donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Aye Khasae Khasane Rasal Waqte Dua Hai

اے خاصہ ٔ  خاصانِ رسل وقت دعا ہے


حفیظ نعمانی


گریٹر نوئیڈا کے بساہڑہ گائوں میں ایک مسلمان کے گھر میں صرف گائے کے گوشت کے ہونے اور کھانے کی افواہ کے بعد قتل و غارت کا جو مظاہرہ ہوا اُس کے متعلق ٹی وی چینلوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ سیاست کا موضوع بن گیا ہے۔ جبکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی مثال شریفوں کی دنیا میں نہیں ملے گی۔ ملک کی آزادی کے بعد جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ہم سو سال کے بعد آزاد ہوگئے اور ان کے ہی قد و قامت کے دوسرے کانگریسی لیڈر پنڈت گووند ولبھ پنت نے کہا تھا کہ ہم ایک ہزار سال کے بعد آزاد ہوئے ہیں اور اس دن سے آج تک کرسی پر بھلے ہی نہرو کی طرح کہنے والے بیٹھے ہوں لیکن ہر افسر اور ہر کسی بھی حیثیت کے ہندو نے پنت کی تائید کی اور اس کو اپنا دھرم بنایا۔ پنڈت نہرو اور اُن کی طرح سوچنے والے مٹھی بھر ہندوئوں نے تو یہی تسلیم کیا کہ بابر یا اس کی اولاد جہاں سے بھی آئی ہو وہ آریہ ہندوئوں کی طرح جب ہندوستان میں بس گئی تو وہ ہندوستانی ہوگئی لیکن پنت کی طرح 90  فیصدی سوچنے والے آج تک یہی کہتے اور مانتے ہیں کہ وہ سیکڑوں برس مسلمانوں کے غلام رہے اور اب آر ایس ایس کے پرچارکوں کے ہاتھ میں حکومت آئی ہے تو وہ تمام ہندو جو پنڈت پنت، سردار پٹیل، پرشوتم داس ٹنڈن جیسے کانگریسیوں کے ماننے والے تھے وہ اسے اپنی حکومت سمجھنے لگے ہیں اور صرف اتنی سی افواہ پر کہ اس گھر میں گائے کا گوشت ہے اور وہ کھا رہے ہیں، کا اعلان مندر کے لائوڈ اسپیکر سے ایک مندر کے پجاری نے کردیا۔

بساہڑہ پندرہ ہزار کی آبادی کا گائوں نہیں خوشحال بستی ہے جہاں شاندار مکانات، چمکدار سڑکیں اور پچاسوں قیمتی کاریں۔ رویش کمار ٹی وی نیوز ایڈیٹر نے جب گھوم گھوم کر اُسے دکھایا تو بیل گاڑی یا سروں پر بوجھ اس کے لہنگا پہنے کوئی عورت نظر نہیں آئی بلکہ ایسی جوان لڑکیوں پر کیمرہ ضرور گھوما جن کے کاندھے پر دوپٹہ بھی نہیں تھا جو اس کا ثبوت ہے کہ یہ سیدھے سادے دیہاتیوں کا گائوں نہیں ہے بلکہ دولتمند خوشحال اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوئوں کا خوبصورت قصبہ ہے۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کے رپورٹر نے مندر کے پجاری سے معلوم کیا کہ آپ نے مندر سے اتنا خطرناک اعلان کیوں کیا؟ انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ مجھے کیا معلوم مجھ سے کہا گیا میں نے اعلان کردیا لیکن وہ سفید داڑھی اور بالوں والا پجاری بار بار اپنے بیان بدل رہا ہے۔ اس نے ایک رپورٹر سے کہا کہ میرے پاس دو لڑکے آئے اور انہوں نے بتایا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کٹی ہے آپ اعلان کردیجئے۔ یہ معلوم کرنے پر کہ وہ کون تھے تو پجاری نے کہا کہ مجھے نام نہیں معلوم لیکن صورت سے پہچان لوں گا؟ پھر جب بار بار مختلف رپورٹر آئے تو اس نے پھر کہنا شروع کردیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر اعلان نہیں کروگے تو جان سے مار دیں گے۔ میں نے ڈر کر اعلان کردیا۔ اتنے شاطر اور کلاکار پجاری کی نہ گرفتاری ہوئی ہے، نہ اس سے جواب طلب کیا گیا جبکہ اتنا بھیانک واقعہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ مندر کے بوڑھے پجاری نے اعلان کیا تھا۔

