donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Musalmano Ko Flat Dene Ki Mamanat : Secular Image Per Badnuma Dhabba

 

مسلمانوں کو فلیٹ دینے پر ممانعت: سیکولر امیج پر بدنما داغ


    حال ہی میں ممبئی میں ایک مکان کے تعلق سے شائع کردہ اشتہار سے تنازعے اٹھ کھڑے ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مکان روشن دار ہے لیکن مسلمانوں کے لئے نہیں ہے‘‘۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ اس اشتہار کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی خود کو سیکولرزم کا محافظ کہنے والے نام نہاد افسر چادر تان کر سوئے رہے لیکن شاید اگر کوئی مسلمان اس طرح کا ایڈ دیتا تو حالات مختلف ہوتے کیونکہ مسلمانوں کو شدت پسند اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازنا یہاں ایک آسان امر بن چکا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ جس ملک میں ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جاتا ہے وہاں اسطرح کا ذہن رکھنے والے ہماری بھائی چارگی پر کتنا بڑا ضرب لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج مکا ن کیلئے مسلمانوں کے راستے بند کئے جارہے ہیں، کل کو ہوسکتا ہے کہ آپ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں، آپکے سامنے ایک بس آکر رکے لیکن اس میں سیٹیں خالی ہونے کے باوجود محض اسلئے نہ سوار ہوپائیں کیونکہ وہ صرف کسی خاص مذاہب کے لوگوں کی سواری کیلئے ہے۔ آج مکان کے لئے مذہب کی گھیرا بندی کی جارہی ہے۔ اگر اسے ابھی نہیں روکا گیا تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں اسکول ، کالج ، آفس ، نقل وحمل کے ذرائع پر بھی یہ پابندی عائد کردی جائے۔ ویسے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ تر جگہوں پر فلیٹ حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام شعبہ حیات سے منسلک مسلمانوں کو یہی دشواری درپیش آئی ہے جن میں اداکار عمران ہاشمی، سیف علی خان، زینت امان، جاوید اختر ، شبانہ اعظمی کو بھی پریشانی ہوئی۔ سیف علی خان نے ان پریشانیوں سے بچنے کیلئے خود ہی ایک مسلم پرموٹر سے بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ وہ ان سب جھمیلوں میں پڑنا نہیں چاہتے اور اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمانوں کو حصول فلیٹ کیلئے کتنی دشواری ہوتی ہے۔ ان مشہور فلمی ہستیوں کو جب فلیٹ ملنے میں پریشانی ہوتی ہے تو ایک عام مسلمان کا کیا حال ہوگا اسکا اندا زہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

 مشہور ٹیلی ویژن ایکٹر عامر علی کا کہنا ہے کہ کئی سوسائٹیاں صرف ہندؤوں کو فلیٹ دیتی ہیں: عامر علی

ٹیلی ویژن اداکار عامر علی نے ممبئی کی ایک سوسائٹی کے خلاف درخواست دائر کی ہے کہ اس نے انہیں اس وجہ سے فلیٹ دینے سے انکار کردیا کہ وہ مسلمان ہیں۔

عامر نے مفاد عامہ کی عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ عدالت ممبئی کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو ہدایت دے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو فلیٹ دینے سے انکار نہ کریں۔

عامر نے کہا کہ ’میں نے یہ اقدام سب کے لیے کیا ہے کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی سوسائٹی کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ مذہب یا فرقہ کی بنیاد پر کسی کو فلیٹ دینے سے انکار کرے۔‘

 عامر سہارا ون پر ’وہ رہنے والی محلوں کی‘ اور ’ کہانی گھر گھر کی‘ میں کام کر رہے ہیں۔اس سے قبل انہوں نے فلم ’یہ کیا ہو رہا ہے‘ میں بطور ہیرو کام کیا تھا۔ عامر کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں انہیں ایک فلیٹ کی ضرورت تھی اور اس کے لیے انہوں نے ایک ایجنٹ سے بات کی۔
ایجنٹ نے انہیں کئی گھر دکھائے لیکن عامر کو لوکھنڈ والا (اندھیری ) کی جس عمارت کا فلیٹ پسند آیا اس میں انہیں یہ کہہ کر فلیٹ دینے سے انکار کر دیا یہاں مسلمانوں کو فلیٹ نہیں دیا جاتا۔
عامر کہتے ہیں کہ انہیں اس پر حیرت ہوئی اور انہوں نے اس کا ذکر اپنے کئی دوستوں سے کیا اور ان کا جواب سن کر مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان سب کا یہی کہنا تھا کہ کئی سوسائٹیوں نے اب اپنا اصول یہی بنا لیا ہے۔

