donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Bair Se Ladkar Mahabair Apna Hi Nuqsan Karenge

بیر سے لڑکر مہابیر اپنا ہی نقصان کریں گے


حفیظ نعمانی

 

مقصد وزیر انصاف تومر کو گرفتار کرکے انہیںرسوا کرنا نہیں تھا بلکہ بندوق ان کے کاندھے پر رکھ کر کجریوال کو زخمی کرنا تھا۔ کجریوال بھرشٹاچار مہم کا علم لے کر آئے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں کسی کو بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ ایسی لعنت ہے کہ وزیر اعظم نے کبھی ملک کو ’’کانگریس مکت‘‘ اور ’’بھرشٹاچار مکت‘‘ بنانے کے نعرہ کو الیکشن میںخوب خوب کیش کیا تھا۔ مودی صاحب نے ماتھا ٹیک کر پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے بعد سینٹرل ہال میںجو تقریر کی تھی اس میں سب سے زیادہ اس پر زور دیا تھا کہ وہ اس جمہوریت کے مندر کو داغی ممبروں سے ایک سال کے اندر پاک کردیں گے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس مندر میں اگر قاتل، ڈاکو، لٹیرے، شرابی، جواری، بازار حسن کو رونق بخشنے والے اور ملک کو لوٹ کر کھانے والے بھی اس طرح بیٹھے رہیں گے تو کوئی اسے کیسے پوتر ¼ifo=½   مانے گا اور کوئی دوسرا کیسے اس کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکے گا؟

یہ ملک کی  بدقسمتی ہے کہ مودی صاحب نے 13  مہینوں میںایک کے گلے میں بھی رسّی نہیں ڈلوائی نہ کسی کے مقدمہ کی کوئی پیشی ہوئی اور نہ کوئی ایسا اشارہ ملا کہ جس سے معلوم ہوتا کہ اُن کے نشانے پر کون کون ہے؟ اس کے برعکس وہ تو اُن کا سرقلم کرنے کے لئے تلوار لے کر میدان کی دیوار کے پیچھے کھڑے ہوگئے جو ’’اینٹی کرپشن بیرو‘‘ (ACB)  بناکر کم از کم دہلی کو بھرشٹاچار سے پاک کرنا چاہ رہا ہے۔ مودی کو بالکل اس کی فکر نہیں ہے کہ کجریوال نام کا ایک لیڈر اُبھرکر سامنے آرہا ہے بلکہ اس کی فکر ہے کہ وہ ان کے ارب پتی کھرب پتی اور سونے کے محل میں رہنے والوں پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ’’ننگا خدا سے چنگا‘‘ کی کہاوت کا جیتا جاگتا نمونہ بن کر سامنے آرہا ہے۔

ہمیں حیرت ہے کہ ہماری صحافی برادری کے بھی کچھ تجربہ کار لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تومر کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوجائیں گی تو کجریوال کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ کجریوال لیڈر ہیں۔ ان سے ایک وکیل نے ٹکٹ مانگا انہوں نے معلومات کرکے دے دیا۔ وہ الیکشن لڑے تو جیت کر انہوں نے ثابت کردیا کہ حلقہ میں مقبول ہیں۔ کجریوال نے انہیں وزیر قانون بنا دیا۔ کچھ دنوں کے بعد کجریوال کے مخالفوں کو کسی نے بتایا کہ اُن کی ڈگری دو نمبر کی ہیں۔ بی جے پی کو ایک ہتھیار مل گیا اس نے ہزاروں یا لاکھوں روپئے پھونک کر دہلی، یوپی اور بہار کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ریکارڈ چھنوا دیئے۔ تومر کجریوال کو یقین دلاتے رہے کہ یہ سب آپ کے دشمن ہیں۔ نوبت وہاں تک آگئی جس کا سب نے تماشہ دیکھ لیا۔ اس میں کجریوال کی ذمہ داری کہاں مجروح ہوگئی؟

