donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Tabrez Qasmi
Title :
   Wazeer Aazam Ke Beyan Ka Khair Maqdam Lekin


وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم لیکن


شمس تبر یز قاسمی


ہند وستان کی وزرات عظمی کے منصب پر آج وہ شخص فائز ہے جس کی تقریبا دنیا کے تمام سیکولر افراد نے مخالفت کی تھی ۔گجرات فساد کے پس منظر میں نریندر مودی کے دامن پہ جو داغ لگا تھا وہ اب تک دھل نہیں سکا ہے ۔آج وہ ہندوستان کے وزیراعظم ضرور ہیں ۔پچیس کڑور مسلمان سمیت ایک ارب تیس کروڑ ہندوستانیوں کے سربراہ ہیں۔امریکہ نے بھی پی ایم بننے کے بعد ان کو معافی کا پروانہ دے دیا ہے ۔لیکن گجرات فساد کے سلسلے میں مسلمانوں کی نگاہ میں وہ آج بھی مجرم ہیں ۔جب تک اپنی غلطی کی تلافی نہیں کرلیتے ہیںاس سے ان کو چھٹکارا نہیں دیا جا سکتا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کوروز اول سے ہی مسلم مخالف لیڈر سمجھاتا ہے ۔انتخالی تشہیر کے دوران بھی انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ۔اور نہ ہی اپنے دور اقتدار میں سو دنوں سے زائد کی مدت گزرجانے کے بعد ہی انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات کی ۔گذشتہ دو دن قبل انہوں نے ایک بیان دے کر مسلمانوں کو ایک نئی کشمکش کا شکار بنادیا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 ستمبر کو وزیر اعظم بننے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو ایک بین الاقوامی میڈیا سی این این کو دیا ہے ۔ان سے انٹرویو لینے والے ہند نژاد مسلم صحافی فردید زکریا نے سوال کیا کہ القاعدہ کی طرف سے جاری کردہ انٹر ویو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔القاعدہ کی جانب سے کچھ دنوں قبل ایک وڈیو جاری کی گئی تھی جس میں القاعدہ سربراہ ایمن الظوہری کو یہ کہتے ہوئے سناگیا تھا کہ ہم ہندوستان میں اپنی نئی شاخ’’ قاعدۃ الجہاد‘‘ قائم کریں گے۔جو برصغر خاص طور پر ہندوستان میں اسلامی خلافت کے قیام کے لئے اپنی تحریک چلائے گی۔ اس میں یہ اپیل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ گجرات اور کشمیر میں ظلم کا سامنا کر رہے مسلمانوں کو وہ نجات دلانا چاہتے ہیں۔۔ویڈیو میں یہ بات بھی کہی گئی تھی ہندوستانی مسلمان ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ہر چند کہ اب تک اس کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیا یہ ویڈیو فرضی ہے ،انڈین مجاہدین اور سیمی کے طرز مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوںکے پیچھے ڈالنے کی ایک نئی سازش ہے یا پھر یہ مبنی برحقیقت ہے ۔بہرحال اسی ویڈیو کے پس منظر میں ان کا سوال تھا جس کا جواب ہمارے وزیر اعظم نے اپنی قدیم روایت سے ہٹ کر کچھ یوں دیا  


’’ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی مسلم ملک کیلئے ہی جئیں گے اور ملک کیلئے ہی مریں گے۔انہوں نے کہا کہ القاعدہ کو اس بات کاگمان ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچیں گے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ مسلمان ان کے اشاروں پر ناچیںگے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ہندوستانی مسلمان جان دے دیں گے لیکن ملک کے ساتھ غداری نہیں کرسکتے ۔وہ ہندوستان کے لئے برا نہیں سوچیں گے۔انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے پڑوس میں افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کا اچھا اثر ہے۔ہندوستان میں تقریبا 17کروڑ مسلمان ہیں لیکن ان میں سے القاعدہ کے رکن نہ ہونے کے برابر ہیں۔انہوں نے القاعدہ کو انسانیت کے خلاف مصیبت بتاتے ہوئے اس کے خلاف ایک جٹ ہو کر لڑنے کی بات کہی‘‘۔

