donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Istaqbal Ramzan

استقبالِ رمضان
 
کسی اہم کام کے سلسلے میں صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اُس کا وقت آنے پر اُسے انجام دے دیا جائے بلکہ دو اور امور کااہتمام بھی ضروری ہے: (الف) کام سے قبل اُس کی تیاری اور (ب) کام کی تکمیل کے بعد اُس کے اثرات ونتائج کو محفوظ رکھنے کی سعی۔ تیاری اور ثمرات سے استفادے کے اہتمام کی ضر ورت جہاں اُن کاموں میں ہے جو ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے کئے جاتے ہیں وہیں اُن کاموں میں بھی ہے جن کا تعلق دینی فرائض کی ادائیگی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر جو فرائض عائد کئے ہیں اُن میں رمضان کے روزے بھی شامل ہیں ، چنانچہ رمضان کی آمد سے قبل رمضان سے استفادے کے لئے شعوری تیاری ، اہلِ ایمان کی دینی حِس کا تقاضا ہے ۔ اِس تیاری کے نکات درج ذیل ہیں: (الف) رمضان کی عظمت کے شعور کی تازگی (ب) استقبالِ رمضان کااہتمام اور (ج) منصوبہ بندی۔ تیاری کے سلسلے میں پہلا کام یہ ہے کہ روزے اور رمضان کی اہمیت ذہن میں تازہ کرلی جائے۔
روزے کی اہمیت
 
صوم (روزے) کی اہمیت کاایک پہلو یہ ہے کہ وہ ارکانِ اسلام میں سے ایک رُکن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔ اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا ،  زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔
 
یہی بات مشہور حدیث، ’’حدیثِ جبریل‘‘ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ حدیث کاابتدائی حصہ یہ ہے:
 
’’عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اُس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت سیاہ تھے۔ اُس پر سفر کے آثار نمایاں نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اُسے جانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنے دونوں گھٹنے آپؐ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنے ہاتھ اپنی (یا آپؐ کی) رانوں پر رکھے اور کہا اے محمدؐ!  مجھے بتلائو کہ اِسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، اِسلام یہ ہے کہ ’’تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو،  رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو،اگر تم اُس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہو‘‘۔ اُس شخص نے کہا،  ’’آپؐ نے سچ فرمایا‘‘۔ اِس پر ہمیں حیرت ہوئی کہ وہ آپؐ سے پوچھتا بھی ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے‘‘۔
 
مندرجہ بالا عبارَت کے بعد، حدیث میں مذکور شخص کے کچھ اور سوالات کا بھی ذکر ہے۔ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن سوالات کے پوچھنے والے شخص کے بارے میں صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ یہ جبرئیل ؑ تھے اور انسانی شکل میں آئے تھے۔ اُن کے آنے اور سوالات پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ ، دین کے بنیادی حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں۔
 
مولانا سید حامد علی، اِس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
’’قرآن وحدیث میں ایک لفظ کا استعمال کبھی اُس کے وسیع ترین مفہوم میں ہوتا ہے اور کبھی محدود مفہوم میں۔ ایمان، اِسلام، اِحسان ان تینوں امور کے بارے میں الگ الگ دریافت کرنے سے— حالانکہ ایمان اور اِحسان، اسلام ہی کے اجزاء ہیں— یہ واضح ہے کہ اِن میں سے ہر لفظ کے یہاں محدود معنی مراد ہیں۔ ایمان سے عقائد کا پہلو، اِسلام سے دین کا عملی پہلو اور احسان سے کمالِ دین مراد ہے‘‘۔ 
(’’روزہ۔ آیات و احادیث کی روشنی میں‘‘)
 
روزہ اور قرآن
 
 روزے کی اہمیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس عبادت کے لیے رمضان کا مہینہ منتخب کیا گیا ہے اور رمضان وہ مہینہ ہے جس میں  قرآن کریم نازل ہوا۔
 
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون                      (سورہ بقرہ:آیت ۱۸۵
 
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو اِنسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا، اب جو شخص اِس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دِنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اِس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔
 
