donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Ali Kolkata
Title :
   Maujuda Poore Nezam Ki Overhauling Ki Zaroorat Hai

 

 موجودہ پورے نظام کی اُووَرہالنگ کی ضرورت ہے
 
سید علی، کلکتہ
 
        سال گزشتہ جاتے جاتے پورے ملک اور سماج کے دامن پر عصمت ریزی کا انمٹ داغ چھوڑ گیا۔ اس وقت پورے ملک کا ، سماج کے ہر طبقے کا فوکس دامنی کی آبروریزی اور اس کی موت پر مرکوز ہے ۔ یہی گلی کوچے کا موضو ع بنا ہوا ہے۔ سیاسی گلیاروں ،سرکاری ایوانوں اور دفتروں میں اسی حادثہ کا چرچا ہے ۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ خاطی درندوں کو سزائے موت دی جائے اور ساتھ ہی عصمت ریزی کے مجرموں کے لئے سخت سے سخت سز اکا قانون بنایا جائے ۔ سزائے موت کے علاوہ زانیوں کو نامرد بنا دیئے جانے کا بھی مطالبہ کیاجا رہا ہے ۔ وزیر داخلہ نے عصمت دری قوانین میںضروری تبدیلیوں کے لئے سیاسی جماعتوں سے مشورے طلب کئے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ تجاویز پیش کریں کہ عصمت دری کے لئے سزا کو اور زیادہ سخت کرنے کے لئے موجودہ قوانین میں کیا تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ یہاں حکومت پھر وہی غلطی دہرا رہی ہے کہ مشورے کے لئے صرف سیاسی پارٹیوں ہی کو کیوں قابلِ التفات سمجھتی ہے مذہبی اور سماجی جماعتوں اور ماہر نفسیات کو اعتماد میں کیوں لینا نہیں چاہتی ؟ عصمت دری کا مسئلہ صرف قانونی ہی نہیں اخلاقی ، مذہبی اور سماجی بھی ہے اس پہلو کو نظر انداز کرکے معاشرے سے اس قسم کی قبیح برائیوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا ۔یہ بات حکومت اور عوام کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آگ بغیر پٹرول کے نہیں لگتی اس پہلو کو اہمیت دینی ہوگی کہ قصور صرف آوارہ مردوں ہی کا نہیں ان خواتین کا بھی ہے جو نیم عریاں اور تنگ و چست لباس میں مردوں کے دوش بدوش سرگرم رہتی ہیں اور مخلوط سوسائٹی کا نصف حصہ بنی ہوئی ہیں۔ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا جو فحش اور مخرب اخلاقی مناظر ٹی وی کے پردوں اور سنیمائوں میں پیش کئے جا رہے ہیں، تفریح اور تجارتی اشتہارات کے حوالے سے شہوانی اور جنسی ہیجان کو فروغ اور سفلی جذبات کو بھڑکایاجا رہا ہے ۔ ذرا قومی کہے جانے والے ان اخبارات کے صفحات تو دیکھئے جو عصمت ریزی کے خلاف آسمان سرپر اٹھائے ہوئے ہیں اوربہت بڑے مصلح کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عورتوں کی ننگی اور اشتعال انگیز تصویریں کس اخلاقی و سماجی خدمت اور مساوات کے جذبے سے شائع کررہے ہیں۔ حکومت نے قحبہ خانے اور شراب کے لئے کس اخلاقی ضابطے کے تحت لائسنس دے رکھی ہے کیا ان کو نہیں معلوم کہ شراب اور زنا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؟ کس اخلاقی ضابطے کے تحت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مخلوط تعلیم کو بے ضرر سمجھا جا رہا ہے اورجنسی تعلیم کو قانونی شکل دی جا رہی ہے اور بے شرمی کے ساتھ کنڈوم کو ’’نصاب تعلیم‘‘ میں رائج کیاجا رہا ہے ۔ آزادیٔ نسواں اور مساوات کے پر فریب مغربی ثقافت کی تقلید میں یہاں جو کچھ طریقہ اختیار کیاجا رہا ہے وہ ہرگز عورتوں کی ترقی اور آزادی کا زینہ نہیں یہ پہلو سماج کا دھوکہ ہے جسے جتنی جلد ہوسکے سمجھ لیاجائے اور اس کی اصلاح کرلی جائے ورنہ یقین کے ساتھ کہاجا سکتا ہے کہ صرف سخت سے سخت قانون سے جنس زدہ ماحول کو بدلا جا سکتا ہے نہ عصمت ریزی کے قبیح فعل کو روکا جا سکتا ہے۔ کیا مشاہدے سے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ عصمت ریزی کا واقعہ صرف بسوں، ٹیکسیوں ،سڑکوں ، پارکوں، تعلیم گاہوں اور کھیتوں کھلیانوں ہی میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ گھروں اور مکانوں کے اندر ہو رہا ہے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ ہو رہا ہے کیاقانون کا ہاتھ وہاں تک پہنچ سکے گا؟ کیا ذہنی و اخلاقی تربیت اور ذہن سازی کے بغیر اس کو روکا جا سکے گا؟
 
