donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Gholam Mohammad Dastanvi
Title :
   Haqiqi Barkate Nabawwat Aur Asbab Musrato Hazmiyat

 

حقیقی بر کا ت نبو ت او ر ا سبا ب نصرت و ہزیمت

غزوہ بدر اور غزوہ اُحُد وحُنَین کے پس منظر میں 


مولانا حذیفہ مولانا غلا م محمد صاحب وستا نویؔ    


    اللہ ر ب العز ت نے قر آ ن کر یم میں فر مایا : 
     {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْ نِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ }(آل عمر ا ن : ۳۱)
    ’’اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میر ی پیرو ی کر و اللہ تم سے محبت کر نے لگے گا ۔ ‘‘

    خو د سر کا ر دو عا لم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شا د مبار ک ’’ والذی نفسی بیدہ لا یؤ من احدکم حتی اکو ن احب الیہ من والدہ وولدہ۔‘‘ (عن ابی ہر یر ہ رضی اللہ عنہ ، اخر جہ النسائیؒ)’’ اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہ قد رت میں میر ی جا ن ہے تم میں سے کوئی شخص بھی، اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نز دیک اس کے اپنے با پ اور بیٹے سے زیا د ہ محبو ب نہ ہو جائوں ۔‘‘

    مذکو رہ آیت اور حدیث سے یہ با ت صاف و اضح ہو جا تی ہے کہ، مسلما ن کی کا میا بی کا را ز اطا عت ر سول میں مضمر ہے ۔

    مگر ہمار ے لیے بڑ ے افسو س کا مقا م ہے کہ، ہم زبا ن وبیا ن سے تو عشقِ ر سو ل کے راگ الا پتے رہتے ہیں ، حب رسول کے نعر ے ما رتے ہیں؛ مگر عملی مید ا ن میں اور محبت قلبی کے اعتبا ر سے، ہم حب رسو ل سے کوسو ں دو ر ہو چکے ہیں، صر ف زبا ن خر چی کے طور پر دعو یٰ عشق ر سول ہے، ورنہ ہمار ے اطوا ر اور ہمارا لبا س ہمارے اخلاق ، ہماری معا شرت ، ہمار ی تجار ت ، ہمار ے معاملا ت ، ہماری سیا ست ، ہمار ی تعلیم و تر بیت غر ضیکہ زندگی کے تمام شعبو ں سے ہم نے سنت نبوی ؐ کا جنا ز ہ نکا ل دیا ہے ، بلکہ اس پر مستزا د یہ کہ ہمار ے معا شر ہ کا جد ید تعلیم یا فتہ اور جا ہل تو جا ہل، اب عالم طبقہ بھی سنت ر سو ل پـر عمل کر نے والو ں کو اجنبی نگا ہ سے دیکھتا ہے ، اور ا ن کے ساتھ اجنبی سلو ک کر تا ہے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون ، ولا حول ولا قو ۃ الا باللہ العلی العظیم۔ 

     یہ با ت جا ن لینی چا ہیے کہ ہمار ی اس ابتر صورتِ حال کی اصل و جہ سیر نبویہ سے عملی انحر اف ہے ، دنیا جواس وقت فتنو ں کی آ ما جگا ہ بنی ہو ئی ہے ، اس کی وجہ بھی یہی ہے؛ کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھلا ئی اور دنیوی و اخر وی کا میا بی کے تمام ر استے بتلا ئے، مگر آ ج ہم نے اس کو تر ک کر دیا جس کی وجہ سے خبا ثت اور بر ائی عام ہو گئی ، اورہو تے ہوتے نو بت یہا ں تک پہنچ گئی کہ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قد وہ اور آئیڈیل کے بنانے کا حکم تھا، مگرہم نے معا شرہ میں بر ائی پھیلا نے والو ں کو قد وہ بنا لیا ، نا چ گا نے اور کھیل کو د کا پیشہ اختیا ر کر نے والو ں کو ر ہبر بنا لیا ؛ اس طرح معا شرہ داعیا نِ شرکا دلدا د ہ بن گیا !!!


    آج جب دنیا میں روحا نی وجسما نی ظا ہر ی و با طنی ہر طر ح کا امن، غا رت ہو چکا ہے؛ تب جاکر دنیا کا ہر شخص ان حا لا ت سے بچنا چا ہتا ہے اور کوئی ایسی سبیل کی جستجو میں ہے، جس کو اختیا ر کر کے وہ سکو ن حاصل کر سکے ، اور سکون فسق و فجو ر، لا دینیت ونفاق کے دلد ل سے خلاصی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں،اور اسکی خلاصی کا ایک ہی راستہ ہے ،اورو ہ ہے ’’تعلیما ت نبویہ‘‘ پر عمل در آمد ۔

   ہم مسلما نو ں کا عقیدہ ہے کہ ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے صر ف دنیا ہی کی فلا ح نہیں حاصل ہوسکتی؛ بلکہ آخر ت اور حسا ب کے مصائب اور عذ۱ب ٹل جائیں گے قیا مت کے ہو لنا ک عا لم میں بھی جب کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا ، نفسی نفسی کا عالم ہو گا ، بھا ئی بھا ئی کو دیکھ کر ، بیٹا با پ اور ما ں کو دیکھ کر ، شو ہر بیو ی کو دیکھ کرراہ فر ا ر اختیا ر کر یگا ،گو یا اطا عتِ رسو ل قبل المو ت اور بعدالمو ت آفات ،بلیا ت اور عذا ب سے نجا ت کا اکسیر نسخہ ہے ۔

    حضرت آ د م علیہ السلام سے لیکر خا تم الا نبیاء والمر سلین ،احمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک ؛جو انبیاء کرام علیہم السلا م کی بعثت عمل میں آئی، وہ اسی لیے تو آئی کہ اللہ نے انسا ن کو بہت ساری خو بیو ں سے نوا ز ا ہے ، مگر ساتھ ہی کچھ ایسے محر کا ت دنیا میں کا ر فر ما کررکھے ہیں، جس کے سبب انسا ن کی اللہ کی جا نب سے عطا کر دہ یہ خوبیاں بدون محنت اور مجا ہد ہ ظا ہر نہیں ہو پا تی ؛بلکہ محر کا تِ شر کی وجہ سے اسی کی ہو کر رہ جا تی ہیں ، اور یہ اس لیے کہ انسا ن کی تخلیق منجا نب اللہ آ زا ما ئش کے لیے ہوئی ہے ، اور وہ مقصدابتلاء محرکاتِ شر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا؛ لہٰذا ایک طرف تو اسے عقلِ وافر عطا کی، دوسر ی طر ف اسے نفس لو امہ دیا ، ایک طر ف محرکِ شر شیطا ن کو پید ا کیا ، دوسر ی طرف دا عی خیر انبیاء کو مبعو ث کیا ، اور اب اسے خیر و شر کی در میان اپنی عقل اور علم کے ساتھ چھوڑ کر اختیار دے دیا {فَمَنْ شَائَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ }’’ جو چاہے ایما ن لائے اورجو چاہے کفر کو اختیار کرے ‘‘ اور دونوں کے انجا م بھی انبیاء پر بو اسطۂ وحی واضح کر دیے کہ، اگر خیر اختیار کر یگا تو اللہ کی رضا اور جنت ،اور اگر شر اختیار کر یگا تو اپنے خالق و مالک رب ذو الجلا ل والا کر ا م کا غضب نا ر اضگی اور جہنم کی صور ت میں جزاء و سز ا ء کا مستحق ٹھہر یگا ۔

    معلو م ہو ا کہ اللہ نے انسا ن پر نبو ت کے ذریعہ اپنی حجت تام کر دی ہے ، اب انسا ن کی کوئی بہا نہ با ز ی کا کوئی اعتبا ر نہیں ہو گا ، اللہ نے اسی حجت تا مہ کے بار ے میں واضح ار شا د فر ما یا {رُسُلاً مُّبَشِّرِ یْنَ وَ مُنْذِ رِیْنَ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلُ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِ یْزًا حَکِیْمًا }(النساء : ۱۶۵)
    ’’بھیجے خوشخبری اور ڈر سنا نے والے تاکہ با قی نہ رہے لوگوں کا اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد

اور اللہ زبردست حکمت والا۔‘‘
پیغمبروں کی بعثت کا مقصد

    اللہ تعالیٰ نے پیغمبر وں کو بر ابر بھیجا کہ مؤ منوں کو خوشخبر ی سنائیں اور کا فرو ں کو ڈر ا ئیں تا کہ لوگوں کو قیامت کے دن اس عذ ر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیر ی مر ضی اور غیر مر ضی معلو م نہ تھی ، معلو م ہو تی تو ضرور اس پر چلتے ۔ سو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر و ں کو معجزے دے کر بھیجا اور پیغمبر و ں نے را ہ حق بتلا ئی تو اب دین حق کے قبو ل کر نے میں کسی کا کوئی عذ ر نہ سنا جا سکتا ۔ وحی الٰہی ایسی قطعی حجت ہے کہ اس کے روبر و کوئی حجت نہیں چل سکتی ، بلکہ سب حجتیں قطع ہو جا تی ہیں، اور یہ اللہ کی حکمت اور تد بیر ہے اور زبر دستی کر ے تو کو ن رو ک سکتا ہے ، مگر اس کو پسند نہیں۔(گلدستۂ تفاسیر ۲/۲۱۷بحوالہ تفسیر عثما نی )


    ہمیں اس با ت کا ادرا ک کر لینا چا ہیے کہ، ہمار ی تمام بیما ریو ں کا علا ج ’’ اتبا ع منہج نبو ت ‘‘ میں ہے وہی ہما ری کا میا بی کی شا ہ کلید ہے ۔ ’’ نبو ت ‘‘ ہی وہ مؤ ثر ذریعہ ہے، جس نے ما ضی میں بھی بد سے بد تر حالا ت میں انسانوں کی صحیح رہنما ئی کی اوردنیا میں امن و امان کی فضائیں قا ئم کی ۔انسا نو ں کو جسما نی و روحا نی سکو ن کی عظیم نعمت سے مالا مال کیا ، انسا ن کو زند گی کا مقصد سمجھا یا ، انسان کا اپنے خا لق و ما لک سے رشتہ جو ڑ نے اور خو د آپس میں ایک انسان کا دوسر ے انسا ن کے ساتھ کیسا ہمد ر دا نہ تعلق ہو ؛بلکہ انسا ن دیگر مخلو ق کے ساتھ بھی کیسے رہے یہ سب ’’ نبوت ‘‘ کے ذریعہ بتلا یا گیا ۔
    آ ج مغر ب نے مسلما نو ں کے ساتھ ہی نہیں ،بلکہ عالمِ انسا نیت کے ساتھ سب سے بد تر جو کھیل کھیلا ہے ،وہ یہ کہ انسا ن کی زند گی کے تمام شعبو ں سے آ زا دی کے نام پر دین اور خالق حقیقی سے نا طہ تو ڑ دیا ، سیکو لر زم اور کمیونزم کو عا م کر کے عقیدۂ تو حید کی بنیا د ڈھا دی، بلکہ کسی بھی طر ح کے مذ ہب کو زندگی سے جد ا کر دیا ، نظر یہ ارتقاء کے ذریعہ خالق کا ئنا ت کے عقید ہ کو ڈھا دیا ، نظر یہ جنسیت کے ذریعہ انسا ن کے مقصد حیا ت ’’عبا دتِ الٰہ واحد‘‘ کو ختم کر کے شہو ت رانی کو مقصدِ حیا تِ انسا نی ٹھہر ا دیا ، آ خر ت کو فر ا مو ش کر کے صر ف دنیا میں عیش و عشر ت کی زندگی کو تر جیح دینے کے لیے ما د ہ پر ستی کو فر و غ دیا ، علو مِ وحی سے انسا ن کو کا ٹنے کے لیے نیچریت کو فرو غ دیا ، اور نیچریت کی جڑ کومزید پختہ کر نے ،اور علو م وحی سے کلی انقطا ع کے لیے ایجا بیت، نتا ئجیت اور افا دیت پسند ی کو زورو شور سے فروغ دیا ، سیا ست سے دین کو کا ٹنے کے لیے جمہو ریت کا شو ر بر پا کیا ، معیشت سے دین کو کا ٹنے کے لیے، سرمایہ داریت اور اشتر اکیت اور اب مخلوط نظا م معیشت کو فر و غ دیا جا رہا ہے ۔
    امت مسلمہ کو علماء اور مسجد سے کا ٹنے کے لیے، یہ سب خو فنا ک اور ایمان سو ز سا زشیں ہیں ،اسی لیے اکبرالہ آبادی فر ما تے ہیں   ؎

چھوڑ لٹر یچر کو اپنی ہسٹری بھو ل جا 
شیخ و مسجد سے تعلق تر ک کر اسکو ل جا 
چا ر دن کی زندگی ہے کو فت سے کیا فا ئد ہ 
کھا ڈبل رو ٹی کلر کی خوشی سے پھو ل جا 

    علو م وحی سے مسلما ن کا دو ر ہو نا کیسا جر م ہے اسے علا مہ اقبال کہتے ہیں    ؎ 

مشر ق کے خدا وند سفیدان فر نگی 
مغر ب کے خد ا وند درخشند ہ فلزات
وہ قو م کہ فیضا ن سما و ی سے ہو محر و م 
حد ان  کے کمالا ت کی بر ق و بخارا ت

    غر ضیکہ ’’ منہج نبو ت ‘‘ سے روگر دانی ہمار ے لیے مو ت حقیقی سے بد تر مو ت ہے کہ، جہاں امت زند ہ رہ کر بھی مردہ ہے ، کیو نکہ اس کی کوئی وقعت ہی نہیں ، اور مغربی تہذ یب کی اندھی تقلید ہمار ے لیے سو ائے منہج نبوی سے رو گر دا نی اور اپنی مو ت آپ کے اور کچھ نہیں 
تہذیب فر نگی ، اگر مر گ امم  
 ہے حضرت انسا ں کے لیے اس کا ثمر مو ت 

    بہر حل اس وقت امت کو ’’ نبو ت محمد یہ ‘‘ کی اہمیت کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے ، ’’ منہج نبو ت‘‘ سلف صالحین کی تعلیما ت وتحقیقات کے آئینہ میں یہی سب سے زیا د ہ اہم ہے ۔ 