اس  آیت کے ذیل میں جناب شبیر احمد عثمانی  ؒ لکھتے ہیں:
 
’’قرآن شریف رمضان کی چوبیسویں رات میں لوحِ محفوظ سے اول آسمان پر سب ایک ساتھ بھیجا گیا پھر تھوڑا تھوڑا کرکے مناسبِ احوال، آپﷺ پر نازل ہوتا رہا اور ہر رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن نازل شدہ،آپؐ کو مکرر سُنا جاتے تھے۔ اِن سب حالات سے رمضان کی فضیلت اور قرآن مجید کے ساتھ اُن کی مناسبت خوب ظاہر ہوگئی‘‘۔
 
مولانا اشرف علی تھانوی، آیتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
’’قرآن مجید میں دوسری جگہ (یعنی سورہ قدر میں) آیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو، شبِ قدر میں نازل فرمایا۔ سو (معلوم ہوناچاہئے کہ) وہ شبِ قدر، رمضان کی تھی، اِس لیے دونوں مضمون موافق ہوگئے اور اگر یہ سوال ہو کہ ’’قرآن مجید تو کئی سال میں تھوڑاتھوڑا کرکے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، پھر رمضان میں یا شبِ قدر میں نازل فرمانے کے کیا معنی؟‘‘ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ’’قرآن مجید، لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر دفعتاً رمضان کی شبِ قدر میں نازل ہوچکا تھا۔ پھر آسمانِ دنیا سے، ہماری دنیا تک بتدریج کئی سال میں نازل ہوا‘‘۔
 
سورہ بقرہ کی مندرجہ بالا آیت میں قرآن مجید کے عظمت کے تین پہلوئوں کا ذکر کیا گیا ہے:  (الف) قرآن اِنسانوں کے لیے ہدایت ہے (ب) قرآن حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی کسوٹی فراہم کرتا ہے اور (ج) قرآنی تعلیمات، واضح اور روشن ہیں جن کو سمجھنا آسان ہے۔ عظمتِ قرآن کے ذکر کے بعد اہل ایمان کو تین امور کی تلقین کی گئی ہے : (الف) اس پورے مہینے کے روزے رکھو (اگر سفر یا بیماری کے عذر سے روزے چھوٹ جائیں توسفر سے واپسی یا صحت کی بحالی کے بعد انہیں رکھ لو۔ بہرحال فرض روزوں کی تعداد کو پورا کرنا ضروری ہے۔) (ب) اللہ کی ہدایت سے سرفراز کیے جانے پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور (ج) اللہ کا شکر ادا کرو۔ اللہ کی کبریائی کے اعتراف کی ایک صورت یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزے مکمل کرلینے کے بعد جب اہل ایمان عیدالفطر کے روز، نمازِ عید ادا کرنے جائیں تو تکبیر کہتے ہوئے جائیں: ’’اللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ ُ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد۔
 
(اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘۔ )
 
مزید برآں اللہ کی کبریائی کے اظہار و اعلان کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کو اللہ کی طرف بلایا جائے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کا حکم دیتے ہوئے یہی تعبیر استعمال کی گئی ہے:
 
 یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَأَنذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ (سورہ مدثر،آیات۱تا۳
 
’’اے اوڑھ لپیٹ کرلیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو  اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘
 
رمضان المبارک کا مہینہ اہلِ ایمان کے قلوب میں قرآن مجید کی عظمت کا احساس تازہ کرتا ہے۔ اِس احساس کے دو تقاضے ہیں: (الف) اہلِ ایمان کی زندگی قرآن مجید کی تعلیمات کے تابع ہوجائے اور (ب) اہلِ ایمان تمام دنیا کو (حق سے غفلت کے انجام بدسے) خبردار 
کریں اور اہلِ دنیا کے سامنے اللہ کی بڑائی کا اعلان کریں۔
 
حصولِ تقویٰ
 
روزے کی اہمیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اِس عبادت کی انجام دہی سے تقویٰ کے حصول کی توقع کی جاسکتی ہے۔
 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔  (سورہ بقرہ: آیت،۱۸۳)
 