عامر کو حالانکہ لوکھنڈوالا میں ہی گرین ولا اپارٹمنٹ میں فلیٹ مل گیا ہے لیکن انہوں نے اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کر لیا۔

موتی والا نے عدالت میں جو اپیل داخل کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا دستور ہر شہری کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک دستور کی دفعہ چودہ، اکیس اور پچیس کے خلاف ہے۔

اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ سوسائٹیوں کے اپنے کیے بنائے اصولوں میں اب تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اپنے بنائے گئے اصول کی کاپی دکھا کر سوسائٹی اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتی ہے۔

نامور اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی کی بیٹی بھی اسی رویے کا شکار ہو چکی ہیں۔صدیقی نے بتایا کہ ان کی بیٹی کافی عرصہ سے ایک اچھی سوسائٹی میں فلیٹ حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں لیکن ایسی سوسائٹیوں میں انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ ایک مسلمان ہیں اس لیے انہیں یہاں فلیٹ نہیں دیا جا سکتا۔

صدیقی کا خیال ہے کہ یہ حالات سن بانوے اور ترانوے کے فسادات اور بم دھماکوں کے وقت نہیں تھے۔ اس وقت البتہ دونوں طبقوں میں ایک طرح کا غیر تحفظ کا احساس پیدا ہوا تھا اور متوسط طبقہ نے بڑے پیمانے پر مکانات فروخت کر کے اپنے مذہب اور ’اپنے لوگوں‘ کے درمیان رہنا پسند کیا تھا جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اسی طرح کاسموپولیٹن کلچر کا حامی رہا اور ایسی ہی سوسائٹی میں رہنے کو انہوں نے ترجیح دی۔

ممبئی طبقوں میں بٹ چکی ہے۔ اس طرح کی شکایت سماجی تنظیم مجلس کی ایڈوکیٹ فلاویہ اگنیس کو بھی ہے۔ اگنیس ایک عیسائی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ’جب مجھے اپنے دفتر کے لیے جگہ چاہیے تھی تو کئی سوسائٹیوں نے انہیں یہ کہہ کر دفتر دینے سے انکار کر دیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کی سوسائٹی سوائے ہندوؤں کے کسی کو جگہ نہیں دیتی۔‘

اگنیس کے مطابق سوسائٹی نے اس کاجواز یہ دیا کہ مسلمان اور عیسائی گوشت کھاتے ہیں اور یہاں جو ہندو رہتے ہیں وہ سبزی خور ہیں اس لیے انہیں مکان نہیں دیا جائے گا۔ اگنیس اس وجہ کو غلط مانتی ہیں۔

صدیقی البتہ کہتے ہیں کہ حالات عیسائیوں سے زیادہ مسلمانوں کے لیے خراب ہوئے ہیں۔ ’ممبئی میں حالات اس وقت بگڑے جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔اس کے بعد ممبئی میں کئی بم دھماکے ہوئے اور تفتیشی ایجنسیوں نے اس کے لیے مسلم تنظیموں کو ذمہ دار قرار دیا۔اب اچھی سوسائٹیوں میں مسلمانوں کے لیے مکان حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر یہی حال رہا تو ممبئی مزید طبقوں میں بٹ جائے گی اور اس کا وہ کاسموپولیٹن کلچر ختم ہو جائے گا جس کے لیے یہ ملک بھر میں مشہور ہے۔‘

 ہندستان کے کاروباری مرکز ممبئی میں جائیداد کی خرید و فروخت کے اشتہارات میں مذہبی امتیاز کے پیغامات سامنے آنے کے بعد مہاراشٹر کے اقلیتی کمیشن نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی تفریق کوئی نئی بات نہیں ہے۔