برکا ت نبو ت 

     مذ کو رہ ہمہ گیر مغربی نظر یا ت نے مسلما نو ں میں سب سے بڑ ا ،جو نقصا ن پیدا کیا وہ ہے ’’ نبوت ،منہجِ نبو ت، علو م وحی ‘‘ سے امت کو دور کر دیا اور امت بر کا ت نبو ت سے محرو م ہو گئی ، دکتو ر صالح احمد رضا کی کتا ب ’’ انہا النبوۃ ‘‘ جو سیر ت پر ایک انمو ل کتاب ہے ، اس میں وہ فر ما تے ہیں کہ، میں نے اس کتا ب کا نام ’’ انہا النبوۃ ‘‘کیوں تجویز کیا  ؟ 

    ’’ فتح مکہ اسلا می تا ریخ کا اہم تر ین وا قعہ ہے ، فتح مکہ کے دن اسلا م اپنی تمام شا ن و شو کت کے ساتھ اس زما نہ کی سپر پا و ر طا قت قریش کے سامنے جلو ہ گر ہو ا، اور اسلام اور مسلما نو ں کی شا ن و شو کت اور دبد بہ نے قریش کو، جو اشرف العر ب تھے ،مبہو ت کر کے رکھد یا تھا ۔ مسلما ن پوری آ ن ،شا ن اور با ن کے سا تھ اسی مکہ میں دا خل ہو ئے تھے ، جہاں سے انہیں دس سال قبل زبر دستی نکلنے پر مجبو ر کیا گیا تھا ، انہیں ظلم کی چکی میں پسا گیا تھا ،اور حکم ہجر ت الی المد ینہ کی صور ت میں مد ینہ جا نے سے بھی رو کنے کے بھر پور اقد ا ما ت کیے گیے تھے؛ تا کہ اسلا م اور مسلما ن مظلومیت میں جکڑ ے رہیں اور انہیں پھلنے او ر پھو لنے کا مو قع نہ ملے، مگر وہ اس میں کا میا ب نہ ہو سکے ، وہی بچارے ظلم کے ما رے مسلمان آ ج با و قا ر اندا ز میں اور فا تحا نہ طو ر پر مکہ میں داخل ہو رہے تھے؛ تو ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دس ہز ا ر سے زا ئد افر ا د پر مشتمل لشکر ’’ الفا تحو ن الر حما ء ‘‘ رحم دل فا تحین کا ایک نیا باب رقم کر نے جار ہے تھے ، اور دنیا کے فاتحین کی اس طر ز عمل کو یکسر تبد یل کر رہے تھے، جو عا م طور پر تا ریخ بشر  میں ہو تا چلا آ رہا تھا ، جس کو قر آ ن نے حضر ت سلیمان علیہ السلام کے وا قعہ میں ذکر کیا ہے : 

    { اِنَّ الْمُلُو کَ اِذَا دَخَلُو ا قَرْیَۃً اَفْسَدُواہَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّ ۃَ اَہْلِہَا وَ اَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُونَ}(النمل : ۳۴)

    بلقیس نے کہا کہ یقینا بادشاہ لو گ، جب کسی بستی میں دا خل ہو تے ہیں؛ تو اسے تہس نہس کر دیتے ہیں اور وہاں کے عز ت دار لو گوں کو ذلت سے دو چا ر کر دیتے ہیں ، یہ ایسے مو قع پر نبو ت کے حا مل، جیش اسلا می کے روح رواں اور قائد ،محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا {لَا تَثْرِ یْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْہَبُوا فانتم الطلقائ} حرم مکی اہل مکہ سے کھچا کھچ بھر ا ہو تھا، ان میں وہ لو گ بڑ ی تعدا د میں تھے؛ جنہو ں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحا ب کو طرح طرح سے اذ یتیں پہنچا ئی تھی ، ذہنی اذیت بھی اور جسما نی اذیت بھی؛ بلکہ اذیت کی کسی قسم کو نہیں چھو ڑ ا تھا، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ، آ ج تمہارا کوئی مو ا خذہ نہ ہو گا ، تم جا ئو سب معا ف کر دیے گئے ہو ۔ کیا دنیا کی تا ریخ ایسے عظیم فا تح کی ایک مثا ل بھی پیش کر سکتی ہے ؟ 

      اس مو قع پر بر کا ت نبو ت کے ظہو ر اور اس کے احسا س کا ایک واقعہ بہت مناسب ہو گا ، ہم اسے پڑ ھیں ۔ 

    رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ پہنچنے سے پہلے ہی، ابو سفیا ن حضرت عبا س ابن عبد االمطلب رضی اللہ عنہ کی وسا طت سے اسلا م میں دا خل ہو گئے ، جب انہو ں نے کلمہ پڑ ھ لیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمِّ محترم حضرت عبا س ؓ سے کہا ہمار ے لشکر کے مکہ میں داخل ہو نے سے قبل، تم ابو سفیان کو لیکر مکہ چلے جائو اور مکہ میں داخل ہو نے سے پہلے کسی پہا ڑ ی کے پاس؛ جہا ں تنگ وادی میں رستہ ہو ابو سفیا ن کو لیکر کھڑ ے رہو ، تاکہ وہ اسلا می لشکر کی شا ن و شو کت کا مشا ہدہ کر سکے ،بس حکم رسو ل کی تعمیل میں سید نا حضرت عبا س رضی اللہ عنہ، ابو سفیا ن کو لیکر چلدیے اور ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدا یت کے مطا بق ابو سفیا ن کو لیکر ایک تنگ راستہ پر کھڑ ے ہو گئے ، حضرت عبا س ؓ فر ما تے ہیں کہ ،ایک ایک کر کے مختلف قبا ئل کے فو جی دستے مکہ میں دا خل ہو نے لگے ، اور ہمار ے پاس سے گزر نے لگے ، جب بھی کوئی فو جی دستہ گز ر تا تو ابو سفیا ن مجھ سے سو ال کر تے من ہذ ہ؟ یہ کو ن لو گ ہیں ؟ اور کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ؟ تو میں قبیلہ کا نا م لیتا تھا، جب قبیلہ سلیم ہمار ے پاس سے گز را، تو سوا ل کیا کہ عبا س یہ کو ن لو گ ہیں ، میں نے کہا بنو سلیم ہیں، تو ابو سفیا ن نے کہا ،ما لی و لبنی سلیم، مجھے بنو سلیم سے کیا مطلب؛ اس کے بعد بنو خز یمہ گزر ے ،تو میں نے کہا بنو خز یمہ، تو کہا مجھے بنو خز یمہ سے کیا لینا دینا ، اسی طرح تمام دستے یکے بعد دیگر ے گزر تے گئے اور میں ان کے نام بتلا تا رہا اور ابو سفیا ن اپنے قر یشی شر ف میں استغنا کا اظہار کرتے؛یہاں تک کہ اخیر میں ،وہ دستہ گزر نے لگا، جس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انصار و مہا جر ین جا نثار وں کے ساتھ تھے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ار دگر د ہتھیا ر و ں سے لیث صحا بہ کے اس دستہ کا جب گز ر ہو ا، تو سوائے سور ج کی روشنی میں ہتھیا رو ں کے چمکنے کے اور کچھ بھی نہیں سجھائی دے رہا تھا؛ ایسی تیز رو شنی تھی کہ دیکھنے والا دیکھ کر مبہو ت ہو جا تا اور ابوسفیان کے ساتھ بھی ایساہی ہوا؛تو وہ تعجب اور حیرت سے کہنے لگے کہ، عباس سبحان اللہ یہ کون لوگ ہیں، جو اتنے زیادہ ہتھیاروں سے لیث ہیں ،میں نے کہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مہاجرین اور انصار کی معیت میں؛ تو ابو سفیان نے کہا ان کے سامنے توکوئی نہیں ٹک سکتا، اور کس میں طاقت ؟کہ، وہ ان کا مقابلہ کر سکے اور پھر وہی اپنے قریشی تفاخرکے اندازمیں کہا : اے ابو الفضل خدائے پاک کی قسم ،تمہارے بھتیجہ کی سلطنت بہت جلد اپنی عظمتوں اور وسعتوں کو چھوئے گی، اور بعض روایت میں ہے کہ، تمہارے بھائی کے بیٹے کو بڑی عظیم سلطنت آج حاصل ہو چکی ہے؛ مگر قر بان جائیے سیدنا عم الرسول، بلکہ عم الامۃ کلہا، حضرت عباس پر آپنے فوراً کہا  ویحک یا اباسفیان ’’انہاالنبوۃ ‘‘ اے  ابوسفیان تیراناس ہو، یہ سب نبوت کی کر شمہ سازی اور برکتیں ہیں ،تو ابو سفیان نے کہا واقعۃ آپ نے بالکل درست کہا (المطا لب العالیہ بحوالہ انہا النبوۃ والسیر ت النبویۃ)یہ تھا حضرت عباس کاجواب، جس کوآج امت فراموش کر چکی ہے، اس واقع کو پـڑھنے کے بعد مجھے خود ایسا محسوس ہوا، جیسے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی ہو۔ عصر حاضر کے انسانوں کو ، خاص طور پر مسلمان کو سمجھانے کے لئے ہی حضرت ابوسفیان اور حضرت عباس کے درمیان محادثہ کروایا ہو کیوںکہ ابوسفیان ابھی کچھ دیر قبل اسلام میں داخل ہوئے تھے اور حضرت عباس پہلے ہی داخل ہوچکے تھے، ابوسفیان کو اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابر کت ابھی حاصل نہیںہوئی تھی ؛جبکہ حضرت ابوالفضل عباس صحبت رسول  سے فیض یاب ہوچکے تھے ،حضرت ابوسفیان نے وہی اپنی زمانہ جاہلیت والی ذہنیت کی بنیاد پر کہا  ’’وان لا بن اخیک غداً ملکاًعظیما‘‘ کہ تمہارے بھائی کے بیٹے کی سلطنت بڑ ی عظیم ہوگی، گویا اس میں بھی قریش والا تفاخر شامل تھا، یعنی اگر محمد ابن عبداللہ کو وسیع سلطنت حاصل ہوتو؛بہر حال وہ بھی تو قریشی ہی ہیں، سیدنا حضرت عباس نے اس ذہنیت کومحسوس کرلیا اور بر جستہ (ایسامعلوم ہو تا ہے جسیے الہامی جواب دیاہو )کہا:کہ نہیں ؛اس میں نسبیت اور قریشیت کو کوئی دخل نہیں ہے ،بلکہ  یہ تو اس نبوت کی بر کتیں ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی جانب سے عطاکی گئی، سبحان اللہ ہمارے ماں باپ قربان ہوں، حضرت عباس پر کہ آپ نے کیسا حکمت بھراجواب دیا ،اور یہ جواب صرف ابوسفیان کے لئے نہیں تھا ؛بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں اور مسلمانوںکے لئے ہے کہ، اگر تم چاہتے ہو دنیا میں عزت حاصل ہو اور دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے ؛توتمہیں منہجِ نبوت کوزندگی کے ہر شعبے میں جگہ دینی ہو گی، ہمارے تمام تر مصیبتوں کا علاج صرف اور صرف منہج نبوت میں ہے آج امت بھی اسی طرح مختلف عصبیتوں کے گرداب میںپھنسی ہوی ہے اور اسلامی نبوی نسبتوں کو فراموش کرچکی ہے!!! ۔

    اللہ ہمیں اس حقیقت کوسمجھنے کی توفیق عطافرما ئے ۔۔۔۔۔۔۔اور منہج نبوت کو اختیار کر نے کی توفیق سے نوازے، تاکہ ہم بر کا تِ نبوت سے سرفراز ہوسکیں، اور دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہونے میں کامیاب ہوجائیں آمین یا رب العالمین ۔

    اطاعت رسول اور مخالفت رسو ل کو اور بھی جلی انداز میں سمجھنے کے لئے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کہ تین معرکوں کو پڑھنا ہوگا ،معرکۂ بدر، معرکۂ احد، اور معرکئہ حنین ان تینوں معرکوں کو پڑھنے سے ،یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ، مسلمان کی کامیابی کا راز کیااور اس کی تباہی کا اہم سبب کیاہے ۔

    یہ تینوں غز و ا ت کی تفصیل تو مقصو د نہیں، البتہ ان کے نتا ئج اور اسبا ب ِتنا ئج پر مختصراً چند امو ر پیشِ خدمت ہیں ، غزوہ بد ر ۲ھ رمضا ن المبار ک میں کفا ر مکہ اور مسلما نو ں کے در میا ن مقا م بد ر پر واقع ہو ا، جو مد ینہ سے تقر یباً 150؍ کیلو میٹر، جنو ب غر ب میں اور مکہ سے تقریباً 340 ؍کیلو میٹر کی دور ی پر شما ل میں وا قع ہے ، اس غزو ہ میں جو باطل کی سب سے بڑ ی علا قا ئی طا قت اور اسبا بِ ظاہرہ کے اعتبا ر سے، سب سے کمزو ر طا قت کے در میا ن محض مذہبِ حق کی بنیا د پر مقابلہ  ہو ا ، کفا ر مکہ کے لشکر کی تعدا د تقر یباً ۱۳۰۰؍فو جیو ں پر مشتمل تھی، جس میں سو گھو ڑ ے سات سو ذرہیں، اور بے حد و حساب اونٹ تھے ؛جس کا چیف کما نڈ ر ابو جہل تھا اور تمام اسلحو ں سے لیث تھے، دوسری جانب لشکر ِاسلا م تقر یباً ۳۱۳؍ مجا ہد ین پر مشتمل تھا، جس میں ۸۲؍ یا ۸۶؍ مہا جر ین تھے ؛ ۶۱؍قبیلہ او س سے اور ۱۷۰؍قبیلہ خزرج کے شیدا ئی تھے ، اونٹ ستّر تھے ، اور صر ف دو گھو ڑ ے تھے ، اسلحہ بھی بہت کم تھا ،اب آپ خو د مو از نہ کر یں کہ کیا دو نوں جا نب بظا ہر کسی طرح کا بھی تو ا ز ن ہے ۔


اسلا می لشکر 
لشکر کفا ر 
۳۱۳؍
۱۳۰۰؍
۲؍گھو ڑ ے 
۱۰۰؍گھو ڑے
کوئی ذرہ نہیں 
۷۰۰؍ذر ہیں 
۷۰؍او نٹ 
بے حد و حسا ب او نٹ 

