donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Aazmayish Ki Ghadi Shuru Hoti Hai Ab


بہارمیں آزمائش کی گھڑی شروع ہوتی ہے اب


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

(بہار)

موبائل:09431414586

ای میل:rm.meezan@gmail.com


    ہندستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج کئی معنوں میں چشم کشا ثابت ہوئے ہیں اور اب قومی سطح پر یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ بہار میں جس طرح غیربھاجپا سیاسی جماعتوں نے اپنے تمام تر مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے اور اپنے وسیع تر اتحاد کی بدولت بھاجپا اور سنگھ پریوار کو سبق سکھانے میں کامیاب ہوئے، اگر اس طرح کی متحد کوشش ان ریاستوں میں بھی کی جائے جہاں حالیہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے سبقت حاصل کی ہے تو وہاں بھی بھاجپا کے لئے زمینیں تنگ ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ اترپردیش جیسی بڑی ریاست جہاں سے 80ممبرپارلیامنٹ منتخب ہوتے ہیں، وہاں پارلیمانی انتخاب میں جس طرح سیکولر جماعتوں کے درمیان ووٹوں کا انتشار ہوا، اس سے بھاجپا کو نہ صرف تاریخی جیت یعنی 72سیٹوں پر کامیابی ملی جس کی بدولت ہی مرکز میں مودی حکومت قائم ہوسکی۔ اگر وہاں ووٹوں کا انتشار نہیں ہوتا توآج ملک کی سیاسی تصویر کچھ اور ہوتی۔واضح ہو کہ اتر پردیش میں بھاجپا کو تقریباً 41فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ جبکہ بہوجن سماجوادی پارٹی ، سماج وادی پارٹی ، کانگریس اور اجیت سنگھ کی پارٹی راشٹریہ لوک دل کو مجموعی طور پر 59فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھاجپا کس طرح مرکز پر قابض ہونے میں کامیاب رہی۔ اب جبکہ بہار کے نتیجے سے ایک سبق ملا ہے تو ممکن ہے کہ اس نسخے کو اترپردیش ، مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں بھی اپنایا جائے،تاکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے خوشگوار فضا قائم ہو سکے۔ کیونکہ جب سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی ہے، اس وقت سے ملک میں فرقہ وارانہ شدت پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ عدم رواداری کی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرتی جارہی ہے۔ اقلیت مسلمانوں کے خلاف قومی سطح پر ایک مہم چلائی جارہی ہے۔ کبھی گائے کشی جیسے حساس مسئلے کو ابھارا جارہا ہے تو کبھی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر گمرہی پھیلائی جارہی ہے۔ جیسا کہ ان دنوں کرناٹک میں ٹیپو سلطان کے حوالے سے فرقہ وارانہ کشید گی پیدا کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹیپو سلطان ایک حکمراں تھے اور اس وقت ایک حکمراں اپنی حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ہر وہ حربے اپناتے تھے جو اس وقت حکمرانی کے تقاضے تھے۔ باوجود اس کے ٹیپو سلطان کی حب الوطنی مثالی رہی ہے کہ اس کے دربار میں بلا تفریق مذہب عملے ہوتے تھے اور وزیر اعظم و سپہ سالار جیسے اعلیٰ عہدوں پر بھی ہندو مذہب کے لوگ رہتے تھے۔ مگر عہد فرنگی میں جب ’’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘‘ کی روش عام ہوئی تو دیگر مسلم شہنشاہوں کی طرح ٹیپو سلطان کی شبیہہ بھی مسخ کرنے کے لئے گمراہ کن تاریخ لکھی گئی اور ان ہی بے بنیاد سہاروں کے ذریعہ سنگھ پریوار ان دنوں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دامن کو تار تار کر رہے ہیں۔ اگر اپنے سو بھائیوں اور لاکھوں معصوم رعایا کو جنگ کلنگا میں قتل کرنے والے شہنشاہ اشوک کو ’’اشوک اعظم ‘‘ کہا جاسکتا ہے تو پھر ٹیپو سلطان کی کردار کُشی کیا معنیٰ رکھتی ہے؟در اصل سنگھ پریوارکو محض کوئی بہانہ یا شوشہ چاہئے جس پر وہ ہنگامہ آرائی کرتے رہیں۔ چونکہ اس وقت مرکز میں آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی حکومت ہے اور ذرائع ابلاغ میں بھی اکثریت زعفرانی فکر و نظر کے حامیوں کی ہے، اس لئے ملک میں مسلسل متنازعہ ایشوز کو زندہ کیا جارہا ہے۔

