donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Ayaz Ahmad Roohvi
Title :
   Darde Dil Likhun Kab Tak...Khamae Khochkan Apna


 

دردِ دل لکھوں کب تک۔۔۔ خامہ خونچکاں اپنا
 
سـیـد ایاز احـمـد روہــوی ،    کلکتہ  
Mob.:9339150332
 
اپنے ملک ہندستان کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ اس تلخ حقیقت کا انکشاف ممبئی کی ایک غیر سرکاری رضاکار تنظیم نے قومی جرائم کے بیورو سے حق اطلاعات کے تحت اعداد و شمار کی تفصیلات حاصل کرنے کے بعد کیا تھا۔ یہ خبر جتنی سنسنی خیز اور دل دہلادینے والی ہے اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں اورملک کے مسلم رہنمائوں کے لئے لمحہ فکراور آپسی یکجہتی کے لائحہ عمل ترتیب دینے کی حامل ہے ۔ یہ انکشاف اس بات کی بھی غماز ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب ہندستان کی مسلم قیادت کو مکمل اتحاد کے ساتھ منظم ہوکر ایک مشترکہ حکمت عملی ا ختیار کرتے ہوئے حکومت کو فوراً ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کرے جس کے تحت بے قصوروں کو بے بنیاد الزام لگاکر سلاخوں کے پیچھے نہ ڈالا جا سکے نیز فرضی انکائونٹر اور معصوم نوجوانوں کی گرفتاریوں میں ملوث پولس افسران کو عبرتناک سزا دینے کا قانون وضع کیا جا سکے۔
 
اخبارات میں شائع تفصیلات کے مطابق ان قیدیوں میں جہاں اچھی خاصی تعداد چھوٹے موٹے یا سنگین جرائم کے ارتکاب کے نتیجے میں سلاخوں کے پیچھے ہے وہیں ان قیدیوں میں ایک بڑی تعداد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت بند رکھا گیا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار مسلم نوجوانوں کا تعلق ہے تو ان میں بلاشبہ زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جن پر اب تک الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں اور وہ انتہائی افسوسناک طریقے سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک کے قائدین ملت یہ جانتے ہوئے بھی کہ معصوم مسلم نوجوانوں کے خلاف یہ سب کچھ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیاجا رہا ہے ، مسلم قیادت اس ہولناک سازش کے خلاف اب تک کوئی ٹھوس اور کارگر حکمت عملی تیار نہیں کرسکی ہے جب کہ ملک کے طول و عرض سے معصوم تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں پر دہشت گردی کا من گڑھت الزام لگاکر ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ، دوسری طرف ان نوجوانوں کو پانچ یا دس سال تک سلاخوں کے پیچھے رکھ کر ان کا تابنکا مستقبل تباہ کرنے کے بعد فرضی الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں عدالت سے ان کی رہائی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک درجن سے زائد گرفتار مسلم نوجوانوں کو عدالت نے ضمانت دے دی ہے ان میں بیشتر نوجوان ایسے ہیں جن کے خلاف عدالت کو کوئی ثبوت نہیں مل پایا ہے ۔ زیادہ تر واقعات ایسے ہیں کہ بغیر کسی قصورکے کسی مسلم نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا اور ایک لمبے عرصے تک قید خانہ میں گزارنے کے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالت نے اسے رہا کردیا۔ ان گرفتاریوں اور پھر عدم ثبوت کی بنیاد پر رہائی کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ گرفتاری اور رہائی کے پانچ دس سال کے وقفے کے درمیان ان نوجوانوں کا زریں مستقبل تباہ ہو رہا ہے۔
 
ستم بالائے ستم یہ کہ اب ملک میں دہشت گردی کے خلاف پرانے قانون ہوتے ہوئے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں تاکہ مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو حاصل من مانی کرنے کا دائرہ مزید وسیع کیاجا سکے جب کہ ملک کی کئی عدالتوں سے لے کر عدالت عالیہ نے بھی بے قصور مسلم نوجوانوں کی بے تحاشا گرفتاریوں کے تعلق سے خفیہ ایجنسیوں کے منفی کردار اور تنگ نظر ذہنیت پر پھٹکار لگا چکی ہے پھر بھی مرکز کی یوپی اے حکومت خفیہ ایجنسیوں کے اس مجرمانہ فعل پر لگام کسنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے قائدین ملت اورمسلم ممبر پارلیمنٹ اب تک حکومت ہندسے بے قصور مسلم نوجوانون کی گرفتاریوں کے تناظر میں کوئی پر اثر احتجاج درج کرانے سے قاصر ہیں حالانکہ حکومت ہند کو بھی یہ خوب معلوم ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے جو دہشت گردانہ واقعات رونما ہو رہے ہیں اس کے پیچھے مسلمان قطعی نہیں بلکہ یہ دہشت گردانہ واقعات سنگھ پریوار کے دہشت گردوں کی سازش کا نتیجہ ہیں اور حقیقتاً ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی سچائی یہی ہے کہ سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے کرنل پروہت جیسے خونخوار دہشت گرد ہی ملک کے طول و عرض میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں جس کا اعتراف مرکزی وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے نے بھی علی الاعلان کیا ہے مگر بد قسمتی سے بعد میں سنگھ پریوار کے مسلسل احتجاج سے وہ خوفزدہ ہوکر اپنے بیان سے مکر گئے۔ 
 
