donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mumtaz Meer
Title :
   Is Ibteda Ko Inteha Tak Pahunchaiye

 اس ابتدا کو انتہا تک پہونچایئے


ممتاز میر

   گزشتہ سال فروری کے مہینے میں ہم اس وقت دلی گئے تھے جب اروند کیجریوال کو استعفیٰ دئے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے۔دلی جانے کے ہمارے تین مقاصد تھے ۔کتاب میلے میں شرکت ،احباب سے ملاقات اور دلی کی سیر۔ہم دلی گھوم بھی رہے تھے اور اروند کیجریوال کے

تعلق سے عام آدمیوں کے تاثرات بھی جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔اس وقت ہمارا جو موقف تھا اور جس پر ہم آج بھی قائم ہیںکہ کیجریوال نے وزارت علیا سے استعفیٰ دے کر کوئی غلطی نہیں کی تھی گو کہ کچھ عرصے پہلے کیجریوال نے اپنے استعفے پر دلی کی عوام سے معافی مانگ لی ہے ہمارے موقف میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کی دلی کے حالیہ اسمبلی الکشن میںتاریخی کامیابی ہمارے موقف کے درست ہونے کا واضح ثبوت ہے۔اگر کیجریوال استعفیٰ نہ دیتے تو عوام بھی یہ سمجھتی اور مخالفین بھی یہ الزام لگاتے کہ اروند کو کرسی سے پیار ہے جو کچھ نہ کر پانے کے باوجود کرسی سے چپکا ہوا ہے اور عوام میں  یہ تاثر انھیں یہ کامیابی نہ دے پاتا۔

اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی نے عوام میں جو امیج قائم کی ہے ان کا استعفیٰ اس سے میل کھاتا تھا۔اگر وہ استعفیٰ نہ دیتے تو کم سے کم ہم یہ سمجھتے کہ وہ وطن عزیز کو میسر دیگر لیڈران کی طرح ہیں جو اپنی غلطی، کوتاہی اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لئے سڑے بسے دلائل سے عوام کو

بہلانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام بھی متبادل میسر نہ ہونے کی وجہ سے اب تک بہلتی رہی ہے مگر جیسے ہی ایک لیڈرنے یہ ثابت کیا کہ وہ

عام لیڈروں کی طرح نہیں ہے عوام نے اپنا پورا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیا ۔اس طرح کہ کسی مخالف پارٹی کا تو مکمل صفایا ہو گیا اور

کسی مخالف پارٹی کو ہاؤس میںاپوزیشن بننے کا موقع دینا بھی گوارہ نہ کیا۔حالانکہ وہ پارٹی ملک میں حکمراں پارٹی ہے۔وہ کہتی ہے کہ وہ

ملک میں سب سے زیادہ ڈسپلن والی پارٹی ہے وہ سب سے زیادہ cadre based پارٹی ہے ۔اسے ملک کی تمام غیر مرئی طاقتوں کی

حمایت حاصل ہے جو اصل میں اس ملک پر حکومت کر رہی ہیں۔ان تمام خصائل کے باوجود وہ اس بری طر ح ہاری کہ اس کی وزارت علیا کی امیدواری بھی جیت نہ سکی۔حالانکہ ا￿Ÿحترمہ کرن بیدی اپنی ملازمت کے زمانے میںدلی میں ہی بہت نیکنامی کما چکی ہیں۔ایسا کیوں ہوا؟

کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ محترمہ بیدی نے بی جے پی کی دلالی میںاپنے ہاتھ بھی کالے کرلئے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محترمہ بیدی اسلئے ہاریں کہ وہ بی جے پی کی امیدوار تھیں۔اگر آزاد ہوتیں تو شاید جیت جاتیں۔اس الکشن نے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی وہ تمام

