donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Rahmani
Title :
   Bihar Ka Seyasi Darama Khatam - Lekin


بہار کاسیاسی ڈرامہ ختم لیکن ۔۔۔۔۔۔؟؟؟


برجستہ:افتخاررحمانی


صوبہ بہار کے متعلق ہمارے اکثر دانشوروں کا قول ہے کہ یہ سرزمین انقلابی ہے ،یہیں سے گاندھی نے جنگ آزادی کا بگل بجایا تھا،یہ وہی سرزمین ہے جہاں میر قاسم جیسے وفا شعار اور محب وطن پیداہوئے یہاں ایک سے بڑھ کر ایک علماء اور قائدین ملت نے آنکھیں کھولی علامہ شوق نیموی اور مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ہ علیہ الرحمہ کانام قرنوں یاد رکھا جائے گا اس سرزمین کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ میر وقت ڈاکٹر کلیم احمد عاجز جیسا نغز گو اور ترجمان الم شاعر اسی مٹی سے تعلق رکھتا ہے  ہے ،ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم نوحہ گر ہے کہ ان کی وفات حسرت آیات چند روز قبل ہی ہوئی (خدا غریقِ رحمت کرے)الغرض ایک انقلابی سرزمین میں سرخ انقلاب لانے کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور جس غرض کے تحت بی جے پی نے بطرزِ ماہرانہ ایک سیاسی چال چلی تھی وہ عین گرداب میں موجوںسے الجھ کر غرقاب ہوگئی اور مانجھی تحریک اعتماد کی ووٹنگ سے قبل ہی اپنے عہدہ

