donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Aam Budget Aur Aqliat



عام بجٹ اور اقلیت : خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل: 9431414586

rm.meezan@gmail.com


کسی بھی ملک کا عام بجٹ عوام کے فلاح وبہبود اور ملک کی ترقی کا آئینہ ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں اعلانیہ نشانے کے مطابق حکومت ملک وقوم کے مفاد میں آئندہ بجٹ تک کام کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں سماج کے ہر طبقے کو مد نظر رکھ کر بجٹ تیار کیا جاتا ہے اور یہ کوشش بھی ہر ایک سیاسی جماعت کی ہوتی ہے کہ اس کے بجٹ سے انہیں سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوسکے، خاص کر جب کبھی مرکزی یا ریاستی  انتخاب کے زمانے میں عام بجٹ آتا ہے تو اس کی سمت ورفتار کچھ زیادہ ہی سیاسی نشانے کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ عام بجٹ بھی موجودہ حکمراں جماعت کا اس معنی میں سیاسی مفاد کا بجٹ ہے کہ ان دنوں پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں، بالخصوص اترپردیش کا اسمبلی انتخاب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ مرکز کی بھاجپا حکومت کے مستقبل کا بڑا اشاریہ یہاں کا نتیجہ ہوگا۔

 بہرکیف! مجموعی اعتبار سے یہ بجٹ ملک کے عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا کہ جس رفتار سے مہنگائی بڑھی ہے اس کے مقابلے میں نوکری پیشہ اور متوسط طبقے کو ٹیکس سلیب میں کوئی خاص راحت نہیں دی گئی ہے۔ محض 5 فیصد یعنی پانچ لاکھ تک کی آمدنی یا پھر اس سے آگے 10 لاکھ تک کی آمدنی والوں کو 12 ہزار 875 روپیئے کا سالانہ فائدہ ہوسکتا ہے، جبکہ ملازمت پیشہ کو اس سے زیادہ کی توقع تھی۔ چونکہ اس بار عام بجٹ میں ہی ریل بجٹ بھی شامل ہے، اور اس میں بھی کوئی امید افزا نشانہ سامنے نہیں ہے کیوں کہ کوئی نئی ٹرین چلانے کا اعلان نہیں ہواہے اور صرف 3500 کلو میٹر نئی ریل لائن بنانے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی دیکھا جائے تو بہار کو اس بجٹ سے بڑی مایوسی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم نے 125 لاکھ کروڑ کا خصوصی پیکج دینے کا 2015 میں ہی اعلان کیا تھا لیکن اس بجٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ یہ بجٹ بھی روایتی ہے اور جس طر ح ہر حکمراں جماعت اپنے بجٹ کی حمایت میں دلائل پیش کرتی ہے اسی طرح موجودہ حکومت بھی کررہی ہے۔

 جہاں تک اقلیتی طبقے کا سوال ہے تو اس بجٹ میں اس کے لئے اضافہ ضرور کیا گیا ہے لیکن یہ اضافے تو ہاتھی کے دانت جیسے ہیں کیوں کہ گزشتہ تین چار سال کے عام بجٹ کو سامنے رکھیئے تو یہ حقیقت خود بخود عیاں ہوجاتی ہے کہ اقلیتی فلاح وبہبود کے لئے بجٹ میں اضافے تو کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ زمینی سطح پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو نہیں کے برابر ملتی رہی ہے۔ اس بجٹ عام بجٹ میں اقلیتی طبقے کے لئے 4195.48کروڑ روپئے مختص کیے گئے ہیں۔ غرض کہ گزشتہ سال کے بجٹ سے 395کروڑ زیادہ کا یہ بجٹ ہے۔ واضح ہوکہ قبل از 2012-13 میں اقلیت طبقے کیلئے مختص بجٹ 3135 کروڑ 2013-14 میں 3511 کروڑ 2014-15میں 3411 کروڑ 2015-16 میں 3712 کروڑ اور 2016-17 میں 3800 کروڑ کا بجٹ تھا۔ اب جبکہ 2017-18 کا بجٹ پیش ہوا ہے تو 4195.48 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ اس لئے موجودہ مرکزی وزیر محتار عباس نقوی کا یہ دعوی بھی ہے کہ یہ ایک بڑا بجٹ ہے اور اس سے اقلیتی طبقے یعنی مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ اور جین طبقے کے لوگوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ میری دانست میں جب محترمہ نجمہ ہیبت اللہ اس وزارت کی مرکزی وزیر تھیں اس وقت بھی اسی طرح کے دعوے کیے گئے تھے اور عملی طور پر کیا کچھ ہوا اس سے اقلیت بالخصوص مسلمان بخوبی واقف ہے۔ یوں تو گزشتہ تین چار سالوں میں اس وزارت نے اقلیتی طبقے کے طلبا کے لئے اسکالرشپ کی تقسیم کو کارآمد بنانے میں پہل ضرور کی ہے لیکن ان کی دیگر اسکیمیں مثلاً نئی منزل، سیکھو اور کمائو، اسکل ڈیولپمنٹ، نئی روشنی، نئی اڑان وغیرہ اسکیمیں چلائی جارہی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اس کا خاطر خواہ فائدہ اقلیتی طبقے کو بالخصوص مسلمانوں کو نہیں مل پارہا ہے۔ کیوں کہ اس کے نفاذ کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ ہے کہ اقلیتی طبقے کی اکثریت ناخواندہ آبادی اس سے استفادہ نہیں کرپارہی ہے۔ معمولی اسکالرشپ حاصل کرنا بھی کچھ اس قدر پیچیدہ ہے کہ دہی علاقے کے طلبا اس سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ کہیں تو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی ذہنی تعصب کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے تو کہیں بیروکریسی کی وجہ سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں مل پارہا ہے۔ البتہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو فائدہ ضرور ہوا ہے مگر جس طرح اقلیتی طبقہ بنیادی تعلیم سے محروم ہے، حکومت کو اس شعبے میں انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اقلیتی اداروں، بالخصوص مدارس جس کی تعداد پورے ملک میں لاکھوں میں ہے اس کو بجٹ کے دائرے میں رکھ کر تعلیمی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے کیوںکہ وہاں بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور اگر ان مدارس کو فنڈ فراہم کیے جائیں اور تعلیمی نشانے متعین کیے جائیں تو ممکن ہے کہ مسلم طبقے کی ناخواندگی دور کرنے میں بڑی کامیابی مل سکے۔

