donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farank Islam, Washignton D C
Title :
   Amriki Sadar Barak Obama Ke Bharat Daure Se Wabista Ummidien


امریکی صدربراک اوباما کے بھارت  دورے سے وابستہ امیدیں

فرینک اسلام ؛ واشنگٹن ڈی سی  

  امریکی صدر براک اوباما کی  بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر شرکت  اور ان کے بھارت دورے  کے تعلق سے آج کل  بہت کچھ لکھا  جا رہا ہے ، مسٹر اوباما بھارت کی یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں ۔ چار ماہ قبل  بھارتی وزیر اعظم  کے  انتہائی کامیاب امریکہ دورے  میں دونوں رہنماوں نے  باہمی تعلقات کو  مزید مستحکم کرنے اور  نئی بلندیوں پر لے جانے کا عزم کیا تھا ، یہ مسٹر اوباما کا دوسرا بھارت دورہ ہے ، پہلے  دورے کو بھی میڈیا میں کافی اہمیت حاصل ہوئی تھی ، اس بار بھی میڈیا  کی توجہ  مرکوز رہے گی ۔

ا گراس پورے معاملے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ د نیا  بھر میں کچھ ہی سالانہ تقریبات ایسی ہوتی ہیں جو  اتنے شان و شوکت سے منائی جاتی ہیں اور سبھی کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک  کے صدر کا  دورہ   بڑے پیمانے پر  میڈیا میں زیر بحث  ہو  تا ہے لیکن اس وقت جتنا امریکی صدر کا بھارت دورہ  زیر بحث ہے وہ مثالی ہے  ۔

اس سے قبل بھی  بحیثیت صدر بل کلنٹن ، جارج ڈبلیو بش  اور خود  اوباما بھارت کا  دورہ کر چکے ہیں ان دوروں کو بھی  میڈیا میں کافی اہمیت حاصل ہوئی تھی ۔  

تاہم  اس بار یہ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی صدربراک اوباما کایہ بھارت محض علامتی نہیں ہوگا  بلکہ  یہ دونوں ملکوں کے لیے سیاسی  اور اسٹریٹجیک طور پر انتہائی کار آمد ثابت ہوگا ۔ ذرا نریندر مودی کے میڈسن اسکوائر گارڈن کی  رنگارنگ تقریب کے دوران کی گئی وہ  تقریر یاد کریں جس نے ہند نزاد امریکیوں کو مبہوت کر دیا تھا ۔

امریکہ کو توقع ہے کہ  اوباما کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی جہت ملے گی ، دونوں رہنماوں کے درمیان مختلف امور پر تبادلہ خیال کے نئے مواقع پیدا ہوں گے ۔  یاد رہے کہ  براک اوباما نے  نومبر 2010 میں اپنے پہلے  بھارت دورے کے دوران ، جب امریکی معیشت بحران کا شکار تھی ، اس وقت انہوں نے  بھارت کے ساتھ  10 بلین ڈالر کے کئی تجارتی معاہدوں کا اعلان کیا تھا ۔

بھارتی پارلیامینٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے  دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا ، اور صدیوں  تک کی ساجھیداری کو مزید استحکام عطا کر نے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔

اگر چہ اس وقت دونوں ممالک  اوباما کے بھارت دورے کی تفصیلات کے بارے میں زبان کھولنے سے گریزاں ہیں تاہم امریکی وزیر خارجہ  جان کیری  نے گزشتہ ہفتے گاندھی نگر میں وائبرینٹ گجرات چوٹی کانفرنس میں  یہ  واضح اشارہ دے دیا تھا کہ  امریکی صدر براک اوباما اور بھارتی وزیر اعظم  نریندر مودی کے درمیان  ماحولیات ،دفاعی امور، جوہری توانائی تعاون، اور اقتصادی شراکت داری مرکزی موضوع ہوں گے ۔ بھارتی میڈیا میں بھی کہا جا رہا ہے کہ  دونوں ملکوں کے درمیان  بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے طے پانے کے اشارے ملے ہیں ۔