 سے مستعفی ہوگئے ۔اس ڈرامہ کو بنظر غائر از اول تا آخر دیکھیں تو بی جے پی کی نقب زنی اور بہار کی سیکولر سیاست پر شب خون معلوم ہوگا ؛کیونکہ فتح در فتح کے غرو ر نے اس عمل پر اکسایا کہ مانجھی کوعلم بغاوت پر آمادہ کیاجائے ،مانجھی سیاسی گردابوں اور اس کی متنوع موجوں کاکلی ادراک نہیں رکھتے ہیں بناء بریں اپنی کشتی کو گردابوں کے حوالہ کرکے خود بہ حفاظت تمام ساحل پر آکھڑے ہوئے ظاہراً یہ وہ سیاسی پینترہ اور فسوں کاری ہے جس سے مانجھی کو اپنے عہدہ سے بغاوت کے باعث مستعفی ہوناپڑا اور ان کے وہ ہم نوا ارکان اسمبلی بھی تھے جو مانجھی کی ہم نوائی کو افتخار تصورکرتے تھے ،وہ بھی مانجھی کی رفاقت میں ہیں۔راقم نے چند سطور قبل عرض کیاتھا کہ’’ ایک انقلابی سرزمین میں سرخ انقلاب کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں‘‘ لیکن یہ ایک ظاہری کردار تھا اس کے عواقب اور مضمرات پر غور کیجئے تو دفعتاً یہ احساس ہوگاکہ بی جے پی صرف ظاہری تنائج پر ہی یقین نہیں رکھتی ؛بلکہ اس کے عواقب پربھی گہری نگاہ رکھتی ہے تاکہ دونوں صورت میں مہرے اس کے پاس رہے ،اور بہارچند دنوں میں جو کچھ بھی ہواہے وہ ان ہی سازشوں کا شاخسانہ ہے ۔مانجھی تو خود وزیراعلی کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں تاہم دلت سماج کا ایک بڑا طبقہ مانجھی کی حمایت میں آکھڑا ہواہے اور یہ ایک ایسا موقع  ہے جو جدیو کیلئے نہایت ہی سنگین اور مانجھی کیلئے خوش آئند ہے۔اب مانجھی خود کوسیاسی قربان گاہ میں اپنی قربانی کادرد لیے ہر کس و ناکس کو اپناغم بتائیں گے کہ دلت ہونے کی پاداش میں ہمیں یہ سزا دی گئی بناء بریں اس صورت میں جدیو کیلئے شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور بہار کی بی جے پی جماعت کیلئے اچھے دنوں کا آغاز ہوگیاہے۔بہار میں جہاں ایک طرف دیگر ہندو برادری جیسے یادو،راجپوت، برہمن موجود جدیو حکومت سے نالاں تھی تووہیں اب مانجھی کے استعفی کے بعد دلت سماج بھی نالاں ہوگیا ہے ؛کیونکہ ان کی برادری کے وزیراعلی کو سیاسی معموں میں الجھاکر استعفی پر مجبور کیاگیا ۔جدیو کا یہ وہی ووٹ بینک تھا جس پر ناز تھا تاہم بی جے پی نے اپنی مفسدانہ سیاسی چالوں کے باعث اسے بھی کالعدم ٹھہرادیا ،سابق وزیر اعلی نتیش کمار آئندہ دنوں وزیر اعلی کا حلف لیں تاہم ان کی قیادت اب مزید حکمت عملی سے کام نہ لے گی تو یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو دہلی اسمبلی انتخابات میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوناپڑا تھا لیکن بہار میں وہ سرخروہوجائے گی اور دہلی اسمبلی انتخابات کی شکست کے غم کا مداوا بھی بن جائے گا۔بی جے پی خیمہ میں خوشی ہے اور ہر ایک پارٹی ورکر اس جدید حربہ کی اثر کاری پر مسرور ہے وہ کہ وقت بھی آئے گاجب بہارمیںبھی کمل کھلے گا۔تاہم اس ذیل میں کچھ بھی کہناقبل از وقت ہے ۔مانجھی کو وزیراعلی کے منصب پر فائز کرکے نتیش کمار بھی ایک سیاسی گیم کھیلاتھا کہ ان کے حصہ میں ووٹ بینک قائم رہے ،تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا؛ بلکہ اس کے نتائج حیران اور پریشان کن ہیں ؛کیوںکہ بی جے پی کی سیاسی چالوں نے اسے مکمل طور پر ناکام کرکے بے جان بنادیا ہے ۔قارئین کی توجہ مانجھی کے اس بیان کی طرف مبذول کراؤں جس میں انھوں نے دلت سماج کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دلت اسٹوڈنٹ ذات پات سے اوپر اٹھ کر بین برادری شادی کرنی چاہیے ،اگر ہمیں ایک بڑی سیاسی طاقت بننا ہے تب ہمیں اپنی آبادی کو 16سے بڑھا کر 22فیصدی کرنی ہوگی ‘‘اس بیان کے سیاق و سباق جن معانی کی سمت اشارہ کررہے ہیں وہ یہ کہ مانجھی خود دلتوں کا قائد تصور کرتے ہیں اور یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ ہماری کوئی بھی سیاسی قوت نہیں ہے ؛لہذا مضبوط سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔اس ذیل میں یہ بھی کہتا چلوں کہ مانجھی کی نگاہ ان نکات کی سمت ہے کہ آئندہ منعقد ہونے والے اسمبلی کے انتخابات میں اپنی مؤثر شمولیت درج کراسکے اور یہ بھی یقینی ہے کہ یہ بیان اس خفیہ الحاق اور حمایت کاشاخسانہ ہے ،جس کے لئے مانجھی کو تیار کیا تھا اور مانجھی اس کیلئے تیار بھی ہوگئے تھے۔بہار میں جو کچھ بھی سیاسی بحران اور تزلزل پیدا ہوا ہے اس کیلئے آخرش کون ذمہ دار ہے ؟نتیش ،مانجھی یا پھر در پردہ بی جے پی کی خفیہ سازش ؟ اس معمہ کو حل کرنے سے قبل یہ بتادیں کہ اس کے ذمہ ہر سہ عناصر ہیں اولاًنتیش کمار کو اپنے عہدہ سے مستعفی نہیں ہوناچاہیے تھا ؛کیونکہ ان کے مستعفی ہونے سے پارٹی کے اندر خود ایک بحران پیدا ہوگیا تھا ،نتیش کمار نے مانجھی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو وزارت دی تھی لیکن مانجھی خود بی جے پی کے گیم پلان کا حصہ بن کر اعتماد شکنی کی ہے تو وہیں بی جے پی ثالث بن کر وہ سیاسی قبح انجام دیا ہے جسے برسوں یاد رکھا جائیگا ۔اب دیکھنایہ ہے کہ بہار اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کا یہ گیم پلان اور خفیہ سازش کس طرح مؤثر ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سیاست کے اس تموج میں مانجھی اپنی کشتی کا رخ کس طرف موڑتے ہیں ،اپنی پارٹی بناتے ہیں یاپھر بی جے پی کے سایہ کو ہی’’ سایہ ھما‘‘ قرار دیتے ہیں ،تاہم آئندہ واقع ہونے والے واقعات سیاسی مبصرین کو چونکا دینے والے ہوں گے اس وقت کا ہمیں انتظار ہے۔

(یو این این)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 798