    اب کو ن کہہ سکتا ہے کہ، اسلا می لشکر کا میا ب ہو گا! اور لشکرِ کفار شکست کھا ئے گا!مگر ہو ا ایسا ہی کہ اسلا می لشکر غا لب اور کا میا ب ہو ا اور کفار شکست فا ش سے دو چا ر ہوئے ، ظاہر ی اسبا ب میں مسلما نو ں کی کا میا بی کے کوئی آثا ر نہیں تھے ، اور کفار کی نا کا می کے بھی کوئی آ ثا ر نہیں تھے ، مگر ہو ا ایسا ہی ۔ یہ ہما رے لیے قا بل غور ہے کہ، آخر مسلما نو ں کی کا میا بی کے پیچھے کو نسے عو ا مل کا ر فر ما تھے ؟ 

    ۱۔   اللہ کی ذا ت پر اعتما د کا مل   : -  اس طو ر پر کہ ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحا بہ کو بشا ر ت سنا ئی کہ کامیا بی، ہمارے لیے مقد ر کر دی گئی ہے، اور اپنے خطبہ بد ر میں کہا : ’’ فان وعدہ حق قو لہ صد ق وعتا بہ شدید و انما انا و ا نتم با للہ الحی القیوم الیہ الجأ نا ظہو ر نا وبہ اعتصمنا وعلیہ تو کلنا والیہ المصیر یغفر اللہ لی وللمسلمین ‘‘ (انہاالنبوۃ:ص ۳۱۵)

    یقیناًاللہ کا و عد ہ بر حق ہے، اس کی با ت سچی ، اس کی گرفت اور عذا ب سخت ہے ، میں اور آپ ہم سب محض اس ہمیشہ رہنے والی ذا ت اور نظا م کا ئنا ت کو تھا مے ہوئے ہستی کے بل بو تے پر ہیں ، ہم اسی کی طر ف ٹھکا نہ پکڑ تے ہیں، اسی کی در کو تھا متے ہیں ، اسی پر بھر و سہ کر تے ہیں، اور ہمیں اسی کی طر ف لو ٹنا ہے ، اللہ مجھے اور آپ کو بخش دے ۔ ’’ گو یا ’’انتم الاعلون ان کنتم مؤ منین ‘‘کی تشریح کر رہے تھے ،اور’’ من یتو کل علی اللہ فہو حسبہ‘‘ کو سمجھا ر ہے تھے، اور یہی مو من کی زندگی کا امتیاز ی وصف ہے کہ، وہ اسباب اختیا ر کر نے کے بعد قلتِ اسباب اور ضعفِ قو ت پر نظر نہیں رکھتا؛ بلکہ اللہ پر اعتما د اور بھر و سہ کر تا ہے ، اور پھر قلتِ اسباب ،ضعفِ قو ت کیا عدم قو ت کی صورت میں بھی اللہ کا میابی سے ہمکنا ر کر نے پر قا در ہے ، بس شر ط یہ ہے کہ ایما ن قو ی ، عمل صحیح اور اعتما د کامل پا یا جا ئے ۔اللہ ہمیں بھی ان صفا ت سے متصف کر دے ۔ آ ج ہماری سب سے بڑ ی کمزو ری یہی ہے کہ، ایما ن کمزو ر، اعتماد میں کمی ،عمل میں عدمِ خلو ص اور عد م صحت ۔ اللہم اہدنا واہدبنا واہد النا س جمیعاً ۔

    ۲-  صدق دل سے دعا، آ ہ و زا ری اور گریا و زا ری کے ساتھ استجا بت دعا ء کا یقین رکھنا   : -    آپ خو د رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ِدعا کو پڑ ھ لیں ، رونگٹے کھڑ ے ہو جائیںگے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں :کہ ’’ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم در خت کے نیچے پہنچے، رات بھر نماز یں پڑ ھتے رہے اور گڑ گڑ ا کر دعائیں کر تے رہے‘‘ امام مسلم اور دیگر محدثین ومؤ ر خین اور سیر ت نگار و ں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعا اور کیفیت ذکر کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مو قع پر بے پنا ہ آ ہ و زا ری کر تے ہوئے کہا : ’’ اللہم انجرلی ماوَعَدْتَّنی، اللہم آت ما وعد تنی، اللہم ان تہلک ہذ ہ العصابۃُ من اہل الاسلا م لا تعبد فی الا رض ‘‘ 

    اے اللہ آپ نے جو مجھ سے وعد ہ کیا ہے، وہ پورا کر یں ، اے اللہ اپنا وعد ہ پور ا کر کے بتلائیے ، اے اللہ اگر مسلما نو ں کی یہ نہتی اور مختصر جما عت ہلا ک ہو گئی ،تو زمین پر آپ کی عبا د ت نہیں ہو سکے گی ‘‘

    اور اس طرح حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا کر رہے تھے ، بلکہ ایسی حا لت تھی کہ آپ کی چا در بھی زمین پہ گر گئی ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ کیفیت دیکھی ،تو چا در اٹھا کر آپ کے کا ندھو ں پر رکھی اور آپ کے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے ،یا ر سو ل اللہ ! بس اب اتنا اپنے پر ور دگا ر سے آ ہ و زا ری کر نا کا فی ہے ، ضرور اللہ آپ سے کیا ہو ا وعد ہ پورا کر یں گے ، اور ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کو قر آ ن نے بھی بیا ن کیا :

 {اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اِنِّی مُمِدُّکُمْ بِاَلْفِ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْن}ایک اور روایت میں ہے کہ بد ر سے قبل، را ت میں تو مذ کور ہ بالا دعاء کی، اور پھر جب دو نو ں لشکر آ منے سا منے ہوئے؛ تو ان الفا ظ میں دعاء کی : ’’ اللہم ان قریشا قد اقبلت بخیلا ئہاوفخر ہا تحا دک وتکذ ب رسو لک، اللہم فنصرک  الذ ی وعدتنی اللہم احنہم الغداۃ ‘‘ (ابن ہشام : ۲/۳۱۴)

    اے اللہ قریش اپنے پور ے جا ہ و جلا ل اور اتر ا ہٹ کے سا تھ مید ا ن میں کو د پڑ ے ہیں ،گویا وہ آپ کو چیلنج کر رہے ہیں ، آپ کے رسو ل کی تکذ یب کر رہے ہیں ، اے اللہ آپ مد د کے ذریعہ اپنے، اس وعد ے کو پور ا کیجئے ،جو آپ نے مجھ سے کیا تھا ،اور آ ج انہیں ہلا ک کر کے چھوڑ یے ۔
(السیرۃ النبو ۃ فی ضوء مصادر ہا الا صلیۃ : ص۳۳۰)

    یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا کا اہتمام ، دعا ایسا سلاح مو من ہے ، جو تما م ظاہر ی اسلحہ پر فو قیت رکھتا ہے ، بلکہ مو من کا سب سے قوی ہتھیار ہے ،کیو نکہ دعا کے ذریعہ ہی مو من کا اللہ سے تعلق کے مضبوط ہو نے کا علم ہوتا ہے ، مو من کی نگاہ اپنی ظا ہر ی طا قت پر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ پر ہو تی ہے۔

    آج ہمار ی سب سے بڑی کمزو ری یہ ہے کہ، اولاً تو ہماری اکثر یت نے دعا ء کو بھلا ہی دیا، اور قدر قلیل تعدا د دعا کر تی ہے ، تو اس میں نہ آ د ا بِ دعاء کی رعا یت، اور نہ دعا کی قبولیت کا یقین اور نہ گر یا وزا ری، نہ دل جمعی سے دعا ء فانی یستجاب پھر کہا ں وہ قبول ہو گی؟؟!!۔

    اللہ ہمیں دل جمعی کے ساتھ دعا کر نے کی کثر ت سے تو فیق عطا فر مائے ۔آ مین 
    ۳-  شوریٰ : -  کا اہتمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت صحابہ سے مشور ہ کر تے رہے ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قر یش کے تعا قب میں مد ینہ سے نکلے تھے، مگر ابو سفیا ن کی چالا کی کی وجہ سے قا فلہ قریش بچ نکلنے میں کا میا ب ہو گیا، لہٰذا جنگ کی تیاری نہ تھی اور نہ امکا ن ، اسی لیے نفیرِ عا م بھی نہیں کیا ،اور نہ اسلحہ وغیرہ کا اہتمام کیا ، مگر جب پتہ چلا کہ قا فلہ قر یش تو بچ نکلنے میں کا میا ب ہو گیا، البتہ کفا ر مکہ جنگ کی تیار ی کے ساتھ نکل چکے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصا ر و مہا جر ین سے مشو رہ کیا ، شر و ع شرو ع میں تو بعض صحا بہ کو تر دد ہو ا، اس لیے کہ جنگ کی تیا ری سے نہیں آ ئے تھے ، مگر جب کبا رِ صحابہ نے دیکھا کہ ،رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشیٰ جنگ ہے ؛تو اولاً حضرت ابو بکر اور حضرت مقد ا دنے تا کید کی، اور پھر انصار کے سر دار حضرت سعد بن معا ذ نے بھی پر زو ر تائید کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مسرو ر ہوگئے اور کہنے لگے ’’ سیر وا بشروا ‘‘ چل پڑ و اور بشارت سن لو کہ، اللہ نے دو میں کسی ایک کو ہز یمت دینے کا وعد ہ کر لیا ہے ۔(السیرۃ النبویۃ : ص ۳۲۴) 

    اس سے دو سبق ملے ایک تو مشو رہ کر نا اور دوسرا بڑ و ں اور چھو ٹو ں کو امیر کا منشا معلو م کر نا، اس کی تا ئید کرنا، چا ہے تیاری کیوں نہ ہو ، آج ہمارے اند ر یہ چیز بھی مفقو د ہے ، شوریٰ کا اولاًتو اہتمام نہیں ، اور اگر کہیں ہے تو بر ائے نام ہر ایک اپنی رائے تھو پتا ہے ، گویا مشور ہ نہیں دیتا، بلکہ حکم جاری کر تا ہے ، اور پھر جب اس کی رائے کی مخالفت ہو جاتی ہے ، تو انتقا م اور شر کشی پر آ ما دہ ہو جا تا ہے ، نہ کسی اہل کو امیر بنا یا جا تا ہے، اور نہ اس کے منشا کو جا نا جاتا ہے ، اس سے انتشا ر پیدا ہو تا ہے ۔ اور باہل امیر ، پھر اس کے منشا کے مطا بق رائے دینے اور اس پر عمل کر نے سے اتفا ق پید اہو تا ہے ، اور پھر اتحاد کی بر کت سے کا میا بی آسا نی سے اور جلد از جلد حاصل ہو تی ہے ۔ وہ نا قا بل بیان ہے ۔اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فر مائے ۔ 

    ۴  -  اطا عت ر سو ل    : -   بد ر کی کا میا بی کے اسبا ب میں سے ایک سبب، کا مل اطا عت اور اتبا ع رسول بھی ہے کہ ،ہر مو قع پر صحا بہ کرا م رضو ان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی اطا عت کی… اور بعض کو تر دد تھا جیسا کہ قر آ ن نے اشا رہ کیا  {وان فریقاً من المومنین لکا رہون }(الانفال: ۵) کہ مو منین کا ایک گرو ہ جنگ کے لیے آما د ہ نہیں تھا، مگر جب منشا ء رسول کو دیکھا تو صافحضرت مقدا د بن اسود نے کہا’’ لا نقول کما قال بنو ا اسر ائیل لمو سیٰ ،اذہب انت وربک فقاتلا انا ہا ہنا قا عدو ن  ، ولکنا نقاتل عن یمینک وعن شمالک وبین یدیک وخلفک ‘‘  اور حضرت سعد نے کہا’’ فو الذی بعثک بالحق لو استعرضت بنا ہذا البحر فخضتہ لخضنا ہ معک، ما تخلف منا رجل واحد وما نکر ہ ان تلقی بنا عدونا غدا ، انا لصُبُرٌ فی الحر ب صُدُ قٌ فی اللقائ، لعل اللہ یر یک منا ما تقر ہ عینک ،فسر بنا علی برکۃ اللہ (ابن ہشام )ومسلم )

    کیسا خلوص بھر ا کلا م ہے مہا جر ین وانصا ر کا ، یہی مسلما ن کی کا میا بی کاا ہم زینہ ہے ، حضرا تِ صحا بہ کر ا م ؓ میںعشقِ رسول بھی کو ٹ کو ٹ کر بھر ا ہو ا تھا ، اور اطا عتِ رسو ل کا جذبہ بھی اسی کے بقد ر تھا؛ بلکہ جذ بہ عشق سے زیا د ہ جذ بہ اطا عت تھا، اور یہی اللہ کی جا نب سے مطلو ب بھی ہے ،  {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْ نِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ }

    ۵ -  اپنے ماتحت کا معقول مشورہ قبول کرنا    : -  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد ر میں پہنچ کر پڑ اؤ ڈالا، تو حضرت حبا ب ابن منذ ر نے دریا فت کیا کہ، یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑا ؤ وحی کی بنیا د پر ہے ، یا آپ کی اپنی صوابدیدپر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں میر ی اپنی رائے پر، حضرت حبا ب ابن المنذ ر نے کہا کہ، مید ا ن حر ب میں پڑ ا ؤ کے اعتبا ر سے فلا ں جگہ زیاد ہ منا سب ہے ، آپ نے ا ن کے مشور ے کو قبول کیا اور ان کو یہ کہہ کر حوصلہ افزا ئی کی کہ’’ لقد اشرت بالرائی ‘‘ کہ تم نے عمد ہ مشو رہ اور رائے دی ۔

    اسی طر ح حضرت سعد ابن معا ذ ؓ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عریش کی رائے دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قبول کی ۔ 

    معلو م ہو ا کہ ما تحت کی رائے بھی امیر کو قبول کر نی چا ہیے ، آج ہمارا حال یہ ہے کہ امیر جو کہہ دے، وہ پتھرکی لکیر اور کسی کو اچھی رائے دینے کی ہمت بھی نہیں ہو تی ، اور اگر دے تو قبو ل بھی نہیں کی جاتی ، اسو ہ رسو ل سے مر د م سا زی ہو تی ہے اور ہما رے یہا ں جو طر یقہ ہے اس سے حوصلہ شکنی ہو تی ہے ، اللہ ہمیں اسو ہ رسو ل کو اختیا ر کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔

       ۶-  بقد ر وسعت اسبا ب اختیا ر کر نا اور صحیح نظا م مر تب کر نا    : - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر یش کے لشکر کی تعد ا د معلو م کی ، جاسوس چھو ڑ کر ان کے ارا دو ں سے آ گا ہ ہوئے ، اس سے معلو م ہو ا کہ اللہ سے دعا اور اللہ پر اعتما د کے ساتھ سا تھ، بقد ر وسعت اسبا ب اور صحیح انتظا م بھی اختیار و مرتب کر نا چا ہیے ۔ 

