donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kya Chahte Hain Hindustan Ke Barak

کیا چاہتے ہیں ہندوستان کے براک؟


حفیظ نعمانی

 

27 مئی 2014 ء کی صبح کے بعد ملک کے سب سے بااختیار آدمی کے متعلق کوئی معلوم کرے تو ظاہر ہے کہ موہن بھاگوت صاحب کے علاوہ دوسرا کون سا نام لیا جاسکتا ہے؟ اور جب وہ 6  دسمبر سے دو دن پہلے کہیں کہ رام مندر کی تعمیر ہمارا اصل ہدف ہے۔ تو کون یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق رام مندر نہیں بنے گا؟ اس لئے کہ انہوں نے یا اُن کی گدی پر بیٹھے کوئی دوسرے آر ایس ایس چیف نے جب کہا تھا کہ بابری مسجد غلامی کی نشانی ہے اسے گرا دینا چاہئے اور اپنے کلیجے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اسے متنازعہ ڈھانچہ کہنا شروع کردیا تھا تو ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے کہاں روک لیا جو اب رام مندر کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں گے؟

بھاگت صاحب نے کہا کہ ’ایک خوبصورت مقصد ہمارے سامنے ہے اور ہم کو ایک خوبصورت مندر بنانا ہے۔‘ ہم مسلمان کی حیثیت سے ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ ہم عبادت اللہ کی کرتے ہیں مسجد کی نہیں کرتے۔ ہندوستان میں دہلی کی جامع مسجد ہو یا حیدر آباد کی مکہ مسجد، بھوپال کی تاج المساجد ہو یا کیرالہ کی 1386  سال قدیم چیرامن پیرومل کی بنائی ہوئی مسجد ہر مسجد میں نماز کا ثواب برابر ہے۔ اجودھیا میں اس جگہ جہاں 6  دسمبر 1992 ء سے پہلے بابری مسجد تھی اور جس میں آزادی کے ایک سال کے بعد ہی وزیر اعلیٰ پنڈت پنت نے آدھی رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھوادی تھیں اور حکومت کے نشہ میں چور سنگھ، جن سنگھ اور شیوسینا جیسی ذہنیت کے ہندو حاکموں نے مسجد کی شہادت کے بعد وہیں ایک کپڑا تان کر عارضی رام مندر بنا دیا تھا جسے مرکزی اور اُترپردیش کی حکومتوں نے رفتہ رفتہ اتنا پائیدار بنا دیا ہے کہ اب اس کی دیواریں بھی بلٹ پروف ہیں اور سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اس عارضی مندر کی حفاظت کی ہدایت ملتی رہتی ہے تو وہ رام مندر کیوں کافی نہیں ہے؟ جبکہ مورتیاں بھی اس میں رکھی ہیں اور پوجا کی عام اجازت ہے اور جس کی حفاظت کے لئے سیکڑوں پولیس والے کھڑے رہتے ہیں۔

اگر بھاگوت صاحب چاہیں  تو جائیں اور پوجا کریں اور جب سپریم کورٹ یہ زمین انہیں دے دے تو اسے خوبصورت بھی بنالیں۔ آنجہانی اشوک سنگھل رام مندر کی سیاست کرتے کرتے پرلوک سدھار گئے۔ بھاگوت صاحب کہیں تنہائی میں بیٹھ کر ان کی پوری زندگی کے بارے میں سوچیں کہ کیا وہ کامیاب ہوگئے یا بالکل ناکام؟ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کی اور بابری مسجد کی شہادت کے علاوہ ان کے نامۂ اعمال میںکیا ہے؟ بابری مسجد یا مندر کا مقدمہ مسلمانوں کی عدالت میں نہیں ہے۔ حکومت بھی ہندوئوں کی ہے اور عدالت بھی ان کی ہے۔ لیکن بھاگوت صاحب نے نہ جانے یہ بات کہنے کے لئے ایسی تاریخ کا کیوں انتخاب کیا جن تاریخوں میں جذباتی شعور سیاست کے مہروں کی طرح ناچنے والے مسلمان بابری مسجد کی برسی منانا اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں؟ کوئی مسخرہ مشورہ دے رہا ہے کہ مسلمان کالی پٹی باندھیں۔ کوئی دھرنا دینے کا پروگرام بنا رہا ہے اور کبھی کے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لیڈر اور آج کے سرکاری نمائندے ظفریاب جیلانی صاحب کہہ رہے ہیں کہ حسب سابق پرامن طریقہ سے پروگرام کئے جائیں اور ڈی ایم کے ذریعہ حکومت کو میمورنڈم سونپا جائے اور یہ نہیں بتاتے کہ 1992 ء سے گذشتہ سال تک جو مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی نوٹنکیاں ہوتی رہیں ان کا کیا اثر ہوا اور جو میمورنڈم سونپے گئے کیا ان میں سے کوئی زیارت کے لئے مسلمانوں کو بھی مل سکتا ہے؟ کم از کم محترم جیلانی صاحب تو مشورہ دے دیتے کہ مسلمان صرف اور صرف دعا کریں کہ اگر وہ مسجد مندر کو توڑکر نہیں بنائی گئی تھی تو پروردگار ہر جج سے وہ لکھوا دے جو حقیقت ہے۔

