donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Himanshu Bajpayee
Title :
   Lucknow Ki Holi - Mushtarka Tahzeeb Ki Shandar Misal

 

لکھنؤ کی ہولی - مشترکہ تہذیب کی شاندار مثال

 

یہ مضمون لکھنؤ کے ایک نوجوان غیر مسلم قلمکار "ہمانشو باجپئی" کا تحریر کردہ ہے جو "تہلکہ" ہندی میگزین کے تازہ شمارہ (31/ مارچ) میں شائع ہوا ہے۔ صرف رسم الخط دیوناگری ہے جبکہ انداز تحریر عین اردو ہے۔ تھوڑی بہت زبان و بیان کی ترمیم کے ساتھ یہاں اردو میں ملاحظہ فرمائیں۔

***

لکھنؤ کی ہولی کے کیا کہنے صاحب ! ہولی کیا ہے ہندوستان کی قومی یکجہتی کی آبرو ہے ۔ جو یہ مانتے ہیں کہ ہولی صرف ہندوؤں کا تہوار ہے وہ ہولی کے دن پرانے لکھنؤ کے کسی بھی محلے میں جا کر دیکھ لیں ۔ شناخت مشکل ہو جائے گی کہ رنگ میں ڈوبا کون سا چہرہ ہندو ہے کون سا مسلمان۔ شہر کے دل چوک کی مشہور ہولی کی بارات آزادی کے زمانے سے ہندو - مسلم مل کر نکالتے ہیں ۔ لکھنؤ کی مشترکہ ہولی کی شناخت بن چکی یہ بارات چوک ، وکٹوریہ سٹریٹ ، اکبری گیٹ اور راجہ بازار جیسے مسلم اکثریتی علاقوں کے درمیان سے ہی نکلتی ہے ۔ اس میں مسلمان نہ صرف رنگ کھیلتے ، ناچتے گاتے آگے بڑھتے ہیں بلکہ مسلم گھروں کی چھتوں سے رنگ - گلال اور پھولوں کی برسات بھی ہوتی ہے ۔ اور یہ گذشتہ سال دو سال کی خوش فہمی نہیں ہے بلکہ یہ ملی جلی ہولی لکھنؤ گزشتہ سینکڑوں سالوں سے مناتا آ رہا ہے ۔

لکھنؤ کی یہ ہم آہنگی اصل میں یہاں کے نوابوں کی دین ہے ۔ نوابوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جعفر میر عبداللہ کہتے ہیں:

" لکھنؤ میں مسلمان ہولی تو مناتے ہی ہیں ساتھ ہی ہولی کا اثر ان کے اپنے تہوار پر بھی صاف نظر آتا ہے ۔ ایرانی نیا سال ' نوروز ' جو کہ ہولی کے ہی قریب ہر سال 21/ مارچ کو آتا ہے یوں تو پورے ملک میں اور ملک کے باہر بھی منایا جاتا ہے لیکن صرف لکھنؤ میں نوروز کے دن ہولی کے طرز پر رنگ کھیلا جاتا ہے ۔ اودھ کے نوابین خود بڑے پیمانے پر ہولی کھیلتے تھے ۔ دراصل ان کی خواہش تھی کہ لکھنؤ میں کوئی بھی عظیم تہوار کسی ایک فرقے کا تہوار بن کر نہ رہ جائے ۔ نوابوں کے دور میں اس شہر میں محرم اور ہولی کے تہوار ہندو مسلم مل کر مناتے تھے ۔ اس بات کی گواہی لکھنؤ کی اردو شاعری بھی دیتی ہے ۔ جہاں پیارے صاحب رشید ، نانک چند نانک ، چھنو لال دلگیر ، کرشن بہاری نور جیسے ہندو شعرائے کرام کے لکھے مرثیے آج بھی محرم کی مجلسوں کی جان ہیں وہیں لکھنؤ کے مسلم شعرائے کرام نے بھی لکھنؤ کی ہولی کا بیان اپنی شاعری میں خوب کیا ہے ۔

خدائے سخن میر تقی میر کی لکھنؤ سے بیزاری کے چرچے تو سب نے سن رکھے ہیں ، لیکن اس شہر کی ہولی کے وہ بھی دیوانے تھے ۔ میر جب دہلی سے لکھنؤ آئے اور انہوں نے اس وقت کے نواب آصف الدولہ کو رنگوں میں شرابور ہولی کھیلتے دیکھا تو ان کی طبیعت بھی رنگین ہو گئی ، اور انہوں نے ایک پوری مثنوی نواب آصف الدولہ کی ہولی پر تحریر کر ڈالی ۔