    آج یہ بھی ہما ری زندگی میں نہیں ، اگر کہیں اسبا ب اختیا ر کر نے اور نظا م مر تب کر نے کا ما حو ل ہے، تو کلی اعتما د اسی پر ہے ، اورتو کل اور دعا کا فقد ا ن ہے؛ جبکہ یہ مو من کے شا ن کے بالکل خلاف ہے ، اسبا ب اختیار کرنا بقد ر وسعت اور مسبب الا سباب سے لَو لگا کر، اس کو مؤ ثر حقیقی گر دا ننا، یہی تو مو من کی امتیا زی شا ن ہے ، اللہ ہمیں صفا تِ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کو کلی طو ر پر اختیار کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔ 

     ۷ -  ہر حالت میں امیر کااسلا می مسا وا ت اختیار کرنا    : -  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسا وا ت اور عد ل کے دامن کو کبھی نہیں ترک کیا، مگر مسا وا ت کا وہ مفہوم ،جو اسلا م نے مقر ر کیا ہے، وہ نہیں جو آ ج مغرب نے گمر ا ہی کو عا م کر نے کے لیے اختیا ر کیا ہے۔ 


    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ پر سوا ر ی کے وقت، اپنی بار ی میں حضرت علی اور ان کے سا تھی سے یہ کہنا  (جب دو نو ں نے آپ کو سو ا ر رہنے کو کہا) ’’ما انتمابا قوی منی ولا انا اغنی عن الاجرمنکما‘‘ کہ، نہ تو تم دو نوں مجھ سے زیاد ہ قوی ہو، اور نہ میں تمہار ے ما نند اجر سے بے نیا ز ہو ں ۔ اللہ اکبر ! 
    ۸ -  زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اعلاء کلمۃ اللہ   : -   ان سب کے ساتھ جو ایک اہم عا مل تھا، وہ یہ کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا مقصد’’ اخلاص کے ساتھ اسلام کی سر بلند ی، اور اللہ کی رضا جوئی‘‘جو پورے طور پر واقع بدر میں شروع سے لیکر اخیر تک نمودا ر ہو تی رہی ؛ اورذرہ برابر دنیوی غر ض شامل نہ تھی ،مگر افسو س آج ہمار ا حال، اس معا ملہ میں قا بل اصلاح ہی نہیں، نا قا بل بیا ن بلکہ قا بل رحم ہے؛ کہیں دین کے نا م پر ،کہیں ریلیف کے نام پر، کہیں تعلیم کے نا م پر کہیں امدا د کے نام پر، تو معلو م نہیں کس کس دینی و ملی کا م کے نا م پر؛ آ ج ہمار ا بڑ ا طبقہ محض اپنا اُلّوسید ھا کر رہا ہے ، میں نہیں کہتا کہ سب کا یہ حال ہے، مگر اکثر کا یہی حال ہے ، اس سے انکا ر کی گنجائش کم ہے ۔


    اگر ہمارے تمام دینی وملی ادار ے اور بس، ایک ہی مقصد طے کر لیں کہ، اسلا م کے صحیح اصول کے مطابق اللہ کی رضا کے خا طر ملت اور دین کی خدمت کرنا ہے ، تو میں سمجھتا ہو ں امت کے اختلاف وانتشا ر کی نا قا بل بیا ن کیفیت ختم ہو سکتی ہے ، بد ر جیسے نتا ئج اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اگر کوئی کہے کہ مذ کور ہ امور سے کیا ہو گا؟ تو میرا خیال ہے کہ، اگر ہم نے مذ کورہ اسبا ب اختیار کیے، تو وہی بد ر کا سما اب بھی قائم ہو سکتا ہے ۔ 

    خلا صہ کے طور پر یہ اسبابِ نصر پیش کیے جا تے ہیں : 
    (۱)… ایمان ِقوی (۲)…اخلا ص (۳)…اطاعت ِکا ملہ ،یعنی منہج نبوی کی تشریح سلف صالحین کی  روشنی میں مکمل پیر و ی  (۴)…اللہ پر کا مل اعتماد اور تو کل (۵)…ادعیہ ما ثو ر ہ اور گڑگڑ ا کر دعا ئوں کی عا د ت (۶)…دعاء کے آ دا ب کی رعا یت اور اجا بتِ دعا کا یقین (۷)…صحیح اسلا می اصو ل کے مطا بق شوریٰ (۸)…باہل امیر کا انتخا ب (۹)…امیر کی کا مل اطا عت (۱۰)…ما تحت کی معقو ل رائے کو قبو ل کرنا اور حوصلہ افز ائی کر نا (۱۱)…اسلا می مسا و ا ت کی رعا یت ،نہ کہ مغر بی گمرا ہ کن مسا وا ت کو اپنا نا (۱۲)…ملت اور دین کی خد مت محض رضاء الٰہی اور اعلاء کلمۃ اللہ کی خا طر(۱۳)… مسلما نو ں کو اتحا د واتفا ق کی اصول شریعت کے مطا بق مکمل کوشش  (۱۴)…ہر حال میں،رنج و غم ،خو شی اور مسر ت ،اچھے اور برے، تمام حالا ت میں شریعت کی مکمل پیر وی (۱۵)…فر ائض وواجبا ت کا مکمل اہتمام، جیسے صحا بہ کا روزے کی حالت میںبھی جنگ … لہٰذا نماز، رو زہ، زکوٰۃ اور کلمہ کے تقاضو ں کو ہمیشہ پورا کرنا (۱۶)…صبر او ر ثبا ت قد می کا مظا ہر ہ کرنا ،جیسا کہ صحا بہ نے بد ر میں کیا ۔

آئیے! اب غز وا تِ احد ،اور غز وہ حنین میں عا رضی طور پر ہوئی ہزیمت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں؛ تا کہ اسبابِ نصرکو اختیار کر یں، اور اسبابِ ہز یمت سے خلا صی حاصل کریں ۔

    قبل اس کے کہ اسبا بِ ہز یمت سے واقف ہو ں ،اسباب نصر کی صورت میں اللہ کی طرف سے کیا نعمتیں ملتی ہیں اسے بھی جا نتے چلیں : 

    جب بند ے اللہ کی مکمل تا بعد ا ری کر تے ہیں اور اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے ہیں؛ جیسا کہ انبیاء اور صحا بہ نے چل کر بتلا یا؛ تو اللہ کی مدد ایسے آتی ہے، جیسے بد ر میں اور دیگر مختلف مو ا قع پر آئی ۔ 

    {۱}…اللہ کی خا ص غیبی مدد فر شتو ں اور با رش کی صور ت میں۔ 
    {۲}…مو من کی نظر میں کفار کی قلت ان کی کثر ت کے با و جو د ۔
    {۳}…اللہ کاکفار کی دلو ں میں رعب ڈالدینا۔
    {۴}… اللہ اس کی اطا عت کی بر کت سے صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔ 
    {۵}…صالحین کو اللہ ہمیشہ کا میا ب رکھتا ہے ۔
    {۶}… اللہ مسلما نو ںکو ہمت اور طا قت سے نو ا ز تا ہے۔ 
    {۷}… مو من کو آخر ت اور شہا دت ،دنیا کے مقا بلہ میں محبو ب ہو جا تی ہے۔ 
    {۸}… مو من شکر نعمت پر آ مادہ ہو جا تا ہے ۔
    {۹}…مو من کے دل میںاللہ اور مسلما نوں کی خا طر، ہر طرح کی قر با نی کا جذ بہ بیدا ر کر دیتا ہے۔ 
    {۱۰}…ثبات قد می، یعنی ہر حال میں قضا و قد ر پر راضی رہنے اور صبر کے ساتھ سا تھ فر ائض، واجبات، سنن و مستحبا ت کی روشنی پر عمل کر نے کا، جذ بہ پیدا کر تے ہیں ۔


غز وہ احد 

    غزوہ احد مد ینہ کے قر یب و اقع ایک پہاڑی کی دامن میں ماہ شو ا ل۳؍ھ میں وا قع ہو ا ۔
    کفار مکہ عز وہ بد ر کا بد لہ لینا چا ہتے تھے ، اور ملک شا م کے تجا رتی راستہ کو بھی ہموا ر کر نا چا ہتے تھے ، ساتھ ہی اپنی کھو ئی ہوئی وقعت کو بحا ل کر نا اور مسلما نو ں کو مزیدمستحکم اور مضبو ط ہو نے سے روکنا چا ہتے تھے ؛لہٰذا ۳۰۰۰فوجیو ں ۷۰۰ زرہیں ۲۰۰ گھو ڑ ے لیکر، احد میں کو د پڑ ے تھے؛ مسلما نو ں کی تعد ا د ایک ہز ا ر مجا ہد ین اور دو گھوڑے اور سو ز ر ہوںپر مشتمل تھی۔

    عز وہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا داخل مد ینہ جنگ کر نے کا تھا ،مگر صحا بہ کی بڑ ی تعدا د مید ا ن سے نکل کر جنگ پر آ ما د ہ تھی؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعا یت کی اور اپنی رائے پر عمل نہیں کیا ،گو یا آ غا ز ہی میں کچھ کمی ہو گئی تھی ، بہر حال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جھنڈ ے ،ایک حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں مہا جر ین میں سے ،اور ایک اسید بن حضیر کے ہاتھ میں جو ا وس میں سے تھے ، اور ایک حبا ب ابن المنذ ر کے ہاتھ میں جو خز ر ج میں سے تھے تھما دیا  ، اور احد کی طرف چلد یے راستہ میں ثنیۃ الو دا ع کے پا س ایک اسلحہ سے لیس دستہ کو دیکھا ،تو پو چھا یہ کو ن ہیں، صحا بہ نے کہا یہ عبد اللہ بن ابی ابن سلو ل یہو د کے قبیلہ بنو قینقا ع سے ۶۰۰ سپا ہی لیکر آیا ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے در یا فت کیا کہ، وہ مسلما ن ہو چکے ہیں ؟ صحا بہ نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف کہہ دیا :’’قو لو لہم فلیرجعوا، فا نا لا نستعین با لمشر کین علی المشر کین (ابن سعد بحو الہ السیرۃ النبویۃ : ۳۶۵)

    انہیں کہو کہ لو ٹ جا ئیں، ہم مشر کین کے مقا بلہ میں مشر کین سے مدد نہیں لیتے ۔
    اسلا می لشکر جب مقا م شو ط پر پہنچا، تو عبد اللہ ابن ابی ابن سلو ل ۳۰۰ منا فقین کو لیکر یہ کہکر وا پس ہو گیا کہ، بچو ں کی با ت ما نی گئی اور میر ی رائے پر عمل نہیں کیا گیا ؛کیو نکہ اس کی رائے بھی مد ینہ میں رہ کر جنگ کر نے کی تھی ۔

     بہرحال اس مو قع پر صحا بہ میں اختلاف ہو گیا، کچھ منا فقین کی جا نبد اری تو کچھ مخا لفت کر نے لگے ،قر آ ن نے اسی مو قع کے لیے کہا {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوا}(النسائ: ۸۸)
یہ گو یا دوسری چو ک تھی ، ’’آپسی اختلاف‘‘ ۔

    حضرت عبد اللہ بن عمر ابن حز ا م نے ان کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ، ایسے جنگ کے مو قع پر تم اپنی قو م اور نبی کو چھو ڑ کر جارہے ہو ، مگر عبد اللہ بن ابی ابن سلو ل نے ایک نہ سنی قر آ ن نے {وَمَا اَصَابَکُمْ یَومَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ }(آل عمرا ن :۱۶۶،۱۶۷) میں اسی گفتگو کی طر ف اشار ہ کیا ۔ 
    اس مو قع پر مخلص مو منین میں سے بنو سلمہ جوخز رج سے تھے اور بنو حا رثہ جو ا و س سے تھے ،انہو ں نے بھی منا فقین کے ساتھ مد ینہ لو ٹ نے کا ار ا دہ کیا ؛مگر اللہ نے ان کے اخلاص کی بر کت سے انہیں ایسا کر نے سے روک دیا {اِذْ ہَمَّتْ طَا ئِفَتَانِ مِنْکُمْ}(آل عمر ا ن: ۱۲۳)سے اسی طرف اشار ہ ہے ۔


    خلا صہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبل احد کے پا س پہنچ گئے ،اور صف بند ی کی ؛اسلا می فو ج کا رخ مدینہ کی طرف، اور پشت احد کی طر ف رکھا اور پچا س مجا ہد ین کے ایک دستہ کو ،حضرت عبد اللہ بن جبیر کی اما رت میں ایک چھو ٹی سی’’ پہا ڑی حنین ‘‘ پر ما مو ر کیا، جو احد کے بالکل سا منے تھی ؛تا کہ اگر مشر کین پیچھے سے حملہ کر نے کی کوشش کر یں، تو یہ لو گ انہیں پیچھے ڈ ھکیل دیں ،اور ان کو صا ف الفاظ میںکہا ’’ ان رأ یتمو نا تخطفنا الطیر فلا تبر جو امکا نکم ہذ ا حتی ار سل الیکم (بخاری ) احمد اور حاکم کی روایت میںیہ الفا ظ ہے ’’ احمو ظہور نا فان رأیتمونا نقتل فلا تنصرو نا وان رأیتمونا قد غنی فلا تشرکوا نا‘‘ اگر ہمیں پر ندے اچکے، یا ہم قتل کیے جا رہے ہوں، یا غنیمت جمع کر رہے ہو ں، خواہ کسی بھی حا لت میںہوں؛ جبتک میں تمہیں کسی کے ذریعہ نہ بلا ئوں وہا ں سے ہٹنا نہیں ؛ یہا ں بھی صر احت النص کے بعد بعض نے اجتہا د کیا، اسی طرح اپنے امیر کی با ت نہ ما نی۔’’ یہ تیسری چو ک تھی‘‘ ۔ 

