donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nazish Huma Qasmi
Title :
   London Me Shikari Bana Shikar


"لندن میں شکاری-بنا شکار"


نازش ہما قاسمی

9322244439


اسلام امن و سلامتی، اخوت ورواداری، پیارو حمیت اور انسانیت کا علمبردار ہے، اس کے دامن میں کردار سازی، ہمدردی اور انسانیت ہے، اخلاقیات کا عروج ہے، رحم و کرم کی تلقین ہے، ایثار و قربانی کے جذبے کا پیغام ہے، جود و سخا کی متحیرکن مثالیں ہیں، عقیدہ اور عقیدت کی اتھاہ گہرائیاں ہیں، حیاتِ انسانی کو پرسکون بنانے کے لئے زریں اصول موجود ہیں، کائنات میں فسادات برپا کرنے پر خونِ انسانی بہانے پر وعیدیں اور خداوند تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ انسانیت کی آبیاری کرنے پر انعامات اور نوازشات کا اعلان، رشتوں کی قدر، آپسی تعلقات میں ضابطگی پیدا کرنے کی حتی الامکان کاوشیں، فرد کی اصلاح سے لے کر جماعت تک کی اصلاح اسلام خوبصورتی سے کرتا ہے۔ اس کا تصور بھی دیگر جماعتوں میں عنقاء ہے، جس میں معاشرہ پیار و محبت بھر ا سماج اسلامی احکامات پر عمل کا نتیجہ ہے، یہ الفاظ کی اختراع یا جملوں کی تخلیق نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کی تاریخ حرف بحرف تصدیق کرتی ہے، جن کا جھٹلانا عقلاً محال ہے، سورج کی ضیاء پاش کرنوں کا کون انکار کر سکتا ہے اور کون ہے جو چاند کی چاندنی کو تسلیم نہ کرے، اگر کوئی ایسی حرکت کر رہا ہے تو اس کو اپنی عقل کی خیر منانی چاہئے لیکن یہ سب ہورہا ہے۔ تشدد نے ان حقائق کا انکار کیا، تعصب نے ان خوبیوں کو جھٹلا دیا، انسانیت بلبلا کر رہ گئی، آدمیت تڑپ کر رہ گئی۔ ایک شخص نے سرعام یہ حرکت کی اور مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی، مسلمانوں کو صوفی ازم سے شکست خوردہ قرار دیااور یہ جملے اس شخص کی زبان سے نکلے جو دنیا کی عظیم جمہوریت ہندوستان کا وزیر اعظم ہے، جو پچیس کروڑ مسلمانوں کی دھرتی ہے اور ان کی عقیدت و محبت اپنے وطن سے بے انتہا ہے، جس کی سچائی کو میدان جنگ سے معلوم کیا جاسکتا ہے، ان کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے اس شخص کو عار محسوس نہیں ہوئی، عجیب حال کا شکاری ووٹ مانگتا ہے تو ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی بات کرتا ہے، برسراقتدار آتا ہے تو انہیں نظریات کی ترویج و اشاعت اور نفاذ پر ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیتا ہے جو اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ عدم روداری اور تشدد کی ایسی فضا قائم کرتا ہے کہ ساری دنیا چیخ پڑتی ہے، عدل پسند اور منصف لوگ اعتراضات و سوالات کی بارش کردیتے ہیں۔ مودی کا برطانیہ دورہ اس بات کا گواہ ہے، ’’واپس جائو، واپس جائو‘‘ ، ’’مودی ناٹ ویلکم ‘‘ ، ’’مودی ناٹ ویلکم‘‘ کے نعرے ان کی باتوں کی قلعی کھول رہے ہیں، سڑکوں پر ’’دہشت گرد، دہشت گرد‘‘ چلاّنا حقائق کو آئینہ دکھا رہا ہے، سارے برطانیہ میں ان کی تذلیل، اخبار و رسائل کی سرخیاں، مضامین، صحافیوں کی  بے داغ صحافت نے وا کردیا ہے کہ مودی کس طرح کے ہیں، بادشاہ یا تانا شاہ؟ مودی نے ہندوستانی تہذیب کو دنیا بھر میں رسوا کرا دیا اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچائی۔ جب یہ سوال ہوا کہ دس سال تک آپ پر پابندی تھی، آپ برطانیہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لائق نہیں سمجھے جاتے تھے تو مودی نے سرعام وہ جھوٹ بولا کہ صحافیوں اور اہل مجلس کے قہقہوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی عزت بھی تار تار ہوگئی، وہ ملک جس کے ہر دور پر سچ کی جیت لکھا ہوتا ہے، جہاں سچائی کے علمبردار افراد نے جنم لیا، جس سرزمین پر گاندھی جیسے افراد پیدا ہوئے، جو چشتی و اجمیری اور قاسم ومحمود جیسے افراد کا مسکن ہے، اس کا وزیر اعظم اتنی دلیری سے جھوٹ بول رہا ہے، اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے آخر کیا کیا جائے گا؟


 برطانیہ کا ہر اخبار مودی سے ہندوستان میں پھیل رہی عدم رواداری کا سوال کر رہا ہے۔ گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا حساب مانگ رہا ہے، ہر صحافی کی زبان یہی سوال کر رہی ہے کہ آخر کب تک وہ انسانوں کے بہتے خون پر تماشائی بنے رہیں گے؟ وہ کون سا دن ہوگا جب وہ فرقہ پرستی کے خلاف دیگر ممالک کو نصیحتیں نہ کرکے اس پر خود عمل کریں گے اور ہندوستان میں عدم رواداری پر لگام کسی جاسکے گی؟ اور مودی بھی ایک ہی جواب دے رہے ہیں کہ ہم کسی شہری کی حفاظت سے غافل نہیں ہیں، ملک میں کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے تو وہ ہمارے لئے تشویش اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے اور ہم اس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور کریں گے مگر ان الفاظ کا صداقت سے کتنا تعلق ہے یہ تو ہر شخص جانتا ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر مودی جھوٹ کے دم پر کب تک سیاسی منظر نامے پر قابض رہ سکتے ہیں؟ آخر کتنے دن کاغذ کی نائو میں سفر کر سکتے ہیں؟ بہار انتخاب ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا؟ کیا عوام و خواص میں گھٹتے قد سے انہیں کوئی فرق نہیں یا پھر وہ اتنے کمزور ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے۔ اسباب و عوامل چاہے جو ہوں مگر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جو شخص اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے نکلا تھا ذلت اس کو ہر قدم پر مل رہی ہے اور صرف اسی کو نہیں بلکہ اسے اپنے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب کو رسوا کیا، جس کی علامت ہے انیش کپورے کے الفاظ ’’ہندو طالبان‘‘ تیزی سے پھیل رہا ہے، ان الفاظ کو سن کر ہندو ایک بار پھر شرمسار ہوا اور خفگی محسو س کی ہر اس شخص نے جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ بی جے پی کے لوگ چراغ پا ہیں مگر حقائق کون مٹا سکتا ہے۔


(مضمون نگاربصیرت میڈیاگروپ کے نیشنل بیورو چیف ہی)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 513