donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Salahuddin Babar
Title :
   Dimaghi Mareez Mujrim Nahi Hota



دماغی مریض مجرم نہیں ہوتا


پروفیسر ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر


ڈپریشن جدید دورکا ایک ایسا دماغی مرض ہے جس میں مریض کا موڈ اداس رہتا ہے۔معاملات زندگی میں عدم دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے معاشرے میں اپنی اہمیت کم محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کے دل میں اپنی کردہ یا نا کردہ غلطی پر پشیمانی جڑ پکڑ لیتی ہے اور مریض اپنے آپ کو بہت بڑا گنہگار سمجھنے لگتا ہے۔مریض اپنے پسندیدہ مشاغل سے بھی بیزاری محسوس کرتا ہے۔ارتکاز توجہ میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔مریض کو نیند ٹھیک طور پر نہیں آتی ۔وہ طاقت کی کمی اور نقاہت محسوس کرتا ہے ۔ مسلسل کام اور اپنوں سے دوری کا احساس بھی اس مرض کا سبب بنتا ہے۔  یہ علامات طویل عرصہ تک برقرار رہیں تو خدانخواستہ ڈپریشن کا مریض اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔ڈپریشن مریض کے کام، دلچسپیوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے ان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ان کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ مر جائیں ۔ایسی صورت حال میں فوری طور پر ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔

دنیا میں 35 کروڑ سے زیادہ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے۔ڈپریشن کا مرض دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس سے یکساں متاثر ہیں۔ڈپریشن کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو سادہ ڈپریشن ہے جو وقتی طورپر طاری ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتاہے۔ دوسری قسم کلینکل ڈپریشن کی ہے۔ یہ شدید قسم کا ڈپریشن ہے اور بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں  توجہ  درکار ہوتی ہے۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور خوف ناک مہنگائی نے معاشرے کے ہر فرد کو دماغی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماضی میں ڈپریشن کو زندگی کے درمیانے اور آخری برسوں کی بیماری سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب نوجوان بھی اس کا عام شکار ہونے لگے ہیں۔ڈپریشن کوئی نئی بیماری نہیں ہے اس بیماری کی دریافت کا سہرا یونانی فلسفی و بابائے طب بقراط کے سر ہے۔اس مرض کی علامات مریض کی طرح اتار اور چڑھائو سے گزرتی رہتی ہیں جس میں موڈ کی ہلکی یا شدید برہمی شامل ہے۔ موڈ کی اس تبدیلی کی وسعت عموماً فعالیت اور انہماک میں اچانک کمی سے لے کر جھنجھلاہٹ ،المناک کیفیت یا شدید دائمی پست ہمتی تک ہوتی ہے۔ یہ زندگی ناگہانی حادثات سے بھری ہوئی ہے جیسے کہ کسی اپنے کی موت، ملازمت کا ختم ہو جانا، طویل بیماری یا کوئی اور اندوہناک غیر متوقع سانحہ وغیرہ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر فرد ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔ اکثر افراد ڈپریشن کے زیر اثر آتے ہیں لیکن عارضی طور پر اور وہ جلد ہی خود کو زندگی کی دیگر سرگرمیوں میں مشغول کر لیتے ہیں۔ 

ڈپریشن میں مبتلا ہونے والے افراد زندگی کی روز مرہ آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ یا پریشانی ایک تیز رو جذباتی لہر کے ظہور کا سبب بن جاتی ہے۔ ناکامی کی حالت میں ان افراد کو ناامیدی، مایوسی، بے زاری اور بے حیثیتی کا احساس ستاتا ہے اور یہ اپنے مقاصد سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ ڈپریشن کے زیر اثر افراد معاشرتی میل جول اور ذاتی تعلقات کے فروغ سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ڈپریشن کے مریض میں کئی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔جیسے مسلسل اداسی،دل برداشتہ ہونا،تفریح میں کمی، فیصلے کرنے میں مشکلات،جسمانی تھکن،بے چینی اور چڑچڑاپن، بھوک میں کمی اور وزن کا گھٹنا (بعض افراد میں بھوک اور وزن کا اضافہ)،نیند میں کمی،خود اعتمادی کی قلت،خودکش خیالات،اعتماد کی کمی،سستی محسوس کرنا،صفائی کا خیال نہ رکھنا،گرد و نواح سے دلچسپی ختم ہو جاتی ہے،عزیزو اقارب کو نظر انداز کرنا اور ان  لوگوں سے ملنے جلنے سے پرہیز ، اپنے آپ کو بے یار و مددگار سمجھنا، ، موت کی خواہش یا اپنی بے وقت موت کا یقین   وغیرہ ۔