    بہر حال جنگ شروع ہوئی ایک مو قع پر مسلما ن غالب آ گئے تو ’’جبل الر ما ۃ ‘‘ والے دستہ نے ما ل غنیمت کے حصو ل کے لیے اختلاف کیا اور امرسول کے با وجو د، اپنی جگہ امیر کی با ت نہ ما ن کر چھو ڑ دی حضرت خا لد جو ابھی اسلا م میں داخل نہیں ہوئے تھے ، جب انہو ں نے دیکھا کہ ’ ’ جبل رما ۃ ‘‘ پر بہت مختصر سی جما عت رہ گئی ہے، توہ وہ پیچھے مڑ کے آئے ،اور ا چا نک حملہ آو ر ہو گئے، اس حملہ کی او ل مر حلہ مسلما ن تا ب نہ لا سکے، اور منتشر ہو گئے ، ایسے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی افو ا ہ عا م ہو گئی ، تو مسلما نو ں کے حوصلے اورزیادہ پست ہوگئے ،اور بعض مید ا ن چھو ڑ کر بھا گنے لگے، اور بعض وفا تِ رسو ل کی خبر سن کر ما رے غم کے حو ا س با ختہ ہو گئے اور ہتھیار ڈال کر جنگ سے کنا رہ کش ہو گئے؛ مگر پھر حضرت کعب بن ما لک نے آ و از دی کہ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقید حیات ہیں، تو کچھ حو صلہ ملا؛ ایسے حالا ت میں تقریباً ستر صحا بہ شہید ہوگئے ، مشر کین نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر نے کی بھر پو ر کوشش کی ،مگر جا ں نثار صحا بہ نے ان کی تمام کو ششو ں کو نا کا م بنا دیا، جس میںحضرت طلحہ بن عبید اللہ ،حضرت سعد بن ابی وقا ص، حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت قتا د ہ، حضرت ابو دجا نہ رضو ا ن اللہ علیہم اجمعین پیش پیش تھے ؛مگر چو نکہ جنگ بڑ ی گھمسا ن سے ہور ہی تھی؛ لہٰذا صحا بہ کی تمام تر کوششو ں کے با و جو د رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے، اور آپ کے چہر ے پر سخت زخم آئے؛ بلکہ دو دندا نِ مبارک شہید ہو گئے ۔حضرت فا طمہ اور حضرت علی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمو ں کی مر ہم پٹی کی ، بعض مسلما ن عو رتو ں نے بھی ،اس غز وہ میں بڑ ی خدمت انجام دی، مثلاً حضرت ام عمار ہ، حضرت حمنہ بنت جحش، ام سلیم ،حضرت عائشہ ، نسیبہ بنت کعب، ما زنیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔


    بعد میں جب مسلما ن ایک با ر پھر جم گئے اور دلیر ی سے لڑ نے لگے ،تو مشر کین نے را ہِ فرا ر اختیار کر لی، یہ کہہ کر کہ اب ہم دو بارہ آئند ہ سا ل جنگ کر یں گے ، ابو سفیا ن نے ’ ’ اعلی حُبُل ‘‘  حبل کی جے ہو کا نعرہ لگا یا ، صحابہ نے حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کے اشار ے پر اللہ اعلیٰ و اجل سے جو ا ب دیا ، ابو سفیا ن نے ’’ لنا عزی ولاعزی لکم ‘‘کہا تو صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشار ے پر ’’ اللہ مو لا نا ولا مو لیٰ لکم ‘‘ سے جو اب دیا، اور اخیر میں جب ابو سفیا ن نے کہا کہ یو م بیوم بدرو الحر ب سجا ل تو حضرت عمر نے کہا ’’ لا سواء قتلا نا فی الجنۃ وقتلا کم فی النا ر ‘‘ (ابن ہشا م واقد ی ، بیہقی ، مسند احمد بخاری ابن ابی شیبہ بحوالہ السیرۃ النبیویۃ : ۳۸)

    بہر حال واقعۂ احد کی مختصر معلو ما ت تھی اب وا قعۃ ً احد سے متعلق دو چیزیں بیا ن کی جا رہی ہے ۔ ایک تو واقعہ احد کے ذیل میں قر آ ن نے جو اسبا ب ہز یمت بلکہ امہا ت اسبا ب ہز یمت بیان کیے ہیں ، وہ اور دوسر ے اللہ کی حکمت ومصلحت مومنین کو عا رضی ہز یمت سے د و چا ر کر نے میں کیا ہے ؟ چو نکہ یہ مو ضو ع بہت پر خطر ہے ، اس لیے اسلا م کے اولین معما ر حضر ا ت صحابہ کا تعلق اس سے ہے ، اور صحا بہ پر حر ف گیر ی تو کجا ان سے بدظن ہو نا بھی محرو می کے لیے کا فی ہے ، اور میں ایسا کو ئی خطر ہ مو ل لینا نہیںچا ہتا کیو ںکہ ویسے ہی بند ہ سر اپا گنا ہو ں میں ڈو با ہو ا ہے ، اور ہمار ے پا س یہی ایک سہا را ہے جس سے ہمیں اپنی نجا ت کی امید ہے اور وہ ہے انبیا ء اور صحا بہ سے محبت چا ہے نقلی ہی

کیو ں نہ ہو ۔ 
احب الصا لحین و لست منہم 
لعل اللہ یرزقنی صلا حا 

    بہر حال سیرۃ المصطفیٰ جو ار دو میںسیرت کی تفصیلی اور محقق کتا ب ہے ، جس میں اہل سینت و الجما عت کے مسلک اور اصول کی کا مل تا بعدا ر ی کی گئی ہے ، لہٰذا اس کے حو الے سے کچھ چیزیں اختصارکر کے پیش خدمت ہے: 

 غزوہ اُحد کی عارضی ہزیمت کے اسباب اور حکمتیں:

    حق جل وعلانے غزوہ احد کے بیان وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّی الْمُؤمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَال سے ساٹھ آیتیں نازل فرمائیں، جن میں سے بعض آیات میں مسلمانوں کی ہزیمت وشکست کے اسباب اور علل ، اسرار وحکم کی طرف اشارہ فرمایا، جو مختصر توضیح کے ساتھ ہدیہ ناظرین ہیں۔

    (۱)تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے پیغمبر کا حکم نہ ماننے، ہمت ہار دینے اور آپس میں جھگڑنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔

    {وَلَقَدْ صَدَقَکَمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِاذْنِہٖ حَتّٰی إذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَّعْدِ مَا أرَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الٰاخِرَۃِ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍِ عَلَی الْمُؤمِنِیْن}
    ’’اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، جبکہ تم اللہ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے اور آپس میں جھگڑنے لگے اور حکم عدولی کے بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری محبوب چیز یعنی فتح ونصرت تم کو دکھادی، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض، خالص آخرت کے طلب گار تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سے پھیر دیا، یعنی شکست دی تاکہ تمہارا امتحان کرے اور تمہاری اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے ۔‘‘

    (۲) اور تاکہ پکے اور کچے کا اور جھوٹے اور سچے کا امتیاز ہوجائے اور مخلص اور منافقں صادق اور کاذب کا اخلاص اور نفاق، صدق اور کذب ایسا واضح اور روشن ہوجائے کہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔
    اللہ تعالیٰ کے علم میں اگر چہ پہلے ہی سے مخلص اور منافق ممتاز تھے، لیکن سنتِ الٰہیہ اس طرح جاری ہے کہ محض علمِ الٰہی کی بناء پر جزاء اور سزا نہیں دی جاتی۔ جو شئ علم الٰہی میں مستور ہے، جب تک وہ محسوس اور مشاہد نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ثواب اور عقاب مرتب نہیں ہوتا۔   (سیر ۃ المصطفیٰ : ۲/۲۵۲تا ۲۵۳)

    (۳) اور تاکہ اپنے خاص محبین اور مخلصین اور شائقینِ لقاء خداوندی کی شہادت فی سبیل اللہ کی نعمتِ کبریٰ اور منتِ عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں، جس کے وہ پہلے سے مشتاق تھے اور بدر میں فدیہ اسی امید پر لیا تھا کہ آئندہ سال ہم میں سے ستر آدمی خدا کی راہ میں شہادت حاصل کریں گے، جیسا کہ گزرا۔ اس نعمت اور دولت سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں ہی کو نوازتا ہے ظالموں اور فاسقوں کو یہ نعمت نہیں دی جاتی۔
     قال تعالیٰ: { وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَائَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِین}


    اور تاکہ اللہ تعالیٰ مومنین مخلصین کو ممتاز کردے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے۔‘‘

    (۴) اور تاکہ مسلمان اس شہادت اورہزیمت کی بدولت گناہوں سے پاک اور صاف ہوجائیں اور جو خطائیں ان سے صادر ہوئی ہیں، وہ اس شہادت کی برکت سے معاف ہوجائیں۔

    (۵) اور تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو مٹادے، ا س لیے کہ جب خدا کے دوستوں اور محبین اور مخلصین کی اس طرح خونریزی ہوتی ہے، تو غیرتِ حق جوش میں آجاتی ہے اور خدا کے دوستوں کا خون عجیب رنگ لے کر آتا ہے جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جن دشمنانِ خدا نے دوستان خدا کی خونریزی کی تھی، وہ عجیب طرح سے تباہ اور برباد ہوتے ہیں۔

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را        چندان اما ںنداد کہ شب را سحر کند
کما قال تعا لیٰ:{ وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِیْن}
 ’’ اور تاکہ اللہ تعالیٰ مومنین کا میل کچیل صاف کردے اور کافروں کو مٹا دے۔‘‘


    (۶)اور تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعا لیٰ کی سنت یہ ہے کہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں، کبھی دوستوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کرتے ہیں اور کبھی دشمنوں کو غلبہ دیتے ہیں۔
{وَتِلْکَ الَایَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ}

 ’’اور ان دنوں کو ہم لوگوں میں باری باری پھیرتے رہتے ہیں۔‘‘
    مگر انجام کا غلبہ دوستوں کا رہتا ہے ’’والعاقبۃ للمتقین‘‘ اس لیے کہ اگر ہمیشہ اہلِ ایمان کو فتح ہوتی رہے، تو بہت سے لوگ محض نفاق سے اسلام کے حلقہ میں آ شامل ہوں، تو مومن اور منافق کا امتیاز نہ رہے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کون ان میں سے خاص اللہ کا بندہ ہے اور کون ان میں سے عبد الدینار والدرہم ہے۔
    اور اگر ہمیشہ اہلِ ایمان کو شکست ہوتی رہے تو بعثت کا مقصد(اعلاء کلمۃ اللہ) حاصل نہ ہو، اس لیے حکمتِ الٰہیہ اس کو مقتضی ہوئی کہ کبھی فتح ونصرت ہو اور کبھی شکست اور ہزیمت ہو،تاکہ کھرے کھوٹے کا امتحان ہوتا رہے۔ 

    قال تعالیٰ:{مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلیٰ مَا أنْتُم عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبْ}     ’’ اللہ تعالیٰ مومنین کو اس حالت پر نہیں چھوڑنا چاہتے، یہاں تک کہ جدا کردے ناپاک کو پاک سے اور انجام کار غلبہ اور فتح حق کو ہو۔‘‘

    (۷) نیز اگر ہمیشہ دوستوں کو فتح ہوتی رہے اور ہر معرکہ میں ظفر اور کامیابی ان کی ہمرکاب رہے تو اندیشہ یہ ہے کہ کہیں دوستوں کے پاک وصاف نفوس طغیان اور سرکشی اور غرور واعجاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

    اس لیے مناسب ہوا کہ کبھی راحت اور آرام اور کبھی تکلیف اور ایلام، کبھی سختی اور کبھی نرمی، کبھی قبض اور کبھی بسط۔

    (۸) اور تاکہ شکست کھا کر شکستہ خاطر ہوں، اس وقت حق جل وعلاء کی طرف سے عزت اور سربلندی نصیب ہو، اس لیے کہ عزت ونصرت کا خلعت ذلت اور انکساری ہی کے بعد عطا ہوتا ہے۔
     کما قال تعالیٰ:{ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍوَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃً} ’’اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے بدر میں تمہاری مدد کی در آنحالیکہ تم بے سروسامان تھے۔‘‘

    وقال تعالیٰ: { وَیَومَ حُنَیْنٍ إذْ أعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ شَیْئًا} ’’ اور جنگ حنین میں جب تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈالا تو وہ کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔‘‘

    حق جل شانہٗ جب اپنے کسی خاص بندے کو عزت یا فتح اور نصرت دینا چاہتے ہیں، تو اول اس کو ذلت اور خاکساری اور عجز اور انکساری میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ نفس کا تنقیہ ہو جائے اور اعجاب اور خود پسندی کا فاسد مادہ یکلخت خارج ہوجائے، اس طرح ذلت کے بعد عزت اور ہزیمت اور شکست کے بعد فتح ونصرت اور فنا کے بعد بقاء عطا فرماتے ہیں۔


    (۹) اور تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ بدون مجاہدہ عظیم اور بغیر ریاضتِ تامہ کے مراتب اور درجاتِ عالیہ کا دل میں خیال باندھ لینا مناسب نہیں۔

    کما قال تعالیٰ: { أمْ حَسِبْتُمْ أنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْن}  ’’کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اور صابرین کا امتحان نہیں لیا۔‘‘

    (۱۰) اور تاکہ تمہارے پاک نفوس دنیا کی طرف میلان سے بالکلیہ پاک اور منزہ ہو جائیں اور آئندہ سے کبھی بھی دنیائے حلال (یعنی مالِ غنیمت) کے حصول کا خیال بھی د ل میں نہ آنے پائے کہ، ہمارے رسول کے حکم کے خلاف مال غنیمت کو دیکھ کر پہاڑ سے نیجے کیوں اترے ہم نے اس وقت تمہاری اس فتح کو شکست سے اس لیے بدلا ہے کہ، تمہارے قلوب آئندہ کے لیے دنیائے دوں کا وجود اور عدم تمہاری نظر میں برابر ہوجائے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں۔

    { فَاثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أصَابُکُمْ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْن}  ’’ پس اللہ تعالیٰ نے تم کو اس مالِ غنیمت کی طرف مائل ہونے کی پاداش میں غم پر غم دیا؛ تاکہ آئندہ کو تمہاری یہ حالت ہوجائے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر غمگین نہ ہو اور کسی مصیبت کے پہنچنے سے تم پریشان ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبرہے۔‘‘ 

    یعنی اس وقتی ہزیمت اور شکست میں ہماری ایک حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ تم زہد اور صبر کے اس اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ جاؤ کہ جہاں دنیا کا وجود اور عدم نظروں میں برابر ہوجاتا ہے، جیسا کہ حق جل شانہٗ کا دوسری جگہ ارشاد ہے۔


