donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aziz Israyeel
Title :
   Cyber World Me Urdu Ke Farogh Ke Imkanat

سائبر ورلڈ میں اردو کے فروغ کے امکانات


ڈاکٹر عزیر اسرائیل

ایڈیٹر اردو ریسرچ جرنل


آج کا عہد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا عہد ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے ہماری طرز زندگی، رہن سہن، رابطہ اور تعلیم وتعلم کے طور طریقوں کو بدل دیا ہے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بہت سارے الفاظ ایسے آگئے ہیں جن کا آج سے دس سالوں پہلے کوئی وجود نہیں تھا یا ہمارے کان ان سے مانوس نہیں تھے۔ سائبر ورلڈ،  سائبر اسپیس،  نٹی زن،  سوشل میڈیا،  انسٹینٹ میسجنگ،  ای کانفرنسنگ، ای ووٹنگ جیسے الفاظ ہمارے کان ابھی جلد ہی واقف ہوئے ہیں۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تبدیلی کی یہی رفتار رہی تو آنے والے چند سالوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے یا کیا کچھ ہوگا اس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ہمارے بڑے بوڑھے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور جدید اور اعلی قسم کے موبائل کو حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں ویسا ہی آنے والے سالوں میں ہم بھی محسوس کریں گے۔

دینا ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے۔ فاصلے مٹ رہےہیں۔ سائبرورلڈ کی بدولت زمان ومکان کی وسعت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔  اب کوئی شخص آپ کے شہر میں رہ کر آپ سے بات کررہا ہے یا دور افریقہ کے کسی ملک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے لیے دونوں برابر ہیں۔  لیکن ان تبدیلیوں کے اثرات اردو دنیا پر کس طرح سے پڑے ہیں۔ اردو دنیا نے ان سے کیا حاصل کیا ہے مستقبل میں کیا کچھ اس سے حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ہر اہل اردو کو سوچنا چاہئے۔  

سائبر ورلڈ سے مراد کمپیوٹر کا نیٹورک ہے۔ جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے معلومات وصول کرتے اور ارسال کرتے ہیں۔ کمپیوٹر سے مراد یہاں ڈکسٹاپ ہی نہیں ہے بلکہ لیپ ٹاپ، موئل، ٹیبلٹ اور آئی پیڈ کے علاوہ وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن سے انٹرنیٹ کے ذریعہ جڑا جاسکتا ہے۔ معلومات کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔

جب ہم اردو زبان کی سائبرورلڈ میں موجودگی پر گفتگو کرتے ہیں تو عموماً ہمارے لہجہ میں مایوسی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہے کہ سائبر ورلڈ میں اردو موجود نہیں ہے۔ یا اردو کے لیے اس میں جگہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ سائبر کی دنیا میں اردو کا کتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہماری مثال اس اندھے کی طرح ہے جس کے سامنے انواع واقسام کی نعمتیں موجود ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔

سائبر ورلڈ دراصل کمپیوٹر کا ایک جال ہے ۔جس میں مختلف قسم کی معلومات مختلف ویب سائٹ پر بکھری ہوئی ہیں۔ سرچ انجن کی مدد سے ان تک آسانی سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔  اس وقت اردو کے تقریبا سبھی بڑے اخبارات ورسائل انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ یہ اردو والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ پہلے جہاں لوگ کسی ایک اخبار کوہی پڑھ پاتے تھے اب بغیر رقم خرچ کیے کئی اخبارات پڑھ لیتے ہیں۔  لیکن یہ صرف ابتدا ہے۔ مستقبل قریب میں ایسے اخبارات ورسائل کی اشاعت بھی ہوگی جو صرف انٹرنیٹ پر ہی شائع ہوں گے۔ دراصل کسی بھی اخبار کا نکالنے کیے لاکھوں کا خرچ ہے جس کو کوئی عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس پر حکومتی بندشیں اس کام کو مزید مشکل بنادیتی ہیں۔ لیکن یہی کام انٹرنیٹ پر آسانی کے ساتھ آزادی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔  

اردو کے کئی روزنامے بھی انٹرنیٹ پر باقاعدگی اور بے قاعدگی سے شائع ہورہے ہیں۔ ان میں سید مکرم نیاز کا تعمیر نیوز سب سے قدیم  ہونے کی وجہ سے سب پر سبقت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہfactmedia.in  اور asiatimes.co.inغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی اخبارات صرف انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔  ان کو دنیا کے تمام گوشوں میں پڑھا جاسکتا ہے۔  لیکن ان آن لائن اخبارات کی خامی یہ ہے کہ یہ خبروں کو روزانہ اپڈیٹ نہیں کرتے ہیں۔ عموما اخبارات ورسائل سے مواد کو حاصل کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اردو میں آن لائن صحافت کا زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔  حالانکہ دوسری زبانوں میں آن لائن صحافت بہت آگے نکل چکی ہے۔ یاہو نیوز اور ریڈیف نیوز صرف آن لائن شائع ہوتے ہیں لیکن خبروں کی ترسیل میں کسی بھی پرنٹ اخبار سے کم نہیں ہیں۔