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کئے گئے تھے۔ اِس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔
 
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ رو زے کی عبادت کی تقویٰ کی صفت کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ روزے اور تقویٰ کے درمیان اِس تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
 
’’روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی، نفس کو اُس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی۔ یہ روزے کی ایک حکمت کا بیان ہے لیکن حکمت کا اسی میں انحصار نہیں ہوگیا۔ خدا جانے اور کیا کیا ہزاروں حکمتیں ہوں گی‘‘۔
 
جناب شبیر احمد عثمانی آیتِ مذکور کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
’’یہ حکم روزے سے متعلق ہے جو ارکانِ اسلام میں داخل ہے اور نفس کے بندوں و ہَوا پرستوں کو نہایت ہی شاق ہوتا ہے، اِس لیے تاکید اور اہتمام کے الفاظ کے ساتھ بیان کیاگیا ہے… حدیث میں روزے کو نصف صبر فرمایا ہے۔ روزے سے نفس کو اُس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑے گی تو پھر اُس کو اُن مرغوبات سے جو شرعاً حرام ہیں، روک سکوگے اور روزے سے نفس کی قوت وشہوت میں ضعف بھی آئے گا تو اب تم متقی ہوجائوگے۔ بڑی حکمت روزے میں یہی ہے کہ نفسِ سرکش کی اِصلاح ہو اور شریعت کے احکام، جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں، اُن کا کرنا سہل ہوجائے، تو متقی بن جاؤ‘‘۔
 
اِنسانی نفس پر روزے کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سید حامد علی لکھتے ہیں:
 
’’عبادات انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتی اور رضائے الٰہی کا پیکر بناتی ہیں… روزہ بھی ایک عبادت ہے ۔ وہ اِنسان کو برائیوں اور برائیوں کے انجام یعنی عذابِ جہنم سے بچاتا ہے۔ ایک شخص جب اللہ کی رضا کیلئے کھانے پینے کی جائز چیزوں اور جائز  جنسی خواہش کو دِن بھر چھوڑے رہتا ہے تو اُس کے اندر یہ احساس خودبخود پیدا ہونا چاہئے اور پیدا ہوتا بھی ہے کہ وہ اُن کاموں کو بالکلیہ ترک کردے، جو ہرحال میں ناجائز اور قابلِ ترک ہیں۔ بھوک اور پیاس کا احساس اُسے یاد دِلاتا ہے کہ وہ روزے سے ہے اور عبادت کے عالَم میں ہے۔ اِس لیے وہ برائیوں سے زیادہ بچتا اور زیادہ سے زیادہ نیک کام کرتا ہے‘‘۔ (روزہ۔ آیات واحادیث کی روشنی میں‘‘۔ )
 
روزے کی برکات کے سلسلے میں مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:
 
’’روزہ آدمی کی قوت ارادی کی بہترین طریقے پر تربیت کرتا ہے ۔ شریعت کی حدود کی پابندی کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کی قوتِ ارادی نہایت مضبوط ہو۔ بغیر مضبوط قوت ارادی کے یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص شہوات و جذبات اور خواہشوں کے غیر معتدل ہیجان کو دبا سکے… اور شریعت کی حدود کو قائم رکھ سکے۔ ضعیف ارادے کا آدمی ہر قدم پر ٹھوکر کھاسکتا ہے۔ جب بھی کوئی چیز اُس کے غصے کو اشتعال دِلانے والی سامنے آجائے گی وہ بڑی آسانی سے اُس سے مغلوب ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی طمع پیدا کرنے والی چیز اُس کو اشارہ کردے گی وہ اُس کے پیچھے لگ جائے گا… اِس طرح ضعیف قوت ارادی والا انسان ، دنیا میں عزم و ہمت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ شریعت کی حدود و قیود کی پابندی کرسکے۔ بالخصوص شریعت کا وہ حصہّ جو اِنسان کو برائیوں سے روکتا ہے، اِنسان سے مضبوط صبر کا مطالبہ کرتا ہے۔ اِس صبر کی مشق روزے سے حاصل ہوتی ہے۔ اِسی صبر سے وہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو روزے کا اصل مقصود ہے‘‘۔ (’’تزکیہ نفس‘‘)
 