    { مَا أصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِي الاَرْضِ وَلَا فِي اَنْفُسِکُمْ إلَّا فِي کِتَابِ مِّنْ قَبْلِ أنْ نَّبْرَأہَا اَنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْر لِکَیْلاَ تَأسَوا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا اٰتَاکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلُّ مُخْتَالٍ فَخُور} ’’ نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں یا تمہارے نفسوں میں، مگر وہ پہلے ہی سے لوحِ محفوظ میں مقدر ہوتی ہے اور تحقیق یہ امر اللہ کے نزدیک بالکل آسان ہے اور مصائب کے نازل کرنے میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ تم صبر میں اس درجہ کامل ہو جاؤ کہ اگر دنیا کی کوئی چیز تم سے فوت ہوجائے، اس پر غمگین نہ ہوا کرو اور دنیا کی جو چیز اللہ تم عطا کرے تو تم اس دنیا کی چیز کو دیکھ کر خوش نہ ہوا کرو اور اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ 

    دنیا کے آنے سے دل کا خوش نہ ہونا اور دنیا کے جانے سے دل کا رنجیدہ نہ ہونا،یہ زہد اور صبر کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ حق جل شانہٗ نے ان آیات میں اشارہ فرمادیا کہ معرکہ احد میں صحابہ کو جو یہ غم دیا گیا کہ فتح کو شکست میں بدل دیا اس میں اللہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ آئندہ سے صحابہ کے دل میں دنیا کے فوت ہونے کا کوئی غم نہ ہوا کرے اور دنیا کا وجود اور عدم ان کی نظروں میں برابر ہوجائے اور ہر حال میں قضاء الٰہی پر راضی اور خوش رہنا، منافقین اور جہلاء کی طرح خدا وند ذوالجلال سے بدگمان نہ ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کیوں نہ فرمائی۔

    (۱۱) نیز یہ واقعہ آپ کی وفات کا پیش خیمہ تھا ،جس سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ اگرچہ اس وقت تم میں سے بعض لوگوں کے بمقتضائے بشریت رسول اللہﷺ کے قتل کی خبر سن کر پاؤں اکھڑگئے، چونکہ اس کا منشاء معاذ اللہ بزدلی اور نفاق نہ تھا، بلکہ غایت ایمان واخلاص اور انتہائی محبت وتعلق تھا کہ اس وحشت اثر خبر کی دل تاب نہ لاسکے اور اس درجہ پریشان ہو گئے کہ میدان سے پاؤں اکھڑ گئے، اس لیے حق تعالیٰ شانہٗ نے تمہارا یہ قصور معاف فرما دیا ۔
    { وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤمِنِیْن}


    ’’ اور اللہ تعالیٰ تو ایمانداروں پر بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے۔‘‘
    لیکن آئندہ کے لیے ہوشیار اور خبردار ہوجاؤ کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین اور آپ کی سنت اور آپ کے جادہ استقامت سے نہ پھرجانا، آپ کی وفات کے بعد کچھ لوگ د ین سے پھر جائیں گے ،جس سے فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ تھا اور مقصود تنبیہ ہے کہ آپ ہی کے طریق پر زندہ رہنا اور آپ ہی کے طریق پر مرنا، محمد ﷺ اگر وفات پا جائیں یا قتل ہو جائیں، تو ان کا خدا تو زندہ ہے اور یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
    { وَمَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أفَائِنْ مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرُّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیِجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْن}


    ’’اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول ہی تو ہیں ،جن سے پہلے بہت سے رسول گزرگئے، پس اگر آپ کا وصال ہوجائے یا آپ شہید ہوجائے تو کیا تم دینِ اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل واپس ہوجائے، تو وہ ہرگز اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو انعام دے گا۔‘‘


    چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد یمن کا قبیلہ ہمدان جب مرتد ہونے لگا ،تو عبد اللہ بن مالک ارجیؓ نے قبیلہ ہمدان کو جمع کرکے یہ خطبہ دیا ۔

    ’’یا معشر ہمدان انکم لم تعبدوا محمدا علیہ السلام انما عبدتم رب محمد (علیہ السلام) وہو الحي الذي لا یموت غیر انکم اطعتم رسولہ بطاعۃ اللہ واعلموا انہ استنقذکم من النار ولکم یکن اللہ لیجمع اصحابہ علی ضلالۃ الی اخیر الخطبۃ۔‘‘

    ’’ اے گروہ ہمدان! تم محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں کرتے تھے ،بلکہ رب محمد (ﷺ) کی عبادت کرتے تھے اور رب محمد(ﷺ) حی لا یموت ہے۔ ہاں تم اللہ کے رسول کی اطاعت کرتے تھے ،تاکہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کا ذریعہ بن جائے اور خوب جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے رسول کے ذریعے آگ سے چھڑایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کے اصحاب کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔‘‘
    اور یہ شعر کہے    ؎

لعمری لئن مات النبي محمد    لما مات یا ابن القیل رب محمد 

    قسم ہے میری زندگی کی ،کہ اگر نبی اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے، تو آپ کا پرور دگار زندہ ہے، اے سردار کے بیٹے۔(سیر ۃ المصطفیٰ : ۲/۲۵۲تا ۲۶۰)


فتح کے بعد ہز یمت کی حکمت 

    (غز وہ احد میں فتح کے بعد ہزیمت پیش آ جا نے کی حکمت اور مصلحت پر اجمالی کلا م )
    حسب ذیل وعد ہ خداوندی شر وع دن میں مسلما ن کا فر وں پر غالب رہے ، مگر جب اس مر کز سے ہٹ گئے، جس پر اللہ کے رسو ل نے کھڑ ے رہنے کا حکم دیا تھا اور ما لِ غنیمت جمع کر نے کے لیے پہاڑ سے نیچے اتر آئے تو جنگ کا پا نسہ پـلٹ گیااور فتح شکست سے بدل گئی ۔ 

    بار ہ گا ہ خدا وند ی میں محبین، مخلصین اور عا شقینِ صا دقین کی ادنیٰ ادنیٰ با ت پر گر فت ہو تی ہے ، حق جل شانہ کو یہ نا پسند ہو ا کہ ا س کے محبین مخلصین صحا بہ کر ا م، اللہ کے ر سو ل کے حکم سے ذرہ بر ابر عد ول کر یں ؛اگر چہ وہ عدو ل کسی غلط فہمی اور بھو ل چو ک سے ہی کیو ں نہ ہو ، نیز عا شق صا دق کے شان عشق کے یہ خلاف ہے کہ، وہ دنیا کے متا ع اور ما ل غنیمت کے جمع کر نے کے لیے کو ہ ِاستقا مت سے اتر کر زمین پر آ ئے ۔ جس ما ل غنیمت کے جمع کر نے کے لیے صحا بہ کر ا م پہاڑ سے اتر ے تھے ، اگر چہ وہ دنیا ئے حلا ل اور طیب تھی {فکلو مما غنمتم حلالا طیباً }مگر صحابہ جیسے عاشقین صا دقین کے لیے یہ منا سب نہ تھا کہ، خدا و ند ذو الجلا ل کے بغیر اجا زت اور اذ ن کے اس حلا ل و طیب کی طرف ہا تھ بڑ ھا ئیں    ؎

موسیا آ د اب دا نا دیگر ند 
سو ختہ جا نا ن روا نا ن دیگر ند

    خدا وند مطلق اور محبوب بر حق نے، اپنے محبین مخلصین کی تنبیہ کے لیے وقتی طور پر فتح کو شکست سے بد ل دیا کہ ،متنبہ ہو جائیں کہ غیر اللہ پر نظر جا ئز نہیں ، اور علم ازلی میں یہ مقد ر فر ما دیا کہ وقتی طور پر اگر شکستہ خا طر ہو ں گے مگر عنقر یب فتح مکہ سے ا س کی تلافی کر دی جائے گی اور آئند ہ چل کر قیصر و کسریٰ کے خزا ئن ان کے ہاتھو ں میں دے دیے جا ئیں گے ۔


    مقصو د یہ تھا کہ محبین مخلصین کے قلو ب دنیا ئے حلا ل کے میلا ن سے بھی پا ک اور خالص بن جائیں ، اسی بار ہ میں حق شانہ نے یہ آیتیں نا ز ل فر مائیں۔ 

    {وَلَقَدْ صَدَقَکَمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِاذْنِہٖ حَتّٰی إذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَّعْدِ مَا أرَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الٰاخِرَۃِ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍِ عَلَی الْمُؤمِنِیْن}(آل عمران)

    ’’ اور تحقیق اللہ نے تم سے جو فتح کا وعد ہ کیا تھا وہ سچ کر دکھا یا ، جس وقت تم کفا ر کو بتا ئیدِ خدا وند ی قتل کر رہے تھے ، حتی کہ (وہ سا ت یا نو آ دمی جن کے ہا تھ میں مشر کین کا جھنڈا تھا ) وہ سب تمہا ر ے ہا تھ سے ما رے گئے ، یہا ں تک کہ جب تم خو د سست پڑ گئے اور با ہم حکم میں اختلاف کر نے لگے اور تم نے حکم کی نا فر ما نی کی ، بعد اس کے کہ اللہ نے تمہار ی محبو ب اور پسند یدہ چیز (یعنی کافر و ں پر غلبہ وفتح ) کو تم کو تمہار ی آنکھو ں سے دکھلا دیا ، تم میں سے بعض تو وہ تھے کہ دنیا (غنیمت ) کی طر ف ما ئل ہوئے اور بعض تم میں سے وہ تھے کہ ،جو صر ف آخر ت کے طلب گار اور جو یا تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سے پھیر دیا اور حاصل شد ہ فتح کو ہز یمت میں بد ل دیا ،تا کہ تم کو آ ز ما ئے اور صا ف طو ر پر ظا ہر ہو جائے کہ کو ن پکا ہے اور کو ن کچا اور البتہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ غلطی بالکل معا ف کردی۔ (لہٰذا اب کسی کو اس غلطی پر طعن و تشنیع بلکہ لب کشائی بھی جائز نہیں ، خدا تعالیٰ تو معا ف کر دے اور یہ طعن کر نے والے معا ف نہ کر یں ) اور اللہ تعالیٰ مو منین مخلصین پر بڑ ے ہی فضل والے ہیں۔‘‘

    ان آیا ت میں حق جل شا نہ نے یہ بتلا دیا کہ یکبا ر گی معا ملہ اور قصہ منعکس ہو گیا کہ لشکر کفا ر جو مسلما نو ں کے ہاتھ سے قتل ہور ہا تھا ، اب وہ اہل اسلا م کے قتل میں مشغو ل ہوگیا ، اس کی وجہ ایک تو یہ ہوئی کہ تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد عدولِ حکمی میں کو ہِ استقا مت سے پھسل پڑ ے، جس کا خمیا زہ سب کو بھگتنا پڑ ا اور بعض کی لغزش سے تمام لشکر اسلا م ہز یمت کا شکا ر بنا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

مگر با یں ہمہ خدا وند ذو الجلا ل والا کر ا م کے عنا یا تِ بے غا یا ت اور الطا فِ بے نہا یا ت مسلما نو ں سے منقطع نہ ہوئے کہ با و جو د اس محبت آ میز عتا ب کے با ر بار مسلما نو ں کو تسلی دی کہ تم نا امید اور شکستہ خا طر نہ ہو نا ۔ ہم نے تمہار ی لغز ش کو بالکل معا ف کر دیا ہے ، چنا نچہ ایک مر تبہ عفو کا اعلا ن اس آیت میں فر مایا:  {وَلَقَدْعَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلِ عَلَی الْمُوْ مِنِیْن } اور پھر اسی رکو ع کے آخر میں مسلما نو ں کی مزید تسلی کے لیے دو بار ہ عفو کا اعلا ن فر مایا :  {إنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْم }

    ’’ تحقیق جن بعض لو گو ں نے تم سے پشت پھیر ی ،جس روز کہ دو نو ں جما عتیں با ہم مقا بل ہوئیں ، سو جزایں نیست اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بعض اعمال کی وجہ سے شیطا ن نے ان کو لغزش میں مبتلا کر دیا اور خیر جو ہو ا سو ہو ا ، اب البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش کو بالکل معا ف کر دیا ۔ تحقیق اللہ تعالیٰ بڑ ے بخشنے والے اور حلم والے ہیں ۔‘‘

    حق جل شانہ نے صحا بہ کر ا م کے اس فعل کو لغز ش قر ار دیا’’ استزلہم الشیطن ‘‘کا لفظ اس پر دلا لت کر تا ہے ، اور لغز ش کے معنی یہ ہیں کہ ارا دہ تو کچھ اور تھا مگر غلطی اور بھو ل چو ک سے بلا ارا دہ اور اختیار قد م پھسل کر راستہ سے گر گیا ، اشار ہ اس طرف ہے کہ یہ جو کچھ ہو گیا وہ لغز ش تھی ، جا ن بو جھ کر تم نے نہیں کیا اور خیر جو کچھ ہو گیا اس کو ہم نے اپنی رحمت سے معا ف کر دیا ۔ تم کو معا فی کی اطلاع دے دی کہ تم ملو ل اور رنجید ہ اور نا امید ہو کر نہ بیٹھ جا نا اور تمہاری معا فی کا اعلا ن سار ی دنیا کو اس لیے سنا دیا کہ دنیا کو یہ معلو م ہو جائے کہ حق جل شا نہ کہ عنا یا ت بے غا یا ت کس طرح اصحا ب رسو ل پر مبذ و ل ہیں اور کس کس طر ح ان کو چند در چند تسلیاں دی جا رہی ہیں تا کہ قیا مت تک کسی کو مجال نہ ہو کہ صحا بہ کرا م کی شا ن میں لب کشا ئی کر سکے ، جب حق تعالیٰ شانہ نے ان کو معا ف کر دیا اور اللہ تعالیٰ  ان سے راضی ہوگیا تو اب بلا سے کوئی ا ن کو معا ف کر ے یا نہ کر ے ا ن سے راضی ہو یا نہ ہو ، خدا کے عفو اور رضا کے بعد کسی کے عفو اور رضا کی ضر و رت نہیں ۔ رضی اللہ عنہم ور ضو ا عنہ 
    غز وہ بد ر میں فد یہ لینے پر جو عتا ب نا زل ہو ا تھا ، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ خد اوند ذو الجلا ل کے دشمنو ں کے قتل وقتا ل کے بار ے میں پا مال کر نے کے بجائے ما ل ومنا ل کو کیو ں تر جیح دی ۔ 
    اسی طرح غز وہ احد میں دنیو ی ما ل ومتا ع (ما ل غنیمت کی طرف میلا ن کی وجہ سے عتا ب ہو ا، مگر بعد میں معا ف کر دیا گیا ۔


ہزیمت کے اسرا ر : 

