donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Ham Na Kahte They Ke Ik Taza Qayamat Hogi

ہم نہ کہتے تھے کہ اِک تازہ قیامت ہوگی


نایاب حسن


      ’دلی بولے دل سے،کیجریوال پھرسے‘اور’پانچ سال کیجریوال‘جیسے نعرے گزشتہ کئی مہینوں سے دہلی کے عوام کے کانوں میں گونج تو رہے تھے اور کیجریوال کی ٹیم کو مستقبل میں اپنی کامیابی کا یقین بھی تھا،مگریہ تو اُنھوں نے قطعاً تصورنہیں کیاتھا کہ اُنھیں دہلی اسمبلی کے الیکشن میں ۷۰؍سیٹوں میں سے ۶۷؍سیٹیں مل جائیں گی۔’آپ‘کے تھنک ٹینک یوگیندر یادونے اپنی کئی پریس کانفرنس میں یہ کہاتھا کہ پارٹی کو ۵۰؍سے زائد سیٹیں ملیںگی،ان کے سامنے چوںکہ زمینی حقیقت تھی اور مئی ۲۰۱۴ء کے بعد سے لے کر اب تک کی ان کی محنت اور کیجریوال کے ساتھ مل کر عوام کے پاس  جانے اور ان کے رجحانات تک پہنچنے کے بعد انھوںنے یہ کہاتھا،مگرپھربھی یہ ایک اندازہ ہی تھا،ویسے عام طورپریہ پارٹی ۴۰؍سے ۴۵؍سیٹوں پر اپنی فتح کی امید میں تھی،البتہ دوسری جانب مرکزمیں برسرِ اقتداربی جے پی،جس نے گزشتہ سال سے اب تک اپنی جیت ہی کے پرچم لہرائے اور سینٹرکے بعد لگاتارچارصوبوں میں زبردست اکثریت کے ساتھ اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی،اسے تو اس بار بھی اپنی جیت کاپورا یقین تھا،مگر دھیرے دھیرے انتخابی مہم میں ایسا موڑآتاگیا کہ بی جے پی پر خدشات کے بادل منڈلانے لگے،پھرپارٹی نے جہاں مسلسل اپنا نمایندہ انتخابی چہرہ بدلا،وہیںمرکزی وزرا،ممبرانِ پارلیمنٹ ،پارٹی لیڈران اورآرایس ایس رضاکاروںکے ایک بڑے ٹولے کوتشہیری مہم میں لگادیا،خود وزیر اعظم مودی کی چار بڑی بڑی ریلیاں ہوئیں،البتہ اس ساری انتخابی تشہیرکا مرکزی و محوری موضوع ذاتی طورپراروندکیجریوال ہی رہے،مودی اور ان کے سارے لوگ دہلی والوں کے سامنے کچھ مضبوط منصوبے اور ان کے مسائل کو دورکرنے کی تدبیر پیش کرنے کی بجاے عام آدمی پارٹی کے سربراہ پرکیچڑاُچھالنے میں مصروف رہے،خود مودی کا لب و لہجہ انتہائی حد تک متکبرانہ،مغرورانہ اورخودرائی و خودنمائی سے بھرپور رہا۔اُنھوں نے اپنے آپ کو’نصیب والا‘جبکہ کیجریوال کو’بدنصیب‘قراردیا۔بی جے پی نے اتنے ہی پر بس نہیں کیا؛بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر پانچ سوالات کے بہانے عام آدمی پارٹی سربراہ کی عجیب و غریب اور مضحکہ خیز تصویریں لوگوں کے سامنے پیش کیں۔مگران سب کا جواب عام آدمی پارٹی نے سنجیدگی اور مثبت رویوںسے دیا،اس کے لیڈران نے کسی پر بھی ذاتی طورپر اشکالات و اعتراضات کرنے کی بجاے اپنی ساری تشہیری مہم مثبت نصب العین پر مرکوزرکھی۔کانگریس تو پہلے سے ہی منظرِ عام سے غائب تھی،مگراسے کچھ نہ کچھ امید تھی؛لیکن رزلٹ آنے کے بعد جومنظر سامنے آیاہے،اس کے بعدتوکانگریس کا ’قصہ تمام‘ہی ہوچکاہے اور نتیجہ آنے کے فوراً بعد اجے ماکن نے اپنے عہدے سے استعفابھی دے دیاہے۔

