donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Shamsul Haq Nadvi
Title : معاشرہ کی بگڑتی ہوئی تصویر
   Muashra Ki Bigarhti Hui Tasweer

 

معاشرہ کی بگڑتی ہوئی تصویر
 
مولانا شمس الحق ندوی
 
یہ بات عام بات ہے ہر خاص و عام اس کو  جانتا ہے کہ جب بخار یاکسی اور بیماری کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے تو عمدہ سے عمدہ اور لذیذ سے لذیذ کھانا بھی بدمزہ معلوم ہوتا ہے۔ کھانا تو درکنار اکثر اس کے تذکرہ اور خوشبو سے بھی متلی آنے لگتی ہے ۔ اگر کسی علاقہ میں ملیریا ئی وبا پھیل جائے اور اس قسم کے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے اور وہ سب بیک زبان کہنا شروع کردیں کہ ہمارے شہر سے ایسی تمام غذائوں اور خوردو نوش کی چیزوں کو پھینک دیاجائے جن کو پرانے تصورو خیال کے لوگ پسند کرتے ہیں اور ان کو لذیذ و مزیدار بتاتے ہیں تو کیا شہر کے طبیب وڈاکٹر اور صحت مند باذوق لوگ ان مریضوں کی بات مان لیں گے ، کیا اس شہر کے محکمہ صحت کے لوگ ان مریضوں کی بات پر کان دھریں گے؟ اور خدا نخواستہ کان دھریں اور اس پر عمل کریں تو کیا یہ نہ کہاجائے گا کہ ان سب کی عقلوں میں فتور واقع ہوگیا ہے، اکثریت و ماحول کی تبدیلی نے ان کی ایسی نظر بندی کردی ہے کہ اپنا علم و فن اور تجربہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ ہماری آج کی دنیا کا کچھ ایسا ہی حال ہو رہا ہے۔، تہذیب جدید کی نیرنگیوں نے ذہنوں کو اتنا مسموم کردیا ہے کہ ہر سیدھی چیز ٹیڑھی اور ٹیڑھی چیز سیدھی معلوم ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے سماج و سوسائٹی کی کوئی کل سیدھی نہیں رہ گئی ہے ۔ ہمارے وسائل نشرو اشاعت اور ذرائع ابلاغ نے معصوم و سادہ لوح بچوں سے لے کر نوجوانوں اور بوڑھوں تک کے ذہنوں کا سانچہ ایسا بدل دیا ہے کہ محبت و شرافت، ہمدردی اور خدمت خلق کے جذبات کی جگہ تنگ مزاجی ، عداوت و دشمنی، قتل و غارت گری، بے حیائی اور فحاشی نے لے لی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان، سانپ ، بچھو ، بھیڑیوں اور درندوں کو مات دے رہا ہے۔ انسانوں کو اس طرح مارا، جلایا اور موت کے گھات اتارا جا رہا ہے جس طرح سے موذی جانوروں کو مارنے کی اسکیم چلائی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں میں رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے خون خرابہ کے علاوہ ہوا و ہوس کا مارا انسان کس بے دردی کے ساتھ معمولی معمولی  باتوں پر انسانوں کو مار رہا ہے، کون سا دن گزرتا ہے کہ جس میں ندی نالوں اورکھیتوں سے مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی خبر نہ آتی ہو اور یہ وہ ہے جو پریس میں آگئی۔ ایسے کتنے واقعات ہوں گے جو مقامی لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہوتے، بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مالک اگر اپنے افراد خاندان کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھ رہا ہے اور خادم کو اس وقت کسی کام کے لئے بھیج دیتا ہے، اس کو ٹیلی ویژن دیکھنے کا موقع نہیں دیتا تو ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے قتل و غارت گری کے مناظر نے اس کے ذہن کو ایسا دہشت گرد بنا دیا ہے کہ وہ بے جھجک اپنے مالک اور اس کے خاندان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ ہمارے یہ وسائل ابلاغ نفع سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں، انسانیت کا سبق پڑھانے کے بجائے درندگی و بہیمیت کا پرچار کررہے ہیں، لیکن کس کی زبان کہ اس پر تنقید کرے، اس کے نقصانات کو بیان کرے، کون ہے جو کہے کہ بھائیو! تمہارے منہ کا مزہ بدل گیا ہے ، تمہاری نظر بندی کردی گئی ہے، تم اپنا علاج کرو، محکمہ صحت کے لوگوں کا مشورہ مانو، ڈاکٹروں کو جنونی و پاگل مت سمجھو ورنہ تم سب کے سب تباہ وبرباد ہوجائوگے۔
 
یہ کام صرف نبیوں کا ہے جو پوری انسانی آبادی کا روحانی طبیب و معالج ہوتا ہے۔ جب سے دنیا آباد ہوئی ہے اس وقت سے برابر یہ ہوتا آیا ہے کہ جب بھی انسانوں کے ذوق و فطرت سلیمہ میں بگاڑ پیدا ہوا ہے تو انبیاء کرام نے آکر ان کی مسیحائی کی ہے اور سب سے اخیر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور بگڑی ہوئی انسانیت کے درد کا درماں بنے ہیں اور انسانیت کو تباہی سے بچایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دنیا سے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ دنیا تک کے انسانوں کے لئے روشن مینار ہے اور اس کو برابر روشن رکھنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علماء ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے پیرو ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں کہ انسانیت فلاح و کامیابی سے اسی وقت ہمکنار ہوسکتی ہے جب ان تعلیمات و اصول پر عمل کیا جائے مگر افسوس یہ ہے کہ ذوق و مزاج اتنا بگڑ چکا ہے کہ اپنی لگائی ہوئی آگ میں جلنے والے عصر حاضر کے انسانوں کو بھلائی کی طرف لانے والے ان بھلے انسانوں ہی پر غصہ آر ہا ہے اور ان کو بنیاد پرستی اور مذہبی کٹرپن کا طعنہ دے کر ان کی آواز کو بے اثر بنا رہے ہیں۔
 
دنیا کا کون پڑھا لکھا انسان ہے جس کے سامنے صبح اٹھتے ہی ہمارے آج کے سماج و سوسائٹی کی ایک جھلک نہ نظر آجاتی ہو مگر کتنے ایسے انسان ہیں جو اس جھلک کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہوں، بے کل و بے چین ہوجاتے ہوں، انسانیت کی اس خونیں تصویر کو دیکھ کر اگر کوئی تڑپتا اور بے چین ہوتا ہے تو وہی لوگ جن کو مذہبی جنون اور بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے دنیا میں اور ہمارے ملک میں جگہ جگہ زندگی کا بیمہ کرانے کی کمپنیاں قائم ہیں مگر کتنے ہیں جو زندگی کو محفوظ کرتے ہیں؟ ہاں مرجانے پر انشورنس کی رقم دے دیتے ہیں مگر جن تعلیمات کے ذریعہ حقیقتاً زندگی کا بیمہ ہوتا ہے ان کو ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں، بلکہ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کی تحقیر کی جاتی ہے، ہمارا پڑھا لکھا طبقہ کچھ تو سوچے کہ کیا ہو رہا ہے؟ انسان کہاں جا رہا ہے؟ جو آج محفوظ ہے کیا وہ کل بھی محفوظ رہے گا، حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیںاگر ان کے رخ کو موڑا نہ گیا، ان کے بدلنے کی فکر نہ کی گئی تو چند برسوں میں انسانی آبادی باہم اس تیزی سے ٹکرائے گی کہ سمندری طوفان بھی اس کے سامنے مات کھاجائے گا۔
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
…………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 806