    غزوہ احد کی ہز یمت کے اسرا ر و حکم کے بیا ن کے بعد ،حق تعالیٰ شا نہ نے حضرا ت انبیاء سا بقین کے صحابہ ربیین کا عمل بیا ن فر مایا کہ خدا کی را ہ میں ان کو طرح طر ح کی تکلفیں اور قسم قسم کی مصیبتیں پہنچیں ، لیکن انہوںنے نہ ہمت ہاری اور نہ دشمنو ں کے مقا بلہ میں عا جز ہوئے۔ نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ دشمنو ں سے جہا د میں ثا بت قد م رہے ۔ مگر با یں ہمہ اپنی شجا عت اور ہمت ، صبر و استقا مت پر نظر نہیں کی ، بلکہ نظر خدا وند ذوالجلال ہی پر رکھی اور برابر خدا سے گنا ہو ں کے استغفار اور ثا بت قد م رہنے کی دعاء ما نگتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخر ت میں اس کا صلہ مر حمت فر مایا ۔ قال تعالیٰ : 
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا اَصَابَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ وَمَاکَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَومِ الْکٰفِرِیْنَ فَاٰتٰہُمْ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن }(آل عمران)


    ’’اور بہت سے پیغمبروں کے ساتھ مل کر خدا پر ستو ں نے کافرو ں سے جہا د وقتال کیا ،لیکن ان مصیبتوں کی وجہ سے جو ا ن کو خدا کی را ہ میں پہنچیں نہ تو سست ہوئے اور نہ کمزو ر ہوئے اور نہ دشمنو ں سے دبے اور اللہ تعالیٰ ثابت قد م رہنے والوں کو محبو ب رکھتا ہے ، اور ان کی زبا ن سے صر ف یہ قول نکل رہاتھا کہ اے پر ور دگار ہمار ے گناہو ں کو معاف فر ما اور ہم کو ثابت قد م رکھ اور کافر قو م کے مقا بلہ میں ہماری مدد فر ما۔پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کا انعام اور آخر ت کا بہتر ین انعا م عطا فر مایا اور اللہ تعالیٰ نیکو کا رو ں کو محبو ب رکھتا ہے ۔ ‘‘(سیر ۃ المصطفیٰ : ۲/۲۶۰تا۲۶۴)


    حضرت مولانا ادر یس صاحب کا ند ھلوی ؒ ہمار ے طبقہ میں محقق شمار کیے جا تے ہیں ، واقعۃً آپ نے اتنے قیمتی اسباب اور اسر ار بیان کیے کہ اب اس کے بعد مز ید کی گنجا ئش نہیں  میں نے ہو بہو نقل کر نے کو مفید سمجھا ۔

    خلا صہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھی تا کہ قیا مت تک آنے والے مسلما نو ں کو یہ ادرا ک ہو جائے کہ اگر تمہار ے اند ر بھی کچھ کمی رہی یا اللہ کی کوئی مصلحت ہو تو شکست سے دوچا ر ہو سکتے ہو ، ایسے موقع پر ما یو س نہیں ہو نا چاہیے ، بلکہ اپنی کمی کو دور کر کے مز ید حو صلہ کے ساتھ کمر بستہ ہو جا نا چا ہیے ۔ اور صحا بہ نے بھی یہی کیا اور پھردنیا نے دیکھ لیا کہ مختصر عر صہ میں ان با برکت ہستیوں نے دنیا کا نقشہ کیسے بد ل کر رکھ دیا جو دنیا شرو ر وفتن اور فتنہ و فسا د اور جہالت کی آما جگاہ تھی، اسے عد ل و انصا ف اور امن و اما ن اور علم حقیقی ومعر فت حقیقی سے سر شا ر کردیا  اور ایسا انقلابِ خیر بر پا کیا کہ ،تاریخ اس کی ایک نظیر بھی نہیں پیش کر سکتی ہے ۔ اللہ ہمیں بھی ان کے نقش قد م پر چلنے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔


غز و ہ حنین اور اسبا ب ہز یمت : 

    حضو ر اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی زند گی کا یو ںسمجھئے کہ آخر ی معر کہ ،اس میں بھی کچھ دیر کے لیے شکست سے دو چا ر ہو نا پڑ ا جس کا سبب غا لباًمسلما نو ں کاعُجب، اسبا ب اور کثر ت پر نظر تھی ،جو اللہ کوبالکل پسند نہ آ یا کہ میرے جن پیا ر ے بند و ں سے مجھے دنیا میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ کا کا م لیناہے ، آخر ان کی نظر اسبا ب پر کیو ں گئی اور مسبب الا سبا ب سے کمز و ر کیوں ہو ئی ، اس توقع کے سلسلہ میں بھی حضرت مو لا نا ادر یس کا ند ھلوی نو را للہ مر قد ہ فرماتے ہیں : (وطیب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ)

    ۸؍ شوال ۸ھ یوم شنبہ کو بارہ ہزار آدمیوں کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے اور حنین کا قصد فرمایا، دس ہزار جاں باز وجاں نثار تو وہی تھے جو مدینہ سے آپ کے ہمراہ آئے تھے اور بعض نو مسلم غیر مسلم۔
    بارہ ہزار کا لشکرِ جرار جب حنین کی طرف بڑھا تو ایک شخص کی زبان سے یہ ا لفاظ نکلے۔ ’’لن نغلب الیوم من قلۃ‘‘ ’’ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوں گے۔‘‘

    جس میں شائبہ ،فخر اور اعجاب (خود پسندی) کا تھا ،جو حق تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔عالم اسباب میں چونکہ قلت بھی باعثِ ہزیمت ہوتی ہے، اس لیے کثرت کو دیکھ کر بعض صحابہ کی زبان پر یہ لفظ آگئے کہ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب ہوں گے، یعنی اگر آج ہم مغلوب ہوئے تو یہ ہماری مغلوبی قلت کی وجہ سے نہ ہوگی ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی، فتح ونصرت اسی کے ہاتھ میں ہے لیکن بار گاہ احدیت میں یہ کلام نا پسند ہوا۔
    اس لیے کہ اس میں یہ ابہام تھا کہ کامرانی، کامیابی، غلبہ اور فتح یابی کا سبب کثرت ہے، خصوصًا وہ حضرات کہ جو توحید وتفرید کی منزلیں خانقاہ نبوت ورسالت میں رہ کر طے کر چکے ہوں، ان میں سے کسی ایک کی زبان سے بھی ایسا موہم لفظ نکلنا ان کے شایانِ شان نہیں۔ عجب نہیں کہ جو لوگ فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے او آپ کے ہمراہ تھے اور ہنوز اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہ ہوا تھا یہ ان کی صحبت کا اثر ہو۔

    سنن نسائی میں ہے کہ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں آں حضرت ﷺ نے سورۂ روم پڑھنا شروع کی، اثناء قرأت میں آپ کو کچھ خلجان اور التباس واشتباہ پیش آیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو یہ ارشاد فرمایا:
    ’’ ما بال اقوام یصلون معنا لا یحسنون الطہور وانما یلبس علینا القرآن واولئک‘‘ کیا حال ہے لوگوں کا کہ ،ہمارے ساتھ نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وضو ٹھیک طرح نہیں کرتے،
 جزء ایںنیست کہ ایسے ہی لوگ ہمارے پڑھنے میں گڑبڑ کردیتے ہیں۔‘‘

    اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آں حضرت ﷺ کے خاطر عاطر کی کدورت اور التباس قرأت کی علت فقط ان لوگوں کی صحبت ومعیت تھی کہ جو وضو کے پورے آداب ومستحب بجا نہیں لائے تھے، عیاذًا باللہ ان میں کوئی بے وضو نہ تھا سب باوضو تھے،مگر بعض نمازیوں کی وضو میں وضاء ت یعنی صرف حسن اور جمال کی کمی تھی جس سے آپ کا قلب منور متاثر ہوا، اب اس سے مشرکین اور مبتدعین زنادقہ اور ملحدین کی صحبت کے اثر اور ضرر کا اندازہ لگا لیجئے۔ (جو آج عام ہے اور نہ اس سے بچنے کی تدبیر ہے بلکہ ترغیب کا ماحول ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ) علامہ طیبی طیب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سنن اور آداب کے انوار وبرات دوسروں تک سرایت کرتے ہیں اور ان کے ترک سے فتوحاتِ غیبیہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اس کا اثر دوسروں تک متعدی ہوتا ہے کہ اس شخص کی وجہ سے دوسرا شخص خیرات وبرکات اور انوار وتجلیات سے محروم ہوجاتا ہے۔


    حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ورضوعنہ پر جورنگ تھا، وہ سرورِ کائنات منبع الخیرات والبرکات علیہ افضل الصلوات والتحیات کی صحبت کا اثر تھا ،مگر اس وقت اس اجنبی صحبت کے اثرات سے بلا اختیار یہ کلمہ زبان سے نکل گیا۔

اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسید م         کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار ست

    الغرض یہ کلمہ بارگاہِ خداوندی میں پسند نہ آیا اور بجائے فتح کے پہلے ہی وہلہ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

    کما قال تعالی: { وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إذْا اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِیْنَ ثُمَّ أنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُولِہٖ وَعَلَی الْمُؤمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُودًا لّمْ تَرَوْہَا وعَذَبَ الّذِینَ کَفَرُوا وَذٰلکَ جَزَائُ الکَافِرِین}


    ’’ اور حنین کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈال دیا، پس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود وسیع ہونے کے تم پر تنگ ہوگئی ،پھر تم پشت پھیر کر بھاگے، اس کے بعد اللہ نے اپنی خاص تسکین اتاری ،اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان کے قلوب پر اور ایسے لشکر اتارے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزادی اور یہی سزا ہے کافروں کی۔‘‘ 

    لشکرِ اسلام سہ شنبہ کی شام کے وقت وادی حنین  میں پہنچا، قبائل ہوازن وثقیف دونوں جانب کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مالک بن عوف نے ان کو پہلے سے ہدایت کردی تھی کہ تلواروں سے ایک نیام سب توڑ کر پھینک دو اور لشکرِ اسلام جب ادھر سے آئے تو بیس ہزار تلواروں سے ایک دم ان پر ہلہ بول دو، چنانچہ صبح کی تاریکی میں جب لشکر اسلام اس درہ سے گزرنے لگا تو بیس ہزار تلواروں سے دفعۃً حملہ کردیا، جس سے مسلمانوں کا لشکر سراسیمہ اور منتشر ہوگیا اور صرف دس بارہ شیدایانِ نبوت اور جاں بازانِ رسالت آپ کے پہلو میں رہ گئے، اس وقت آپ کے ہمراہ ابو بکر وعمر وعلی وعباس وفضل بن عباس واسامہ بن زید اور چند آدمی تھے ، حضرت عباسؓ آپ کے خچر کی لگا م تھامے ہوئے تھے اور ابو سفیان بن حارث رکاب پکڑے ہوئے تھے۔

 

(سیر ت المصطفیٰ :۲/۵۴۶تا ۵۴۹ )

    الغرض جب قبائل ہو از ن و ثقیف نے کمین گا ہو ں سے نکل کر ایک دم ہلہ بول دیا اور مسلما نو ں پر ہر طرف سے بار ش کی طرح تیر بر سنے لگے تو پیر ا کھڑ گئے ، صرف رفقاء خا ص آپ کے پا س رہ گئے ۔ آپ نے تین بار پکار کے فر مایا ، اے لو گو ! ادھر آئو میں اللہ کا رسول اور محمد بن عبد اللہ ہو ں ۔ 

انا النبی لا کذ ب         انا ابن عبد المطلب 

    میں سچا نبی ہو ں ، اللہ نے مجھ سے جو فتح و نصرت اور میری عصمت و حما یت کا وعد ہ کیا ہے ، وہ بالکل حق ہے ، اس میں کذ ب کا امکا ن نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہو ں ۔

    حضرت عبا س بلند آ و ا ز تھے ان کو حکم دیا کہ مہا جر ین و انصار کو آواز یں دیں ، انہو ں نے بآ وا ز بلند یہ نعر ہ لگا یا ۔

یا معشر ا لا نصار یا اصحا ب السمرۃ 

’’ اے گرو ہ انصار ! اے وہ لو گو !جنہو ں نے کیکر کے درخت کے نیچے بیعت رضو ا ن کی تھی ۔‘‘ 
    آوا ز کا نو ں میں پہنچنا تھا کہ ایک دم سب پلٹ پڑ ے اور منٹو ں میں پرو ا نہ وا ر آ کر شمع نبوت کے گر د جمع ہو گئے ۔ آپ نے مشرکین پر حملہ کا حکم دیا ، جب گھمسا ن کی لڑ ا ئی شر و ع ہو گئی اور مید ا ن کا ر زا ر گر م ہو گیا ،تو آپ نے ایک مشت ِ خا ک لے کر کا فر وں کی طرف پھینکی اور یہ فر مایا :
 ’’ شا ہت الوجو ہ ‘‘ 

    صحیح مسلم کی ایک روا یت میں ہے کہ آپ نے مشت خا ک پھینکنے کے بعد یہ فر ما یا :
 ’’ انہزمو ا ورب محمد ‘‘  

قسم ہے رب محمد کی انہو ں نے شکست کھائی ۔    

    کوئی انسا ن ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ میں مشت خا ک کا غبا ر نہ پہنچا ہو اور ایک لمحہ نہ گزرا تھا کہ دشمنو ں کے قد م اکھڑ گئے ، بہت سے بھا گ گئے اور بہت سے اسیر کر لیے گئے ۔اسی بار ے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائیں : { وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إذْا اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِیْنَ ثُمَّ أنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُولِہٖ وَعَلَی الْمُؤمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُودًا لّمْ تَرَوْہَا وعَذَبَ الّذِینَ کَفَرُوا وَذٰلکَ جَزَاء الظَّالِمین}(التوبہ) ادھر آپ نے ایک مشت خاک پھینکی اور ادھر بہا در ان اسلا م نے محض اللہ کی نصرت اور اعا نت پر بھر وسہ کر کے حملہ کیا ۔ دم کے دم میں کا یا پلٹ ہوگئی ۔ بہا درا ن ہوا ز ن کے باوجو د قو ت اور شو کت کے پیر ا کھڑ گئے اور مسلما نو ں نے ان کو گرفتا ر کر نا شرورع کر دیا، دشمن کے ستر آ دمی معر کہ میں کا م آئے اور بہت سے گر فتا ر ہوئے اور بہت کچھ مال و اسبا ب ہا تھ آیا ۔