المیہ یہ ہے کہ ہیمنت کرکرے کی شہادت کے بعد ابھی تک ملک میں کوئی بھی انصاف پسند پولس افسر سامنے نہیں آیا جو سنگھ پریوار کے ان موذیوں کو گرفتار کرکے سازشوں کے اس گھنائونے جال کو مزید بے نقاب کرتا ویسے کرکرے نے اپنی شہادے سے قبل یہ ثابت کردیا تھا کہ ملک میں تمام دہشت گردانہ واقعات کے پس پردہ سنگھ پریوار کی ذہنیت اور اس کے بھگوا دہشت گرد ملوث ہیں۔ اس کے باوجود ’’اندھی نگری چوپٹ راج‘‘ کے مصداق بے قصور مسلم نوجوانوں کی منصوبہ بند طریقے سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایسی صورت حال میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف یہ کھلم کھلا سرکاری دہشت گردی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب جب کہ حکومت کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حیدر آباد کی مکہ مسجد، مالیگائوں اور اجمیر میں ہوئے بم دھماکوں سے لے کر سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دہشت گردانہ واقعات بھگوا دہشت گردی کی کارستانی کے نتائج تھے اس کے باوجود بے قصوروں کی گرفتاری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔آر ایس ایس زدہ میڈیا بھگوا دہشت گردی کے معاملے میں بالکل خاموش ہے جب کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو یہی متعصب مسلم دشمن میڈیا خونخوار دہشت گرد بناکر پیش کررہا ہے۔ یہ کس قدر غم و غصہ کی بات ہے کہ اب ملک میں ایک عام روایت کا سلسلہ چل پڑا ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقے میں دہشت گردی کے واقعات کو، مسلم دشمن میڈیا، بغیر کسی ثبوت کے، نام نہاد فرضی مسلم گروپ کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی فرقہ پرست ذہنیت کو تسکین دینے کے لئے اس قدر پروپگنڈہ کرتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق متاثر ہوجاتی ہے اور اسی میڈیا یا ٹرائل کو حرف آخر سمجھ کر بے قصوروں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے اور اصل مجرم مسلم مخالف پروپگنڈہ کے طوفان کا فائدہ اٹھاکر صاف بچ نکلتا ہے۔
 
دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا پھر  دہشت گردی کے واقعات کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ مذہب اسلام کے سچے پیروکار دہشت گردی کے واقعے  میں ملوث ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ مذہبِ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور دہشت گردی کا سخت مخالف اگر کوئی مسلمان دہشت گردی کے کسی بھی معاملے میں ملوث ہوتا ہے تو پھر ا س کا رشتہ یقینا مذہب اسلام سے ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالیتا ہے ۔ مذہب اسلام میں شرپسندی یا دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ الزام ثابت ہوجانے پر ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ مذہب اسلام کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح معصوموں اور بے قصوروں کو سزا دینے کی بھی مذہب اسلام میں سخت وعید آئی ہے علاوہ ازیں الزامات ثابت ہوئے بغیر کسی کو دہشت گربناکر پیش کرنا یا پھر اذیتیں دے کر فرضی الزامات کو قبول کروانا بھی قانوناً ایک بڑا جرم ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پچھلے چند برسوں سے بغیر کسی مستحکم ثبوت کے بے قصور مسلم نوجوانوں کی بے تحاشا غیر قانونی گرفتاریاں کس کے حکم پر کی جا رہی ہیں؟ معصوم زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے متعصب تفتیشی افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا ایسا تو نہیں کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے تفتیشی افسران خود بھگوا دہشت گرد بریگیڈ سے تعلق رکھتے ہوں اس کی تفتیش ضروری ہے کیونکہ ایسی خبریں اخبارات میں بارہا آئی ہیں کہ این ڈی اے کے دور حکومت میں بھگوا بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے بے تحاشا متعصب اور شرپسند افراد کو ملک کی تفتیشی ایجنسیوں میں شامل کرلیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی دہشت گردانہ حملوں یا فرقہ وارانہ فسادات کے لئے کسی بھی دہشت گردانہ حملوں یا فرقہ وارانہ فسادات کے لئے ہماری خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرتی رہتی ہیں چہ جائیکہ ایک کے بعد ایک بھگوا دہشت گرد کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے مگر ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں لکیر کے فقیر کی مانند مسلمانوں کے لئے بدستور پریشان کن بنی ہوئی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خفیہ ایجنسیوں میں ایسے افسروں کی کمی نہیں جن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے انہیں بس مسلمانوں کو ستانے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں اٹھاکر ملک کی مختلف جیلوں میں پھینک دیاگیا ہے جہاں انہیں مسلسل جسمانی اذیتوں کا نشانہ بناتے ہوئے مجبور کیاجاتا ہے کہ وہ دہشت گردی جیسے فعل قبیح کے جھوٹے الزاما ت کو اپنے سرلے لیں نہیں تو انہیں عمر بھر سلاخوں کے پیچھے سڑنا پڑے گا۔ رگھو ونشی جیسے کٹر فرقہ پرست خفیہ آفیسر کے دور میں یہی سب کچھ ہوا ہے ۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کب تک متعصب پولس افسران نیز فرقہ پرست ذرائع ابلاغ ملک کے مسلم نوجوانوں کے خلاف اپنی شرپسندانہ مہم جاری رکھیں گے ؟ ہندستان کی مسلم قیادت حکومت ہند سے یہ سوال کیوں نہیں کرتی کہ جن بے گناہ مسلم نوجوانوں کو ایک عرصے تک جیل میں بند رکھا گیا مگر بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو ایسے خاطی پولس افسران جو ان بے قصور وں کو گرفتار کرنے میں ملوث تھے ۔ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اس انتہائی اہم اور حساس موضوع پر مسلم ممبران پارلیامنٹ ایوان میں بحث کرانے کی مہم کیوں نہین چھیڑتے؟ اس سلسلے میں مہاراشٹر سے راجیہ سبھا کے ممبر محمد ادیب لائق صد تحسین ہیں کہ وہ اس سلسلے میں بے خوف و خطر دلیرانہ انداز میں اس حساس موضوع پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال کے ماہ دسمبر میں11پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے15قائدین کا ایک وفد تیار کیا تھا جو بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں سے متعلق تین اہم مطالبات پر مشتمل میمورنڈم لے کر وزیر اعظم شری منموہن سنگھ سے ملا تھا۔ میمورنڈم میں دیگر تفصیلات کے علاوہ کہاگیاتھا کہ کئی مسلم نوجوان برسوں تک مقدمات جھیل کر عدالتوں سے باعزت بری ہوگئے ہیں ان کی باز آبادکاری اور مناسب معاوضہ کا انتظام کیاجائے اور ان خاطی پولس افسران کو سزا دی جائے جن کے خلاف عدالتوں نے پھٹکار لگائی ہے اورجن معاملات میں برسوں سے چارج شیٹ داخل نہیں ہوئی ہے ان کو تیزی سے منطقی انجام تک پہنچایاجائے ۔ اس وفد میں سیتا رام یچوری ، رام ولاس پاسوان، رام گوپال یادو، منی شنکر ایئر، ہنومنت رائو اور شفیق الرحمن برق وغیرہ شامل تھے ۔ وزیر اعظم نے وفد کی شکایت سن کر وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی اس سلسلے میں وزیر داخلہ سے بات کرکے اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی لائحۂ عمل تیار کرنے کے لئے کہیں گے مگر تادم تحریر وہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں ماضی کی طرح بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے ، اس لئے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وزیر اعظم کا وعدہ محض وعدۂ معشوق تھا جس کی تکمیل کبھی نہیں ہونے والی ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے مسلم قائدین محمد ادیب جیسے پرخلوص اور دلیر مسلم رہنما کی قیادت میں مکمل آپسی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع پر پارلیامنٹ کے اندر اورباہر پرامن احتجاج کریں تاکہ اس زیادتی کے خلاف حکومت فوری طورپر کوئی میکانزم تیار کرنے پر مجبور ہوسکے۔ بہرنوع مسلمانوں کے تئیں حکومت کے منافقانہ رویے، خفیہ افسروں کی یکطرفہ کارروائیاں اور ذرائع ابلاغ کی اندھی مسلم دشمنی کو دیکھتے ہوئے غالب کا یہ شعر زبان پہ خود بخود آجاتا ہے   ؎
دردِ دل لکھوں کب تک ، جائوں ان کو دکھلائوں
انگلیاں فگار اپنی ، خامہ خوں چکاں اپنا
………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 788