donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kaun Hai Jo Masoom Bachchon Ke Liye Qurbani Nahi Dega

کون ہے جو معصوم بچوں کے لئے قربانی نہیں دیگا


حفیظ نعمانی


اردو دنیا کی اور فارسی کی ایک ممتاز اور معروف خاتون ادیبہ ڈاکٹر صبیحہ انور نے لکھا ہے کہ ایک غیر ملکی لڑکی ’’کلاڈیا، صوفیانہ مسلکوں اور فلسفۂ تصوف ‘‘پرتحقیق کر نے کے لئے لکھنؤ آئی تھی۔ وہ صبیحہ صاحبہ کی شاگرد کی حیثیت سے کام کرتی رہی۔ ایک بار ڈاکٹر صبیحہ انور نے اس سے معلوم کیا کہ وہ کونسی کمی ہے جس کی وجہ سے ہمارا زندگی گزارنے کا ڈھنگ وقت کے ساتھ نہیں سدھرا؟ اس نے کچھ دیر کے بعد بڑی سادگی سے کہا کہ ’’آپ لوگ اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں۔ آپ اپنا گھر صاف کر کے کوڑا سڑک پر ڈالدیتے ہیں۔ یا جیسے پان کی پیک تھوکنا یا دیواروں پر لکھنا ، سڑک کے کنارے پیشاب کرنا وغیرہ۔ آپ اپنے ملک سے محبت کرنے لگیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

کلاڈیا نام کی وہ لڑکی جہاں بھی ہو خدا اسے خوش رکھے وہ لاکھ روپئے کی بات کہہ گئی۔ اس نے جن عادتوں کا ذکر کیا ہے اس سے ہزار گنا بری حرکت یہ ہے کہ آج دہلی کی آلودگی پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہرٹرک کے مالک کو معلوم ہے کہ وہ کتنا زہریلا دھواں دہلی کو دے رہا ہے، لاکھوں گاڑیاں ، موٹر سائیکل ، اسکوٹر اور بسیں دہلی کی آلودگی میں ہر منٹ اضافہ کررہی ہیں۔
دہلی حکومت نے کجریوال کی قیادت میں تجربہ کے طور پر ایک فیصلہ کیا ہے کہ ذاتی سواریاں کار ، موٹر سائیکل اور اسکوٹر  اس طرح چلیں کہ ان میں سے آدھی سڑک پر ہوں اور آدھی گھر وں میں کھڑی رہیں۔ انہوں نے طاق اور جفت کا فارمولا اپنایا ہے۔ وہ گاڑی جس کا آخری نمبر 0-2-4-6-8ہوگا وہ ایک دن سڑک پر آئیگی اور وہ جن کا آخری ۔ 1-3-5-7-9 ہوگا وہ دوسرے دن سڑک پر چلیں گی۔ حکومت نے کرایہ کی سواریوں کو چھوڑ دیا ہے۔ بے شک یہ ان کے لئے جو کار میں چلنے کے عادی ہو چکے ہیں تکلیف کی بات ہوگی۔ لیکن اگر ہر آدمی یہ سوچے کہ دہلی کی آلودگی کم کرنے کی ذمہ داری صرف کیجریوال کی ہی نہیں ہے ہماری بھی ہے تو یہ مشکل نہیں ہے۔ اس لئے کہ شاید ہی سومیں ایک ایسا ہو کہ اس کے گھر ہمیشہ سواری رہی ہو؟ دہلی میں میرا ایک بیٹا رہتا ہے اس کے پاس کار بھی ہے اور اسکوٹر بھی۔ لیکن وہ رکشے میں بھی چلا جاتا ہے اور تھری وھیلر میں بھی۔ اور دہلی میں تو میٹرو جیسی نعمت موجود ہے۔

 سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ وہ جو شور ہو رہا ہے کہ جتنی آلودگی دہلی میں ہے اور جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ بچوں اور بزرگوں کی سانسوں کے ذریعہ زہر کے انجکشن لگارہی ہے اور چائنا میں اس سے کم آلودگی پر  بچوں کے اسکول بند کر دئے گئے اور بزرگوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر سے نہ نکلیں۔ اتنی خطرناک حالت میں کیا دہلی کے لوگ ذرا سی قربانی نہیں دیں گے؟ ہر گاڑی کبھی نہ کبھی خراب ہو جاتی ہے۔ کہیں پیٹرول نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی سڑک پر چھوڑنا پڑتی ہے۔ غرض کہ کوئی بھی حادثہ ہو جائے تو ٹرک پر ، سائیکل پر یا ٹرین کے ذریعہ منزل تک جایا ہی جاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ثابت کرنے کا کہ ملک سے محبت ہے یا نہیں یہ سب سے مناسب وقت ہے۔؟