(سیر ت المصطفیٰ :۲/۵۴۹تا ۵۵۱ )

    پور ی بحث کا خلا صہ یہ کہ مسلما نو ں کے ہز یمت کے اہم تر ین اسبا ب یہ ہو سکتے ہیں ۔
  (۱) اطا عت رسو ل سے انحر ا ف یا کمزو ری : 

    آ ج امت کا حال اس سلسلہ میں نا قابل بیا ن ہے ، صحابہ نے تو عمداً یہ سب نہیں کیا ،ان سے تو چونک میں ایسا ہو ا ،مگر آج ہم عمداً علمی و عملی ہر اعتبا ر سے اطا عت رسو ل سے انحرا ف کر رہے ہیں ،کہیں کوئی صر یح آیا تِ قر آ نیہ اور احا دیثِ نبو یہ کی با طل تا ویلات میں لگا ہے تو کوئی بدعت کو سنت جتلانے میں اور سنت کو بد عت ثا بت کر نے پر تلا ہو ا ہے ، ایسے حا لا ت میں ہمار ا حا ل وہی ہو نا چا ہیے جو ہو رہا ہے ، جب صحا بہ سے چو ک اور انجا ن میں ہو ا تو وہ عارضی شکست سے دو چا ر ہو ئے ،ہم تو عمداً کر رہے ہیں؛ لہٰذا طویل ذلت میں گر فتا ر ہوئے ہیں ،علاج سوائے اطاعت کے اور کچھ نہیں ہے ۔اللہ ہمیں کامل اطاعتِ رسول کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین۔


(۲) آپسی اختلاف وانتشار:
    جب صحابہ سے بے خیالی میں ایک چوک ہوئی اور آپس میں معمولی اختلاف ہوا، جس میں نہ مار پیٹ ہوئی ، نہ گالی گلوج ہوئی نہ سبّ وشتم ہوا، نہ الزام تراشی ہوئی ، نہ عزت سوزی ہوئی، نہ کسی نے کسی کو ذلیل کیا ، اس کے باوجود’’اقرباں را بیش بود حیرانی‘‘ کے اصول کے تحت ان کو عارضی شکست ہوئی، تو آج ہمارا حال کیا ہے ؟کہ دینی دنیوی ،گھریلو ،خاندانی، معاشرتی ، سیاسی، مذہبی، اصولی ،فروعی ہرطرح کے اختلافات میں ہم نے تمام حدود پار کردئیے ہیں اور مدِّ مقابل کو اذیت وتکلیف پہنچانے میں کوئی حربہ ہمارے عوام تو عوام خواص بھی نہیں چھوڑتے، جاہل تو جاہل دیندار طبقہ بلکہ علم ودانش سے وابستہ رہنما قسم کے لوگ بھی اس میں کسر نہیں چھوڑتے اور اسے مستحسن اور جائز ہی نہیںبلکہ واجب تک کا درجہ دیدیتے ہیں!! جو مزید امت کے آپسی اختلاف وانتشار کا سبب ہوتا ہے اور اب تو مسلمان تمام حدود پار کرچکے ہیں۔ ایک اللہ، ایک رسول ، ایک کتاب کے ماننے والے ہو کر بھی ایک دوسرے کے ناحق قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے ، إنا اللہ وإنا الیہ راجعون، لا حول ولا قوۃ الا باللہ ایسے حالات میں کیا ہم ہزیمت اور ذلت سے نبرد ازما ہوسکتے ہیں؟ ہرگزنہیں ۔حالات تمام تر تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد بھی اس وقت تک نہیں بدل سکتے، جب تک کتاب اللہ کے بیان کردہ ان اسباب نصرت کو عملی صورت میں اختیار نہ کیا جائے اور اسباب ہزیمت سے کلی اجتناب نہ کیا جائے، اللہم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا، اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔


(۳) حب دنیا :
    صحابہ میں تو یہ مادہ نہ ہونے کے برابر تھا، مگر جہاں تھوڑا بھی شائبہ ہوا،اللہ نے عارضی شکست دیکر تربیت کی کہ ،ہر حال میں حُبِّ آخرت، حُب دنیا پر مقدم ہونی چاہیے ،اب ہمارے ریاستی اور عالمی احوال پر ایک نظر دوڑائیں کہ آج امت کا ہر طبقہ حب دنیا کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگیا ہے ،مال کمانے میں حرام حلال کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی؛حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس بات سے مطلع کردیا تھا کہ میری امت فتنۂ مال سے بری طرح دوچار ہوگی۔


    محدث کبیر حضرت مولانا یوسف صاحب نے آج سے تقریبًا چالیس سال قبل ایک مضمون لکھا تھا ’’فتنہ جیب فتنہ پیٹ‘‘ کے عنوان سے جس میں صاف لکھا تھا کہ امت آج مال کے پیچھے دیوانی ہوگئی ہے، طرح طرح کے نام دیکر حرام صورتوں کو حلال قرار دیا جارہا ہے، مثلاً سود کو یوژری انٹریسٹ تجارتی سود وغیرہ کے نام سے اور جوا کو لاٹری انشورنس بیمہ وغیرہ کے نام سے، بیع قبل القبض کو وعدۂ بیع کے نام سے، آج زمین ومکان پلاٹ اور فلیٹ کا کاروبار کرنے والے ۹۰؍ فیصد ناجائز اور غیر شرعی طریقوں سے معاملات کر رہے ہیں جو کسی صورت میں جائز نہیں، حالاں کہ مومن کے پیش نظر آخرت اور اس کی کامیابی ہونی چاہیے، اللہ ہمیںہدایت دے اور حرام خوری سے خلاصی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


(۴) اللہ پر اعتماد نہ کرکے اسباب دنیا پر تکیہ:
    حضرات صحابہ نے صرف دل میں یہ خیال کیا کہ آج تو ہم زیادہ ہیں ، تو اللہ نے عارضی شکست اور غم سے دوچار کیا جب کہ ہمارا حال تو ایسا برا ہے کہ پس پوچھنا ہی کیا خاص طور پر دنیا دار اور تعلیم یافتہ طبقہ، تو صرف ظاہری اسباب پر ہی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ امت کے پاس ٹیکنا لوجی، مال ، حکومت، طاقت وغیرہ جب تک نہ آئیں گے امت تنزلی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی!! حالانکہ مسلمان اور مومن کے لیے یہ سراسر غلط نظریہ ہے، سب کچھ ہونے کے باوجود اگر اطاعتِ رسول اور حبِ آخرت جو اساس ہے نہیں ہوں گے کبھی بھی امت مسلمہ کے حالات نہیں بدل سکتے، بلکہ اور برے ہوں گے۔


    کیا امت کے پاس آج جو مال ہے، آج جو ٹیکنا لوجی ہے ، آج جو طاقت ہے، آج جو تعداد افراد ہے؛ وہ پہلے کبھی تھی؟ نہیں مگر پھر بھی اصل اور جڑ کو چھوڑنے کی وجہ سے دن بدن پستی کی طرف جارہی ہے، اس کا علاج صرف یہ ہے کہ تجارت ، زراعت، لین دین اور تمام مالی ،سیاسی،معاشرتی وغیرہ معاملات میں ،جب تک کامل اتباع ِشریعت نہیں کریں گے احوال نہیں بدلیں گے۔ اللہم انا نسئلک رزقا حلالا طیبا۔


    یہ تھے امہات الاسباب جس کی وجہ سے امت پچھلے تقریبًا دو سال سے پستی کی طرف بڑھتی ہی چلی جارہی ہے تو آئیے ہم سب مل کر 
موشغافیوں اور بلند وبالا نعروں کے بجائے ربیع الاول کی مناسبت سے چند امور کی زندگی میں جگہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس پر آمدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


(۱) توبہ:
    آئیے !ہم اللہ سے سچی پکی توبہ کرتے ہیں کہ اب انشاء اللہ آپ کی نامرضیات والے کام چھوڑ کر مرضیات والے اعمال کو اختیار کریں گے ،کیونکہ اے اللہ تو توبہ کو پسند بھی کر تا ہے اور قبول بھی کرتا ہے، اے اللہ ہمیں توبۃً نصوحۃً کی توفیق سے نواز دے، آمین۔


(۲) برے دوست سے قطع تعلق:
    صحبت اور دوستی کا انسان پر بڑا زبردست اثر مرتب ہوتا ہے ،انسانوں کو اچھی اور نیک صحبت کے لیے انسانوں میں انبیاء کی بعثت بھی ایک سبب ہے، تو آئیے ہم بھی یا تو نیک صحبت اختیار کریں گے، یا یکسوئی سے کسی سے دوستی کئے بغیر اپنا کام کرتے رہیں گے، یہ کام بہت د شوار ہے مگر اللہ پر کوئی چیز بعید نہیں، اے اللہ! ہمیں نیک رفقاء عطافرما اور برے رفقاء اور اصدقاء سے ہماری حفاظت فرما، آمین۔


(۳) حسن اخلاق اختیار کریں:
    آئیے ہم یہ طے کرلیں کہ اسلامی اخلاق کو زندگی کے قدم قدم پر جگہ دیں گے، اسلامی اخلاق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ’’ کسی کو ناحق اذیت اور تکلیف نہ پہنچائی جائے‘‘ نہ سامنے ، نہ پیٹھ پیچھے، اللہم حسّن اخلاقنا۔


(۴) ایمانی شجاعت پیدا کریں:
    ایمانی شجاعت کا مطلب حق کے لیے مر مٹنا ،جان مال آبرو ،عزت منصب سب کچھ محض حق کے دفاع یا حق کے نشر کرنے کے خاطر قربان کردینا بلکہ اہل حق کی حفاظت اور تعاون کی ہر ممکن کوشش کرنا، اے اللہ ہمیں حق پر سب کچھ نچھاور کرنے والا بنا دے۔


(۵) علم دین حاصل کریں:
    آج دنیا پرستی کے خاطر ہم اپنا پورا وقت صرف کر رہے ہیں اور دین کے لیے تھوڑا سا وقت دینا بھی گراں گزرتا ہے ،حالانکہ مؤمن کی شان اس کے برعکس ہونی چاہیے، ہر مسلمان کو فرائض اور عقائد کا علم ہونا ضروری ہے، لہذا عقائد اور نمازروزہ زکوۃ حج وغیرہ کے ساتھ ساتھ جو بھی کام کریں اس کا حکم شرعی ضرور معلوم کریں، تاکہ حلال وحرام کی تمیز ہو سکے اور معلوم بھی مستند علماء سے کریں ہر کس وناکس اور نااہل سے نہ کریں۔


(۶) ہر جائز کام کو اتقان کے ساتھ کریں:
    غفلت سستی اور لاپرواہی سے کلی اجتناب برتیں اور جو بھی کام کریں اسے خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کریں اوربے تربیتی اور بدنظمی سے بچنے کی کوشش کریں۔


(۷) ظاہر وباطن کو پاک کریں:
    اپنے ظاہر وباطن کو پاک صاف رکھیں، کسی کے بارے میں دل میں کینہ ،حسد ،بغض وغیرہ نہ رکھیں اور نہ ظاہری اعتبار سی گندگی اور ناپاک خیال کے ساتھ زندگی گزاریں، بلکہ ہمیشہ صاف ستھرا رہنے کی کوشش کریں۔


(۸)ہر حال میں اطاعت رسول کو لازم فرض کریں  ۔  اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔
برکات نبوت:
    برکاتِ نبوت کے عنوان سے آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ مَومبارک وغیرہ کی تفصیل بتلاؤں گا اس میں شک نہیں کہ یہ بھی برکات نبوت ہے، مگر حقیقی برکاتِ نبوت وہ ہے، جس کی نشاندہی حضرت عباسؓ نے کی ’’ویلک انہا النبوۃ‘‘سے، یہ سب نبوت کی برکتیں ہیں یعنی مومن کی کامل کامیابی کا مدار منہجِ نبوت کی اتباع ہے، اگر ہم مسلمانوں کی زندگی میں منہج نبوت آگیا تو ہمارے دنیا وآخرت کے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ میں اپنے مضمون کو شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کے ایک اقتباس پر سمیٹتا ہوں۔

    {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَومَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیرًا}
    ’’ بلا شبہ تمہارے لیے رسول اللہ( ﷺ کی سیرت) میں بہترین نمونہ ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کا اور یوم آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔‘‘


    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے حقیقی ہدایت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ،جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر نہ صرف یقین رکھتے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے ہوں، جو سیرت طیبہ کا مذاکرہ صرف نمود ونمائش یا رسم پُری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ہدایت کی سچی طلب سے کریں، جن کے دلوں میں حق کی تشنگی ہو اور وہ واقعتًا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہوں۔ اس معیار پر ہم میں سے ہر شخص اپنا جائزہ لے کر دیکھ سکتا ہے کہ وہ کس نیت اور کس مقصد سے یہ محفل منعقد کر رہا ہے؟ اور اس میں قرآن کریم کی بیان فرمائی ہوئی یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں؟


    اگر واقعتًا ہدایت کی سچی تڑپ اور اصلاحِ حال کا حقیقی جذبہ لے کر ہم سیرت طیبہ کا مذاکرہ کریں تو ممکن نہیں ہے کہ ہماری عملی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ اگر ہم اتنا ہی تہیہ کر لیں کہ سیرت طیبہ کے ذکر مبارک کے بعد ہم میں سے ہر شخص کم از کم دس ایسی سنتوں پر عمل پیرا ہوگا جن پر وہ پہلے کا ر بند نہیں تھا، تو تھوڑے ہی عرصے کے اندر ہمارے معاشرے میں انقلاب آسکتا ہے۔ معاشرے کی وہ برائیاں جو ہمیں گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں، ان کے لیے سیرت طیبہ سے ہدایت طلبی ہی مؤثر علاج بن سکتی ہے۔ اگر سیرت طیبہ کی ان محفلوں میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ زندگی اور آپ  ﷺ کی تعلیمات کے حوالے سے ان معاشرتی برائیوں کو موضوع بنایا جائے، کہنے والے کے دل میں دعوت واصلاح کا سوز ہو اور سننے والے اصلاحِ حال کی تشنگی لے کر جائیں، تو ایک ایک کرکے ساری معاشرتی برائیوں کا سد باب ہوسکتا ہے۔


    یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر ہم سب کو درد مندی کے ساتھ غور کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت طیبہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور اس کے حقیقی تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہم وفقنا لاتباع منہج النبوۃ ومنہج السلف الصالح ووفقنا بالقول والفعل والعمل لما تحب انت ربنا وترضٰی۔

٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 1133