ملک میں کئی طرح کے سندیش گئے ۔ اس میں سب سے بڑا پیغام ہے کہ بر سر اقتدار طبقہ ابھی بھی مخالفت اور الزام تراشی کرنے سے اوپر نہیں اٹھ سکا ہے ۔جب بھی سرکار کی کسی کوتاہی کی کوئی نشاندہی کرتا ہے تو سرکار کانگریس اور حزب مخالف پارٹیوں کو اس  کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے میں کوئی دیر نہیں لگاتی ۔ اس کا واضح ثبوت اس وقت ملا جب عدم برادشٹ و منافرت کے خلاف ملک کے جانے مانے ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں ، فلمی ہستیوں اورآر ٹسٹوں نے احتجاجا اپنے انعام واپس کئے ۔ اس پر تمام بھاجپا لیڈران کا بیان آیا اور سب نے ایک ہی راگ الاپا کہ وہ سبھی کہیں نہ کہیں کانگریس کے حمایتی ہیں ۔ جبکہ انعام واپس کرنے والوں میں منور رانا جیسے لوگ بھی شامل تھے جن کا بھاجپا اور سنگھ  کے دفتر میں مستقل آنا جانا ہے ۔حد تو تب ہو گئی جب پدم بھوشن انعام واپس کرنے کا اعلان کرنے والے سائنس داں پی ایم بھارگو کو سونیا گاندھی کا نگاڑا بجانے والا بتایا گیا ۔ شاہ رخ خان کے ایوارڈ واپسی کو صحیح بتانے اور ملک میں فرقہ وارانہ نفرت بڑھنے کی بات ماننے پر پاکستانی ایجنٹ اور بھارت کو داغدار کرنے کے الزا م کا سامنا کرنا پڑا ۔ عامر خان کو جو  کہ بے نظیر بھارت مہم کے سفیر ہیں اور اپنی سماجی خدمات کے لئے جانے جاتے ہیں کا انڈین ایکسپریس کے جرنلزم ایکسلینس ایوارڈ تقریب میں ملک کے کشیدہ ہوتے حالات پر اپنی اہلیہ کے احساسات کا ذکر کرنا مہنگا پڑا ۔ انہیں اپنے من کی بات کہنے پر طعن و یشنع کا نشانہ بنایا گیا ۔ جبکہ اس محفل میں وزیر خزانہ ارون جٹلی اور وزیر پارلیمانی امور وینکیا نائیڈو بھی موجود تھے ۔

دیش میں یہ پیغام بھی گیا کہ سیاسی جماعتیں فرقہ وارانہ منافرت اور عدم برداشت کو اپنے مفادات کے لئے بڑھاوا دیتی ہیں ۔ یا اسے کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اس بحث کی تہہ میں سیاست کارفرما ہونے کی بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ رواداری ملک کی روح ہے ہم عدلیہ کے ذریعہ اس کی حفاظت کریں گے ۔ہر مسئلہ کی طرح اس پر بھی اہل دانش  کے درمیان مکمل اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ۔کچھ کے نزدیک ملک میں عدم تحمل ، منافرت اور رواداری کا فقدان جیسا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ کچھ کو پوری بحث سیاست سے متاثر ہونے کی وجہ سے فضول لگتی ہے ۔ تو بہت سے لوگ اس میں سنجیدگی دکھا رہے ہیں ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد فرقہ وارانہ نفرت اور عدم تحمل میں اضافہ ہوا ہے ۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں اس کی تفصیلات پیش کی ہیں ۔وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ابتدائی چار مہینوں کے دوران ہی ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے  330فرقہ وارانہ واقعات رو نما ہو چکے ہیں ۔ امریکی صدر اوبامہ بھارت کو اس کے نقصانات سے آگاہ کر چکے ہیں ۔ اظہار رائے کی آزادی پر بڑھتے حملوں کے خلاف احتجاج اب مٹھی بھر دانشمندوں ،فلم کارو ں ، ادیبوں اور آرٹسٹوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے ملک کی صورتحال پر فکر ظاہر کرنے والوں میں نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی ، امرتسین ، مشہور سائنس داں پی ایم بھارگو ، کارپوریٹس جگت کے این آر نارائن مورتی ، کرن شامجو مدار ، ریزروبنک کے گورنر رگھورام راجن مشہور ادارکارہ اور شوسل ایکٹی وسٹ ارندھتی رائے ،نندیتا داس ،مشہور تاریخ داں اور اداکار اس میں شامل ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ سبھی کانگریس سے جڑے لوگ ہیں ؟  تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ یہ سبھی بھاجپا مخالف ہیں تو بھی وزیر اعظم اور سرکار کو انہیں یقین دلانا چاہئے تھا ۔ان کے مسائل کو سمجھ کر اس سمت میں کوشش کرنی چاہئے تھی ۔ لیکن سرکار کی طرف سے ایسی کوئی پہل نہیں ہوئی ۔ وزیر اعظم خاموشی اختیار کئے رہے اس سے کئی بار یہ گمان غالب ہوا کہ جو لوگ ملک میں منافرت اور عدم برداشت کا ماحول بنا رہے ہیں یا تو سرکار کا ان پر بس نہیں چلتا یا پھر یہ سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس کے برخلاف صدر جمہوریہ کو اس مسئلہ پر ایک ماہ کے اندر تین مرتبہ اپنی فکر مندی کا اظہار کرنا پڑا ۔

مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ان تاثرات سے ہوتا ہے جن کا اظہار ملک کی اہم شخصیات نے وقتا فوقتا کیا ہے ۔مثلا انفوسس کے ڈائریکٹر نرائن مورتی نے اقلیتوں میں ڈر پیدا ہونے کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ کاروبار کے لئے اس طرح کا ماحول ٹھیک نہیں ہے ۔ تیلگو دیشم کے ممبر پارلیمنٹ جے دیو گلہ کا کہنا ہے کہ بھارت صدیوں سے رواداری کے لئے جانا جاتا ہے یہ دنیا کا سب سے تکثیری معاشرے والا دیش ہے ۔ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں صرف سیاسی سازشوں  اور ووٹ بنک کی سیاست کی وجہ سے دھرموں ، ذاتوں کا غلط استعمال شروع ہوا ۔ پی کمار انا درملک کے ممبر پارلیمنٹ نے عدم برداشت کے واقعات سے دیش کی شبیہ خراب اور معیشت متاثر ہونے کی بات کہی ۔جبکہ ششی تھرور نے عدم تحمل کو ملک کی حفاظت کے لئے خطرہ بتایا ۔ این سی پی کی سپریا صلے نے کہا کہ دیش میں اس وقت عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے مانا کہ سرکار اس کام میں حصہ نہ لیتی ہو اور نہ اسے آگے بڑھاتی ہو لیکن و ہ ایسے واقعات پر چپ رہتی ہے یہی سب سے بڑی کمی ہے ۔ جو ایسے واقعات کو بڑھاوا دیتی ہے بر سر اقتدار پارٹی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ ، وزیر غیر ذمہ دارانہ  بیان دیتے ہیں اور اعلیٰ قیادت چپ رہتی ہے  اس پر بھاجپا کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

سماج وادی کے دھرمیندر یادو نے کہا کہ مرکزی سرکار کے کچھ وزراء اور بر سر قتدار پارٹی کے کچھ ممبران اکسانے والے بیان دے کر ماحول خراب کرنے کا کام کررہے ہیں ۔ ہمارے سامنے غریبی ، بے روزگاری اور خواندگی جیسے چیلنج ہیں ہمیں ان سے لڑنا ہے ۔ وہیں فلم اداکارہ اور سماجی کارکن نندیتا داس نے ملک کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے پر روک اب خطرناک موڑ لے رہی ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا بلکہ پوری قوت کے ساتھ اٹھانا واحد راستہ ہے ۔ اس سے ڈرنے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ وقت آواز بلند کرنے کا ہے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ بدلی ہے نندیتا نے کہا کہ وہ ( بیرون ملک کے لوگ ) حیرت زدہ ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ہمارا سماج تکثیری اور متنوع ہے ۔ہم ثقافتی طور پر کافی امیر ہیں لیکن قدامت پسندی اور عدم تحمل کا مظاہرہ کرکے ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم آگے نہیں بڑھ رہے بلکہ پیچھے جا رہے ہیں  ورت چتر ڈائریکٹر ہیمل ترویدی کا ماننا ہے کہ اگر منافرت کو نہیں روکا گیا اور شدت پسندوں کو اراجکتا پھیلانے کی چھوٹ دی گئی تو اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے یہ جاننے کے لئے ہمیں پاکستان سے سبق لینا چاہئے ۔