حال ہی میں انڈیا میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کی ایک ویب سائٹ پر فلیٹ کے ایک اشتہار میں واضح الفاظ میں یہ لکھا گیا کہ مسلمان خریدار زحمت نہ کریں۔

یہ اشتہار 99 ایکڑ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا اور اسے اب ہٹا لیا گیا ہے لیکن جمعے کی صبح تک ویب سائٹ پر درجنوں دوسرے ایسے اشتہار موجود تھے جن میں صاف لکھا گیا تھا کہ مکان یا فلیٹ مسلمانوں کو نہیں دیا جائے گا۔

مہاراشٹر کے اقلیتی کمیشن کے چیئرمین مناف حکیم نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں انہیں اس طرح کی کئی شکایتیں موصول ہوئی ہیں اور کمیشن اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ اس ایجنٹ کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے جس نے یہ اشتہار شائع کیا تھا۔

" اقلیتی کمیشن کے سربراہ وجاہت حبیب اللہ نے کہاکہ ’’یہ اشتہار انتہائی قابل اعتراض ہے۔ اس میں مسلمانوں کا ایسے ذکر کیاگیا ہے جسیے وہ فرنیچر کا حصہ ہوں۔ہم غور کر رہے ہیں کہ ہم کیا کارروائی کرسکتے ہیں"

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ماضی میں بھی سوسائٹیوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور اس کیس میں بھی ہم متعلقہ اہلکاروں سے بات کرنے کے بعد کارروائی کریں گے۔‘

اشتہار کے خلاف سماجی کارکن شہزاد پوناوالا نے قومی اقلیتی کمیشن سے بھی شکایت کی تھی۔ ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے مسٹر پونا والا نے کہا کہ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی ٹوپی پہننے والے یا داڑھی والے مسلمان کے ساتھ ممبئی میں کتنا امتیازی سلوک ہوتا ہوگا۔
یہ شکایت ملنے کے بعد قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ وجاہت حبیب اللہ نے کہا ہے کہ ’یہ اشتہار انتہائی قابل اعتراض ہے۔ اس میں مسلمانوں کا ایسے ذکر کیاگیا ہے جیسے وہ فرنیچر کا حصہ ہوں۔ہم غور کر رہے ہیں کہ ہم کیا کارروائی کر سکتے ہیں۔‘

نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق ممبئی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بہت سے لوگ مسلمانوں کو فلیٹ کرائے پر دینے یا بیچنے سے بچتے ہیں اور فلم اسٹار عمران ہاشمی سمیت بالی ووڈ کے کئی بڑے اداکار بھی ایسے امتیازی رویے کی شکایت کر چکے ہیں۔

تازہ ترین اشتہار جسنتھا ریئل اسٹیٹ کمپنی نے جاری کیا تھا جو دو بیڈروم کا فلیٹ تین کروڑ روپے میں بیچ رہی تھی۔ اشتہار میں لکھا تھا کہ فلیٹ ’فرنشڈ اور روشن ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے نہیں۔‘

شہزاد پونا والا نے کہاکہ "آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی ٹوپی پہننے والے یا داڑھی والے مسلمان کے ساتھ ممبئی میں کتنا امتیازی سلوک ہوتا ہوگا۔"

یہ فلیٹ دادر کی ہندو کالونی میں واقع ہے جس کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف سبزی کھانے والوں کو اپنی سوسائٹی کی رکنیت دیتے ہیں۔

لیکن سماجی کارکن کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کو سوسائٹیوں سے باہر رکھنے کا بہانہ ہے۔ لیکن یہ بظاہر پہلا موقع ہے کہ اس طرح کھل کر کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہو۔

وجاہت حبیب اللہ کے مطابق ویب سائٹ نے کمیشن کو فون کر کے کہا کہ اشتہار کے لیے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

