donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nighat Nasim
Title :
   Kya Islam Ki Badnami Ke Liye Khud Musalman Hi Kafi Nahi


 کیا اسلام کی بدنامی کے لیئے خود مسلمان ہی کافی نہیں ہے؟

 

از۔ ڈاکٹر نگہت نسیم۔ سڈنی


میں نے جب سے شعوری طور پر قلم سنبھالا ہے تو اپنے رب سے اور خود سے عہد کیا ہے کہ اس قلم سے وہ لکھوں گی جسے میں سچ سمجھتی ہوں،چاہے اس سچ کے لکھنے سے کیوں نہ ہاتھ اپنے ہی قلم ہوں۔ میں خود مطمئن ہوں آج تک جو بھی لکھا ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر لکھا کیوں کہ میرا یہ ایمان ہے کہ روز محشر یہ قلم بھی گواہی دینے والوں میں شامل ہو گا

یہ سوچ  یقیناسارے ہی  بے مفاد اہل قلم کی  ہے ، ورنہ قلم فروشی اور ضمیر فروشی تجارت میں ایک ہی چیز کی فروخت کے دو نام ہیں۔ میں اس مکتب فکر سے ہوں جسکا فلسفہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے اور خاص طور پر مسلم معاشرے میں اہل قلم اور دین کی نمائیدگی کرنے والوں پرسچ کہنے کی  سب سے زیادہ ذمیداری عائد ہوتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں شعبے رہنمائی کرنے کی بجائے خود راہ گم کردہ ہیں۔ اہل قلم کی حالت روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا والی ہے اور خود کو دینی قیادت کہنے والے دین عملی کیفیت سے کوسوں دور ہیں اور اسی بے عملی نے معاشرے کی غالب اکثریت کو بھی بے عمل بنا دیا ہے یا پھر ایک بڑا طبقہ کنفیوز ہے۔

دراصل گزشتہ نصف صدی میں بالخصوص اسی بے عملی کے رویے نےمسلمان کے ہاتھوں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور انتہا پسند مسلمان کے پاس اس رد عمل کے دلائل بھی ہیں۔ تا ہم دردناک سچ تو یہی  ہے کہ آج اسلام کا دشمن خود مسلمان ہے۔ ایمانداری سے سوچیئے  ۔۔۔۔ کیا اسلام کی بدنامی کے لیئے خود مسلمان ہی کافی نہیں ہے؟ اس بات پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ مسلمان کی بے عملی اور بد اعمالی کا زمیدار اسلام کو نہ ٹھہرایا جائے۔

میں ڈاکٹر ، ماہر نفسیات اور قلم کار ہونے کے باوجود اپنے ارد گرد کے حالات سے اکثر دل برداشتہ ہو جاتی ہوں اور جیسے ہر روز ایک نئے ڈپریشن میں چلی جاتی  ہوں ۔ سوچتی ہوں  اگر میری یہ حالت ہے تو عام انسان کی کیا حالت ہو گی؟ وہ کیسے ان حالات سے نبرد آزما ہو رہا ہو گا۔ ؟

روز بلا ناغہ اور ہمہ وقت ٹی وی ریڈیو اور اخبارات کی نوے فیصد خبریں غارت گری، دہشت گردی اور کشت و خون کی ہیں۔ ٹی وی سکرین جیسے لہو رنگ ہو گئی ہے اور ان خبروں میں سے نوے فیصد سے زیادہ کا تعلق مسلمانوں سےاور مسلمان ملکوں سے ہےپاکستان ہو یا عراق، شام ہو یا سعودیہ، ترکی ہو یا صومالیہ یا پھر افریقی ممالک۔ ہر گوشے میں مسلمان خون کی ہولی کھیل رہا ہے خود اپنے لوگوں کے ساتھ بھی اور دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ بھی۔

کیا یہ اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے؟ نہیں قطعی نہیں۔ اسللام تو ہے ہی سلامتی اور امن کا دین۔ ہاں اگر مسلمانوں کا ایک گروہ خونی اور قاتل بن چکا ہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور؟

