donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sanbhali
Title :
   Qiston Par Gadi Ya Makan Khareedna


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

 

قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنا

 

 محمد نجیب قاسمی سنبھلی


آجکل قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنے کا کافی رواج ہوگیا ہے۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ جب آپ گاڑی خریدنے کے لئے گاڑیوں کے شوروم جاتے ہیں تو گاڑی فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ فلاں گاڑی نقد خریدنے پر مثلاً تین لاکھ روپئے کی ہے اور قسطوں میں خریدنے پر تین لاکھ پچاس ہزار روپئے کی ہے۔اگر آپ گاڑی قسطوں میں خریدنے کے لئے راضی ہوجاتے ہیں تو دونوں (خریدنے والا اور بیچنے والا) ایک اتفاق پر جس میں پہلی قسط اور دیگر قسطوں کی ادائیگی کی تفصیل درج ہوتی ہے، دستخط کردیتے ہیں۔اس طرح قسطوں پر گاڑی خریدنا یا فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔ لیکن اس خرید وفروحت کے صحیح ہونے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ خرید وفروخت کے وقت، گاڑی بیچنے والے کی ملکیت میں ہونی چاہئے۔

لیکن ان دنوں ایک اور مسئلہ درپیش آتا ہے کہ گاڑی فروخت کرنے والا مثلاً (گاڑیوں کا شوروم) کسی بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی سے معاہدہ کرلیتا ہے جس کی بنیاد پر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی گاڑی خریدنے والے کی طرف سے گاڑی کی مکمل قیمت نقد ادا کردیتی ہے، مثلاً مذکورہ مسئلہ میں تین لاکھ روپئے، اور گاڑی خریدنے والا گاڑی کی قیمت قسطوں پر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی کو ادا کرتا ہے، مثلاً مذکورہ مسئلہ میں تین لاکھ اور پچاس ہزار روپئے ۔ یہ شکل و صورت شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی سے سود پر قرض لینے کے مترادف ہے، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ البتہ موجودہ مسئلہ میں جائز کی شکل اس طرح ہوسکتی ہے کہ بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی گاڑیوں کے شوروم سے گاڑی نقد خریدلے اور گاڑی بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی کی ملکیت میں آجائے ، پھر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی قسطوں پر گاڑی فروخت کرے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنے پر اگر قسطیں براہ راست مالک کو ادا ہورہی ہیں، بینک وغیرہ کی شمولیت نہیں ہے تو پھر جائز ہے خواہ نقد کے مقابلہ میں قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنے پر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑی۔  ٭  قسطوں پر مکان خریدنے کے مسائل بھی تقریباً قسطوں پر گاڑی خریدنے کی طرح ہیں۔

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے شریعت کے چند اصولوں کو ذہن میں رکھیں:

٭  سود پر پیسا لینا یا دینا یا سود کے کاروبار میں کسی طرح کا شرکت کرنا قطعاً حرام ہے۔ اس لئے ہمیں سود کے شبہ سے بھی بچنا چاہئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: سود کے ستر سے زیادہ شعبے ہیںاور ادنی ترین شعبہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زنا کرنا۔  (ابن ماجہ، حاکم ، طبرانی)  نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:  ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔  

(مسند احمد)

٭  جو چیز آپ کی ملکیت میں نہیں ہے ، اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایسی چیز کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جو ملکیت اور قبضہ میں نہیں ہے۔  ٭  پیسے کا مقابلہ اگر پیسے سے ہے تو کمی بیشی جائز نہیں ہے۔  ٭  پیسے کا مقابلہ اگر سامان یا کسی چیز سے ہے تو کمی بیشی جائز ہے۔

اس موضوع سے متعلق چند مسائل:

٭  مکان کا ایک ماہ کا کرایا دس ہزار روپئے اور ایک سال کا مکمل کرایا بیک وقت ادا کرنے کی صورت میں ایک لاکھ روپئے، یعنی بیس ہزار روپئے کم۔ شرعاً اس طرح کرایا لینا یا دینا جائز ہے کیونکہ یہاں پیسے کا مقابلہ پیسے سے نہیں ہے بلکہ مکان اور اس کی منفعت سے ہے۔

٭  آپ کے پاس مکان کے ایک سال کا کرایا ادا کرنے کے لئے ستر ہزار روپئے موجود ہیں۔ آپ نے اپنے دوست سے کہا کہ تم تیس ہزار روپئے مجھے اس وقت قرض دیدو تاکہ میں ایک سال کا کرایا ادا کردوں جس سے بیس ہزار روپئے بچ جائیں اور وہ تم مجھ سے لے لینا ، یعنی میں تمہیں بعد میں پچاس ہزار روپئے واپس ادا کردوں گا۔ شرعاً اس طرح بیس ہزار روپئے اپنے دوست کو زیادہ ادا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہاں پیسے کا مقابلہ پیسے سے ہے، جو کہ سود ہے۔

٭  وقت پر قسطوں کی ادائیگی کا خاص اہتمام کرنا چاہئے تاکہ کسی طرح کی اضافی رقم ادا نہ کرنی پڑے کیونکہ اضافی رقم کی ادائیگی سود کے زمرہ میں آسکتی ہے۔ 

 محمد نجیب قاسمی سنبھلی

(www.najeebqasmi.com)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 756