donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Yeh Zalzala Nahi Khuda Ka Qahar Tha


یہ زلزلہ نہیں ،خدا کا قہر تھا…انسان کو کب ہوش آئے گا؟


 ۔ریاض عظیم آبادی


زمین اور زلزلہ کے درمیان جو رشتہ ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔26؍اپریل 2015 کونیپال کے کوڈاری کو سنٹربنا کر جو زلزلہ آیا اس نے نیپال میں قیامت برپا کر دیا اور بہار،اتر پردیش،دہلی میں زمین لرزنے لگی،بہار کے سپول، مدھے پورا، بھاگلپور، دربھنگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، مغربی ومشرقی چمپارن ، گیا،اورنگ آباد اور پٹنہ میں زلزلہ سے وحشت و دہشت کی وجہہ سے افراتفری کا ماحول کا ماحول رہا،28؍اپریل تک سبھی سرکاری و غیرسرکاری اسکول بند کر دیے گئے،200سے زیادہ افراد موت کے منھ میں سما گئے، صرف نیپال میں 3000سے افرادزندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے،زخمیوں کی تعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے،تبت کو بھی زلزلے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔7؍مارچ2006 کے گجرات زلزلے کے بعد یہ سب سے بڑا اورخطرناک زلزلہ تھا۔

26؍اپریل2015کو زلزلہ کی شکل میں جو قہر نازل ہوا اس میں کاٹھمنڈو (نیپال) صرف 30سیکنڈ میں اپنے محور سے جنوب کی جانب دس فٹ کھسک گیا اور زمین کا7200کیلو میٹر حصہ تین میٹر اوپر اٹھ گیا۔ نیپال میں جو زلزلہ آیا اس کی شدت کو7.9ریکٹر اسکیل پر ناپا گیا۔انڈین پلیٹ کے یوریشین پلیٹ کے نیچے کھسکنے سے ہوئے جدوجہد کی وجہ سے زمین کا 7200مربع کیلومیٹر اپنی جگہ سے تین میٹراوپر اٹھ گیا۔ اس کھینچاتانی سے جو انرجی سامنے آئی اس کی شدت ناگاساکی ہیروشیما میں گرائے گئے بم کی انرجی سے504.4گنا زیادہ تھی۔واڈیا ہمالین ادارہ نے تحقیقات کے بعد یہ بات کہی ہے۔تحقیقات یہ بھی بتاتی ہے کہ1934کے زلزلے میں زمین6میٹر کھسکی تھی۔2011 کے زلزلے میںزمین17سینٹی میٹر جھک گئی تھی۔ یہ دونوں واقعے نیپال۔بہار کی سرحد پر ہوئے۔2010میںچلّی میں جو خوفناک زلزلہ آیا تھا اس میں زمین8سینٹی میٹر جھکی تھی اور 2004میں سماترہ (انڈونیشیا) میں آئے زلزلہ میں زمین17سینٹی میٹر جھکی۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زمین انسانوں کے گناہوںاور ہوس کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہی ہے اور مسلسل قدرت سے چھیڑ خوانی کرنے میں مصروف ہیں ،ماحولیات کو نقصان پہچانے کی کسی کاوشوں پر روک لگا نے کے لیے تیار نہیں ہیں،جس طرح سے ہمالہ کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی جا رہی اسکا خمیازہ صرف نیپال کو نہیں بلکہ پورے شمال مشرق ہندستان کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

ایک تاریخی دستاویزمنتخب الالباب کے مطابق ۱۱؍جولائی1720کو شاہجہان آباد(دہلی) میں 22؍ویں رمضان کو جب لوگ نماز ادا کر رہے تھے تو بھیانک زلزلہ آیا اورسینکڑوں افراک ہلاک ہو گیے،40روز تک زمین کے جھٹکے محسوس کیے گیے۔اسکے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق ۱۱؍اکتوبر1736کو کلکتہ اور اسکے اعتراف بھیانک زلزلہ آیا تھا جس میں ساڑھے تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔چونکہ زلزلے کا سمندر میںتھا اسلئے بڑے پیمانے پر جہاز اور کشتیوں کی تباہی ہوئی تھی۔یکم ستمبر1803میں متھرا دہلی کا علاقہ زلزلہ سے لرز اٹھا تھا، جگہ جگہ پر سڑکیں پھٹ گئیں اور زمین سے پانی فوارے کی شکل میں نکلنے لگے۔ قطب مینار کا اوپری حصہ لڑھک کر نیچے گر گیا۔ دہلی متھرا میں ہزاروں لوگ موت کی نیند سوگئے۔