ہر اس مسلمان کے گھر جو گھر میں کسی وجہ سے قربانی نہ کرتا ہو اور اللہ نے اسے کسی قابل بھی بنایا ہو تو وہ بقرعید کے دن اپنے بچوں، رشتہ داروں اور مہمانوں کی خاطر گوشت کے پکوان سے کرتا ہے ہر بڑے شہر میں کوئی بھی دیکھ لے کہ بکرے کے گوشت کی مارکیٹ میں عام دنوں سے چارگنا بکرے کٹے ہوئے ملیں گے۔ صرف اس لئے کہ جو بڑے کی قربانی میں حصہ لیں وہ بھی مہمانوں کی خاطر کے لئے بکرے کا گوشت پکواتے ہیں اور صرف کباب بڑے گوشت کے۔

بساہڑہ کی پولیس نے دو ہزار ہندئوں میں سے سات کو گرفتار کیا ہے اور دس کو نامزد وہ صرف جو بھی کررہی ہے اس لئے کررہی ہے کہ شور تھم جائے تو سب آجائیں گے۔ ایسا کون ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ مرحوم اخلاق اور اس کے بیٹے پر انہوں نے ہی جان لیوا حملہ کیا تھا؟ ان کے گھر کی ہر سلائی مشین، فریج اور لوہے کی مضبوط گرل توڑی تھی ان کے مکان کی چوکھٹ اور دوسرے دروازوں کے پٹرے الگ الگ کئے تھے۔ پولیس کا ایک طریقہ وہ ہوتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ہندو ہونے کے باوجود سوم ناتھ بھارتی کے ساتھ صرف اتنی سی بات پر ہورہا ہے کہ اس کی بیوی نے اس کے خلاف رپورٹ لکھوائی ہے کہ یہ مجھے مارنا چاہ رہے تھے اور کتے سے کٹوایا کرتے تھے اور برابر مارپیٹ کرتے تھے لیکن نشان کوئی نہیں ہے بلکہ وہ اتنی ہی پرکشش آج بھی نظر آرہی ہے جیسی پانچ دس سال پہلے رہی ہوگی۔ اس کے باوجود پولیس نے صرف مودی کا دل خوش کرنے کے لئے بھارتی سے ایسی پوچھ گچھ کی ہے جیسے ابوسلیم ، عبدالکریم ٹنڈے یا یعقوب میمن اور ان سے کرتے ہیں جنہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں پکڑتے ہیں۔

گائے ایک جانور ہے اسے چاہے جتنا بڑا بھگوان یا دیوی کہا جائے وہ جانور ہی رہے گی کھانے والے اس کا گوشت ہزاروں برس سے کھا رہے تھے اور آج بھی کھا رہے ہیں اور ہمیشہ کھاتے رہیں گے۔ مسلم ملکوں کے علاوہ روس میں سب سے زیادہ گائے کھائی جاتی ہے روس کی ہی شرکت میں جب جمشید پور میں کارخانے لگے تھے اور سیکڑوں روس کے ماہر آئے تھے تو اُن کے لئے جمشید پور میں ہندو حکمرانوں نے گائے کاٹنے کی اجازت دے دی تھی اور برسہابرس ہندوئوں کی حکومت بھی رہی اور گائے بھی کٹتی رہی بہار میں بے گنتی مسلمان قتل کئے گئے ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی گائے کے کاٹنے کی وجہ سے ہوا ہو۔

ہندوستان میں جہاں کہیں گائے کے نام پر ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملے کئے ہیں ان میں حقیقت کم اور افواہیں زیادہ نکلتیں۔ ہندو کے لئے گائے دیوی نہیں ہے اگر واقعی وہ دیوی یا ماں ہے تو ہندو اسے فروخت کیوں کرتا ہے؟ کیا کسی ہندو نے اپنی ماں کو مویشی بازار میں لاکر فروخت کیا ہے؟ پہلے مسلمان بہت کم گائے پالتے تھے لیکن جب سے جرسی گائے بازار میں آئی ہے مسلمان زیادہ تر اُسے پالتے ہیں کیونکہ کھاتی کم ہے گندگی بھی کم کرتی ہے اور دودھ بھینس سے زیادہ دیتی ہے اور اسے اچھا کھلایا جائے تو اچھا بھی دیتی ہے۔ اب اگر ملک کے ہندوئوں کو وہی کرنا ہے جو نوئیڈا کے بساہڑہ میں کیا تو دستور میں ترمیم کرکے قانون بنا دینا چاہئے کہ مسلمان گائے نہیں پال سکتا اور گائے صرف ہندو کے گھر میں رہے گی۔


