donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Nehrekat

محرکات
 
…شاہنواز فاروقی…
 
انسانی زندگی میں محرکات کی اہمیت بنیادی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسانی تاریخ محرکات کی تاریخ ہے۔ انسانی عمل کا جیسا محرک ہوتا ہے ویسی ہی عمل کی نوعیت، اس کا معیار، اس کا اثر اور اس کا نتیجہ ہوتا ہے۔
 
اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، چنانچہ وہ انسانی فطرت کا جیسا علم رکھتا ہے دنیا کے تمام انسان مل کر بھی اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی فطرت کے تین بنیادی اور بڑے محرکات ہیں:
 
 (ترغیب و تحریص، (2) خوف، (3) محبت(1
 
قرآن مجید میں جنت کا بیان محض ایک مقام کا بیان نہیں ہے، بلکہ جنت قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں عمل کے ایک بنیادی محرک کے طور پر زیربحث آئی ہے۔ جنت کے بیان میں ایک ترغیب ہے، ایک تحریص ہے۔ دراصل انسانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو ترغیب اور تحریص کے بغیر عمل پر آمادہ نہیں ہوتی۔ لیکن جنت کے بیان میں ترغیب وتحریص کے عنصر کی نوعیت کیا ہے؟
 
جنت میں ترغیب اور تحریص کا سبب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جنت قربِ الٰہی کا مظہر ہے۔ جنت انہی لوگوں کو ملے گی جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کی خوشی اس کے قرب کو ظاہر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ جنت میں انسان اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، اور اس دیدار سے انہیں ایسی مسرت حاصل ہوگی جو اور کسی چیز سے میسر آہی نہیں سکتی۔ جنت میں ترغیب و تحریص کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنت دائمی زندگی کی علامت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا اور آخرت کی زندگی کے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ دنیا کی زندگی پانی کے ایک قطرے کی طرح ہے اور آخرت کی زندگی سمندر کی طرح۔ چنانچہ انسان جنت کے بارے میں سوچتا 
ہے تو اس کے ذہن میں دائمی زندگی کا تصور آتا ہے۔ جنت میں ترغیب و تحریص کا ایک پہلو اس کی راحتوں سے متعلق ہے۔ جنت کی راحتیں ایسی ہیں کہ دنیا میں شاندار زندگی بسر کرنے والوں کے لیے بھی ان کی حیثیت ایک خواب یا Fantacy کی ہے۔ یعنی انسان کو جنت میں وہ راحتیں میسر آئیں گی جن کا وہ دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جنت کی ایک بہت ہی بڑی ترغیب یہ ہے کہ اس کی ہر چیز حسن وجمال کا مظہر ہے۔ جنت میں حوریں ہوں گی تو انتہائی خوبصورت، مکانات ہوں گے تو انتہائی دلکش، باغات ہوں گے تو ان میں بے پناہ جمال ہوگا۔ اور انسان کی فطرت میں حسن وجمال کے لیے انتہائی درجے کی رغبت پائی جاتی ہے۔
 
قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں دوزخ کا بیان بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض انسانوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ وہ خوف کے بغیر عمل نہیں کرسکتے۔ یا ان کے عمل میں گہرائی اور تسلسل پیدا نہیں ہوسکتا۔ غور کیا جائے تو جنت کے برعکس دوزخ اللہ تعالیٰ سے دوری کی علامت ہے اور اس کی سب سے زیادہ ہولناکی یہی ہے۔ جنت کے خوف کا ایک پہلو اس کی بے پناہ اذیت ہے۔ اس اذیت کا سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ اذیت انسان کی قوتِ برداشت سے بہت زیادہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو دوزخ وہ خوف پیدا ہی نہیں کرسکتی تھی جو عمل کے لیے درکار ہوتا ہے۔ دوزخ کے خوف کا ایک عنصر دوزخ کے تصور سے وابستہ ذلت ہے۔ دوزخ اپنی اصل میں انسانی وجود کی روحانی معنویت کا انکار ہے۔ دوزخ کا وجود اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ انسان کے ساتھ جو شرف وابستہ کیا گیا انسان نے اپنے فکر وعمل سے اس کی تکذیب کی، اور اس کی پاداش میں وہ دوزخ کا مستحق بن گیا۔ قرآن مجید میں جنت اور دوزخ کا بیان اللہ کی طرف سے ہے، چنانچہ جس نے جنت کے لیے نیک عمل کیا اُس کا عمل قابلِ تعریف ہے، اور جس نے دوزخ کے خوف سے اچھے کام کیے اُس کے اچھے کام بھی قابلِ ستائش ہیں۔ لیکن اسلام میں جنت اور دوزخ سے بڑھ کر بھی ایک محرکِ عمل موجود ہے، اور یہ محرکِ عمل ہے اللہ تعالیٰ کی محبت۔
 
اللہ تعالیٰ کی محبت کے دائرے میں انسان ترغیب وتحریص کے تصور سے بلند ہوجاتا ہے، اور اس دائرے میں خالق اور مخلوق اور عبد اور معبود کا تعلق خالص ترین، بلند ترین اور خوبصورت ترین صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ اس دائرے میں موجود انسان اس لیے اسلام پر عمل نہیں کرتا کہ اسے جنت مل جائے گی یا دوزخ سے نجات اس کا مقدر بن جائے گی، بلکہ وہ اس دائرے میں اس لیے عمل کرتا ہے کہ اس سے اُس کا خالق اور مالک خوش ہوجائے گا۔ اس دائرے میں انسان اس لیے عبادت نہیں کرتا کہ عبادت سے جنت ملے گی اور
 