ٹی وی چینل قائم کرنا ایک بہت ہی خرچیلا کام ہے لیکن یہ بھی اب ماضی کی بات ہوگی۔ اگرچہ اردو والوں نے ابھی انٹرنیٹ ٹی وی کی طرف توجہ نہیں دی ہے لیکن چوتھی دنیا اور نصیحہ ٹی وی کی مقبولیت دیکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ اردو والے اس جانب بھی توجہ دیں گے۔انٹرنیٹ ٹی وی شروع کرتے کے لیے صرف عمدہ قسم کا کیمرہ اگر ممکن ہو تو ایک اسٹوڈیو کی ضرورت ہوگی۔ اگر ویل فرنیشڈ اسٹوڈیو نہ بھی ہو تو تھوڑی سی تکنیکی جانکاری کے ساتھ اس کو شروع کیا جاسکتا ہے۔اردو والے اور مسلمان عام طور پر میڈیا  میں مسلمانوں اور اردو کی نمائندگی کا رونا روتے ہیں۔ رونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ ایک ڈومین لیں، مناسب اسپیس، کچھ ہزار روپیوں میں اپنا آن لائن ٹی وی چینل کھول سکتے ہیں۔ ابتدا میں یوٹیوب پر چینل بناکر یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ اپنے مسائل، اپنی کامیابیاں اورکارنامے خوبصورت انداز میں پیش کریں۔ آج کل ٹی وی چینل بھی مجبور ہوئے ہیں کہ وہ نیوز یوٹیوب، واٹس ایپ اور فیس بک جیسے ذرائع سے حاصل کریں۔ تو پھر  ہم کیوں نہیں!

انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے ویب سائٹ بنانا پڑتا ہے جو کہ ایک خرچیلا کام ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ بغیر پیسہ  کے اپنی ویب سائٹ بنائے تو اس کے لیے بھی انٹرنیٹ کی دنیا موجود ہے۔ وہ بلاگ بنا سکتا ہے یا "یولا سائٹ"  اور "ویبلی "جیسی ویب سائٹ فری میں ویب سائٹ بنانے کی سہولت دیتی ہیں۔ اس کا فائد ہر اردو والا اٹھا سکتا ہے۔ اس میں اپنے مضامین، کہانیاں، غزلوں اور نظموں کو شائع کرسکتا ہے۔ 

اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بلاگنگ ایک معروف مشغلہ ہے۔ ورڈ پریس، اور بلاگ اسپوٹ جیسی ویب سائٹ مفت میں بلاگ بنانے کی سہولت دیتے ہیں۔ بلاگ ایک قسم کی ویب سائٹ ہی ہوتی ہے۔ اس کو بنانے کے لیے کسی فنی مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ای میل بناکر آسانی سے بلاگ بنایا جاسکتا ہے۔ہم میں سے بہت سارے لوگ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے مضامین رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ لیکن بعد میں یہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ بلاگ ان کو ضائع ہونے سے بچائے گا اور ان کو ہمیشہ کے لیے افادہ عام کے محفوظ کردیگا۔ اردو میں بلاگنگ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ حالانکہ انٹرنیٹ پر اردو کے فروغ کے لیے اس سے آسان اور کفائتی کوئی صورت نہیں ہوسکتی ہے۔

سوشل میڈیا کا استعمال ہم میں سے تقریبا ہر شخص کرتا ہے۔ فیس بک ٹیوٹر، گی پلس، لنک ان مشہور سوشل نٹورکنگ سائٹ ہیں، ان کے علاوہ واٹس ایپ اوروائبر  پر موجود گروپ کے ذریعہ بھی لوگ ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔ ان کا استعمال بھی ادبی سرگرمیوں کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کسی سے کچھ معلوم کرتے کے لیے خط کتابت کی جاتی تھی، پھر فون کا زمانہ آیا لیکن اب یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعہ ہورہا ہے۔ آپ کے ذہن میں ادب یا علم کے کسی گوشے کے بارے میں کوئی سوال ہو اور اس پر مختلف لوگوں کی رائے معلوم کرناچاہتے ہوں تو فیس بک پر ٹائپ کردیں۔ ماہرین فن کے جوابات جلد ہی مل جائیں گے۔ ایک ہی مسئلہ پر کئی ماہرین کی رائے ہمارے لیے علم کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ 

