donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Nitish Banenge Hindustan Ke Sartaj Ya Bihar Lautega Jungle Raj


نتیش بنیںگے ہندوستان کے سرتاج

 

یا بہار میں لوٹے گا جنگل راج؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    نتیش کمار ملک کی تمام مودی مخالف سیاسی پارٹیوں کو متحد کریںگے؟ کیا وہ ۲۰۱۹ء میں وزیر اعظم کی کرسی کے امیدوار ہونگے اور نریندر مودی کے لئے سب سے بڑاچیلنج بن کر سامنے آئیںگے؟یا ان کی راہ میں سب سے بڑ ی چٹان بنیں گے لالوپرساد یادو اور بہار میں جنگل راج لاکر ان کی ’’وکاس بابو‘‘کی امیج کو برباد کردیںگے؟ اس قسم کے سوال اٹھنے لازمی ہیں کیونکہ نتیش اور لالو مل کر بہار کی سرکار چلا رہے ہیں اور دونوں کی امیج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ لالو پرساد یادو کرپشن کے مجرم ہیں اور انھیں سزا سنائی جاچکی ہے۔ ان پر پریوارواد اور یادو واد کا الزام لگتا رہاہے جب کہ نتیش کمار نے کبھی اپنے خاندان کے کسی فرد کو بڑھاوانہیں دیا۔ لالواور ا ن کی بیوی رابڑی دیوی کے دور کو بہار کا بدترین دور کہا جاتا ہے جب کہ نتیش نے اقتدار میں آنے کے بعد اس پسماندہ ریاست کو ترقی کی راہ پر ڈالا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ کہہ رہے ہیں کہ نتیش کو اب وزیر اعظم بننے کی تیاری شروع کردینی چاہئے تو دوسری طرف لالو پرساد یادو ان کے پائوں کی سب سے بڑی زنجیر ہیں جو کبھی ایسا نہیں ہونے دیںگے اور عین وقت پر انھیں لنگڑی ماریںگے۔بہرحال نتیش کمار بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تاریخی گاندھی میدان میں حلف لے چکے ہیں۔وہ پانچویں بار بہار کے وزیر اعلی بنے ہیں۔ انھیں ریاست کے گورنر رام ناتھ کووند نے بہار کے 34 ویں وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف دلایا۔ نتیش کمار کے بعد لالو پرساد یادو کے بیٹوں تیجسوی یادو اور تیج پرتاپ یادو نے حلف لیا۔تیجسوی کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ نتیش کے دیگر 28 وزراء میں عبد الباری صدیقی، للن سنگھ، منجو ورما، عبد الجلیل مستان، عبدالغفور، خورشید عرف فیروز احمد اورانیتا دیوی شامل ہیں۔ہندوستان میں بہت سی ریاستیں ہیں اور ان ریاستوں میں مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی رہی ہیں ،اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے مگر نتیش کمار کی حلف برداری کی تقریب کئی اعتبار سے خاص کہی جاسکتی ہے۔ اس تقریب میں کئی ریاستوں کے وزراء اعلی اور بڑے لیڈران شامل ہوئے جن میں کانگریس نائب صدر راہل گاندھی ،سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا، کانگریس کے لیڈر ارجن کھڑگے، بی جے پی لیڈر سشیل کمار مودی، ویر بھدر سنگھ، دہلی کی سابق وزیر اعلی شیلا دکشت، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ، این سی پی کے سینئر لیڈر شرد پوار، دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال ، مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اورسی پی ایم کے رہنما سیتا رام یچوری کے نام شامل ہیں۔ مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر وینکیا نائیڈو اور راجیو پرتاپ روڈی شامل ہوئے۔ البتہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اس تقریب میں نہیں پہنچے۔ اس کی وجہ سماج وادی پارٹی کے حلقوں کی طرف سے یہ بتائی گئی کہ وہ دو دن بعد ہونے والے سیفئی میں ملائم سنگھ یادو کی سالگرہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔حلف برداری کی تقریب کے لئے انتظامیہ نے سیکورٹی کے چوکس انتظامات کئے تھے۔ گاندھی میدان میں 40 سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے تھے اور 30 ڈپٹی ایس پی سمیت تقریبا 2 ہزار پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔

ہندوستانی سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ

    بہار میں نتیش کمار کی تاجپوشی کو ہندوستانی سیاست میں ایک ٹرننگ پوائنٹ کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ یہاں اسمبلی  انتخابات میں مہاگٹھبندھن کو کل 178 سیٹیں ملی تھیں، جن میں 80 آر جے ڈی کے حصے میں آئی تھیں جب کہ جے ڈی یو کو 71 اور کانگریس کو 27 سیٹیں ملیں۔اس الیکشن کو نریندر مودی حکومت کے خلاف رائے شماری کے طور پر دیکھا جارہا تھا اور مانا جارہاہے کہ بہار میں نتیش کمار کی جیت کے ساتھ ملک میں ایک الگ سیاسی صف بندی کی شروعات ہورہی ہے۔ جس طرح سے تقریب حلف برداری میں الگ الگ نظریے کے لوگوں کو دیکھا گیا،اس کے پیش نظر کہا جارہاہے کہ پٹنہ کا تاریخی گاندھی میدان ایک بار پھر ملک میں سیاسی انقلاب کی بنیاد رکھنے والا ہے۔ پٹنہ کا یہ تاریخی میدان اپنی سیاسی شناخت کی وجہ سے تاریخ میں انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ یہاں ہوئی ریلیاں ملک میں سیاسی تبدیلی کی علامت رہی ہیں۔ پٹنہ کے بیچوں بیچ آباد گاندھی میدان کو آزادی سے پہلے ’’پٹنہ لان ‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس میدان میں 1938 میں اس وقت کے مسلم لیگ کے سربراہ اورپاکستان تحریک کے قائد محمد علی جناح نے کانگریس کے خلاف ایک تاریخی ریلی سے خطاب کیا تھا۔ اس کے اگلے سال 1939 میں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے اپنی نئی نویلی پارٹی فارورڈ بلاک کی پہلی ریلی اسی تاریخی میدان میں کی تھی۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی گاندھی میدان میں بہت سے جلسوں کو خطاب کیا ۔اس کے علاوہ سابق صدر راجندر پرساد، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو، رام منوہر لوہیا، اٹل بہاری واجپئی سمیت ملک کے کئی جانے مانے لیڈروں کی ریلیوں کا بھی یہ میدان گواہ رہا ہے۔جے پرکاش نارائن نے 5 جون، 1974 کو اسی میدان پر مکمل انقلاب کا نعرہ بلند کیا تھا۔ انہی کی قیادت میں آگے بڑھے لالو پرساد، نتیش کمار اور سشیل مودی آج ریاست کے قدآور لیڈروں ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے امیدوار بنائے جانے کے بعد گاندھی میدان میں ریلی کی تھی۔ حالیہ بہار اسمبلی انتخابات کے لئے بھی وزیر اعظم نریندرمودی نے اسی میدان میں ہنکار ریلی کر پارٹی کی انتخابی مہم کی شروعات کی تھی۔ مودی کی ریلی کے بعد آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس نے بھی یہیں ریلی کر انتخابی موسم کوگرمانے کا کام کیا تھا۔اب ایک بار پھر نتیش کمار کی حلف برداری کے نام پر منعقدہ جلسے کو بھی تاریخی مانا جارہاہے۔ بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج نے ملک میں ایک الگ سیاسی صف بندی کا آغاز کردیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ 2019کے عام انتخابات تک عروج کو پہنچے گی اور اس کا محور نتیش کمار ہوسکتے ہیں۔وہ ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں جس کے گرد مختلف نظریات کے لیڈران جمع ہورہے ہیں۔ جہاں ایک طرف نتیش کمار کے ساتھ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نظر آرہی ہیں تو دوسری طرف ان کی سخت مخالف سی پی آئی ایم کے لیڈان بھی نظر آئے ۔ یہ اجتماع زبان حال سے بہت کچھ کہہ رہا ہے اور اس کے اثرات عنقریب ملک کی سیاست پر دیکھے جائیںگے۔  