      عام آدمی پارٹی کی فتح کے مضمرات کیاہیں اور کن وجوہ سے دہلی کے کروڑوںعوام نے اُسے سپورٹ کیا اور ۹۰؍فیصد سے بھی زیادہ ووٹ اسے حاصل ہوئے،ان پہلووںپرماہرین اورسیاسی تجزیہ کار غوروفکرکر رہے ہیں اورکل کے سارے دن ہندوستان بھرکے سارے ٹی وی چینلوں پریہی مباحثہ گرم رہاکہ بی جے پی کی ہار کی وجوہ کیاتھیں اور عام آدمی پارٹی کی اس تاریخی جیت کے پیچھے کون سے اسباب و عوامل کارفرمارہے؟مگر سارے بحث و مباحثے کا خلاصہ ایک ہوسکتاہے اور وہ یہ کہ عوام کانگریس سے مکمل طورپرناراض اور اسے مسترد کرنے کے موڈ میں تھے ہی،سوانھوں نے اُسے صفرپرپہنچادیا،مگر ۹؍ماہ پہلے مرکزمیں جو غالب اکثریت کے ساتھ مودی کی حکومت آئی اور جن ایشوزپریہ حکومت آئی تھی،ان پرتوجہ دینے،اپنے وعدوں کو پورا کرنے اور عوامی مسائل کے حل میں یہ پارٹی اور ان کے سربراہ مکمل طورپرناکام رہے،یاتوغیر ضروری کاموں میں اُلجھنے کی وجہ سے یا جان بوجھ کر،عوام کے ووٹس سے وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے کارپوریٹ سیکٹرکے لیے اعلانات اور منصوبوں کی جھڑی لگائی،یوجناؤںکا خواب دکھاکر عوام کے اعتماداور امیدوں پر پانی پھیرا،دوسری جانب ان کے ممبرانِ پارلیمنٹ سمیت ان کی ہم فکر جماعتوں اور پارٹیوں نے پورے ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے اورملک کی سالمیت و یکجہتی پر قدغن لگانے کی جی جان سے کوششیں کیں،ملک کے طول و عرض میں مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی ایک خوف ناک مہم چھیڑی گئی،خود دہلی میں متعدد مقامات پرفسادات کے ساتھ گزشتہ دوتین مہینوں میں ایک سے زائد بارچرچوںکو جلانے اور انھیں منہدم کرنے کی کوششیں کی گئیں؛مگرمنموہن سنگھ کو’مون وزیر اعظم‘بتانے والے نریندرمودی ایک پر اسرار خاموشی اختیار کیے رہے،حتی کہ یومِ جمہوریہ کے موقع پر ان ہی کے ذریعے بلائے گئے امریکی صدر باراک اوباماکوجاتے جاتے مذہبی رواداری کو برقرار رکھنے کی نصیحت کرنی پڑی،اوبامانے اتنے ہی پر بس نہیں کیا،دس دنوں کے اندر اندر دودفعہ مزیدمودی اینڈکمپنی پرہندوستانی جمہوریت پر شب خوںمارنے کا الزا لگایا،وہاںکے مشہوراخبارنیویارک ٹائمزنے ’مودی کی خطرناک خاموشی‘کے عنوان سے اداریہ بھی تحریرکیا،جوبالکل مبنی بر حقیقت تبصرے پر مشتمل تھا۔ظاہر ہے کہ یہ سب وہ حقائق تھے،جن سے دہلی جیسے میٹروپولیٹن شہر کے لوگ اچھی طرح واقف تھے،یہ ایسے لوگ نہیں تھے کہ ۹؍ماہ گزرجانے اور بے وقوف بنائے جانے کے باوجودبھی مودی کی باتوں میں آجاتے،یہ حقائق شناس وحقائق بیں لوگ تھے،انٹلکچوئل لوگ تھے اور پوری طرح سمجھ چکے تھے کہ بی جے پی نے لوک سبھا میں جو وعدے کیے تھے،وہ سب دکھانے کے دانت تھے اور اس کے کھانے کے دانت وہی ہیں،جو آئے دن نظر میں آتے رہتے ہیں،خودپارٹی صدرامیت شاہ نے مودی کی پندرہ لاکھ والی بات کو ایک انتخابی جملہ قراردے کرپارٹی کی اصل نیت اور نیتی کو صاف کردیا اوریہ سب چیزیں مل ملاکربی جے پی کو ایک ایسی ہارکے کگارپر پہنچاگئیں،جس کااندازہ اسے خواب میں بھی نہیں رہاہوگا۔جہاں تک کانگریس کی بات ہے،تواس کی چیئرپرسن سونیا گاندھی پہلے ہی سے کہہ رہی تھیں کہ عوام جو فیصلہ کریں گے،وہ انھیں اور ان کی پارٹی کو قبول ہوگا اور یقیناً انھیں یہ ہار بھی قبول کرناہوگی اورانھوں نے قبول کربھی لی ہے اوراروندکیجریوال کوان کی دھماکہ خیزجیت پر مبارک باد بھی پیش کی ہے،مگرپھربھی یہ حقیقت کانگریس کے لیے یقیناً نہایت ہی دردانگیزہے کہ جس دہلی پراس نے گزشتہ پندرہ سالوںتک لگاتار حکومت کیا،اس دہلی کے ۷۰؍اسمبلی حلقوںمیں سے کہیں سے بھی اُن کا رکن منتخب نہیں ہوسکا،ایسا نہیں کہ کانگریس نے پندرہ سالوں میں دہلی کو کچھ نہیں دیا،شیلاحکومت کے زمانے میں بہت سارے اچھے کام ہوئے،دہلی کو ترقیات کی نئی راہیں ملیں،مواصلات کے ذرائع میں بہتری اور تعلیم کے شعبے میں عمدگی بھی آئی،مگرفی الحال جب سے کانگریس لوک سبھامیں اورپھرلگاتار چارصوبوں میں ہاری ہے،ان کا اثرختم ہونے کانام نہیں لے رہاہے اور پارٹی ایک حادثے کے بعدصحیح طورسے سنبھل نہیں پاتی کہ اسے دوسرے المناک حادثے سے دوچارہونا پڑرہاہے۔