شدید ڈپریشن میں آنے سے قبل مریض ایک ہلکے مگر مستقل سست موڈ میں رہتا ہے اور ساتھ ہی سماجی سرگرمیوں، پسندیدہ تفریحی کاموں، جنسی اختلاط اور موثر اور فوری رد عمل سے گریز کرتاہے۔ ڈپریشن کی علامتوں میں دیگر امراض کی علامتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ جسمانی علامتوں میں شدید سر درد، عضلات (Muscles) کا درد، پیٹ کا درد، یہاں تک کہ بخار بھی ہوتا ہے۔ تقریباً اسی فیصد لوگ علاج کے ذریعہ دوائوں کا مثبت اثر لیتے ہیں۔ ان کے احساس مایوسی میں کمی واقع ہوتی ہے اور ان کی سماجی سرگرمیاں اور روز مرہ کے معا ملات از سر نو جاری ہو جاتے ہیں۔ایسے کئی عناصر ہیں جو دماغ میں کیمیاوی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں جن کے باعث ڈپریشن بچپن، جوانی اور بڑھاپے یعنی عمر کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ ناخوشگوار تجربات، دائمی ذہنی تنائو،ذاتی اور موروثی طور پر بھی ڈپریشن ممکن ہے ۔ 

ڈپریشن کی تعریف عموماً مزاج کی بے کیفی یا مزاج کی موثر بدنظمی (ڈس آرڈر) کی جاتی ہے۔ موڈ یا مزاج سے مراد ایک ایسا مستقل اور طاقتور احساس یا جذبہ ہے جو زمانہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی جانب مریض کے زاویہ فکر اور سماج میں رہ کر اس کے عمل کی صلاحیت کو بڑی حد تک متاثر کرتا ہے۔ ہمارے سماج میں مزاج کی بے کیفی یا موڈ ڈس آرڈر، ڈپریشن، فکر اور اندیشے عام بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں سے پیدا ہونے والے نتائج جیسے عملی اوقات کا ضیاع، خاندانی جھگڑے، ذاتی رنجشیں وغیرہ کسی بھی انسان کی زندگی کو کلی طور سے درہم برہم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ڈپریشن اور مزاج کی بے کیفی اب بڑے پیمانے پر صحت کا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اس کی کماحقہ تشخیص اور علاج نہیں کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ اس کی علامتوں سے منسلک بدنامی کا خوف ہے۔

کئی خاندانوں میں ڈپریشن کے مریض دوسرے خاندانوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی عدم تحفظ بھی موروثی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ نسلی یا موروثی طور سے ہر غیر محفوظ شخص اس مرض کا شکار ہو جائے۔ ڈپریشن میں مبتلا ہونے میں نفسیاتی عمل اور نشیب و فراز کا بھی کافی دخل ہے۔ وہ افراد جن میں خود اعتمادی کا مادّہ کم ہو اور جلد دبائومیں آ جاتے ہوں ڈپریشن کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھاری نقصان، طویل بیماری، پریشان کن تعلقات، مالی تنائویا طرز زندگی میں کوئی ناخوش گوار تبدیلی بھی ڈپریشن کے دورانیہ کا سبب بن سکتا ہے۔ زیادہ تر ماحولیاتی، نفسیاتی اور موروثی عناصر کا ایک مرکب ڈپریشن کی بیماری کا محرک بن سکتا ہے۔ مایوسی کے شکار ان افراد میں جو منفی طرز فکر رکھتے ہیں دراصل خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور وہ عام طور سے اس اندیشہ میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں زندگی کی رفتار و حوادث پر قابو نہیں ہے۔ زیادہ توقع یہ ہے کہ ایسے افراد ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔بچپن کے واقعات و تجربات وہ قوس قزح ہیں جن سے ایک نوجوان آدمی اپنی زندگی کے خاکہ میں رنگ بھرتا ہے۔ اس عمر کے منفی تجربات جیسے والدین کی سخت گیری، نصب العین کا غیر لچکدار تعین ، ناکامی کا خوف، والدین کی باہم نااتفاقی اور آپسی جھگڑے جتنے عام ہیں اتنے ہی خطرناک بھی ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک بالغ فرد کی زندگی میں ڈپریشن کے بیج بو سکتے ہیں۔ڈپریشن کی دریافت یا تشخیص کلینیکل Clinical ہوتی ہے جس کی بنیاد ماہر نفسیات ڈاکٹرز کے تجربہ، علامات کی موجودگی اور دیگر امراض کی علامتوں کو نظرانداز کرنے پر ہے۔  اس مرض کے جسمانی اسباب بھی ہیں جو دماغ کی کیمیائی غیر ہم آہنگی سے متعلق ہیں۔ ڈپریشن کا بہترین علاج ایک مثبت طرز فکر، خوشگوار انداز گفتگو اور ڈپریشن مخالف دوائیں ہیں۔ ڈپریشن مخالف دوائیں مزاج کی خوش گواری، نیند، بھوک اور انہماک کو فروغ دیتی ہیں۔ افاقہ کی علامات ظاہر ہونے میں کم سے کم چھ سے بارہ ہفتے لگ جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دوائیں پابندی سے لی جائیں اور ڈاکٹر سے مشورہ اور رابطہ جاری رہے۔ تمام ڈپریشن مخالف دوائوں کا کام اہم دماغی کیمیکلز یعنی نیورو ٹرانسمیٹر کے اثر کو تیز کرنا ہے۔ نیورو ٹرانسمیٹر کے یہ نیورونز ایک دوسرے سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔ ڈپریشن کے علاج میں جن نیورو ٹرانسمیٹر ز کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے وہ سیروٹونن اور نورڈے نالین ہیں۔ڈپریشن ایک حقیقی صورت حال ہے جس کا علاج یا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ یہ کمزوری نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو ڈپریشن کا مریض تصور کرتے ہیں تو علاج کے لئے ماہر نفسیات ڈاکٹر سے مشورہ کیجئے اور ڈاکٹر سے کچھ نہ چھپائیں ۔ 