18؍جون1819کوشام چھ بج کر45منٹ پر گجرات کے کچھ علاقے میں8.2 ریکٹر اسکیل کا خوفناک زلزلہ آیا جس میں 1543افراد ہلاک ہوئے۔31؍دسمبر1881 میں انڈمان  جزیرہ میں جو زلزلہ آیا اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ٹھیک اس کے16برس بعد12؍جون1897کو آسام کے شیلانگ میں خوفناک زلزلہ آیا جس میں 1500افراد مارے گئے۔4؍اپریل1905میں ہماچل پردیش کے کانگرہ میں زمین لرز اٹھی اور20ہزار سے زیادہ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت7.8تھی۔15؍جنوری1934کو نیپال بہار میں جو خوفناک زلزلہ آیا جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ اس زلزلہ کو برصغیر ہند کا سب سے خطرناک زلزلہ بتایا گیا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت8.2تھی۔جس میںدس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ 31؍مئی 1935کوصبح تین بج کر دو منٹ پر جو زلزلہ آیا اس میں60ہزار لوگ مارے گئے۔ زلزلہ کی تاریخ میں انسانی اموات کے معاملے میں سب سے بڑا قہر اسے تسلیم کیا گیا ہے۔26؍جون1941میں صبح آٹھ بج کر پچاس منٹ پر انڈمان میں دوبارہ زلزلہ آیا جس میںسات ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔15؍اگست1950کو اروناچل پردیش میں 1526افراد مارے گئے۔ہند نیپال سرحد پر20؍اگست1988کو آئے زلزلہ میں6553افرادزخمی ہوئے۔ٹھیک یوم جمہوریہ کے دن2001میں گجرات کے زلزلہ میں 20ہزار افراد مارے گئے جن میں اسکولی بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔26؍دسمبر 2004 کو لنکا مالدیپ سمندری علاقے میں آئے زلزلے سے283,106افراد ہلاک ہوئے جن میں15000ہندوستانی تھے۔8؍اکتوبر2005کو کشمیر میں جو زلزلہ آیا تو ایک لاکھ 30ہزار افراد موت کی آغوش میں سوگئے۔

زلزلہ اور زمین کے رشتے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔زمین کے نیچے مختلف پلیٹوں کے سٹنے یا جدا ہونے سے جو حرکت ہوتی ہے اسے ہی زلزلہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔2008کے زلزلہ میں اسکولی بچوں کے مرنے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ زلزلہ دوپہر کے وقت آیا تھا۔ زیادہ تر زلزلہ رات کے وقت آتے رہے ہیں۔26؍ اپریل2015کو جو زلزلہ آیا وہ بھی دوپہر کے وقت آیا۔مندروں کا شہر ملبے میں تبدیل ہوگیا، بڑی بڑی عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمالہ سے سٹے بہار کے علاقوں میں بھی اس کے شدید اثرات دیکھنے کو ملے۔ بہار میں مرنیوالوں کی تعداد125پہنچ چکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ80برس کے بعدنیپال میں طاقتور زلزلہ کا جھٹکا لگا ہے۔اس کے بعد سے66جھٹکے مزید لگ چکے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ایوریسٹ کی چوٹی موجودہ زلزلہ کے زد میں آئی ہے۔ ایوریسٹ پر جانے والی کئی ٹیم تباہ ہوچکی ہیں۔ اگر ہمالیہ کو نقصان ہوا تو بہار، اترپردیش اس کی زد مین آجائیں گے اور زبردست تباہی کبھی بھی ہو سکتی ہے۔دولت کے پجاری اور دولت کی ہوس میں جس طرح سے ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو ہمیں موجودہ آفت سے بھی زیادہ خطرناک حالات کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ زمین حساس ہوتی ہے وہ قدرت کے ساتھ چھٰرچھاڑ برداشت نہیں کرتی ہے۔

رابطہ : موبائل9431421821


**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 507