انسان پر دوزخ کے دورازے بند ہوجائیں گے، بلکہ اس دائرے میں انسان صرف اس لیے عبادت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے لائقِ عبادت ہے۔ یعنی انسان اس کی عبادت نہ کرے تو اور کیا کرے! اسلامی تاریخ میں محرکات کی یہ تینوں صورتیں بروئے کار آئی ہیں، لیکن ہماری تاریخ اور تہذیب کی روح اور معنویت اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ غزوۂ بدر کہنے کو ایک جنگی معرکہ ہے، مگر یہ معرکہ لڑنے والے صحابہ جنت کی تمنا اور دوزخ سے نجات کے لیے کافروں اور مشرکوں کے خلاف برسر پیکار نہیں تھے، نہ ہی فتح وشکست ان کا مسئلہ تھی، بلکہ وہ صرف اللہ کی کبریائی اور اس کے دین کی بالادستی کی گواہی دے رہے تھے، چنانچہ ان کے عمل کی بنیاد صرف اللہ کی محبت تھی۔ اگرچہ تمام صحابہ کرام ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے مگر اکابرصحابہ سے منسوب واقعات سے 
 
ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے فکر و عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا غلبہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مکے سے مدینے ہجرت کررہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب چلنے لگتے اور کبھی بائیں جانب۔ کبھی وہ آپؐ کے آگے آگے محوِ سفر ہوجاتے اور کبھی اچانک پیچھے محوِ خرام ہوجاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوبکرؓ کیا بات ہے؟ کیا جان کا خوف ہے؟ انہوں نے کہا: یہ بات نہیں، دراصل جب مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن آپؐ پر دائیں جانب سے حملہ نہ کردے تو میں دائیں جانب آجاتا ہوں۔ جب مجھے گمان ہوتا ہے کہ آپؐ پر بائیں جانب سے بھی حملہ ہوسکتا ہے تو میں بائیں جانب ہوجاتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ کا یہ عمل جنت کی طلب یا دوزخ سے نجات کے لیے نہیں تھا، بلکہ یہ عمل ’’قانونِ محبت‘‘ کا حامل تھا، اسی لیے یہ اعلیٰ ترین عمل تھا۔ اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ سے یہ نہیں کہا تھا کہ گھر کا سب مال ومتاع اٹھا لائو، بلکہ حکم یہ تھا کہ جو شخص جو کچھ دے سکتا ہے وہ لے آئے۔ مگر ابوبکرؓ سبھی کچھ اٹھا لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ تو فرمایا: ان کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ کافی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کی تو بات ہی اور ہے۔ لیلیٰ کے لیے مجنوں کی محویت نے مجنوں کو محبت کی عالمگیر علامت بنادیا۔ بابر ایک بادشاہ تھا اور بادشاہوں کو دنیا پرست سمجھا جاتا ہے، لیکن بابر کا بیٹا ہمایوں بیمار ہوا اور کوئی دعا اور کوئی دوا کارگر نہ ہوسکی تو بابر نے ہمایوں کے بستر کے تین چکر کاٹے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہمایوں کی عمر مجھے اور میری عمر ہمایوں کو دے دے۔ اس دعا کے ساتھ ہی بابر کی طبیعت خراب ہونے لگی اور ہمایوں صحت یاب ہونے لگا۔ یہاں تک کہ بابر جاں بحق ہوگیا اور ہمایوں مکمل طور پر صحت یاب۔ بلاشبہ عمل کا محرک خوبصورت اور بڑا ہو تو نتیجہ بھی خوبصورت اور بڑا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جنت، دوزخ اور خدا کی محبت کے محرکات صرف سچے مذہبی شعور کو دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں عام انسانوں کی صورت حال ابتر ہے۔
 
روس کا سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس نے صرف روس ہی نہیں آدھی دنیا کا نقشہ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مگر اس انقلاب کا محرک بہت معمولی اور پست تھا۔ مارکس کی فکر نے دنیا کے پرولتاریوں کو متحد کیا مگر بورژوا طبقے کی نفرت اور اس سے انتقام کی بنیاد پر۔ نتیجہ یہ کہ سوشلزم نے پہلے دن سے ایک ایسا معاشرہ پیدا کیا جس میں بے اعتباری تھی، سازش تھی، جبر تھا، فکری جمود تھا۔ نتیجہ یہ کہ تاریخ کا ایک بڑا انقلاب صرف 70 سال میں اس طرح فنا ہوا جیسے وہ دنیا میں کبھی آیا ہی نہیں تھا۔
 
دنیا میں رنگ، نسل اور زبان کے تعصبات بھی اجتماعی عمل کے بڑے بڑے محرکات ہیں، مگر ان محرکات نے جنگوں، فتنوں اور فساد کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان محرکات سے نمودار ہونے والے عمل میں معنویت کی ایسی قلت ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان محرکات کے عمل کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 854