ہندوستان میں جعلی ڈگری چھاپنا کیا مشکل ہے؟ جبکہ نہ جانے کتنی جگہ جعلی نوٹ چھپتے ہوئے پکڑے گئے ہیں کروڑوں روپئے کے جعلی اسٹامپ پیپر آج بھی چل رہے ہیں جنہیں کوئی نہیں پکڑ سکا۔ ڈگری 20  ہزار کے پریس میں بھی چھپ سکتی ہے اور دستخطوں کی نقل کرنے والے ہزاروں آرٹسٹ ملک میں موجود ہیں۔ لیکن نوٹ چھاپنے کے لئے لاکھوں روپئے کی مشین کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب بھی چھپ رہے ہیں۔ لیکن ایک بات ذہن میں رہنا چاہئے کہ جعلی ڈگری کوئی ایک آدمی نہیں بنا سکتا۔ اس میں آرٹسٹ بلاک بنانے والا، پریس کا مالک پریس کی مشین کا عملہ اور اگر منیجر ہو تو وہ بھی ان سب کے علم میں پوری بات ہوتی ہے۔ اب رہے وہ جو ڈگری دلواتے ہیں وہ خود ہوتے ہیں  اور ان کے ہر بڑے شہر میں ایجنٹ۔ اتنے ہاتھوں سے جو چیز گذرے اس کی مخبری ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ خریدار وہ ہے جیو اپنے کلیجے کی آگ بجھانے کے لئے صرف ایک خبر کے دس کروڑ بھی دے سکتا ہے تو حیرت اس پر نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات 100  دن کے اندر معلوم ہوگئی بلکہ اس پر ہونا چاہئے کہ تومر کے حلف لینے کے چوتھے دن ہی کیوں معلوم نہیں ہوگئی؟ شاید جو تاخیر ہوئی وہ خبر کی بولی کی وجہ سے ہوئی ہوگی کہ ایک ’’مہابیر‘‘ خبر کے زیادہ دے گا یا ایک ’’بیر‘‘ چپ رہنے کے زیادہ دے گا؟ جیسے مودی کے سوٹ کی بولی کہ 35  لاکھ کے نوٹوں کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ساڑھے چار کروڑ پر جاکر ختم ہوئی۔ لیکن وہ سوٹ مودی کو سوٹ بوٹ والا بنانے سے نہ روک سکا۔

اس سے زیادہ اہم وہ بات ہے جو تومر صاحب کی گرفتاری میں دیکھنے میں آئی۔ کیا ایک جعلی ڈگری والا وزیر ملک کے لئے دائود ابراہیم جتنا خطرناک ہوگیا؟ وہ وزیر تو بعد میں بنا تھا پہلے تو وہ تین لاکھ ووٹروں کا نمائندہ تھا۔ اس کی گرفتاری اس طرح جیسے عبدالکریم ٹنڈے یا انڈین مجاہدین کا کمانڈر یا یوپی میںمولانا طارق اور مولانا خالد مجاہد کو گرفتار کیا گیا؟ نہ اس کی حکومت سے اجازت اور نہ اسپیکر سے اجازت؟ جبکہ اسی دہلی میں پارلیمنٹ کے ایک ممبر عتیق کو گرفتار کرنے کے لئے اُترپردیش کی پولیس بھیک مانگتی پھرتی رہی تھی۔ پھر دو ہفتہ کے بعد اسپیکر نے اجازت دی تب ان کو باعزت لے جایا گیا۔ دہلی کی پولیس نے جیسی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا وہ صرف اس لئے کہ اس کے سیّاں کوتوال ہیں اور ایک نہیں تین سیّاں ہیں۔

بات ابھی الزام کی ہے پولیس کہتی ہے کہ یہ جعلی ڈگریاں ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کا پولیس کو کیا نجیب جنگ کو اختیار ہے نہ راج ناتھ کو اور نہ مودی کو۔ یہ فیصلہ عدالت کرے گی اور جہاں تک تومر کو پولیس حراست میںدینے کی بات ہے تو صرف اس لئے کہ جو کوئی بھی جج کی کرسی پر بیٹھا تھا اسے معلوم تھا کہ اگر انہوں نے انصاف کی کتاب کے حوالے دے کر تومر کو گھر جانے دیا تو اُن کی خیر نہیں ہے۔ یہ فیصلہ تو ساکیت کورٹ کا ہے۔ ہم نے تو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کو دیکھا ہے کہ وہ ہماری ضمانت کا حکم دینے کے لئے جب قلم اٹھاکر لکھنے چلے تو سرکاری بڑے وکیل نے روتے ہوئے کہا کہ اگر حضور آپ نے انہیں جیل سے باہر جانے دیا تو پھر کوئی انہیں دوبارہ جیل میں نہ لاسکے گا اور جج صاحب نے اس لئے قلم رکھ دیا کہ انہیں اس آواز میں اس وقت کے وزیرتعلیم کریم بھائی چھاگلا اور وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی آوازیں ملی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ایسے میں ساکیت جج اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اروند کجریوال جانتے ہیں کہ یہ تو پہلا جھٹکا ہے۔ انہیںسمجھ لینا چاہئے کہ انہیں انصاف سپریم کورٹ سے پہلے کہیںنہیں ملے گا۔