ہندوئوں میں وہ کون ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ گائے جب دودھ دینا بند کردیتی ہے تو اسے بازار میں لاکر مسلمان کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا ہے کہ وہ کاٹ کر کھالے۔ کسی ہندو نے آج تک کبھی سوچا کہ بے مصرف گائے کو مسلمان ہزاروں روپئے میں کیوں خرید رہا ہے؟ اور ہندو اپنی ماں کو ایک مسلمان کے ہاتھ کیوں فروخت کررہا ہے؟ ہر بقرعید کے بعد نہ جانے کتنے ٹرک گائے کی کھالوں کے ٹینری جاتے ہیں جو کلکتہ میں بھی ہیں، چنئی میں بھی، ممبئی میں بھی ہیں اور کان پور اور دہلی میں بھی اور ان میں سے اکثر کے مالک ہندو ہیں۔ کسی نے آج تک نہیں سنا ہوگا کہ گائے کی کھالوں سے بھرا ٹرک پکڑا گیا اور ضبط ہوگیا۔ یہ ضرور سنا ہوگا کہ ٹرک میں جاتی ہوئی گائیں پکڑی گئیں۔


ہم سے محبت کرنے والے ہمیں اخبار والا سمجھتے ہیں اور یہ غلط بھی نہیں ہے حالانکہ اب ہم بس اپنے گھر تک محدود ہیں۔ کئی جگہ سے اطلاع آئی کہ اس سال جب ہم لوگ دیہات میں لگنے والے جانوروں کے بازار گائیں خریدنے نہیں گئے تو پوچھتے پوچھتے گایوں کے ہندو مالک اپنی اپنی گائے لے کر گھر آگئے اور کہا کہ ہم تو اس دن کے انتظار میں مہینوں سے انہیں کھلا کھلاکر موٹا کررہے تھے کہ اچھی قیمت مل جائے گی اور جب مسلمانوں نے خطرہ کی بات کی تو وہ کم پیسوں میں دینے کے لئے اس وجہ سے تیار ہوگئے کہ ہم اب ان کا کیا کریں؟ اور وزیر اعظم بہار کے الیکشن میں گائے اور گنگا کو بھی ووٹ کے لئے بھیک کی کٹوری بنا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے جیسے ہندوئوں کو اپنانے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ گائے کے تحفظ کے لئے گائو پروری ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے گا لیکن یہ نہیں بتایا کہ گائے کے تحفظ کے لئے کون کون سے پروگرام چلائے جائیں گے؟ جن کی خلاف ورزی میں مسلمانوں کو قتل کیا جاسکے؟


پورا ملک جانتا ہے کہ ہندوئوں کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنی بستیاں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے کتنے بھگوان ہیں پہلے کتنے تھے اور آزادی کے بعد کتنے اور بن گئے اور آئندہ کتنے اور بنیں گے؟ ایک سال وِنود دوا نے پورے ملک کا دورہ کرکے معلوم کیا تھا کہ کہاں کہاں کب سے کون نئے نئے بھگوان بنائے گئے۔ کہیں انہیں معلوم ہوا کہ وہ بیس برس سے ان کی پوجا کررہے ہیں کہیں 25  برس سے، کہیں دس برس سے اور لکھنؤ یا پوری یوپی میں نہ کوئی گنیش وسرجن کرتا تھا نہ چھٹ پوجا۔ نہ درگا دیوی۔ ہر طرف دیوالی، ہولی، دسہرہ، جنم اشٹمی، رکشابندھن تھا اور بس اب ہر وہ کام جو کہیں کے ہندو بھی کررہے ہیں پورے ملک میں ہورہا ہے۔ جبکہ ہولی کے دن پنجاب میں نہ اسکول بند ہوتے تھے نہ دفتر اور نہ رنگ حالانکہ وہاں سکھ ضرور ہیں مگر آدھے ہندو بھی ہیں۔ بنگال میں دسہرہ کا کوئی نام بھی نہیں لیتا تھا صرف درگا پوجا تھی وہاں دسہرہ بھی آگیا اور اُترپردیش میں درگا پوجا بھی۔