خوش فہمیاں دور کردی ہیںجن کی بنیاد پر وہ روز ایک فرقہ پرستانہ یا شرانگیزانہ معاملہ اٹھا رہی تھیں۔کبھی لو جہاد کا نعرہ تھا کبھی رام زادوں اور حرامزادوں کی تفریق سمجھائی جا رہی تھی تو کبھی ہندو عورتوں کو کتنے بچے پیدا کرنے چاہئے یہ حساب کتاب سمجھایا جا رہا تھا۔اور یہ سب کچھ

خود ساختہ تھا ۔کسی نے آج تک ان کو ہندو دھرم کا ٹھیکیدار نہیں قرار دیا ہے۔اب امید کی جانی چاہئے کہ آر ایس ایس کے بغل بچوں کی کاروائیوں کو کچھ عرصے کے لئے بریک لگ جائے گا ۔اس کے ’’سنکیت ‘‘ بھی ملنے شروع ہوگئے ہیں۔آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک کے مدھیہ پردیش کے اونکاریشور میںسر تال ،لب و لہجہ انداز سب کچھ بدل گیا ہے۔یقین ہے کہ کچھ عرصٓہ تو وہ اپنے زخم چاٹنے میں لگائیں گے

پھر کچھ عرصہ نئی حکمت عملی بنانے میں لگے گا ۔ان کے ساتھ مشکل یہ ہے وہ صرف مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیںبلکہ ان کی نخوت ہندؤں کی نچلی جاتیوں کے ساتھ بھی یکساں ہے اسی لئے کبھی کبھی بیلنس بگڑ جاتا ہے اور گاڑی ایکسیڈنٹ سے دوچار ہو جاتی ہے۔اس الکشن اور اس کے انتخابی نتائج نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ پارلیمانی انتخابی نتائج شکوک و شبہات سے خالی نہیں ہیں۔اس پر تحقیق کی جانی چاہئے کہ دلی کی ساتوں پارلیامانی سیٹ جیتنے والی دلی اسمبلی میں اس بری طرح کیوں ہاری؟اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ دلی اسمبلی میں اس بری طرح ہارنے والی پارٹی پارلیمنٹ کی ساتوں سیٹیں کس طرح جیتی تھی؟پھر کچھ دنوں پہلے الکشن کمیشن کے حوالے سے یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی تھی کہ بنارس میں تین یا ساڑھے تین لاکھ بوگس ووٹوں کی نشاندہی ہوئی ہے اور یہ تعداد ۶لاکھ تک جا سکتی ہے۔عاپ پارٹی کو چاہئے کہ وہ حقائق کھود کر نکالے۔اور کوشش کرے کہ وہاں دوبارہ انتخاب کرایا جائے۔ابھی تو سارا زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ موجودہ الکشن میں بی جے پی کی ہار ان کے لیڈروں کے غرور اور زبان درازیوں کی بناء پر ہوئی ہے ۔وہ اور کانگریس کے بڑے بڑے مہارتھی عاپ

لیڈران کے خلاف جس زبان کا وہ دلی کی مہذب اور شائستہ عوام کو پسندنہیں آئی۔خصوصاً رام زادوں اور حرام زادوں والا بیان تو ایسا تھاکہ

دلی کیا شیو سینا کے غلبے والی مہاراشٹر کے عوام بھی برداشت نہ کر پاتے۔ہمارا پہلے بھی یہ خیال تھا اور اب بھی ہم یہ سمجھتے ہیںکہ مودی کی اب تک کی انتخابی کامیابیاںالکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی رہین منت ہیں۔