علماء کی اِن تشریحات سے تقویٰ کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی کیفیت ہے جو صبر کی مشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مشق کے نتیجے میں اِنسان کی قوتِ ارادی اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ وہ  تمام ترغیبات کے علی الرغم اور تمام مشکلات و موانع کے باوجود، شریعت کی حدود پر قائم رہتا ہے۔
 
استقبال رمضان کا اہتمام
 
رمضان کی اہمیت کی یاد دہانی کے بعد دوسرا ضروری کام استقبال رمضان ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرامؓ کو اِس عظیم مہینے کی برکات کی جانب متوجہ کیا کرتے تھے۔  ایسی ایک روایت درجِ ذیل ہے:
 
’’ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے ۔
 
یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
 
اللہ تعالیٰ نے (اِس مہینے کے) روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو تطوع  (یعنی نفل) قرار  دیا ہے۔
 
جس شخص نے اِس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اُس شخص کے مانند ہے جس نے دوسرے دِنوں میں کوئی فرض ادا کیا۔ (یعنی اُسے ایسا اجر ملے گا جیسا کہ دوسرے دِنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے) اور جِس نے اِس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے مہینوں میں اُس نے ستر فرض ادا کیے۔
 
رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔
 
یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
 
اگر کوئی شخص، اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ کھُلوائے تو وہ اُس کے گناہوں کی مغفرت اور اُس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اُس کیلئے اُتنا ہی اجر ہے جتنا اُس روزے دار کیلئے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اِس کے کہ اُس روزے دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو‘‘۔
 
حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے (یعنی صحابہ کرامؓ نے) عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ استطاعت حاصل نہیں ہے کہ کسی روزے دار کا روزہ کُھلوائے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ اجر اُس شخص کو (بھی) دے گا جو کسی روزے دار کو دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوا دے یا ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے— اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا 
کھِلادے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ (اِس حوض سے پانی پی کر) پھر اُسے پیاس محسوس نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔
 
یہ وہ مہینہ ہے جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے۔
 
 جس نے رمضان کے زمانے میں اپنے غلام سے ہلکی خدمت لی، اللہ تعالیٰ اُسے بخش دے گا اور اُس کو دوزخ سے آزاد کردے گا‘‘۔
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا خطبہ، رمضان سے قبل ارشاد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کی آمد سے قبل اُس کے فضائل کی جانب،اہل ایمان کو متوجہ کرنا ایک مسنون عمل ہے۔ آپ کی اِس سنت کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ذمے داروں کو بھی استقبالِ رمضان کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں رمضان کی برکات و فیوض کے تذکرے کیلئے خصوصی اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں اور استقبالِ رمضان کی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ جمعہ کے خطبات اور عام دینی اجتماعات میں بھی رمضان کی اہمیت اور اُس سے استفادے کے طریقوں پر اظہار خیال کیا جاسکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی، مسلمانوں کے تمام اجتماعی اداروں میں رمضان کی آمد سے قبل ایسا ماحول پیدا کیاجانا چاہئے جس میں اس ماہ کی برکات سے استفادہ آسان ہوجائے۔ حدیث میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ اِس ماہ میں غلاموں سے ہلکی خدمت لی جائے۔ اس نیکی کا اجر بڑا عظیم ہے یعنی مغفرت اور دوزخ سے رہائی۔ اس ہدایت کی اسپرٹ کے پیش نظر، اہلِ ایمان کو چاہئے کہ اپنے ملازموں اور زیردست افرادسے رمضان میں ہلکی خدمت لیں (اُن کی اُجرت میں کمی کیے بغیر) اِس اچھے رویے کے عوض میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی توقع رکھنی چاہئے۔
 