ہم بات کررہے تھے بھاگوت صاحب کی کہ چند دن پہلے ہی اشوک سنگھل کی موت کے غم میں جو جلسہ ہوا تھا اس میں بھی بھاگوت صاحب نے رام مندر بنانے کا عہد دہرایا تھا اور اشوک سنگھل کے خواب کو پورا کرنے کا عہد کیا تھا۔ بھاگوت صاحب کی حیثیت ہندوستان میں وہ ہے جو امریکہ میں براک اوبامہ کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اس کے باوجود ان کے بیانات سے کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ سپریم کورٹ میں یقین دہانیوں اور حلفیہ بیانوں کے باوجود جس طرح وزیر اعظم کی شمولیت کے بل پر مسجد کو شہید کردیا گیا اسی طرح اجودھیا کو روس اور چین کی طرح لوہے کی دیواروں سے گھیرکر سنگھل کے خوابوں کا مندر بنانے کا کوئی خفیہ پروگرام ہے؟

ہم جب انہیں براک کی برابر کہہ رہے ہیں تو اس کا ثبوت بھی ہے کہ مودی سرکار کے ایک سال کے پورا ہونے کے بعد وزیر مالیات، وزیر داخلہ، وزیر فروغ انسانی وسائل اور وزیر اعظم اپنے اپنے اعمال ناموں کے ساتھ سنگھ کے بڑوں کے دربار میں پیش ہوئے تھے اور ہر کوئی کلین چٹ ملنے پر ایسا فخر کررہا تھا جیسا شری امت شاہ نے سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے پر کیا ہوگا۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کے دس سال میں کم از کم سو بار سنا ہوگا کہ اقتدار کے دو مرکز ہیں۔ ایک منموہن دوسرا سونیا گاندھی۔ لیکن ہم نے یا کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی وزیر اپنے اعمال نامے کے ساتھ سونیا کے دربار میں گیا ہو؟ جبکہ بار بار شور ہوتا تھا کہ فلاں وزیر کی فائل سونیا کے پاس گئی تھی۔ لیکن دیکھا کسی نے نہیں۔

جس کسی کے پاس اتنے اختیارات ہوں اسے بیان بازی نہیں کرنا چاہئے جو کرتا ہے وہ کرالینا چاہئے۔ جب انہوں نے مسجد کو گرانا چاہا تو ملک میں 17  کروڑ مسلمان بھی تھے اور اجودھیا میں ہزاروں کی تعداد میں فوج کے مسلح افسر اور جوان بھی لیکن مسجد کو اس حال میں شہید کیا گیا کہ وہ ایک دھماکہ سے نہیں گرائی بلکہ دس گھنٹے میں رفتہ رفتہ گرائی گئی اور سب دیکھتے رہے کیونکہ حکومت فوج اور عدالت سب ہندو تھی۔ یہ بھی بھاگوت صاحب کی طاقت کا مظاہرہ ہے کہ آندھرا پردیش کے ایک بی جے پی ایم ایل اے نے کہا ہے کہ اگر دس دسمبر کو عثمانیہ یونیورسٹی میں بیف پارٹی کا پروگرام ہوا تو حیدر آباد کو دادری بنادیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی ایم ایل اے نے کہا کہ پہلے بھی میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت میرے پاس اتنی طاقت نہیں تھی اس بات کا جواب بھی بھاگوت صاحب ہی دیں گے کہ اس کے پاس اب طاقت کہاں سے آگئی اور وہ دادری جس پر ملک کے 100  کروڑ ہندوئوں کو شرم کرنا چاہئے آج وہ بہادری کی ایسی ہی علامت بن گیا ہے جس پر ہندو فخر کررہے ہیں؟

ملک میں جب کوئی عدم رواداری کی بات کرتا ہے تو مودی سے نقوی تک سب کے پتنگے لگ جاتے ہیں۔ کیا یہ عدم رواداری کی ناقابل فراموش علامت نہیں ہے کہ ایک شریف بوڑھے مسلمان کو ایک ہزار ہندو گھر سے گھسیٹ کر لائیں اور اسے موت کی نیند سلادیں اور اس کا کوئی قصور نہ ہو۔ اور اس نے قصور کے متعلق سوچا بھی نہ ہو۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی بھاگوت صاحب پر ہے کیونکہ انہوں نے اس شرمناک اور پوری مودی سرکار کو شرمسار کرنے والے واقعہ کے بعد کہا تھا کہ مدرسوں میں گائے کے گوشت کی باتیں کی جاتی ہیں اخلاق نے ان سے سن کر کھایا ہوگا۔ مدرسوں میں گائے کے موضوع پر یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں اور انہوں نے تو یہ بتانا بھی بند کردیا کہ گائے میں سات حصے ہوتے ہیں۔
بہرحال آنے والے اتوار کو چھ دسمبر ہے۔ یہ دن ہر مسلمان کو بیشک یاد دلاتا ہے کہ 23  برس پہلے کیا ہوا تھا؟ لیکن مسلمان یہ کیوں بھول گئے کہ اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں ہے اور جن پر ہے پاک پروردگار نے ساری طاقت اور دولت ان کو دے دی ہے۔ ایسی صورت میں ڈرامے کرنے یا مسلمانوں کے ووٹ لینے جیسے ناپاک عزائم اس کے ذریعہ پورے کرنے کے بجائے اسی پروردگار سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا چاہئے اور مسجد اس لئے واپس مانگنا چاہئے کہ اگر سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ مندر توڑکر مسجد بنائی گئی تھی تو ملک کی ہر بڑی مسجد پر خطرہ کے بادل منڈلائیں گے۔ ایسی چالیس مسجدیں اور ہیں جن کے برسہابرس مقدمے چلے ہیں ان میں سنبھل کی جامع مسجد بھی ہے اور میرٹھ کی بھی اور نہ جانے کون کون۔ اور اس کی ابتدا تاج محل سے ہوچکی ہے کہ وہاں ہندوئوں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ کبھی شیوجی کا مندر تھا اور عدالت نے سماعت کے لئے اسے قبول کرکے تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی بات میں کچھ نہ کچھ دم ہے۔

(یو این این )

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 491