ویب سائٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایجنٹ براہِ راست ویب سائٹ پر اپنے اشتہار شائع کرتے ہیں اور چونکہ ویب سائٹ پر ایک ساتھ چار لاکھ کے قریب اشتہار ہوتے ہیں لہٰذا کمپنی کے لیے یہ دیکھنا ممکن نہیں کہ ان میں کوئی قابل اعتراض بات تو شامل نہیں ہے۔

تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اب زیادہ موثر نظام وضع کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔ 

جس ویب سائٹ پر یہ اشتہار شائع ہوا تھا وہاں اب بھی ایسے کئی اشتہار ہیں جن میں مسلمانوں کے لیے معانعت ہے۔ یہ سلسلہ پرانا ہے پہلے لوگ دوسرے بہانوں سے مسلمانوں کو مکان فروخت کرنے سے انکار کیا کرتے تھے۔ اب وہ باضابطہ طور پر اشتہار کے ذریعے اس کا اعلان کر رہے ہیں۔

ہندستان کے آئین کے مطابق ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی جگہ زمین و مکان خریدنے و فروخت کرنے کا مجاز ہے۔اس عمل میں کسی کے ساتھ مذہب، نسل، یا علاقے کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں برتی جا سکتی۔ لیکن ہندستانی جمہوریت میں فسطائی دور کا یہ طریقہ کار کوئی انفرادی یا حادثاتی حرکت نہیں ہے۔ یہ پالیسی مہاراشٹر اور گجرات میں کامیابی کے ساتھ نافذ کی گئی ہے۔ اسے سخت گیر ہندو تنظیموں اور ان کی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔

دارالحکومت دہلی میں بھی مہاراشٹر اور گجرات کا ماڈل اختیار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کچھ تو رہائشی عمارتوں کی نوعیت اور کچھ خرید و فروخت کے نظام میں فرق ہونے کے سبب مذہب کے نام پر یہ تفریق کامیاب نہ ہو سکی۔

مذہب کے نام پر تفریق برتنے اور مذہبی نفرت کے اظہار کا اس قدر اور اتنا کھل کر مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن یہ ہندستانی معاشرے میں نہ تو کسی بحث کا موضوع ہے اور نہ کسی تشویش کا سبب۔
ابھی پچھلے دنوں گوا میں ایک نائیجیریائی شہری کے قتل کے بعد بی جے پی کی ریاستی حکومت نے پورے ملک میں منشیات کے مسئلے کے لیے نائجیریا کے شہریوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ ایک وزیر اپنی نسلی نفرت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے ہندستان میں زیرِ تعلیم اور رہنے والے نائجیریائی شہریوں کو ’کینسر‘ قرار دیا۔ اس طرح کا واقعہ اگر برطانیہ یا امریکہ میں ہوتا تو وہاں کی حکومت معافی مانگتے مانگتے تھک چکی ہوتی۔

 ہندستان میں مذہبی، نسلی اور ذات پات پر مبنی تفریق معاشرے میں ایک عرصے سے موجود رہی ہے۔ اسی لیے جب گوا کا ایک وزیر نائیجریائی شہریوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر کینسر کہتا ہے یا مہاراشٹر کا ایک بلڈر اپنے اشتہار میں جب یہ لکھتا ہے کہ اس کے مکان مسلمانوں کے ہاتھ نہیں فروخت کیے جا سکتے تو ان خوفناک ذہنیت پر ملک میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا اور لوگ اسے محض ایک مقامی اور انفرادی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

لیکن ہندستان میں یہ تفریق اب رفتہ رفتہ ایک خطرناک روش بنتی جا رہی ہے۔ انفرادی سوچ اب اجتماعی اور ادارہ جاتی شکل اختیار کر رہی ہے۔ جس طرح ہندستان کی سیاست ایک افراتفری کا شکار ہے اسی طرح ہندستانی معاشرہ بھی ایک تغیر سے گزر رہا ہے۔ ہندستانی معاشرے میں ابھی خود سے سوال کرنے یا تحلیل نفسی کا عمل شروع نہیں ہوا ہے۔ ایک جمہوری سیاسی نظام کے شہری ایک غیر جمہوری سوچ اور عمل کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشرے کو جمہوری سوچ و فکر پر عمل کرنے کے لیے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ 

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 394