استقبالِ رمضان کی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے پورے مسلم معاشرے میں ایسی فضا پیدا کی جاسکتی ہے جو نیکیوں کے لیے سازگار ہو اور جِس میں برائیاں مٹنے لگیں۔ دینی تنظیموں کو خصوصاً رمضان المبار ک کے استقبال کا اہتمام کرناچاہئے۔
 
منصوبہ بندی
 
رمضان سے قبل جو تیاری درکار ہے اُس کا تیسرا جُز منصوبہ بندی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ایک طالبِ صادق کو اِس ماہ کے لیے منصوبہ بنانا چاہئے تاکہ وہ اس کی برکات سے پورا فائدہ اٹھا سکے۔ اِس منصوبہ سازی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ عمل کے لیے صحت، قوت، مواقع اور توفیق عنایت فرمائے۔ منصوبے کا بنیادی جُز پورے ماہ کے روزے رکھنے کا پختہ ارادہ ہے۔ اِس کے علاوہ 
دوسرے کام جن کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے، یہ ہیں:
 
(الف)  تلاوتِ قرآن مجید اور قرآن حکیم پر تدبر(ب) تراویح اور قیامِ لیل(ج) اجتماعی مطالعہ قرآن کی مجالس میں شرکت(د)  نفل نمازیں اور اذکار(ہ) شبِ قدر میں قیام(و) (اگر ممکن ہوتو) اعتکاف کااہتمام(ز) فرض اور نفل اِنفاق (ح) روزہ کھلوانے کا اہتمام(ط) بشرطِ استطاعت، روزے داروں کو کھانا کھلانا(س)  وقت پر صدقہ فطر کی ادائیگی(ک) بندگانِ خدا کو دعوت الی القرآن ۔
 
منصوبہ بندی میں یہ طے کرنا شامل ہے کہ مندرجہ بالا کاموں کو کس طرح، کس وقت اور رمضان کے کِن دنوں میں انجام دیاجائے گا؟
 
اِس منصوبے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ ممکن ہوتو اس مہینے میں معاشی مصروفیات کو کسی قدر کم کیا جائے تاکہ عبادت اورتلاوتِ قرآن کے لیے وقت مل سکے اور آرام کا اتنا موقع مل جائے کہ قیامِ لیل میں طبیعت کا نشاط اور تازگی باقی رہے۔ اِسی طرح غیر ضروری سفر سے حتی الامکان بچناچاہئے۔ ہمارے مُلک میں دینی مدارس کے وابستگان کا یہ معمول ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ سفر میں گزارتے ہیں ۔ ایسی کوشش کی جاسکتی ہے کہ مدارس کی جانب سے جو فرد ایک سال رمضان میں سفر کے لیے جائے، اگلے سال اُس کو سفر کی ذمّے داری نہ دی جائے۔ ممکن ہے اِس تقسیم کار کے نتیجے میں مدارس کو تعاون کے طور پر ملنے والی رقم میں کچھ کمی ہوتی نظر آئے لیکن افراد کو رمضان سے استفادے کا جو موقع ملے گا وہ رقم سے زیادہ قیمتی ہوگا۔
 
منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے وقت کا موزوں استعمال ضروری ہے۔ عموماً عید سے قبل کے چند دن لوگ خریداری (شاپنگ) میں گزارتے ہیں اور اُن کی توانائی اور وقت کا خاصا حصہ بازار کی دوڑ دھوپ کی نذر ہوجاتا ہے۔ غالباً اچھی منصوبہ بندی یہ ہوگی کہ ضروری شاپنگ ، رمضان سے قبل ہی کرلی جائے تاکہ رمضان کے قیمتی اوقات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ تجربات سے سیکھ کر اچھی منصوبہ بندی میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرنی چاہئے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نیک کاموں کی انجام دہی کا منصوبہ اُسی وقت کامیاب اور مفید ہوسکتا ہے جب اِنسان تصحیح نیت، اِخلاص،  کسبِ حلال  اورحقوق العباد کی ادائیگی کااہتمام کرے نیز لغویات سے مجتنب رہے۔
 
 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 632