وزیر اعظم کے اس بیان کو کس نظریہ سے دیکھا جائے اس کا کیا مطلب لیا جائے اس سلسلے میں کچھ بھی کنہا مشکل ہے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے حالیہ دنوں میںبے جی پی کی مسلسل ہورہی شکست سے خوف زدہ ہوکروہ اب اپنی قدیم پالیسی ہے ہٹ کرمسلمانوں کا ساتھ بھی چاہ رہے ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے ستمبر کے آخری ہفتہ میں امریکہ کے دورہ پر روانہ ہورہے ہیں جہاں ان پر پابندی عائد تھی لھذا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے مسلمانوں سے ہمیں ہمدردی ہے ۔ہمارے ملک میں وہ برابر کے شریک ہیں۔وزیر اعظم کے اس بیان پر مسلم لیڈروں کا ردعمل مختلف ہے کسی نے اسے مفاد پر ستی کی سیاست پر محمول کیا ہے تو کسی نے خیر مقدم کیا ہے ۔عالم اسلام کی عظیم درس گا ہ دارالعلوم کے دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب نے بہت ہی نرالے انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ ’’ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کی وفادار ی اور حب الوطنی کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے ۔ہندوستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ملک کے لئے مسلمانوں نے ہمیشہ و فادار ی کے ساتھ قربانیاں پیش کی ہے ‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا مسلمان وفادا رہے ۔یہاں کی مٹی میں ہمارے خون پیوست ہیں ۔اس گلشن کو ہمارے آباء اجداد نے خون جگر سے سینچا ہے۔ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں کے بغیر نامکمل ہے ۔مسلمانوں نے کبھی بھی القاعدہ ،طالبان اوراس طرح کی دیگر جماعتوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ بی سی سی کی رپوٹر خدیجہ عارفہ نے کچھ دنوں پہلے مجھ سے ایک انٹر ولیا تھا اس دوران انہوں نے ایک نئی بات بتائی جو مجھے معلوم نہیں تھی ،کہ 2001 میں افغانستان پر جب امریکہ حملے ہورہے تھے ان دنوں طالبان سربراہ ملا عمر نے دار العلم دیوبند نے کے نام ایک خط لکھ کر ان سے رہنمائی چاہی تھی لیکن دار العلوم نے اس سلسلے میں کوئی جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیا ر کی۔

وزیر اعظم کا یہ پہلا انٹر ویو تھا ۔اس بیان کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں میں ایک مثبت پیغام دینے کی کو شش کی ہے اس لئے اس تناظر میںمیر ی ذاتی رائے یہ ہے کہ گجرات فساد اپنی جگہ برقرارہے  وزیر اعظم بنے سے ان کا گنا ہ معاف نہیں ہوگیا ہے ۔لیکن بحیثت وزیرعظم ہمیں ان کے بیان کو مثبت نظریہ سے دیکھناچاہئے ۔ان کے اس بیان کا خیر مقدم کرنا چاہئے کیوں کہ وہ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیڈروں سے اس طرح کو توقع نہیں تھی ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اس بیان کے ذریعے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن اس کے لئے انہیں لگے ہاتھ یہ کام کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ممبران پارلیمنٹ پر نکیل ڈالیں ۔کیوں کہ انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب بی جے پی لیڈران مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں۔محبتوں کے رشتے میں نفرت کی بیج بو رہے ہیں۔مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دے رہیں ۔قربانی کو دہشتگر دی کی ٹرینیگ سے تعبیر کررہے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف ’’لو جہاد‘‘ او ر’’میٹ جہاد‘‘ جیسی تحریک چلارہے ہیں۔نریند مودی ہندوستان کے ایسے وزیر اعظم مانے جاتے ہیں جن کا ممبران پارلیامنٹ پہ مکمل کنٹرول ہے ۔ہمارے پاس یہ اطلاعات ہیں کہ نریندر مودی نے ایک ممبرپارلیامنٹ کی ان کے جنس پہنے پر سرزنش کی تھی ۔ایک دوسرے کو انہوں فون کرکے اس لئے ڈانٹا تھا کہ انہوں نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کسی قریبی رشتے دار کو پرسنل سیکیرٹری منتخب کرلیا تھا۔غرض یہ کہ مودی کو اپنے ارکان پہ مکمل کنٹرول حاصل ہے وہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی دخل اندازی کرتے ہیں۔ لہذا ان کے لئے ضرور ی ہے کہ وہ اپنے اس بیان پہ صداقت کی مہر لگاتے ہوئے ان بے لگا م لیڈروں پہ لگام لگائیں ۔یوگی آدتیہ ،شاکسی مہاراج ، منیکا گاندھی اوراپنے سربراہ اعظم موہن بھاگوت کی اشتعال انگیز ی پہ نوٹس لیں ان کے اس مسلم مخالف بیان پہ ان کی سرزنش کریں۔تب ہی یہ معلوم ہوسکے گا مودی جی کا مسلمانوں کے تئیں دیاگیا بیان حقیقت پر مبنی ہے ، سیکولر ہندوستان کی ترجمانی کررہا ہے ۔یا پھر بطور وزیر اعظم مجبوری میں منہ سے نکلاہوا جملہ ہے ۔ان کا مشن اپنی جگہ برقرار ہے ۔وہ اب بھی آرایس ایس اور بی جے پی کے رام راجیہ والے ایجنڈے پر ہی عمل پیرا ہیں۔ان کے عہدوں میں تبدیلی آئی ہے ان کی سوچ وفکر اپنی جگہ اٹل ہے ان کے مشن اور ایجنڈے اپنی جگہ برقرار ہیں ۔

مضمون نگار بصیرت آن لائن کے ایڈیٹر ہیں۔

8802175924
stqasmi@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 557