ہندوئوں کی شادی کے کوئی نہیں بتا سکتا کہ کتنے طریقے ہیں؟ ہم نے اپنے درجنوں ہندو دوستوں کے بچوں کی شادی میں شرکت کی اور انہوں نے ہمارے بچوں کی شادی میں شرکت کی۔ ان میں رام نرائن ترپاٹھی کی بیٹی مدھو کی شادی میں ہمیں اپنی اہلیہ کو بھی لے جانا پڑا اس لئے کہ اس کی ماں نہیں تھی اور وہ انہیں چاچی کہتی ہی نہیں مانتی بھی تھی۔ میری بیوی نے جب رات بھر جاگ کر شرکت کی تو وہ حیران رہ گئیں کہ اتنا وقت لگتا ہے؟ جبکہ مسلمانوں کی شادی میں ایجاب و قبول سب کچھ ایک گھنٹہ سے کم میں ہوجاتا ہے۔ تو ہم نے بتایا کہ وہ جو اندنوں میں بدلو نام کا چپراسی تھا اس کے بھائی کی موت ہوگئی اور بدلو کی بیوی اسے چھوڑکر کہیں چلی گئی تھی تو اس نے کہا اب میں سیوا نہ کرپائوں گا دو بیگھہ زمین ہے اور گھر کے کام۔ میں بھاوج سے بیاہ کرلوں گا اور گھر پر ہی رہوں گا۔ ہم نے معلوم کیا کہ کیا بیوہ کی شادی کرتے ہو؟ اس نے بتایا کہ بس میں ہری چوڑیاں اسے پہنا دوں گا وہ میری پتنی ہوجائے گی اور مجھے یاد آیا کہ اسلام سے پہلے عرب میں دَورِ جاہلیت میں ہر بڑے آدمی کی کئی کئی بیویاں ہوتی تھیں جن میں 70  برس کی بھی اور 30  برس کی بھی۔ باپ کے مرنے کے بعد اس کا جو بھی بیٹا اپنی چھوٹی ماں کے اوپر اپنی چادر ڈال دیتا تھا وہ اس کی بیوی ہوجاتی تھی۔ وہ ہندو تو نہیں مگر بت پرست تھے شاید یہ وہیں سے آیا ہو؟

دنیا جانتی ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان صرف ایک خدا کو مانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جہالت کی وجہ سے دوسروں کو بھی تعظیم کے قابل مانتے ہوں لیکن خدا ایک ہے قرآن اس کی کتاب ہے اور حضرت محمدؐ آخری نبی ہیں۔ سنا ہے سکھ بھی ایک کو ہی مانتے ہیں لیکن ہندو بھائی جن کے بڑے عالم کہتے ہیں کہ ہندو نام کا دھرم کوئی نہیں ہے سناتن دھرم ہے یا آریہ سماج بہرحال جو بھی ہو اور جتنے بھی ہوں لیکن ہندوئوں کی اکثریت اور شمالی ہند کی بہت بڑی اکثریت صرف اس ایک بات پر متحد ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کو نہیں رہنا چاہئے۔ اس کے لئے وہ گری سے گری حرکت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہی گائے جسے مرہٹہ ہندو انتہائی شوق سے کھاتا ہے لیکن وہ ہندو ہی رہتا ہے دلت اور مہادلت اگر ملے تو خوب کھاتے ہیں کئی صوبوں میں جن میں سے ایک میں بھی مسلمانوں کی حکومت نہیں ہے گائیں کٹ رہی ہیں اور کھائی جارہی ہیں وہاں مودی صاحب نہ ہر دریا کی آرتی بنا رہے ہیں نہ گائے کی حفاظت کے لئے ڈائریکٹوریٹ مگر یوپی حکومت سے رپورٹ ضرور منگوا رہے ہیں جبکہ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس قتل میں مندر بھی شریک ہے اور پجاری بھی اور سمادھان نامی تنظیم ایسی بھی بنی ہے جیسی رام سینا، ہنومان سینا، پرتاپ سینا اور ہر شہر میں سینا اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے بن چکی ہیں اور ہر جگہ مسلمانوں کا جینا حرام کررہی ہیں اور انہیں مائووادی بنانا چاہتی ہیں۔ اب اللہ ہی ان کا محافظ ہے۔

(یو این این)


فون نمبر: 0522-2622300 


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 477