اللہ کریم جس نے گاڑی دی ہے، اس نے معصوم سے بچے بھی دئے ہیں۔ کون ہے جو یہ برداشت کر سکے کہ بچہ کی جان چلی جائے مگر ہم تکلیف نہیں اٹھائیں گے۔؟

کون ہے وہ کار والا جس کے گھر میں پھول سا گڈا اور شبنم کے قطرہ جیسی نازک گڑیا ہو ،وہ اس کی زندگی اور صحت کے لئے سب کچھ کرنے پر تیار نہ ہوگا؟

ہمارا گھر اللہ نظر بد سے بچائے پھولوں اور کلیوں کا گلدستہ ہے۔ ہم نے نازوں میں پلی ما ں کو مہینوں رات کے اکثر حصے میں جاگتے دیکھا ہے اس لئے کہ بعض نومولود دن میں سوتے اور رات کے بیشتر وقت جاگتے ہیں۔ ہم نے ذرا ذرا سی تکلیف میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں اور یہ فرمائش کہ بچوں کے سب سے بڑے ڈاکٹر کو دکھا دیجئے، کرتے دیکھا ہے۔ اور ان بچوں کی دادی یا نانی کے تجربہ کار ہاتھوں سے معمولی سی کوئی چیز دیتے اور ان بچوں کو مسکراتے بھی دیکھا ہے۔

ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت نہیں ہے۔لیکن یہ بھی اس سے بڑی حقیقت ہے کہ حکومت ہمیں اپنے ملک کو اپنا سمجھنے بھی نہیں دیتی اور حکمراں پارٹی بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور ہمیں حزب مخالف کی طرح سمجھتی ہے۔ اگر کیجریوال وزیر اعلیٰ بن کر حکم دیں گے تو منہ کی کھائیںگے اس لئے کہ پھر کوئی یہ نہیں سوچے گا کہ دوسری سواری کونسی ہو؟ بلکہ یہ سوچے گا کہ نمبر پلیٹ ایک جعلی بنوالی جائے۔ یا پولیس والے کے ہاتھ پر سوکانوٹ رکھ دیا جائے۔ حکومت بڑا غضب کرے گی اگر اس نے نافرمانی اور حکم عدولی کی سزامیں ہزار دو ہزار جرمانہ کی اس روایت کو اپنایا جس کی بنا پر ہر آدمی حکومت کا دشمن ہوجاتاہے۔اور سمجھتا ہے کہ یہ پولیس کی آمدنی بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے۔

دہلی میں اس سے پہلے کئی فیصلے ہو چکے ہیں جیسے 10 برس پرانے ٹرک دہلی میں نہیں آئینگے یا 15برس پرانی ڈیزل کی کاریں سڑک پر نہیں چلیں گی اور چلے گی تو جرمانہ ہوگا۔ فرزانہ اعجاز نے اپنے امریکہ کے سفر کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ کوئی خاتون اپنے بچے کو پولیس سے ڈرا رہی تھی کہ یہ پکڑ کر لے جاتا ہے۔ اس نے سن لیا اور کہا کہ یہ آپ کیا غضب کر رہی ہیں؟ کل اسے ہماری مدد کی ضرورت پڑی تو پھر یہ کیسے ہمارے پاس آئے گابات امریکہ کی ہی نہیں ہر مہذب ملک میں پولیس رشتہ دار کی طرح ہوتی ہے۔ سعودی عرب میںبچے انہیں ماموں کہتے ہیں۔ برطانیہ جس سے ہم نے حکومت لی ہے اس ملک میں کسی سپاہی کے پاس کسی نے ڈنڈا نہیں دیکھا ہوگا۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال اعلان کر دیں کہ یہ فیصلہ تجربہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ اگر دہلی کے عوام اسے منظور نہیں کریںگے تو فیصلہ واپس لے لیا جائے گا نہ چالان ہوگا نہ جرمانہ۔ اگر غلطی سے بھی انہوں نے دہلی کی اپنی دشمن پولیس کے ہاتھ میں کنٹرول دے دیا تو وہ اتنی بد تمیزی کر ے گی کہ لوگ چیخ پڑیں گے اور الزام کیجریوال پر آئیگا۔ کیجریوال صاحب عوام سے اپیل کریں اور یہ جذبہ ان کے اندر پیدا کریں کہ آلودگی پر قابو پانے اور اسے کم از کم آدھا کرنے میں وہ حصہ لیں اور اگر وہ اسے غلط سمجھتے ہیں تو دوسرا فارمولہ ایسا بتائیںجس سے گاڑی رکے نہیں اورآلودگی آدھی ہو جائے ؟