سائبر ورلڈ ہی کی بدولت ایک اور رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ پہلے کسی کتاب کو شائع کرنے کے بعد قارئین کو پیش کیا جاتا تھا قارئین اس پر اپنی رائے دیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ مصنف کو لگتا کہ یہ باتیں اگر چھپنے سے پہلے معلوم ہوتیں تو اس کتاب کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔  انٹرنیٹ نے اس کا بھی راستہ کھول دیا ہے۔ اب مصنف کتاب کو چھپنے سے پہلے کچھ مخصوص قارئین کے پاس پھیج دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود یہ قاری کتاب کی سافٹ کاپی پڑھ کر اس پر اپنی رائے دیتے ہیں۔ جس کی روشنی میں مصنف اپنی کتاب میں ردوبدل کرکے اسے شائع کراتا ہے۔

اردو کی بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جو ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ ناشرین ان کو اسلئے دوبارہ نہیں شائع کررہے ہیں کہ ان کے خیال سے نفع بخش نہیں ہیں۔ لیکن کتابوں کا اصول ہے کہ کوئی کتاب بھی غیر اہم نہیں ہوتی ہے۔ ہر کتاب کا اپنا قاری ہوتا ہے۔ ان کتابوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنا ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوا ہے۔ اس کا حل بھی ہمیں سائبر اسپیس میں نظر آتا ہے۔ ان کتابوں کو اسکین کرکے انہیں ویب سائٹ پر ڈال دینے پر وہ کتابیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی اور ایک بڑی تعداد تک ان کی رسائی آسان ہوجائے گی۔ اب کئی اہم لائبریریاں اپنے یہاں موجود مخطوطات کو آن لائن کررہی ہیں تاکہ وہ خرد برد سے محفوظ رہ سکیں۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی حد تک کوشش کرسکتا ہے۔ ہمیں اگر لائبریری میں یا کسی اور جگہ کوئی نایاب، بوسیدہ کتاب ملے تو اپنے موبائل سے اس کا فوٹو لے کر پی ڈی ایف فائل بنالیں۔ اس پی ڈی ایف فائل کو اپنے بلاگ پر اس کے تعارف کے ساتھ شائع کردیں۔ پاکستان کے ڈاکٹر محمد اشرف آج کل اس قسم کی انوکھی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کراچی کے اتوار بازار سے پرانی کتابوں کو خرید کر ان کو اسکین کرکے آن لائن کردیا ہے۔  اس وقت انٹرنیٹ پر کئی اہم لائبریریاں اردو کتابوں کی موجود ہیں۔ جن میں اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، اقبال سائبر لائبریری، اور ریختہ سرفہرست ہیں۔ 

لائبریریوں سے آگے بھی سائبر ورلڈ میں اردو کے لیے بہت سارے امکانات ہیں۔ ابھی تک اردو کے لیے کوئی پروفنگ ٹول ایسا نہیں بن سکا ہے جو کامیابی کے ساتھ کام کرسکے۔ مائکروسافٹ نے اردو کا جو پروفنگ ٹول متعارف کرایا ہے وہ ناکافی ہے۔ انگریزی میں اگر املا غلط ہو تو اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے مگر اردو میں ایسا نہیں ہے۔ مائکروسافٹ یا تو سارے الفاظ کے نیچے سرخ لکیر کھینچ دے گا یا خاموش تماشائی بنا رہے گا۔ اس میں غلطی خود اردو والوں کی بھی ہے ابھی تک انہوں نے یہ نہیں طے کیا ہے کی اعلا الف سے لکھا جائے گا کہ یا مقصورہ کے ساتھ۔ ہر اردو ادارے کا الگ املا نامہ ہے۔ ایسے میں کمپیوٹر کیا کرے۔ 

وکی پیڈیا سائبر ورلڈ میں سب سے بڑا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس میں اردو سمیت تقریبا تمام زبانوں میں مواد موجود ہے۔ یہ چونکہ ایک جمہوری انسائکلوپیڈیا ہے اس وجہ سے اس کی ترقی کے لیے ہمیں ہی کوشش کرنی ہوگی۔ اس میں مواد کا اضافہ ہمیں ہی کرنا ہے۔  دنیا جہاں کی معلومات تو دور اس میں اردو ادب کے بارے میں بھی معلومات نہ کے برابر ہے۔ قومی کونسل نے اپنا پیڈیا لائنچ کیا ہے لیکن اس کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے۔ لانچ ہونے کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

