donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Delhi Me Aam Aadmi Party Ke Masael Aur Kamzoriyan


دھلی میں عام آدمی پارٹی کے مسائل اور کمزوریاں 


غلام غوث  ، کورمنگلا ،  بنگلور

ـ  ۔  فون  :9980827221


     دنیا بھر کے سیاستدان  یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ سیاست میں قوم اور ملک کی خدمت کر نے کے لئے آئے ہیں ۔  جب بھی الیکشن آتے ہیں تب بھی ووٹ یہی کہہ کر مانگتے ہیں  ۔ جئے پرکاش نارائن سے کسی نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ ملک اور قوم کی خدمت کر نے کے لئے پارلیمنٹ ممبر کیوں نہیں بن جا تے ؟ پ نے جواب دیا کہ ملک اور قوم کی خدمت کر نے کے لئے کوگوں کے درمیان رہنا چاہیے  نہ  کہ پارلیمنٹ میں  ۔ سچائی یہ ہے کہ اگر کوئی عوام کی خدمت کر نا چاہتا ہے تو وہ اپنے لئے نفع اور مال و دولت کی نہیں سوچتا بلکہ وہ اپنی دولت  ، اپنا وقت اور اپنی صلاحیت  تمام کی تمام لوگوں پر خرچ کر نے لگتا ہے  ۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اپنا کچھ بھی خرچ کر رہے ہیں یا خدمت کے بہانے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں  ۔ اگر کسی نے اپنا سب کچھ لٹا کر ملک اور قوم کی خدمت کی ہے تو وہ مہاتما گاندھی  ، لال بہادر شاستری  ، گلزاری لال نندا  ، ابولکلام آزاد  ، ڈاکٹر امبیڈکر نے کی ہے  ۔ انکے بعد سوائے چند کمیو نسٹ لیڈروں کے ہم نے کسی اور کو ایسی خدمت کر تے نہیں دیکھا  ۔ آج تو ہندستان تو کیا ساری دنیا میں کوئی  ایسا سیاستدان  چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا  ۔ سوائے نہرو کے جو خاندانی مالدار تھے سب لیڈر مشکل کے ساتھ اپنی روزانہ زندگی گزارتے تھے اور کبھی حکومت کے سامنے تنخواہ کے لئے ہاتھ نہیں بڑھا تے تھے ۔ ۔  وہ دن رات خدمت خلق میں لگ کر خود کوخوش رکھتے تھے  ۔ حکومت سے تنخواہ لیتے ہوے انکے ہاتھ کانپتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خدمت کر نے والے تنخواہ نہیں لیتے اور نہ ہی عیش و عشرت میں اپنا وقت صرف کر تے ہیں  ۔ کیا یہ بات آج بھی سچ ہے ؟ الیکشن کے دوران گلی گلی اور گھر گھر ضرور جاتے ہیں ، ہاتھ بھی جوڑتے ہیں  ، مسکین صورت بھی بنا تے ہیں ، خدمت  کر نے کے جھوٹے وعدے بھی کر تے ہیں مگر جیسے ہی الیکشن ختم ہوا نہ جیتنے والا پوچھتا ہے اور نہ ہی ہارنے والا  ۔ پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی بھول جا تے ہیں کہ ان سے بڑھ کر بھی کوئی قادر مطلق ہے جسے اپنے کام کاج کا حساب دینا ہے  ۔ دھلی کی حکومت نے اعلان کر دیا کہ انکے یم یل یے جو تنخواہ  اور پرکس لے رہے ہیں وہ بہت کم ہے اور انہیں عوام کی خدمت کر نے کے لئے کافی نہیں ہے  ۔ اسلئے انکی تنخواہ میں چار سو فیصد کی  بڑہوتری کر دی جائے گی  ۔ عام آدمی پارٹی جو عوام سے یہ وعدہ کر کے  الیکشن جیت کر آئی تھی کہ وہ پانی بجلی  ٹرانسپورٹ وغیرہ کی قیمتوں میں کمی لائے گی  ، رشوت خوری بند کر دے گی  اور تمام اخراجات  کم کر کے خود سیدھی سادی زندگی بسر کرے گی اب وہی پارٹی وعدہ خلافی پر اتر آئی ہے  ۔ تنخواہ میں بڑہوتری کے لئے جواز یہ پیش کر تی ہے کہ یم یل یس کو اپنے حلقے کے لوگوں سے ملنے ملانے کے لئے اور انکی ضرورتوں پر توجہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ انکی ماہانا تنخواہ دو لاکھ دس ہزار کر دی جائے اور انہیں پانی بجلی ، فون ، کار ، بنگلہ اور مفت سفر کا انتظام کر دیا جائے  ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نود فیصد مرتبہ لوگ یم یل یے کے گھر جا کر اپنے معوملات پیش کر تے ہیں جبکہ یہی یم یل یے مشکل سے اپنے ووٹروں سے ملنے جا تے ہیں  ۔ دوسری بات یہ کہ لوگوں کے صرف چند فیصد کام مفت میں کر تے ہیں جبکہ اسسی فیصد کام رشوت یا کمیشن لے کر کرتے ہیں  ۔ اپنے اثر و اسوخ کا استعمال کر کے یہ لوگ زمین اور جائیداد ہڑپتے ہیں اور دولت بٹورتے ہیں  ۔ بہت کم سیاستدان ایسے ہیں جو واقعی خدمت خلق میں یقین رکھتے ہیں  ۔ عام آدمی پارٹی کے ترجمان اشیش کھتان کا کہنا یہ ہے کہ تنخواہ میں زیادتی اسلئے ہے کہ کوئی یم یل یے خود کو رشوت خوری اور کمیشن میں ملوث نہ کرے اور اسے عوام سے ملنے ملانے میں دشواری نہ ہو  ۔ آج سرکاری ملازموں اور سیاستدانوں میں بلکل فرق نہیں رہا  ۔ سب تنخواہ لے کر ملازمت کر تے ہیں  خدمت کوئی نہیں  ۔ آج لفظ خدمت کو سیاستدانوں نے ایک مزاق بنا کر رکھ دیا ہے  ۔ یہ غلطی صرف سیاستدان ہی نہیں کر رہے  ہیں بلکہ ہر کوئی کر رہا ہے چاہے وہ سوشیل ورکر ہو ، ٹیچر ہو ، مذہبی انسان ہو یا کوئی اور مگر طریقہ الگ الگ ہے  ۔ ہر کوئی لفظ خدمت کو بد نام کر نے پر تلا ہوا لگتا ہے  ۔ شاید یہ سب کے پاپی پیٹ کا سوال ہے  ۔ اللہ اور روز آخرت سے ڈرنے کا ہر کوئی اعتراف کر تا ہے مگر شاید دل ہی دل میں اس پر یقین نہیں کر تا  ۔ اگر یقین کر تا تو ایسا کر تے ہوے ضرور ڈرتا  ۔ کس نے کسی سیاستدان سے کہا تھا کہ تم خدمت کر نے کے بہانے الیکشن میں کڑوڑوں روپیے ووٹروں پر خرچ کرو  ، انہیں رشوت دو اور انہیں  ڈراو دھمکاو ۔  کس نے آپ سے کہا تھا کہ آپ خدمت کر نے کے لئے سیاست میں آ جاو  ۔ خدمت تو وہ ہو تی ہے جسے دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنا تے  چاہے وہ سیاست ہو یا مذہبیت  ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو بھی شخص تنخواہ لیتا ہے وہ ملازم بن جا تا ہے آپ  چاہے اسے کتنا بڑا نام اور القاب ہی کیوں نہ دے دیں  ۔ عام آدمی پارٹی نے جس طرح اعلانات کئے ا ور وعدے کیے اور غریبوں کے مسیحا بننے کی بات کر رہے تھے انہیں دیکھ کر ہر شخص نے انکی کامیابی کے لئے دعا اور کوشش کی مگر آخر کار وہ بھی دوسری پارٹیوں کی طرح ثابت ہوی  ۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اسکے سب یم یل یس یا وہ جو انکم ٹیکس بھر تے ہیں وہ والنٹری طور پر اپنی تنخواہوں میں کٹوتی منظور کر تے اور دوسروں کو بھی ایک راستہ بتا تے  ۔ ہر کسی کی امید تھی کہ عاپ ایک دن آل انڈیا پارٹی بنکر ابھرے گی مگر صرف ایک برس کے اندر پارٹی نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا  ۔ 