ڈپریشن کا ایک بہترین علاج قناعت پسندی ہے۔ عام طورپر ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والے اشتہارات سے کوئی انسان محفوظ نہیں ہے وہ ذہنی طور آرام و راحت کا طلب گار بنتا جاتا ہے اور ان کی خواہشات کی بھی تکمیل چاہتا ہے جن کے وسائل اس کے پاس موجود نہیں ہیں۔ قناعت اور توکل کا رجحان مثبت طرز زندگی کی بنیاد ہے۔ اگر قناعت پسندی سے کام لیا جائے تو ڈپریشن کا شکار ہونے سے بچا جا سکتاہے۔ڈپریشن کی حالت میں چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے لگتے ہیں۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ جو کام مشکل اور پیچیدہ ہیں ان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ کر مکمل کیا جائے ۔ لوگوں سے دوری اور بے نیازی ڈپریشن کا ایک اہم سبب ہے۔لہذا دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانے ، ان کے کام آنے اور ان کی مدد کرنا ڈپریشن پر قابو پا نے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ڈپریشن کا مریض موسیقی ، کھیل اور دوسری دلچسپیوں میں حصہ لے۔ دوستوں سے گپ شپ۔ڈرامہ دیکھنے اور فلم بینی سے مزاج پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے اور مریض جلد صحت کی جانب لوٹ آتا ہے۔سیر ، جاگنگ اور سائیکل چلانے جیسے جسمانی کاموں سے نفسیاتی صحت بہتر ہو جاتی ہے۔مریض میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ڈپریشن سے بچنے کے لیے روشنی بہت مددگار ہوتی ہے۔روشنی چاہے فطری ہو یا مصنوعی ، دونوں صورتوں میں وہ ہماری نفسیاتی حالت پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔ مریض کے کمرے میں رو شنی مناسب انتظام ہونا چاہئے۔ان مریضوں کو مصروف رکھنا سود مند ثابت ہوتا ہے ۔ انہیں گھر کے کام خود کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ ان کا ذہن مصروف رہے اور وہ مایوس کن خیالات سے محفوظ رہیں۔مریضوں کو اچھی اور متناسب غذا دی جائے۔ڈپریشن میں جسم ضروری معدنیات اور حیاتین سے محروم ہو جاتا ہے جس سے توانائی متاثر ہوتی ہے۔ پھل اور سبزیاں اس کمی کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔شراب اور دیگر منشیات مریض کی جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔سونے سے قبل ٹی وی دیکھنا، ریڈیو سننا یا کتاب پڑھنا مناسب ہے۔ اس کام سے بی چینی میں کمی آتی ہے اور مریض پرسکون نیند سوتا ہے۔ڈپریشن کے مریضوں کو مجرم نہیں سمجھنا چاہئے۔ڈ پریشن کا بتاتے وقت شرم وقت نہیں آنی چاہئے ۔یہ ایک دماغی بیماری ہے آپ کا شوق نہیں ہے۔ یہ قابل علاج مرض ہے اور علاج کے بعد مکمل صحت یابی حاصل ہو جاتی ہے۔ 

*************************


  

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 817