اب ہم پورے ملک سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا انہوں نے سمجھ لیا کہ ’’کون معشوق ہے اس پردئہ زنگاری میں؟ نہ سمجھ میں آیا ہو تو 2014 ء کے مارچ، اپریل اور 14  مئی تک کی تقریریں یاد کرو۔ کون بادل پھاڑ دینے والی آواز میں کہہ رہا تھا کہ ہماری حکومت بنوا دو 100  دن میں ہم 75  لاکھ کروڑ کالا دھن دنیا کے ملکوں سے نکال کر تمہیں دے دیں گے۔ ہماری حکومت بنتے ہی مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ ہم آئے اور بھرشٹاچار کرنے والے بھاگے۔ ہر 20  سے 35  برس والے کو روزگار ہم دیں گے۔ ہر داغی ممبر کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی اور اچھے دن آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔ سنا ہے کہ نوٹ دے کر ووٹ لینا جرم ہے۔ کیا ہر ووٹر کو 15  لاکھ روپے 100  دن کے بعد دینے کا وعدہ کرنے والا گناہگار نہیں ہے؟ اور ووٹ لینے کے لئے سنہرے خواب دکھاکر ووٹ لینا جرم نہیں ہے؟ دہلی کے عوام نے ہر بات پر بھروسہ کرکے لوک سبھا کی ساتوں سیٹیں بی جے پی کو دے دیں۔ صرف 9  مہینے کے بعد سب نے سمجھ لیا کہ ہمیںٹھگ لیا گیا اور انہوں نے اس طرح بدلہ لیا کہ 70  میںصرف دو ممبر دہلی اسمبلی میں جاسکے۔ حقیقت میں یہ ملک کے عوام کا عدم اعتماد ہے جس کے بعد اگر غیرت ہوتی تو 2015 ء میں ہی پھر الیکشن کرانا چاہئے تھا۔ کیونکہ یہ فرضی ڈگری اور جعلی نوٹ سے کروڑ گنا بڑا جرم ہے۔

مودی صاحب نے کیا اپنے 50  وزیروں کی ڈگریاں دیکھ لیں؟ کیا سب کی یونیورسٹیوں سے تصدیق کرالی؟ کیا ہر ممبر نے جو الیکشن کے وقت حلف نامہ اپنی حیثیت کا دیا ہے اس کی تصدیق کرالی؟ کیا جب دہلی کے الیکشن میں پارٹی کے صدر امت شاہ ٹکٹ اور سوٹ کیس بانٹ رہے تھے تو کیا ڈگریاں بھی دیکھ رہے تھے؟ کیا شری مودی کو معلوم نہیں ہے ہر امیدوار اور پارٹی کو اور اُن کے حلف نامے سب ٹھیک ہیں؟ کے اندر خرچ کرنا چاہئے۔ کیا وہ گنگا ماں کی گود میںکھڑے ہوکر اور گیتا کو ہاتھ میںلے کر قسم کھا سکتے ہیں کہ ان کے ہر وزیر کی ڈگریاں حلف نامے اور ان کے فیصلے قانون کے اندر ہیں؟

کجریوال ہر دن کہتے ہیں کہ مودی صاحب مجھے اپنی شرمناک ہار کا بدلہ لے رہے ہیں۔ دنیا مانے نہ مانے۔ ہم نے نہ مودی کو دیکھا نہ کجریوال کو۔ نہ ان سے سلام کلام نہ اُن سے ۔ نہ ہم مرکزی سرکار سے کچھ لینا چاہتے ہیں نہ دہلی سرکار سے۔ اور نہ مسلمانوں کے حقوق کسی سے ادا کرنے کی اُمید۔ اس کے باوجود ہم کہیں گے کہ بدلہ لینا مودی صاحب کی فطرت ہے۔

2002 ء میںگودھرا کی بات گودھرا میں ہی ختم ہوسکتی تھی۔ آگے جو ہوا وہ بدلہ تھا۔ جب حکومت بنائی تو اڈوانی جی، جن کے وہ سیاسی چیلے ہیں۔ انہوں نے انہیں وزیر اعظم بنانے کی مخالفت کی تھی اور جوشی نے کان پور میں مودی مودی کے بجائے پارٹی کو سامنے رکھا۔ دونوں شاہی کوڑے دان میں ڈال دیئے گئے جبکہ ابھی دونوں نہ جانے کتنے لیڈروں سے زیادہ چاق و چوبند ہیں اور جس نے ذراسی بھی ان کی غلامی میں بے دلی دکھائی اسے دیا تو مگر نہ دینا جیسا۔ الیکشن کے دوران ملائم سنگھ، لالو، نتیش، راہل، سونیا حد یہ کہ پرینکا سے بھی ایسے لڑے جیسے ایک کمزور طاقتور سے لڑتا ہے۔ صرف اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد خون کے کتنے گھونٹ پینے پڑتے ہیں؟ مودی صاحب ہوں یا راج ناتھ انہیں اپنے سے بہت چھوٹے کجریوال سے لڑتے ہوئے شرم آنا چاہئے۔ اگر اروند جیتے تو جھوٹے وعدوں کے بل پر نہیں بلکہ انہیں ووٹ دے کر دہلی والوں نے مودی صاحب پر عدم اعتماد پاس کردیا۔ ورنہ ان کی حیثیت 35-30  سے زیادہ نہیںتھی۔ اور وہ جتنا کجریوال سے لڑیں گے اپنا اتنا ہی نقصان کریں گے۔    ؎


ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

(یو این این)


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 475