donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Arshad Faizi Qasmi
Title :
   Muslim Rahnumayon Se Saaf Saaf Baten


 مسلم رہنمائوں سے صاف صاف باتیں  


 محمد ارشد فیضی قاسمی


صدر پیام انسانیت ٹرسٹ بہار
مبائل:۹۶۲۰۱۳۰۲۰۷


    موجودہ ملکی حالات اور اس کے گرد و پیش کا جائزہ لینے سے معلوم ہو تا ہے کہ کسی دور میں امن و سکون اور اتحاد و یکجہتی کا گہوارہ کہلانے  اور اس کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنی انفرادی شناخت رکھنے والا ہندوستان اس وقت پوری طرح عدم اطمینان اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے، ایک طرف جہاں یہ ملک آزادی کے بعد سے لے کر آج تک مسلسل دہشت گردی کے سنگین مسئلے میں الجھا ہوا ہے اور تمام تر ضروری اقدامات و کوششوں کے باوجود اس سے نہ تو اپنا دامن چھڑا سکا اور نہ ہی ملکی انتظامیہ کو اس سے نجات پا نے کی کوئی معقول راہ سمجھ میں آرہی ہے وہیں دوسری طرف فرقہ واریت ، مذہبی منافرت، اور تشدد کے بڑھتے اثرات نے اس ملک کو ایسے نازک موڑ تک پہنچا دیا ہے جسے نہ تو اس ملک کے لئے کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسے  حالات میں ملک کے اندر کسی خوشگوار ماحول کے پنپنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

    نظر اٹھا کر دیکھیں تو یہ احساس ہو تا ہے کہ ہمارا ملک ان دنوں پوری طرح تعصب، مذہبی منافرت، تہذیبی و لسانی عصبیت ، تشدد اور فرقہ پرستی کے  چنگل میں پھنس کرنہ صرف سسکیاںلے رہا ہے بلکہ یہاں کی ملک دشمن طاقتیںاور فرقہ پرستی کے سہارے اپنے مفادات کے تحفظ پر یقین رکھنے والی جماعتیں اپنے ناپاک منصوبے کے تحت ہندوستان کے خوبصورت چہرے سے جمہوریت کی چادر کو اتار کر اس ملک کو ہندو راسٹر بنا دینے کی سازشوں میں مصروف عمل ہیں ، ملک کے چپے چپے اور کونے کونے میں نفرت و عداوت ،ظلم و بر بریت اور انا پرستی کی ایسی تباہ کن آندھیاں چل رہی ہیں،جو کسی بھی وقت ملک کے وقار کو جلاکر راکھ کر سکتی ہے، موجودہ حالات میں نہ صرف ہر شخص ڈرا سہما آنے والے ایام میں پیش آنے والے حادثات سے خوفزدہ  ہے ،بلکہ کل تک آپسی محبت و الفت کی لڑی میں پرو کر رہنے اور ایک دوسرے کے درد و نفسیات کو سمجھ کر ملک کی ہر سو ترقی و خوشحالی کا فرض نبھانے والی قومیں ہی آج دست بگریباں ہیں اور وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اس ملک کی جمہوریت کا گلا گھونٹی نظر آرہی ہیں ۔

     عالم تو یہ ہے کہ خود غر ضانہ سیاست کے تحت نہ صرف ملک کی جمہوریت پر سوالیہ لکیر کھینچ دی گئی ہے ،بلکہ اس کی پا مالی کے لئے اعلیٰ پیمانے پر ایسے تانے بانے بنے جا رہے ہیں ، جو ملک میں کسی بڑے طوفان کی آمد  کی خبر دے رہے ہیں ، ادھر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ پوری طرح فرقہ پرستی اور حکومتی نا انصافی کے نرغے میں پھنس کر اپنی قسمت کا ماتم کر رہا ہے ،مسلمان طبقہ میں ہر طرف بے اطمینانی و افرا تفری کا بازار گرم ہے، کھلے عام ان کی عزت و آبرو کے سودے ہو رہے ہیں، ان کے خون سے ہولیاں کھیل کر ان کی قوم پرستی کا امتحان لیا جا رہا ہے ، دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت مسلمانوں کی نئی نسل کے مستقبل کو تاریکی کی دلدل میں پھنسانے کی سازشیں رچی جا ر ہی ہیں ، ان کے مذہبی تشخص کو پامال کر نے کا گھناونا کھیل کھیلا جا رہا ہے ، مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کرکے انکے جذبات کو ٹٹولنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کو تعلیمی ،معاشی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور کر دینے کے حربے اپنائے جا رہے ہیں ،مسلم نو جو انوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے ان کی فکری صلاحیتوں کو مفلوج بنا دینے کی  ایسی حیلہ سازی ہو رہی ہے جسے کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ٹھرایا جا سکتا۔