      دوسرا مسلہ جس پر عاپ  کام کر رہی ہے وہ ہے دھلی کو آلودگی سے بچانے کا اور گنجان ٹرافک پر قابو پانے کا  ۔ کہتے ہیں کہ دھلی میں 57 لاکھ دو و ھیلر اور 37لاکھ چار وھیلر دوڑتے ہیں جبکہ دھلی کے راستے بیس لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کو سنبھالنا مشکل ہے  ۔ جو کاربن خارج ہو تا ہے اس سے سارا ماحول دھواں دھواں سا  رہتا ہے اور لوگوں کو سانس لینا مشکل ہو جا تا ہے  ۔ چناچہ غور و فکر کر نے کے بعد ایک راستہ جو انہوں نے نکالا وہ یہ کہ ایک دن 1,3,5نمبر والی اور دوسرے دن 2,4,6 نمبر والی گاڑیان چلیں گیں  ۔ اس سے ہر دن صرف آدھی کاریں راستوں ہر دوڑیں گیں  ۔ ٹی وی ڈبیٹس میں اس پر خوب ہنگامہ ہو رہا ہے  ۔ ہر کوئی اس میں عیب نکال رہا ہے مگر کوئی بھی اسکا متبادل نہیں بتا رہا ہے  ۔ اگر اس طرح کی مخالفت رہی تو کوئی بھی حل قبول نہیں کیا جائے گا  ۔ بہتر حل یہ ہے کہ سب سے پہلے کاریں بنانے والی کمپنیوں کو کوٹہ مقرر کر دیں  ، بینک سے قرضہ لینا مشکل کر دیں  ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاستدان رشوت اور کمیشن لیتے رہیں گے  ۔ بہتر یہ ہے کہ یوروپ ،  سنگاپور اور اندونیشیا کی طرح کاریں انہیں نہ دی جائیں جنکے پاس انہیں کھڑانے کے لئے گیرج نہیں ہیں  ۔ ہم ہر دن دیکھتے ہیں کہ ایک کار جس میں چار یا پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں اس میں صرف ایک آدمی ہو تا ہے  ۔ ایسی ایک ایک کار کی جگہ چار چار اسکوٹر اور سیکل چل سکتے ہیں  ۔ اس لئے ہم اس قانون پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ  ہر کار کم سے کم دو سے  چار آدمیوں کے ساتھ چلے  ۔ تیسرا طریقہ جو یوروپ میں چل رہا ہے وہ یہ کہ کچھ مارکیٹوں اور آفسوں کے اطراف قریبا دو فرلانگ تک کاروں کا چلنا ممنوع ہے  ۔ ایسے ہی چند راستوں اور گلیوں میں کاروں کا چلنا ممنوع ہو تا ہے  ۔ بہتر طریقہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر کار خانوں اور کمپنیوں کو شہر سے دور قائم کریں اور انہیں کے اطراف ملازموں کو گھر بنا کر دے دیں  ۔ ساتھ میں مارکیٹ اور بینک وغیرہ بھی وہیں پر قائم کر دیں  ۔ اس سے انکے کاروں کی چلت پھرت میں کمی آ جائے گی ۔ بسوں کی تعداد  دگنی کر کے اسکا کرایہ کم رکھنے سے لوگ خود بخود بسوں سے سفر کر نے لگیں گے  ۔ دو تین کمپنیاں مل کر کاروں کی جگہ  بسیں دوڑائیں تو وہ بھی مناسب رہے گا  ۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ آجکل کار کا رکھنا ضرورت سے زیادہ ایک status symbal تصور کیا جا  تا ہے  ۔ اس لئے جو کاریں اور  ٹو وھیلرس گیرج نہ ہو نے کے سبب سڑکوں پر پارک کئے جا تے ہیں ان پر ماہانا دو سے چار ہزار روپیے کرایہ مقرر کر دیا جائے  ۔ اس سے حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی اکثر لوگ کاریں خریدنے سے باز بھی آ جائیں گے  ۔ ایک راستہ یہ بھی ہے کہ پندرہ سال سے زیادہ چلنے والی گاڑیوں کو چلنے کا لائسنس نہ دیا جائے  ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں عام آدمی کی سہولتوں پر زیادہ توجہ دی جا تی ہے نہ کہ ان پر جو کاروں پر آتے جا تے ہیں  ۔ راستوں کے درمیان عام آدمی کی سہولت کے لئے جگہ جگہ راستہ کراسنگ رکھ کر کاروں کی رفتار دھیمی کر دینی چاہیے  ۔ یوروپ اور چین کی طرح سیکل سواری کو آسان بنا نے کی کوشش کر نا چاہیے  ۔ ( اب سے تیس سال پہلے سات یا آٹھ میل کا سفر آسانی سے ہر کوئی سیکل کے ذریعہ کر لیتا تھا ) ۔ اس بات کو ذہین میں رکھنا چاہیے کہ Where there is will there is a way ۔  لوگوں کو چاہیے کہ ہر تجویز میں عیب نکالنے کے بجائے کچھ ایسے راستے بتائیں جس سے بڑھتی ٹرافک اور آلودگی پر قابو پایا جائے  ۔

(یو این این)

*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 402