اس دورے  کے دوران مسٹر اوباما کی بھارتی  کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیو افسران  کے ایک  گروپ کے ساتھ گول میز میٹنگ  ہوگی  اور انفراسٹریکچر سے متعلق ایک  چوٹی کانفرنس میں بھی ان کی شرکت متوقع ہے ۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں بھارت میں سرمایہ کاری سے متعلق تجارتی معاہدے میں کافی پیش رفت دیکھی گئی ہے جس کے تحت امریکی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ بلا شبہ  یہ قدم بھارت میں امریکی سرمایہ کا روں کو راغب کرنے کے لیے بہت اہم ہے ۔اس  معاہدے سے امریکی تجارتی برادری کے مفادات کو قانونی تحفظ فراہم ہو گا ۔

نیز دورے کی مزید تفصیلات تو اسی وقت  حاصل ہو سکیں  گیں جب امریکی صدر کا یہ کارواں بھارتی ائر پورٹ پر اترے گا ۔ امریکہ کو اس دورے سے بہت امیدیں ہیں  ۔ امید کی جاتی ہے  کہ گزشتہ  دو برس سے سست روی کی شکار اقتصادی اصلاحات کی گاڑی جو منموہن سنگھ کی عدم کار کردگی کی وجہ سے پٹری سے اتر گئی تھی دوبارہ پٹری پر لانے میں  امریکی صدر کا یہ دورہ انتہائی اہم کر دار نبھائے گا ۔ منموہن سنگھ نے جاتے جاتے امریکی تاجر برادری کو بہت مایوس کیا  تھا ، امریکی تاجر ان  کی عدم کار کردگی سے کافی ناخوش  ہو گئے تھے  ۔

دراصل بھارتی وزیر اعظم  کے ستمبر 2014 میں ہوئے پانچ روزہ  امریکہ دورے نے دونوں ملکوں کے درمیان سرد پڑے  تعلقات میں روح پھونکنے  کا کام کیا ہے ، نریندر مودی  نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے ۔ جس کی وجہ سے امریکی  برادری  کو مثبت نتائج کی توقع  ہے اور ان کے ذہنوں میں اس وقت یہ تاثر پیدا  ہو گیا ہے کہ براک اوباما کا  یہ بھارت دورہ کافی  ثمر آور ثابت ہوگا ۔

اس کے علاوہ کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو امریکہ کی بے اطمینانی کا باعث ہیں ، اقتصادی اصلاحات کی سست روی سے امریکی سرمایہ کار پس وپیش کا شکار ہیں ،دونوں ملکوں کے پالیسی  سازوں کے درمیان intellectual property rights کے پالیسی سازی کے امورپر اختلافات  پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے اور بھی مسائل ہیں ۔ مثال کے طور پر  نریندر مودی کے اقتدار سنبھالتے ہی  World Trade Organization میں  تجارتی  سبسڈی پر دونوں ملکوں کے درمیاں عدم اعتماد  کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ۔

لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اپنے پیش رو کے برعکس  موجودہ وزیر اعظم  نریند رمودی  کے لیے بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے  خاطر خواہ  امریکی سر ما یہ موجود ہے ، کیونکہ  بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات ایک دہائی پر مشتمل ان کی تاجر دوست حکومتی پالیسی کا بہترین  ریکارڈ ہے   ۔

اس وقت امریکی تاجر برادری ایسا محسوس کر رہی ہے کہ مودی ایسے شخص ہیں جن کے ساتھ تجارت کی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی  محض آٹھ ماہ قبل اقتدار میں آنے والی اس حکومت  کی وجہ سے ہی نہیں پیدا ہوئی ہے بلکہ ۔ جو لوگ امریکی صدر کے دورے کو پر امید  نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ان میں یہ دو شخصیات  Howard B Schaffer and Teresita C Schaffer انتہائی اہم ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا میں 6 دہائیاں  تک امریکی ڈپلو میسی کی خدمات انجام دی ہیں یہ  کامیابی انہی کی مر ہون منت ہے ۔  آج جو کچھ پیش قدمی ہوئی ہے اس میں اس جوڑے کا کلیدی کردار نظر آتا ہے ۔

اس وقت  سب کچھ  صحیح سمت میں گامزن ہے  حا لات  پوری طرح معقول ہیں ، سیاسی استحکام کے اس ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات  کو مزید مستحکم کر نےاورآگے بڑھنے کا یہ سنہرا موقع ہے ۔

مضمون نگار : ہند نزاد امریکی تاجر ہیں و مصنف ہیں  


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490