سرکار یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ملک میں کسی طرح کی منافرت یا  عدم  برداشت کا مسئلہ ہے ۔ کیونکہ اس موضوع پر پارلیمنٹ میں بات کرنے کے لئے بھی بھاجپا سے لڑائی لڑنی پڑی کہ ہاں ملک میں عدم روادای کا موحول ہے اس پر چرچا کریں ۔ہم ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو دیش کے اندر سے اٹھ رہے ہیں ۔  کیا ملک میں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ آئین کے مقصد اور روح کے مطابق ہیں ؟ ہمیں اس موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ بھاجپا کی جانب سے یہ بات پورے زور کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ اس سے پہلے ایمرجنسی کے وقت، 1984میں  سکھ مخالف دنگوں اور کشمیری پنڈتوں پرہوئے مظالم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی اس وقت بھی غیر تکثیری ماحو ل پیدا ہوا تھا ۔ اب کیوں یہ مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے ۔در اصل اس وقت جو حکومتیں تھیں ان کے بارے میں کسی نے کہیں کہا تھا کہ وہ ہندوئوں کی سرکار ہے یا پرتھوی راج چوہان کے 800سال بعد کسی ہندو کو حکمرانی کا موقع ملا ہے( ملک میں ہندوئوں کا راج ہونے کی بات وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل اور ان جیسے کئی لیڈر کئی جلسوں میں کہہ چکے ہیں ۔جس پر سرکار کی طرف سے کبھی کوئی صفائی پیش نہیں کی گئی )اس وقت نریندر  دھابولکر ، گووند  پنسارے اور پروفیسرکلبرگی جیسے روشن خیالوں کو بے باک بات کہنے کے لئے قتل نہیں کیا گیا تھا ۔ گائے کو بہانہ بنا کر دادری  یا ہماچل پردیش جسے پیٹ پیٹ کر مار دینے کے واقعات نہیں ہوئے تھے ۔ ہریانہ کی طرح کسی دلت خاندان کو ریاستی سرکار کی حفاظت کی ذمہ داری  لینے کے با وجود مٹی کا تیل ڈال کر زندہ  نہیں جلایا گیا تھا ۔ اس لئے پہلے اور اب کی بحث فضول ہے ۔سرکار کو اس سنگین مسئلہ سے نپٹنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے تاکہ اقلیتیں  ، دلت اور کمزور طبقات اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکیں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی دیش کی شبیہ سدھارنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے دنیا میں گھوم گھوم کر کوشش کررہے ہیں وہ دنیا اور ملک کے این آر آئی باشندوں سے اپنے خطاب میں ملک کے متنوع ، تکثیری معاشرے اور کثیر رنگی تہذیبی ورثہ کے بارے میں بتا رہے ہیں ۔ وہ دنیا کے سرمایہ کاروں کو بھارت آنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ ان کو حفاظت اور منافع کا یقین دلا رہے ہیں  لیکن ملک میں بھاجپا ، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جو ماحول بنا رہی ہیں اس سے ملک کی شبیہ الٹی خرا ب ہو رہی ہے ۔مودی جی ایک طرف یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ سرزمین گاندھی اور گوتم بدھ کی ہے دوسری طرف اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جو بھی سرکار پر تنقید کرتا ہے اسے فورا  دیش کا دشمن بتا کر پاکستان جانے کو کہا جاتا ہے ۔یہ ایسا دیش پریم کا ڈھونگ ہے جس کے سہارے سبھی شدت پسند اپنا وجود بنائے رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔مودی جی نے ان تمام منفی پہلوئوں  اور باتوں سے خود کو علیحدہ رکھ بیرون ملک دوروں پر توجہ دی ہے  اس کی وجہ سے ہندو تو وادی تخریب کاروں کا حوصلہ بلند ہوا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آئین کے موقع پر کہا تھا کہ بکھرنے کے انیک بہانے ، جوڑنے کی مواقع کھوجنے ہوں گے ۔ ایکتا کا منتر بھارت جیسے دیش کے مرکز میں ہونا چاہئے ۔ سمتا کے ساتھ ممتا ۔ سدبھائوں کے ساتھ مم بھائو ضروری ہے  ہمیں آئین کی دفعات میں سمٹنے کے بجائے اس کی روح کے مطابق چلنا ہوگا ۔125کروڑ لوگوں میں  سے کسی کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا نہ ہی کسی کو ہر وقت اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے ۔

وقت آگیا ہے کہ نریندر مودی جو خود عدم تحمل کے مسئلہ کو محسوس کررہے ہیں اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جنہوں نے پارلیمنٹ میں سرکار کی کمی کو دور کرنے کا دعدہ کیا ہے آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی قائم کریں ۔ من کی بات کہنے یا اپنے خیالات کو رکھنے سے کا م نہیں چلے گا ۔ان پر عمل کرنے اور کرانے کی ضرورت ہوگی ۔ سرودھرم سدبھائو اور اہنسا پرم و دھرم جیسی ملک کی روایتوں کو فروغ دیکر صحت مند ماحول بنانا ہوگا تاکہ ہر طبقہ ڈر محسوس کرنے کے بجائے اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں ۔ملک کی معیشت تبھی بہتر ہوگی جب دیش کے حالات مستحکم ہوں گے ۔ اس کی شروعات سرکار کو کرنی ہوگی عوام تو اس کا ساتھ دینے کو  اب بھی تیار ہیں ۔۔

( یو این این )

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 456