16
 دسمبر کی شرمناک اور بہیمانہ اجتماعی عصمت دری کے بعد پورے ملک میں اس کے خلاف غیر معمولی     احتجاج و مظاہرہ ہوا  اور  ا بھی تک ہو رہا ہے لیکن اسی دو ہفتے کے دوران اخبار ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 18 ریاستوں میںکم ازکم 22عصمت دری کے واقعات پیش آئے ان میں کم ازکم 9واردات میں بھائی ، دوست، کالج کے ساتھی ، پڑوسی اور شوہر کے دوست ملوث پائے گئے ہیں۔ کیاکوئی سخت سے سخت قانون سماج کی رگ رگ میں سمائی جنسی حیوانیت کو روک سکتا ہے؟ جنسی مریض کو نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے نہ سماج کا ،وہ تو بے قابو جذبات کا اسیر ہوتا ہے۔،وہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ، وہ طاقت اور دولت کے زور پر شکار عورت کا منہ بند کرسکتا ہے قانون کو خرید سکتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ عزت کے ڈر سے متاثر عورت سب کچھ خاموشی سے برداشت کر لے گی۔ اگر اسے اخلاقی شعور ہوتا، زنا کو گناہ سمجھتا اور اس کی سزا کا علم ہوتا، سماج کا ڈر اور قانون کا خوف ہوتا تو کوئی بڑے سے بڑا بدکردار عصمت دری کے ارتکاب سے پہلے دس بار سوچتا۔ بے شک عصمت دری کی سزا موت ہونی ہی چاہیے لیکن اس سنگین سزا سے پہلے فرد کی ذہن سازی معاشرے کی تطہیر اور پولس اور انتظامیہ کو خصوصی اخلاقی تربیت دے کر ذمہ دار بنایاجائے ان کے اندر اخلاقی قدروں اور انسانی حرمتوں کا داعیہ ابھارا جائے، سزا دینے سے پہلے جرائم کے اسباب کا سدباب ہونا ضروری ہے سماج اور سماجی برائیوں کا ازالہ کئے بغیر قانون ویسا ہی ہے جیسے گھوڑا کے آگے گاڑی باندھنا ۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ قتل، عصمت دری اور ظلم وغیرہ کو قومی اور سماجی مسئلہ سمجھ کر انصاف بنایا جائے ۔ رنگ نسل اور مذہبی تفریق کو بنیاد ہرگز نہ بنایا جائے  لیکن افسوس کہ آج کا ہمارا یرقان زدہ متاثرہ اور حکومت برائیوں کے درمیان بھی تفریق کرتی ہے اور ذات برادری اور پارٹی کی نظر سے جرائم کا تعین کرتی ہے ۔ مثال کے طورپر آج سے دس سال پہلے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم چلائی گئی اور بہت ساری مسلم عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی اور اس کا ویڈیو تیار کرکے نمائش کی گئی ،اسی دوران ایک ایسے سنگین جرم کی  تاریخ بنائی گئی جس کی مثال دنیا کے کسی غیر مہذب اور غیر متمدن ملک ومعاشرہ میں نہیں ملتی۔ ایک حاملہ خاتون کا پیٹ چیر کر نومولود بچہ کا قتل کیا گیا ۔ کیا اس کے تعلق سے ہندستان کے کسی حصے میں ویسا ہی احتجاج و مظاہرہ ہوا جیسا کہ دامنی کے معاملہ میں ہوا؟ کیا اس وقت موت کی سزا کا مطالبہ کیاگیا اور کیا ان مجرموں کو گرفتار کیاگیا جو عصمت دری اور قتل کے جانے پہچانے مجرم تھے ؟ کیوں حکومت، پارلیمنٹ  کے ممبراور سیاسی پارٹیاں خاموش رہیں اور ان کے ضمیر نے اس درندگی کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور نہیں کیا؟ گجرات ہی کے سورت شہر میں1993 میں باہری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم خواتین کو درندگی کا شکار بنایاگیا اور برہنہ کرکے ان کی ویڈیو فلمیں بنائی گئیں لیکن ہندستانی کی پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر اس کارتی بھر اثر کیوں نہیں ہوا؟اگر جرائم کی تخصیص کا یہی سلسلہ رہا اور مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر احتجاج کرنے یا خاموش رہنے کا مزاج باقی رہا تو اس قسم کے جرائم کے واقعات کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ ارون دھتی رائے نے بجا طورپر یہ سوال اٹھایا کہ گجرات میں مسلم خواتین کے ساتھ جو انسانیت سوز درندگی ہوئی کیا وہ دامنی کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک سے کم درجہ کا جرم تھا؟ لیکن اس کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟ دامنی کا درد نہ صرف پورے ہندستان میں محسوس کیاجا رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے عصمت دری کو ہندستان کے لئے قومی شرم قرار دیا ہے اور سخت قانون بنانے کا مشورہ دیا ہے ۔ افسوس کہ یہ انسانی حقوق کمیشن بھی گجرات میں ہونے والی عصمت دری پر خاموش رہا۔
کلدیپ نیر نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے … ’’دو سیاسی پارٹیوں نے خطاکار کے لئے فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی عصمت دری کے الزام میں ماخوذ خود ان کے درمیان بیٹھے ہوئے پارلیمنٹ کے ممبروںکے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا جس کے لئے ایک جواز یہ پیش کیاگیا کہ الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے لیکن خود پارلیمنٹ کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ گجرات کے قانون ساز  اسمبلی کے ممبروں میں ایک تہائی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بشمول عصمت دری، دیگر فوجداری مقدامات میں ملوث ہیں… دہلی میں جو کچھ ہوا وہ ایک انتباہ ہے ۔ پورے نظام کی اُووَرہالنگ کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ممبروں کے انتخاب کی بھی نگرانی کی جانی چاہیے۔ ‘‘کلدیپ نیر نے جن تلخ حقائق کی نشا ن دہی کی ہے وہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جب عوام کے نمائندے ہی جرائم پیشہ ہوں تو اصلاح کیسے ہوگی۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون کل سیدھی۔ جڑ ہی سڑ چکی ہے تو شاخوں میں ہریالی کہاں سے آئے گی۔ یہ زخم مرہم پٹی سے اچھا ہونے والا نہیں بے دردی سے جراحت اور آپریشن ضروری ہے۔
………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 773