تعلیم وتعلم کے اعتبار سے سائبر ورلڈ بہت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں موجود شخص اس کے ذریعہ اردو سیکھ سکتا ہے۔ قومی کونسل کی ویب سائٹ اس سلسلے میں اہم کام انجام دے رہی ہے۔ یہ کام کوئی ادارہ ہی انجام دے سکتا ہے کہ ابتدائی اردو سے لے کر ایم اے کی سطح کی کتابوں کا مواد، آڈیو، ویڈیو، اور ٹیکسٹ تینوں فارمیٹ میں آن لائن مہیا کرائے۔  

اردو زبان کی بے شمار ویب سائٹ ہیں لیکن کوئی ایسی عمدہ ڈائرکٹری نہیں ہے جو ان ویب سائٹوں کی طرف رہنمائی کرسکے۔ اردو ڈاٹ کام اور اردو 123 ڈاٹ کام پر موجود ویب سائٹوں کی لسٹ اپٹو ڈیٹ نہیں ہے۔ اکثر لنک 404 کا گولی ڈاغتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اردو کی ویب سائٹس اردو رسائل کی طرح ہیں۔ ایک سال شروع ہوتے ہیں تو دوسرے سال بند بھی ہوجاتے ہیں۔ ان کا ریکارڈ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

اردو میں ریسرچ کا کام بھی بہت ڈھیلا ڈھالا ہے ایک ہی موضوع پر کئی کئی یونی ورسٹیوں میں کام ہوتا ہے۔ اگرچہ اب تک ہوئے کام کی فہرست پر مشتمل کئی کتابیں منظر عام پر آگئی ہیں لیکن ایک ویب سائٹ ایسی ہونی چاہیے جس میں موضوعات کے اعتبار پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات اور ان کی عنوانات کی فہرست شامل ہو تاکہ کسی بھی موضوع پر کام کرنے والا یہ معلوم کرلے کہ اس پر کام ہوا ہے یا نہیں۔
لائبریریوں کے حوالے سے سائبر ورلڈ ایک اہم کام یہ کرسکتا ہے کہ مختلف لائبریریوں میں اردو کے مواد کی فہرست آن لائن کردی جائے تاکہ کم از کم کتابوں کے نام کی حد تک لوگ جان سکیں کہ فلاں کتاب کہاں مل سکتی ہے۔

اردو کتابوں کی نکاسی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آجکل فلپ کارڈ اور دوسرے ای کامرس کی مقبولیت نے مارکیٹ کا رخ جس طرح سے تبدیل کردیا ہے اس کا فائدہ ہمیں اٹھانا چاہئے۔ کتابوں کو فروخت کرنے کے لیے فلیپ کارٹ اور آن لائن بک شاپ کا بھی سہارا لینا چاہئے۔  کتابوں کا پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ان کا ڈیجیٹل ایڈیشن بھی نکالا جاسکتا ہے۔ یہ کفایتی بھی ہوگا اور زیادہ لوگوں تک پہنچ بھی سکتا ہے۔ ابھی تک لوگوں کو ڈیجیٹل کتابوں کے بارے میں کم علم ہے۔ اس میں روایتی کتابوں کے علاوہ کچھ مزید سہولیات بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلا آپ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے تھک گئے تو اس کتاب کو آڈیو کے ذریعہ بھی سن سکتے ہیں۔ یہ سہولت آپ کو کاغذ پر چھپی کتاب نہیں دے سکتی ہے۔ لیکن کاغذ والی کتاب کے لیے تو ہماری جیب سے پیسہ نکل سکتا ہے لیکن ڈیجیٹل کتاب کو ہم فری ہی تلاش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جانب پروفیشنل توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے ہمیں کچھ خرچ کرنا چاہیے تبھی اس کا فروغ ممکن ہے۔

 اردو کے حوالے سے سائبر ورلڈ میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ترجمہ کا ٹول، ٹیکسٹ تو ایسپیچ، مختلف شاعروں کے کلام کا ایپ ، ان کی آواز کے ساتھ، یا کسی اور کی آواز میں ڈب کرکے پیش کیا جاسکتا ہے۔ کسی لفظ کا تلفظ کیا ہے اس کے لیے بھی ٹول بنایا جاسکتا ہے۔ یہ سارا کام کون کرے گا؟ ابھی تو ہماری یہ حالت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انڈرائڈ موبائل میں ملٹی لینگوئج کی بورڈ ڈاونلوڈ کرکے اردو میں میسیج کیا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر پر پاک اردو انسٹالر ڈاون لوڈ کرکے ان پیج کے بغیر اردو نستعلیق میں پڑھا اور لکھا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی ویب سائٹ یہاں تک کہ فیس بک نستعلیق فانٹ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

جب لاعلمی کہ یہ صورتحال ہو  تو اردو والوں کا اللہ ہی محافظ ہے۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 728