    بہرکیف! اکثریت طبقے میں بھی ایسے لوگو ں کی کمی نہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تقریباً نوّے فیصد ایسے لوگ ہیں جو سنگھ پریوار کی حالیہ کارکردگی کی مخالفت کر رہے ہیں اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں عدم رواداری کے خلاف جس طرح کی مہم برادر وطن نے چھیڑ رکھی ہے ، اس سے سنگھ پریوار کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔واضح ہو کہ اکثریت طبقے کی آواز بین الاقوامی سطح پر جس طرح گونجی ہے ، اس سے بھی مودی حکومت کا چہرا بے نقاب ہوا ہے۔ حالیہ برطانیہ دورے میں بھی وزیر اعظم کو وہاں کی میڈیا نے جس طرح عدم رواداری کے سوال پر گھیراتھا، وہ مودی کے لئے شرمسار کرنے والا تھا۔ مگر اس کے باوجود یہاں کی قومی میڈیا ٹیپو سلطان جیسے محب وطن کے خلاف چل رہی فرقہ وارانہ تحریک کو مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کر رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کرناٹک حکومت کا یوم ٹیپو سلطان منانے کا فیصلہ غلط تھا ۔جبکہ ٹیپو سلطان جیسی مایۂ ناز شخصیت کے کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرانا وقت کی اشدضرورت ہے۔

    جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں نتیش کمار کی حکومت برقرار رہ گئی ہے نتیش کمار کی قیادت میں جنتا دل متحدہ ، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کی حکومت تشکیل پائی ہے۔ چونکہ ان تینوں سیاسی جماعتوں نے عظیم اتحاد بنا کر انتخاب لڑا تھااور کامیاب ہوئے ہیں۔ اس لئے حکومت میں مشترکہ طور پر ان کے ممبران شامل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نتیش کمار گذشتہ ایک دہائی سے بہار کی کمان سنبھالے ہوئے ہیںاور بہار کو ترقی کی نئی اڑان دینے میں کامیاب بھی رہے ہیں، لیکن اب بھی بہتیرے ایسے کام کئے جانے باقی ہیںجن کے ہونے کے بعد ہی بہار ترقی یافتہ ریاستوں کی صف میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس نئی حکومت کے سامنے کئی ایسے چیلنجز ہیں ، جس کا مقابلہ بڑی دانشوری سے کرنا ہوگا۔ کیونکہ عوام کے توقعات کچھ زیادہ ہی ہیں۔ بالخصوص صحت، سماجی انصاف اور تعلیمی شعبے میں مستعدی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔بجلی اور پانی کے مسائل بھی حل ہونے ہیںکہ اس انتخاب میں نتیش کمار کے مخالفین نے ان مسئلوں کو قدرے طول دینے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن میرے خیال میں اس نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ریاست میں امن و امان کے ماحول کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ مزید استحکام بخشیں۔ کیونکہ حالیہ اسمبلی انتخاب میں بھاجپا اور سنگھ پریوار کے لوگوں نے جس طرح مذہبی منافرت پھیلانے کا کام کیا ہے اس کا اثر یونہی ختم نہیں ہوسکتا۔ بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے ماحول کو سازگار بنائے رکھنے کے لئے عملی کوشش کرنی ہوگی اور اس کے لئے حکومت کو بھی پہل کرنی ہوگی۔کیونکہ بالخصوص ریزرویشن کے معاملے پر وزیر اعظم نریند مودی نے ایک خاص طبقے یعنی مسلمانوں کوجس طرح نشانہ بنانے کا کام کیا اور دلت طبقوں میں گمرہی پھیلانے کی کوشش کی کہ ان کے حصے کا ریزرویشن کاٹ کر مسلمانوں کو نتیش کمار دینا چاہتے ہیں،اس گمرہی سے دلت طبقے میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا قائم ہوئی ہے۔ اسی لئے ہر طبقے کے دانشوروں کو اس مسئلے پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ اسمبلی انتخاب کا نتیجہ سامنے آچکا ہے اور بھاجپا چاروں شانے چت ہوچکی ہے ، ایسے وقت میں سنگھ پریوار بہار کی فضا کو مکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش میں لگا ہے۔ آج بھی بہار میں سیکڑوں آر ایس ایس پرچارک ڈیرہ جمائے ہوئے ہیںاور نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں۔ اس پر قابو پانا بھی ضروری ہے، ورنہ سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کرنے کی سازش اگر کامیاب ہوتی ہے تو اس کا اثر نہ صرف نتیش کمار کی حکومت پر ہوگابلکہ بہار میں سماجی انصاف کی تحریک بھی کمزور پڑ جائے گی۔ اس لئے نتیش کمار حکومت کے لئے آزمائش کی گھڑی کا آغاز اب ہوتا ہے کہ وہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے ساتھ مل کر کس طرح حکومت میں تواز ن برقرار رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سنگھ پریوار کی سازشوں کو ناکام کرتے ہیں۔ کیونکہ حالیہ اسمبلی انتخاب میں سنگھ پریوار نہ صرف بھاجپا کو جتانے کی جدو جہد کررہا تھا بلکہ بہار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تانے بانے کو بھی توڑنے کی سازش کر رہا تھا۔ اگرچہ بہار کے عوام نے اپنے فیصلوں سے ان کے حوصلے پست توکر دئے ہیں، مگر اب بھی وہ اپنی مہم میں سر گرداں ہیں، جس پر نگاہ رکھنی ضروری ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 598