  خیر یہ تو طے ہے کہ دوسروں کی خامیاں گنوانے سے اپنا بھلا نہیںہوتا۔عوام نے جتنا بڑا مینڈٖیٹ عاپ کو دیا ہے یقینی ہے کہ اتنی ہی بڑی توقعات بھی باندھ لی ہونگی۔جب کہ دلی کی حکومت ویسی ہی لنگڑی لولی ہے جیسی کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو دے رکھی ہے۔پہلے مرکز میں کانگریسی حکومت تھی جسے ہم میٹھی چھری سمجھتے ہیں اور اس نے عاپ کو ہاف سنچری بنانے سے پہلے ہی آؤٹ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔اب مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے جو بابری مسجد انہدام اور گجرات ہولوکاسٹ جیسے بڑے بڑے سانحے ہضم کئے بیٹھی ہے وہ اروند کیجریوال اور عاپ کو ناکام ثابت کرنے کے لئے جو نہ کرے وہ کم ہے۔عاپ کی یہ جیت جہاںاقلیتوں اور دبے کچلے طبقات کے لئے انتہائی خوش آئند ہے وہیں اندیشوں سے بھری ہوئی بھی ہے ۔سنگھ پریوار یوں اپنے ٖغلبے کو چیلنج ہوتے دیکھ کر چپ نہیں بیٹھے گا ۔زخمی سانپ کی طرح وہ بدلہ

لینے کے لئے بے چین رہے گا ۔اروند کیجریوال مستعفی ہونے کا آپشن ایک بار استعمال کر چکے ہیںاب دوبارہ اس کا استعمال ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہونچائے گا ۔انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا اور اس کا اظہار انتخابی جیت کے بعد ان کے اور انکے ساتھیوں کے بیانات سے ہوتا ہے۔مگر یہ ابتدائے عشق ہے ابھی ۵ سال پڑے ہیں۔ہمیں  لگتا ہے کہ اس بار انھیں ۵ سال حکومت کرنے دیاجائے گا انھیں سیاسی شہید بنانے کی بجائے ان کی ساتھیوں کی غلطیوں کا انتظار کیا جائے گا ۔ان کے ساتھی نئے اور جوان ہیں۔دونوں ہی صفتیں جوش، جذبات اور عاقبت نااندیشی سے بھری ہوتی ہیںاسلئے سب سے پہلا کام یہ کہ اپنے ساتھیوں کی تربیت کی جائے اور ہفت روزہ کارکردگی رپورٹ طلب کی جائے۔پولس کو ڈائرکٹ ہینڈل کرنے کی بجائے وزارت داخلہ کے ذریعے کام کروائے جائیںاور ایسے وقت میڈیا کو بھی ساتھ رکھا جائے۔کیونکہ قوی امید یہی ہے کہ وزارت داخلہ یا کوئی اور مرکزی وزارت ایسا کوئی کام نہ

ہونے دے گی جس سے عاپ کو فائدہ پہونچتا ہو۔مسلمانوں کے جتنے بھی بڑے مسائل ہیں تقریباً تمام کا تعلق پولس سے ہے اسلئے مسلمانوں کو بھی اور کیجریوال کو بھی بہت صبر سے کام لینا ہوگا ۔ہم چاہیں گے کہ کیجریوال سب سے پہلے مسلمانوں کی امیج صاف کرنے کی کوشش کریں۔


بشمول مسلمانوں کے دلی کے تمام شہریوں کو مکمل انصاف دلائیں۔مسلمانوں کے جعلی لیڈروں سے خود کو دور رکھیں۔مسلمانوں کے اصلی لیڈروں سے ملیں۔ وہ انھیں جانتے بھی ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل پر انہی سے بات چیت کریں۔

   چند دنوں پہلے امریکی صدر بارک اوبامہ کہہ گئے ہیں کہ ’’ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں میں جس طرح مختلف مذاہب کے لوگوں کو عدم

رواداری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اگر آج گاندھی جی زندہ ہوتے تو یہ دیکھکر انھیں تکلیف پہونچتی‘‘۔اس قسم کی باتیں نائب صدر جمہوریہ اور

خود صدر جمہوریہ بھی کر چکے ہیں۔وطن عزیز میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیںجو ملک کی موجودہ صورتحال اور حکومت کی روش سے خوش نہیں

ضرورت ہے کہ ان کو ڈھونڈا جائے اور ان کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ہم کیجریوال سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ یہ کام کریں

یہ’’sleeper cell‘‘ ان کے لئے بڑا کام کا ثابت ہوگا۔


               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

07697376137

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 651