      ذات اور برادری کے اعتبار سے بھی دیکھیں،توہرذات سے عام آدمی پارٹی کو بی جے پی سے زائد ووٹ ملے،اس بارتودہلی کے مسلمانوں نے کمال ہی کردیا،یوںکہ عین الیکشن کے دن بھی اور اس سے ایک دودن پہلے سے بھی کئی ایک ’مذہبی رہنماؤں‘کی اپیلوں،پیغامات اوران کی کانگریس کو ووٹ کرنے کی تلقینوںکے باوصف عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں کے۷۱؍فیصد ووٹ ملے۔ووٹنگ سے ایک دن پہلے جامع مسجدکے امام احمد بخاری نے پریس کانفرنس کرکے ’آپ‘کی حمایت کا اعلان کیا،مگر کیجریوال نے نہایت ہی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کی حمایت کو خارج کیا؛بلکہ انھوں نے صاف کہاکہ کسی کی حمایت کے بغیرہی مسلمان بھی ہمارے ساتھ ہیں اوردوسرے مذاہب اور برادریوں کے لوگ بھی اور آج جو نتائج سامنے آئے ہیں،ان سے کیجریوال کی بات کی صداقت جگ ظاہر ہوگئی ہے۔لوک سبھا کے بعداِن نتائج سے ایک بارپھریہ ثابت ہوگیاہے کہ مذہب اور مذہبی جذبات کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے اور مسلمانوںکے جذبات کا استحصال کرنے کی پالیسی پرہمارے قائدینِ ملت کونہ صرف نظرِ ثانی کرنی ہوگی؛بلکہ اسے بدلنا بھی ہوگا۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ لوک سبھا میں انتہاپسندقوتوںکے برسرِ اقتدارآنے میں ان کی ’بھانت بھانت کی اپیلوں‘نے غیر معمولی کرداراداکیاتھا اور وہ پھردانستہ یا نادانستہ طورپر یہی کرواناچاہ رہے تھے،مگرمسلمانوں نے ان کی ایک نہیں سنی ہے۔یقیناً مسلم لیڈرشپ کی سطح پرنئے سرے سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔

     کیجریوال کی اس جیت سے غیر بی جے پی پارٹیوں کا خوش ہونا فطری ہے؛کیوںکہ جوکام وہ سب تقریباً مل کر نہیں کر پارہی تھیں،وہ’مفلرمین‘نے تنِ تنہاکردکھایاہے اور وہ بھی اس خوبی سے کہ گویا بی جے پی کو دھول چٹا کر رکھ دی ہے،سولالوسے لے کر نتیش اور شردیادوتک اور ممتابنرجی سے لے کر سیتارام یچوری تک اور جنوب کے سیاسی لیڈران بھی بہت خوش ہیں اور سبھی کیجریوال کو مبارک باد پیش کررہے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کے شریکِ سفر،مگرمودی سے کھنچے کھنچے رہنے والے ادھوٹھاکرے نے بھی کیجریوال کی اس جیت کو’سنامی‘سے تعبیر کیاہے۔میڈیامیں بھی اور خود بی جے پی میں بھی ایک دل چسپ بحث یہ چھڑگئی ہے کہ آخر اس شرم ناک ترین ہارکا ذمے دار کس کو قراردیاجائے؟یوںتوکرن بیدی نے اس کی ذمے داری اپنے کندھوں پر لینے کی کوشش کی ہے،مگرتشہیری مہم میں مودی نے جس طرح کا رویہ اختیار کیے رکھااورانھوں نے جیسی باتیں کیں،ان سے صاف پتاچلتاتھاکہ انھوں نے دہلی الیکشن کو کیجریوال بنام مودی بناڈالاتھا اور اس راہ میں ان کے دستِ راست امیت شاہ ان کے ساتھ ساتھ تھے،سواِس عظیم ہارکی ذمے داری بھی ان ہی کو لینی چاہیے اور کیجریوال کے گرواناہزارے نے تو صاف طورپرکہہ بھی دیاہے کہ یہ ’مودی کی ہارہے‘۔صرف ۹؍مہینوںکے اندراِس بری طرح پچھڑنے کے بعدمودی اینڈکمپنی کو سوچناتوپڑے گاکہ وہ جس راہ پرچلے جارہی ہے،وہ ہندوستان کے عوام کو قطعاً پسندنہیں ہے اور انھوں نے اس کے لیے انھیں لوک سبھا میں اکثریت نہیں دی تھی۔یوںبھی مستقبل قریب میں ہی لگار بہار،یوپی،مغربی بنگال اور پنجاب جیسے صوبوںمیں انتخابات ہونے ہیں۔

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 533