     حد تو یہ ہے کہ جس قوم نے ملک کی آزادی کے خوب کو شر مندہ تعبیر بنانے میں اہم رول ادا کیا، جس قوم نے ظالم انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی ، جس کے آباو اجدا د نے مادر وطن کی آزادی کے لئے ڈیڑھ سو سال تک اپنی قربانیاں پیش کیں ، جس قوم کے لوگوں نے  ملک کی آبرو کو بچا نے کے لئے  ۱۸۰۳  سے لے کر ۱۸۵۷  تک تنہاانگریزوں کے مظالم سہے اور پھانسی کے پھندے کو چوم کر خوشی خوشی اپنے گلے کا گہنا بنا لیا، جس نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کی گولیوں کو اپنے سینے میں چھپا یا، جس قوم کو آزادی کی آواز اٹھا نے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا،جس نے اس ملک کو تاج محل جیسا حسن دیا ، جس نے اس ملک کو لال قلعہ کی عظمت دی ، جس نے قطب مینار کا وقار دیا، جس نے جامع مسجد کی رعنائی دی  اور جس کے پر کھوں نے اپنا لہو دے کر اس چمن کو ہرا بھرا اور خوبصورت بنا نے میں وہ رول ادا کیا جس کی مثال کا مل پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے،آج وہی قوم اپنے حقوق کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور ان ہی کی اولاد کو دہشت گرد غدار وطن اور ملک دشمن کے لقب سے نواز کر ان کی غیرت کا امتحان لیاجا رہا ہے اور ان کو ترقی کے میدان سے دور رکھنے کے لئے ان کو اپنے ہی گھر میں بے گانہ بنا دینے کاایسا سیاسی کھیل جا ری ہے جسے ملک کی پیشانی پر بد نما داگ کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، کبھی مسلمانوں کی قربانیوں پر بے اعمادی کی لکیر کھینچی جا رہی ہے ،تو کبھی ان کی عبادت گاہوں اور انکی دینی درسگاہوں پر ترچھی نگاہیں ڈال کر ان کے کردار کو مشکوک بنایا جاتا ہے،اور کبھی انن سے ملک کے ساتھ وفاداری کی سند مانگی جا رہی ہے ،حالاںکہ تاریخ  بھی اس سچائی کی گواہ ہے کہ یہی وہ مسلمان قوم ہے جسے ملک کی آزادی سے لے کر آج تک نہ صرف ملک کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ہر موڑ پر اپنی ناقابل فراموش قربانیاں پیش کیں بلکہ ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے جرم میںنہ معلوم انہیں کن کن مصا ئب کا شکار ہونا پڑا ، کتنی ماوں کی کوکھیں اجڑ یں، کتنی ہی عورتوں کے ماتھے کا سندور مٹ گیا ، کتنی ہی عورتیں بیوہ اور کتنی ہی  بچے یتیم ہو گئے اور کتنی ہی معصوم جانوں کو ہمیشہ کے لئے خاموشی کی نیند سلا دیا گیا ۔

    غرض یہ کہ سیاست دانوں کی تنگ نظری اور فرقہ پرستوں کی ناپاک ذہنیت کے سبب ہندوستان کا امن و سکون اور اس کی جمہوریت  اس وقت ننگی تلوار کی دھار پرکھڑی ہے ،اور اس کی جمہوریت پر خطرات کے ایسے بادل چھا رہے ہیں جس کے چھٹنے کے اثرات دور دور تک دکھائی نہیں پڑتے، جس جمہوریت نے پوری دنیا میں ہندوستان کو ایک پہچان دی اور جس جمہویت کے سائے میں رہ کر اس ملک نے ابتک ترقی کا سفر طے کیا ، فرقہ پرست عناصر اسی جمہوریت کو اپنے پاوں سے روندنے اور اسے نفرت کی بھٹی میں جھلسا دینے کے در پے ہیں اور حالات کی زبان یہ بتا رہی ہے کہ اگر صورت حال یوں ہی رہی اور فرقہ پرست عناصر کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی سمت میں قدم آگے نہ بڑھائے گئے تو پھر ملک کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے کو ئی نہیں بچا سکتا،ایسی حساس صورت حال میں ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کا ذمہ دار طبقہ آپس کی دوریوں، جماعتی و مسلکی اختلافوں اور رنجشوں کو با لائے طاق رکھ کر پو ری دیانت داری کے ساتھ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی جدو جہد کرتااور مسلمانوں کے حقوق و مفاداتاور ملک کے جمہوری اقدار کی بقا و تحفظ کے لئے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیدھے سیدھے بات کی جاتی ، کیونکہ اس وقت معاملہ کسی ایک جماعت یاکسی ایک فرقہ کا نہیں ،بلکہ معاملہ پوری قوم کی تقدیر اور ملک کے مستقبل کا ہے ۔اور سچ تو یہ بھی ہے کہ اگر آج ان ناگفتہ بہ حالات پر قابو پانے اور ان مسائل کے حل کے لئے مثبت اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والا وقت ہمارے رہنماوں سے ان کی بے حسی کا حساب  ضرورمانگے گا۔

    مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ چند کو چھوڑ کر آج مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے وا لی کوئی بھی جماعت ملک میں جاری اس سیاسی کشمکش  اور  فرقہ پرستانہ ماحول کا کوئی معقول حل تلاش کرنے اور مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیا نہیں اورنہ ہی فرقہ پرستانہ بیانات کے ذریعہ ملک کا ماحول بگاڑنے والے افراد کا نوٹس لیا جا رہا ہے ، خود کو مسلمانوں کا ہمدرد و مسیحا اور انکے حقوق کا محافظ سمجھنے والے بیشتر رہنمایا تو اپنی جگہ خاموش تماشائی بن کر پو ری بے حسی کے ساتھ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کے کرب ناک مناظر کو دیکھ رہے ہیں، یا پھر انہوں نے مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور ان کی عزت و آبرو کی پا مالی کو دیکھ کر اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لی ہیں اور اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھتی بھی  ہے تو رہنمائوں کے آپسی اختلاف کی وجہ سے ان کی آواز و للکار میں وہ طاقت نہیں ہوتی جو ایسے لوگوں پر لگام کسنے میں معاون بن سکے۔

     میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو سیاسی مفادات کے لئے مسلم قوم کی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے وقار کا سودا کر نا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیںاور جن کے قول و عمل کا تضاد ہمیشہ مسلم قوم کی تباہی و بر بادی کا ذریعہ بنتا رہا ہے ،کیوںکہ ایسے لوگوں سے کسی بہتری کی امید کرنا کسی دیوانے خوب سے کم نہیں ، بلکہ افسوس تو ان رہنمائوں کے طرز عمل پر ہے جو زندگی کی شب و روز میں مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے اور جو قومی مفادات کی بات کر کے  مسلمانوں کے بیچ اپنا اعتماد بحال کر نے کی بات کرتے رہے ہیںاورجن کے ایک اشارے پر قوم اپنی جان چھڑکنے کو تیار کھڑی رہتی ہے، سوال تو یہ ہے کہ اس وقت جب کہ پوری قوم پرمصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا پڑا ہے اور چہار جانب سے ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو آخر آج کہاں ہیں وہ رہنماء جن کو اپنی قیادت پر فخر ہے ،کہاں ہیں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کر نے والے سیاست داں جو مسلمانوں کی بدحالی پر چمگادڑی آنسو بہا کر مسلم قوم سے وفاداری کا ڈھونگ رچتے رہے ہیں اور کہاں ہیں وہ قائدیں جو بے حسی کی چادر اوڑھ کر مسلمانوں کے شاندار مستقبل کو یقینی بنا نے کی بات کرتے ہیں ؟آخر ان حالات میں انکی خاموشی قوم کو کیا پیغام دی رہی ہے؟۔

     حالانکہ ہمیں چڑھتے سورج کی طرح اس بات کا یقین ہے کہ اگر ہمارے رہنماء ذاتی مفادات اور خود غرضانہ طرز عمل کو چھوڑ کر خالص  انسانی فکر و احساس پرمسلمانوں کے حقوق و تحفظ کے لئے ایک ساتھ آواز اٹھائیں اور مل بیٹھ کرمسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی فکر کریں  تو انکی ایک آواز ایوان اقتدار میں زلزلہ بر پا کر سکتی ہے اور انکی ایک للکار سے سیاست کی گلیاریوں میں ہوش اڑانے والا سناٹا چھا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے نہ صرف انہیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوگی،بلکہ ماضی کے خول سے باہر نکل کرمستقبل کی طرف رخت سفر باندھنا ہو گا اور ملک کے مو جودہ سیاسی منظر نامے میں مسلمانوں کی جان مال ،عزت و آبرو اور ان کے حقوق کی بقاو تحفظ کے لئے ایک پلیٹ فارم پرآکر ایسی یادگار قر بانیاں پیش کر نی ہوگی جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن سکیں، تب ہی ملک کے اندر مسلمانوں کے خوش آئند مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 532