ہولی کھیلے آصف الدولہ وزیر ،
رنگ صحبت سے عجب ہیں خرد و پیر
دستہ دستہ رنگ میں بھیگے جواں
جیسے گلدستے تھے جوانوں پر رواں
قمقمے جو مارتے بھر کر گلال
جس کے لگتا آن کر پھر مہندی لال

بعد کے سالوں میں تو میر کو لکھنؤ کی ہولی نے اس قدر مست کیا کہ اس کا رنگ جب تب ان کے اشعار میں جھمکتا رہا ۔

آؤ ساتھی بہار پھر آئی
ہولی میں کتنی شادیاں لائی
جس طرف دیکھو معرکہ سا ہے
شہر ہے یا کوئی تماشا ہے
پھر لبالب ہے آبِ رنگ
اور اڑے ہے گلال کس کس ڈھنگ
تھال بھر بھر ابیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں

صرف میر ہی نہیں ، دہلی چھوڑ کر لکھنؤ تشریف لانے والے ایک اور شاعر سعادت یار خاں رنگین بھی لکھنؤ کی ہولی میں سراپا رنگے ہوئے تھے ۔ رنگین کی چنچل شوخ ریختی ( کھڑی بولی ) نے لکھنؤ کو بہت بدنامی بھی دلائی لیکن اس شہر کی ہولی ان کے مزاج سے بہت ملتی تھی ۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

بھرکے پچکاریوں میں رنگین رنگ
نازنینوں کو کھلائی ہولی سنگ
بادل آئے ہیں گھر گلال کے لال
کچھ کسی کا نہیں کسی کو خیال
چلتی ہے دو طرف سے پچکاری
مینہ برستا ہے رنگ کا بھاری
ہر کھڑی ہے کوئی بھر کے پچکاری
اور کسی نے کسی کو جا ماری
بھر کے پچکاری وہ جو ہے چالاک
مارتی ہے کسی کو دور سے تاک
کس نے بھر کے رنگ کا تسلا
ہاتھ سے ہے کسی کا منہ مسلا
اور مٹھی میں اپنے بھر کر گلال
ڈال کر رنگ منہ کیا ہے لال
جس کے بالوں میں پڑ گیا ہے ابیر
بڑبڑاتی ہے وہ ہو دلگیر
جس نے ڈالا ہے حوض میں جس کو
وہ یہ کہتی ہے کوس کر اس کو
یہ ہنسی تیری بھاڑ میں جائے
تجھ کو ہولی نہ دوسری آئے

لکھنؤ مدرسہ کے سب سے بڑے استادوں میں ایک خواجہ حیدر علی ' آتش ' بھی اپنے شہر کی ہولی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

ہولی شہیدِ ناز کے خون سے بھی کھیلئے
رنگ اس میں ہے گلال کا بو ہے ابیر کی

لکھنؤ کی تاریخ میں جو شخص ہولی کے سب سے بڑے دیوانے کے طور پر مشہور ہے اس کا نام ہے واجد علی شاہ اختر ، جسے آج تک اس کا شہر "جانِ عالم" کہہ کر یاد کرتا ہے ۔ قومی یکجهتی کی نشانی کے طور پر مقبول و معروف ہو چکے لکھنؤ کے اس بانکے نواب نے بے شمار لوک گیت ہولی پر تحریر کیے ہیں ۔

مورے کانہا جو آئے پلٹ کے
ابکے ہولی میں کھیلوں گی ڈٹ کے
ان کے پیچھے میں چپکے سے جاکے
یہ گلال اپنے تن سے لگا کے
رنگ دوں گی انھیں بھی لپٹ کے
اب کے ہولی میں کھیلوں گی ڈٹ کے

واجد علی شاہ کی ہولی کے حوالے سے لکھنؤ میں مشہور قصوں میں سے ایک قصہ یہ بھی سنائی دیتا ہے کہ ایک دفعہ محرم اور ہولی ایک ہی دن واقع ہو گئے ۔ "پہلے آپ" کی تہذیب والے لکھنؤ میں ہندوؤں نے فیصلہ کیا کہ اس بار وہ ہولی نہیں منائیں گے ۔ جبکہ مسلمانوں کا خیال تھا کہ جیسے محرم کو ہندو اپنا ہی تہوار مانتے ہیں ویسے ہی ہولی ہم بھی مناتے ہیں اس لئے محرم کی وجہ سے ہولی نہ ٹالی جائے ، لہذا کوئی اور راستہ نکلنا چاہئے ۔ واجد علی شاہ نے ایک ہی دن میں ہولی کھیلے جانے کا اور محرم کے ماتم کا الگ الگ وقت طے کیا ۔ اس طرح مکمل لکھنؤ ہولی اور محرم دونوں میں شریک ہوا ۔ تاریخی طور پر پتہ نہیں اس واقعہ میں کتنی سچائی ہے ، لیکن اپنی مشترکہ تہذیب و ثقافت میں یقین رکھنے والا ہر لکھنؤی اسے پورے ایمان کے ساتھ تسلیم کرتا ہے ۔