فرانس   میں  تین مسلمانوں نے جس درندگی اور وحشی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک چارلی ہیبڈو نامی اخبار کے دفتر پر حملہ کر کے بارہ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا اور آزاد صحافت اور اظہار رائے کا جنازہ نکال دیا۔ یہ موضوع سوچ طلب ہے  کہ مسلمانوں کی یہ زہنی حالت کس وجہ سے ہے کہ وہ فکری علمی اختلاف پر بات یا دلیل کی بجائے مخالف کی جان لے لیتے ہیں۔ کیوں؟

فیس بک سوشل میڈیا کا ایک نہایت اہم ہتھیار ہے باوجود اس کے اس میڈیم کی اپنی خامیاں ہیں لیکن ایک اچھا خاصا تناسب ایسا ہے جو دلیل اور منطق کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور اختلاف کو اختلاف کی طرح نبھاتے ہیں۔ فرانس میں دہشت گردی کی حالیہ کاروائی کے حوالے سے میں نے سوچا کہ خود لکھنے کی بجائے ایک سے زائد احباب کی رائے کو باقی احباب تک پہنچایا جائے تا کہ وسیع پیمانے پر وسیع النظری سے حالات کا تجزیہ ہو سکے۔

ڈنمارک میں مقیم شاعرہ اورادیبہ صدف مرزا نے اسی حوالے سے نیوزی لینڈ میں مقیم  بیدار فکرافسانہ نگار" سلمی جیلانی کی  ایک فکری تحریر کو موضوع بنا کر  لکھا ہے  جس پر مختلف احباب کا اظہار صورت حال کی سنجیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ صدف مرزالکھتی ہیں

نہ سمجهو گے تو مٹ جائو گے...

اے.......... مسلمانو

ایک فکر انگیز تحریر سلمی جیلانی کی پیش ہے
میری اہل قلم سے گزارش ہے خدارا غزلوں نظموں پت داد دینے اور "" لائک"" جمع کرنے سے فرصت ملے تو ایک نظر ادهر بهی...

اس تعصب. . منافرت... اور ناعاقبت اندیشی کے خلاف قلم اٹهانا ضروری ہے ورنہ ہماری نئی نسل پر زمین ہر جگہ تنگ ہونے کو ہے....
بانسری بجتی رہی.... نیرو کا گهر جلتا رہا

سلمی جیلانی کی وہ تحریر جوسب  کو دعوت فکر دے رہی ہے

کبھی کسی عرب ملک نے افغانستان عراق اور صومالیہ کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو اپنا دینی بھائی سمجھ کر پناہ دی ہے بلکہ پچاس پچاس سال رہنے کے باوجود بھی کبھی اپنے ملک کی شہریت نہیں دیتے جبکہ فرانس جرمنی امریکا اور آسٹریلیا میں یہ مسلمان پورے حق سے رہتے ہیں اور یہ ممالک انھیں آزاد شہری کے تمام حقوق دیتے ہیں لیکن اگر یہ فساد اسی طرح جاری رہا تو تباہی کا یہ سلسلہ بہت آگے تک جائے گا تعصب اور نفرت کی آگ پوری دنیا میں پھیلے گی شام عراق اور پاکستان تو برباد ہو ہی رہے ہیں باقی دنیا کے مسلمان بھی اس کی زد میں آئیں گے اور اس کے ذمہ دار وہ تنگ نظری کے نظریات ہیں جو اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں

میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے ڈاکٹر حمید اللہ کو پڑھیں نہ کہ مولانا عبد العزیز کو
یا خدا میرے دوستو! مجھے اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار ثابت کرنے پر تل گئے ہو جبکہ مولانا رومی ر ح کی مرید صرف اور صرف امن اور محبت کی بات کر سکتی ہے مجھ سے قتال کے حمایت کی توقع کبھی نہ رکھیں اور جو ایسا سمجھتا ہے مجھے چھوڑ کر جا سکتا ہے

(سلمیٰ جیلانی )

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 808