اروند کیجریوال نئے طرز کی حکومت دینے کے وعدہ پر اس شان سے آئے ہیں۔ شری مودی بھی ایسے ہی کچھ بیانات کی مدد سے 280 سیٹیں لائے تھے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ اگر آج وہ دوسرا الیکشن کرادیں اور رام دیو جیسے 50سادھو سنت اپنی جماعت میں اتار دیں تب بھی 140سے زیادہ سیٹیں نہ لا سکیں گے۔ یہ کیجریوال کا امتحان ہے اور انہیں اس میں کامیاب ہو کر دکھانا ہے کہ صرف محبت کے بل پر سڑک پر آدھی گاڑیاں آئیں۔ اور یہ بھی کیا کم کا میابی ہے کہ کل رات ہونے والے مذاکرات میں کوئی نہیں تھا جس نے مخالفت کی ہو یا مذاق اڑایا ہو۔ یہ ضرور ہوا کہ ’’لیکن‘‘ سب نے کہا۔ اور لیکن کا جواب صرف یہ ہے کہ ہر  اپیل بچوں کے نام پر کی جائے۔ وہ بچے جنہوں نے مسکرانا اور ہنسنا تو سیکھا ہے قہقہے لگانا ابھی نہیں سیکھا۔ جن کے پھیپھڑے ابھی روئی کی طرح نرم ہیں اور وہ ابھی کھلونوں سے کھیلنے اسکول جاتے ہیں۔ اور جاتے اس لئے ہیں کہ انہیں گھر سے دور رہنا اور بچوں کے ساتھ کھیلنا آجائے۔ حفیظ نعمانی کی ایک پوتی بھی دس برس کی ہے اور ایک پوتا بھی تین برس کا ہے اور وہ وعدہ کر رہا ہے کہ اس کے بیٹے کی گاڑی یا اسکوٹراس کا پورا احترام کرنے کے لئے سڑک پر نہیں آئیں گے۔

دوسری جنگ عظیم کی دوباتیں یا دآگئیں۔ جب لندن پر بم باری کا خطرہ منڈلانے لگا تھا تو برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچل نے لندن سے دور بہت دور جنگلوں میں ہزاروں عارضی خیمے لگوا دئے  تھے اور حکم دیا تھا کہ تمام نابالغ بچوں کو وہاں ان کی مائوں کے ساتھ منتقل کر دو۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ نئی نسل ہے اسی کے کاندھوں پر ملک رہے گا۔ خیریت ہوئی کہ بم باری نہیں ہوئی۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہندوستان میں ایک نظم بہت مشہور ہوئی تھی اور اس کا ایک شعر تھا   ؎

بکنگھم کی خبر لینے ابکی بار جب جانا
ہمارے نام کا بھی ایک گولہ پھینکتے آنا

جنگ کے دوران ہی شکر کی بہت کمی ہو گئی تھی۔ ایک بار وزیر غذا نے حکم دیا کہ ہر کارڈ کی آدھا سیر شکر کم کر دی جائے۔ جنگ کا زمانہ تھا یہ حکم ہر دوکان تک نہ پہنچ سکا۔ اور شکر تقسیم ہوگئی۔ اس کے بعد ریڈیو اور اخبارات سے اعلان ہوا کہ ہر کوئی آدھا سیر شکر واپس کر دے۔ یہ خبر ہر زبان پر تھی کہ صرف وہ چند لوگ واپس نہ کر سکے جن تک یہ اطلاع نہیں پہنچی۔ یہ ہے ملک سے محبت اور نئی نسل کی فکر ۔ آج دہلی جو مانگ رہی ہے وہ انتہائی معمولی قربانی ہے ۔ لیکن اگر دہلی والوں نے یہ قربانی نہیں دی تووہ صرف ملک کے نہیں نئی نسل کے دشمن کہلائیں گے۔

(یو این این)


**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 639