اردو کے ایک اور بڑے شاعر انشاء اللہ خاں انشاء نے بھی نواب سعادت علی خاں کے ہولی کھیلنے کی تعریف نثر اور شاعری دونوں میں کی ہے ۔ انشاء لکھتے ہیں:

"جو شخص بھی اس بات میں گمان کرتا ہے کہ میں ان کی خوشامد کر رہا ہوں تو اس کے لئے ہولی کے زمانے میں بالخصوص حضور کی خدمت میں حاضر ہونا شرط ہے کہ وہ خود دیکھ لے کہ راجہ اندر پریوں کے درمیان زیادہ خوش معلوم ہوتے ہیں یا ولی عہد حوروں کے درمیان؟
شاعری میں ہولی کا بیان انشاء اس طرح کرتے ہیں :

سنگ ہولی میں حضور اپنے جو لاویں ہر رات
کنہیا بنیں اور سر پہ دھر لیویں مکٹ
گوپیاں دوڑ پڑیں ڈھونڈیں قدم کی چھیاں
بانسری دھن میں دکھا دیویں وہی جمنا تٹ
گاگھرے لیویں اٹھا اور یہ کہتی جاویں
دیکھ تو ہولی جو بزم ہوتی ہے پنگھٹ

لکھنؤ کی نوابی اجڑنے کے بعد بھی مسلمانوں کا ہولی کھیلنا اور ہولی پر شاعری کرنا پہلے کی طرح ہی جاری رہا ۔ مجاہد آزادی اور عظیم شاعر حسرت موہانی جن کا رکاب گنج میں واقع مزار آج مکمل طور پر گمنام ہے ، انہوں نے بھی ہولی پر بھرپور شاعری کی ۔

موسے چھیڑ کرت نندلال
لئے ٹھاڑے ابیر گلال
ڈھیٹ بھئی جن کی برجوری
اوروں پر رنگ ڈال ڈال

شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کی شاعری بھی ہولی کے رنگ سے شرابور ہے ، عام طور پر اپنی نظموں اور غزلوں کے لئے مشہور جوش نے کئی گیت بھی ایسے لکھے ہیں جن میں ہولی کا ذکر ملتا ہے :

گوکل بن میں برسا رنگ
باجا ہر گھر میں مردنگ
خود سے کھلا ہر اک جوڑا
ہر اک گوپی مسکائی
هردے میں بدری چھائی

طنز و مزاح کے میدان میں مشہور ساغر خیامی اور ان کے بھائی ناظر خیامی بھی ہولی کی مستی کے متوالے تھے ۔ دونوں ہولی پر دوستانہ محفلیں بھی سجاتے تھے ۔ ساغر صاحب کی ہولی - ٹھٹھولی ملاحظہ فرمائیے :

چھائی ہیں ہر اک سمت جو ہولی کی بہاریں
پچکاریاں تانے وہ حسینوں کی قطاریں
ہیں ہاتھ حنا رنگ تو رنگین پھواریں
اک دل سے بھلا آرتی کس کس کی اتاریں
چندن سے بدن آبِ گلِ شوخ سے نم ہیں
سو دل ہوں اگر پاس تو اس بزم سے کم ہیں

یہاں تو لکھنؤ کے صرف چند مسلمان شاعروں کے ہولی کے رنگ میں ڈوبے کلام پیش کیے گئے ہیں ۔ اصل میں اس شہر کے ان گنت مسلم شعرائے کرام نے ہولی پر اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف لکھنؤ کی ہولی کی عظمت بیان کی ہے بلکہ پوری دنیا کو مذہبی ہم آہنگی کا پیغام بھی دیا ہے ۔ ناظر ​​خیامی کا یہ پیغام ہی ملاحظہ کیجیے :

ایماں کو ایماں سے ملاؤ
عرفاں کو عرفاں سے ملاؤ
انساں کو انساں سے ملاؤ
گیتا کو قرآں سے ملاؤ
دیر و حرم میں ہو نہ جنگ
ہولی کھیلو ہمارے سنگ !!

*****

اردو رسم الخط تبدیلی و ترجمہ : مکرم نیاز


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 548