حال ہی میں اقلیتی یونیورسٹی کھولنے کا اعلان ہوا تھا، اگرچہ اس بجٹ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے لیکن یونیورسٹییوں سے کہیں زیادہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی وثانوی درجے کے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جب تک ہماری شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک ہم یونیورسیٹیوں سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ جہاں تک بجٹ میں اعلانیہ فنڈ یا اسکیموں کا سوال ہے تو اس میں جب تک حکومت کی نیت صاف نہیں ہوگی اور نیتی بنانے والے یعنی پالیسی میکر بیروکریٹس کا ذہن تمام تر تعصب وتحفظ سے پاک نہیں ہوگا اس وقت تک اس کا بالواسطہ فائدہ اقلیت طبقے کو نہیں مل سکتا۔ کیوں کہ قبل از ایم ایس ڈی پی اسکیم کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اس اسکیم کے نفاذ میں تعصب کی دیواریں حائل رہی ہیں اور اکثر اضلاع سے یہ شکایتیں بھی ملتی رہی ہیں کہ ایم ایس ڈی پی فنڈ سے اقلیتی طبقے کو نظر انداز کر کے اکثریتی طبقے کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ مرکز کا عام بجٹ ہو یا پھر ریاستی بجٹ، اس میں اقلیت کیلئے ہر سال بجٹ کے رقوم میں اضافے کیے جاتے ہیں، نئی نئی اسکیموں کے اعلانات بھی ہوتے ہیں لیکن عملی سطح پر کیا کچھ ہوتا ہے، اگر اس کا احتسابی جائزہ لیجئے تو نتیجہ مایوس کن ہی رہتا ہے۔ اگرچہ حکومت تو اپنی رپورٹ کارڈ میں اعدادوشمار کے ذریعے یہ ثابت کرتی رہی ہے کہ اقلیت کیلئے خصوصی اسکیمیں کامیاب ہورہی ہیں اور تعلیمی شعبے میں بھی خاطر خواہ نشانے پورے کیے جارہے ہیں۔ لیکن ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بجٹ محض خوش مہمیوںمیں مبتلا کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر واقعی بجٹ میں اعلانیہ نشانے کو پورا کیا جاتا تو آج ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور معاشی شعبے میں اس قدر پسماندہ نہیں ہوتی اور دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں اس کی حالت اتنی زار نہیں ہوتی۔ اس لئے اگر اس بجٹ میں 395کروڑ کے اضافے کیے گئے ہیں تو یہ خوش کن اسی وقت ثابت ہوسکتا ہے جب اگلے عام بجٹ تک اس بجٹ سے اقلیتی طبقے کے شعبہ حیات میں واقعی کوئی تبدیلی نظر آئے اور ایسا ممکن اسی وقت ہوگا جب اس بجٹ کو زمینی سطح پر عملی جامہ پہنایا جائے، ورنہ اس اضافے کی اہمیت حسب رویت لمحاتی مسرت ہوکر رہ جائے گی۔  


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 778