کابینہ کی تشکیل میں لالو کی دخل اندازی

    بہارمیں نتیش کمار کی کابینہ حلف لے چکی ہے اور وزراء کو ان کے قلمدان تقسیم کئے جاچکے ہیں۔وزراء میں جے ڈی یو کوٹے سے 12، راشٹریہ جنتا دل سے 12 اور کانگریس سے چار نے حلف لیا۔ وزیر اعلی کے بعد دوسرے نمبر پر تجسوی پرساد یادو اور تیسرے نمبر پر تیج پرتاپ یادو نے حلف اٹھایا ۔اس کے بعد عبدالباری صدیقی اور وجیندر پرساد یادوجیسے سینئر اور تجربہ کارلوگوں نے حلف اٹھا لیا۔ نتیش کابینہ کی خاص بات یہ ہے کہ ایک تہائی وزیر گریجویٹ نہیں یعنی اس سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔ 10 وزیر محض 12 ویں یا اس سے بھی کم پڑھے لکھے ہیں۔جب کہ 3 وزیر پی ایچ ڈی اور 2 ایل ایل بی ہیں۔اس کابینہ میں سب سے عمردراز 69 سال کے وجیندر پرساد یادو ہیںجب کہ سب کم عمر نائب وزیر اعلیٰ تجسوی یادو ہیں جن کی عمر محض26سال ہے۔کابینہ کی شکل دیکھ کر لگتا ہے کہ نتیش کماار اگرچہ وزیراعلیٰ ہیں مگران کی زیادہ نہیں چلی ہے۔اس سرکار میں جنتادل (یو)،راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کی شمولیت ہے مگر اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں راشٹریہ جنتادل کے پاس ہیں لہٰذا وزارتوں پر سب سے زیادہ حق بھی اسی کا بنتا ہے۔ اسی حق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لالوپرساد یادو نے اپنے نویں فیل بیٹے تجسوی یادو کونائب وزیر اعلیٰ بنادیا ہے اور دوسرے بیٹے تیج پرتاب یادو کو وزارت صحت کا قلمدان دلوایا ہے۔ تجسوی کرکٹر ررہ چکے ہیں اور آئی پی ایل کے تین میچ کھیل چکے ہیں مگر ان کے پورے کریئر میں ان کے کھاتے میں کل دو رن ہی آئے ہیں۔ وہ کرکٹ میں چل پائے یا نہیں اور تعلیم حاصل کرسکے یا نہیں ؟ یہ سوال اب اہم نہیں رہ گئے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے نیتا کے بیٹے ہیں جس کے پاس اقتدار کی قوت ہے۔بہار ہی کے ایک دوسرے نیتا رام بلاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کو فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھوں نے ایک فلم میں کام بھی کیا مگر نہیں چل پائے تو  ان کے باپ نے سیاست میں سیٹ کردیا۔اب موقع تھا لالو کے دونوں لعلوں کے سیٹ ہونے کا سو وہ بھی ہوگئے۔ وہ کرکٹ میں خواہ نہ چل پائے ہوں لیکن سیاست میں آئندہ پانچ سال تک ان کے چلنے کی گارنٹی ہے۔دستور کے مطابق اب جاہل منتری کو بھی آئی اے ایس سیلوٹ کریںگے۔تجسوی کی کم علمی بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن پائی اور اس میں کسی کو تعجب بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جب ان کی ماں رابڑی دیوی محض چھٹی کلاس تک تعلیم پانے کے باوجود بہار کی وزیر اعلیٰ بن سکتی ہیں تو تجسوی تو ان سے زیادہ ہی پڑھے لکھے ہیں۔لالوپرساد نے انھیں نائب وزیر اعلیٰ بنواکر نریندر مودی کو جواب دیا ہے جنھوں نے ہائی اسکول فیل اسمرتی ایرانی کو وزیر تعلیم بنادیا ہے۔

لالو کا پریوار واد

     لالو پرساد یادو کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ یادو نے اپنی حلف برداری میں دو بار غلطیاں کیں جنھیں گورنر رام ناتھ کووند نے ٹھیک کیا اور رازداری کا حلف دلایا۔امیدکی جاسکتی ہے کہ آئندہ پانچ سال تک وہ غلطیاں کریںگے اور نتیش کمار پر آنچ آئے گی۔تیج پرتاپ یادو،سابق وزراء اعلیٰ لالو یادو اور رابڑی دیوی کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور 12 ویں پاس ہیں۔ وہ مہوا سیٹ سے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں اور پہلی بار اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ 28 سال کے تیج پرتاپ کو اپنے چھوٹے بھائی تجسوی سے چھوٹا عہدہ ملا ہے۔ وہ وزیرصحت ہیں جب کہ ان کے چھوٹے بھائی تجسوی نائب وزیر اعلی ہیں۔تجسوی اور تیج پرتاپ دونوں پہلی بار سیاسی پچ پر بیٹنگ کے لئے میدان میں اترے اور کامیاب ہوئے۔تجسوی کو لالو کا جانشین سمجھا جا رہا ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال اپنے والد کے ساتھ لوک سبھا انتخابات میں بھی پرچار کیا تھا۔ لوک سبھا انتخابات میں لالو نے اپنی بیٹی میسا کو بھی اتارا تھا لیکن وہ ہار گئی تھیں،اب انھیں راجیہ سبھا میں بھیجنے کی تیاری ہے۔ لالو کی نو اولادوں میں سے صرف تین یعنی میسا، تجسوی اور تیج پرتاپ ہی ابھی سیاست میں اترے ہیں،امید کی جارہی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ان کے دوسرے بچے بھی سیاست میں آئیں گے اور اگلی بار اگر بہار سرکار کی 28رکنی کابینہ بنی تو اس میں 9منتری تو لالو کی فیملی کے ہی ہونگے۔

یادو گردی

    لالوپرساد یادو نے جو کچھ کیا،اس کی قیاس آئی پہلے ہی کی جارہی تھی۔ انھوں نے ٹکٹ بانٹتے وقت بھی سب سے زیادہ ٹکٹ یادووں کو دیئے تھے جس کا مقصد یادو گردی کے سوا کچھ نہ تھا اور اب کابینہ میں بھی سب سے زیادہ یادو نظر آرہے ہیں اور ان تمام یادووں کے سردار کے طور پر لالو اور رابڑی کے بیٹے نظر آرہے ہیں۔ راشٹریہ جنتادل ان کی پرائیویٹ پارٹی ہے اور کنبہ پروری ہی اس کا اصل مقصد بھی ہے مگر نتیش کمار کی بہار میں شناخت ایک ایسے لیڈر کی ہے جو ترقی چاہتا ہے اور ایک بیمار ریاست کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرچکا ہے۔ایسے میں لالوپرساد کی کنبہ پروری نتیش کمار کے لئے ایک بڑی چیلنج کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔اس سے نتیش کی تصویر خراب ہوسکتی ہے اور بہار میں جنگل راج کا خطرہ عملی شکل لے سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 508