donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Shaikh Kalimullah Umri
Title :
   Badshaguni Islam Ki Nazar Mein

 

بدشگونی اسلام کی نظر میں 

 


مولانا شیخ کلیم اللہ عمری 


    اہل اسلام کی خوش قسمتی یہ ہے کہ قمری سال کی ابتدا اور انتہا محترم مہینوں (محرم ، ذوالحجہ)سے ہوتی ہے یعنی ہمارا ہر دن ، ہر ہفتہ ، ہر ماہ اور ہر سال بابرکت اور محترم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز میں خیر ہی خیر ہے اسی وجہ سے شریعت اسلامی نے نیک فال کو مستحسن قرار دیا نیز مسلمانوں کے ساتھ حسنِ ظن قائم رکھنے کی ترغیب دی گئی اوربدفالی کو ناپسندیدہ فعل قراردیا گیاکیوں اس سے عقیدہ کی خرابی جہاں لازم آتی ہے اسی جگہ آپس کے تعلقات میں دراڑیں قائم ہوں گی اور بھائی چارگی کا ماحول ختم ہوکر بدگمانی اور بے اعتمادی کا ماحول پر وان چڑھے گا۔ اسلام نے یہ تصور دیا کہ بدشگونی بذات خود مضر نہیں ہے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو۔ اگرچہ  بعض چیزوں میں نحوست تو ممکن ہے لیکن فی نفسٖہ وہ مضر نہیں ہوا کرتیں جیسا کہ حضرت معاویہ بن حکم ؓ سے مردی ہے: راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیر زمانہ جاہلیت سے قریب ہے اور اب اللہ نے اسلام کی د ولت سے مالا مال فرمایا ہے، ہم میں سے کچھ لوگ کا ہنوں کے پاس جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان کے پاس مت جانا۔ میں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگ بدشگونی لیتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہ اپنے سپنوں میں پاتے ہیں پس یہ ان کو کاموں سے نہ روکے۔ 


    یعنی بعض موقعوں پر کوئی ایسی سامنے آتی ہے کہ انسان کا ذہن فوراً بدشگونی کی طرف چلا جاتا ہے۔ گویا یہ طبعی اور فطری چیز ہے جس پر کوئی گرفت نہیں ، البتہ اس پر عمل ہوجائے یا اس پر یقین کی کیفیت پیدا ہوجائے تو یہ شرعاً ممنوع ہے، اسی وجہ سے آپ نے فرمایا : ’’پس یہ ان کو کاموں سے نہ روکے ‘‘۔ اسی مفہوم میں ایک اورموقع پر ارشاد نبوی ہے : کہ بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے اور مجھے فال ا چھی لگتی ہے، صحابہ کرامؓ نے پوچھا۔ فال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ا چھی بات کاسننا۔

    مذکورہ حدیث سے یہ بات عیاں ہے کہ بیماری کا ایک دوسرے کو ل گ جانا یا یہ خیال کرنا کہ فلاں شخص فلاں کی وجہ سے پیار ہوا یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں اور غلط عقائد ہیں۔ بیماری اگر متعدی ہے تو وہ بھی اللہ کی مشیت وارادہ کے تابع ہے اور اللہ تعالیٰ ہی مسوب الاسباب ہے، جو وہ چاہتا ہے کر گزرتا ہے ، اس کے ارادے ، ہر حال میں نافذ ہواکر تے ہیں۔ بیماری کے متعددی ہونے کی نفی اس طرح سے بھی ہوتی ہے کہ ایک گھرمیں چندلوگ بیمار ہوتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ صحت مند ہوا کرتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں اللہ ہی کا مشیت وارادہ مقدم ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگ بیمار ہوجاتے ہیں تو بعض دوسرے صحت مند رہا کرتے ہیں۔ 


     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر بعض خاص چیزوں میں نحوست کے پائے جانے کی طرف اشارہ فرمایا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیماری ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بدشگونی لینا حقیقت کی کوئی چیز نہیںہے۔ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھر میں ، عورت میں ، گھوڑے میں ہوتی۔‘‘

    شیخ ابن نشیمن رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ مذکورہ تینوں چیزیں اکثر و بیشتر انسان کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے خصوصیت کے ساتھ ان کا تذکرہ فرمایا گیا۔ مثال کے طورپر عورت سے مراد بیوی ہے، گھوڑے سے مراد انسان کی سواریاں ہیں ، ان چیزوں میں کبھی بدشگونی ہوتی ہے جیسے عورت سے شادی کے بعد انسان سکون نہ پائے ، گھر سے اس کا دل تنگ ہوجائے تو خوشی وشادمانی میسر نہ ہو اور اس طرح ہے کہ کثرت سے حادثات سے دو چار ہو، باربار مرمت کی نوبت آئے ، یہاں تک کہ انسان بے زار ہوجائے اور تنگ آجائے۔‘‘ (شرح ریاض الصالحین ) نیز مذکورہ حدیث میں نحوست کو مشروط طریقہ سے ثابت کیاگیا کہ ا گر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی۔ یعنی گھوڑے ، گھر اور عورت میں۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ مذکورہ تین چیزوں کا ذکر مجاز ہے، یہاں گھیرنا مقصود نہیں ہے۔ 

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مذکورہ چیزوں میں نحوست فی نفسہٖ نہیں ہے بلکہ تاثیر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ جب تک کہ اللہ نہ چاہے کسی بھی چیز میں نفع یا نقصان کا تصور بد عقید گی پر دلیل ہے۔ 

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ نیک فال لیاکرتے تھے اور بدفالی نکال دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بد شگونی نہیں لیا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ معاملہ نیک فال تھا، جیسا کہ حضرت عروہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس فال گیری کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ نیک فال سب سے اچھی چیز ہے اور یہ بدشگونی کسی مسلمان کو اسکے کام سے نہ روکے۔ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کہے : اے اللہ خیر کا ذریعہ تو ہی ہے اور شرکو تیرے سوا کوئی نہیں ر وک سکتا اور قوت وطاقت تو تیرے ہی ذریعہ قائم ہے۔‘‘

    1۔ اس کا مطلب یہ کہ نیک فال پسندیدہ خصلت ہے اور بدشگونی بری عادت ہے لیکن کسی انسان کو کوئی چیز اللہ کی مشیت کے بغیر نہ نفع پہنچاسکتی ہے اورنہ ہی نقصان۔ 

    2۔ مسلمان جب کسی کام کا عزم کرلیتا ہے تو اسے کام سے کوئی بدشگونی نہیں روک سکتی، کیونکہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان کا پختہ عقیدہ ہوتا ہے کہ موثر حقیقی تو اللہ ہی ہے۔ 

    3۔ دفع ِشر کے لئے مذکورہ دعا کا اہتمام بھی لازم ہے اس لئے کہ دعاء مومن کا مضبوط ہتھیار ہے جس سے مسلمان بچائو کی تدبیر کرلیتا ہے۔ نیز یہ مسنون دعاء بھی وسوسہ کے وقت پڑھنا مستحب ہے۔ اسی لئے حضرات اہلِ علم کا کہنا ہے کہ دن سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتے ہیں ، وہ بذات خود نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ 

    علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ دن سارے یکساں ہیں، کسی بدھ وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں۔ ر ات دن کی کوئی گھڑی ایسی نہیں جو کسی کیلئے اچھی اور کسی کیلئے بری ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے کمال علم وحکمت کی بناء پر کسی وقت کو کسی کے لئے موافق اورکسی کے لئے ناموافق بناتا رہتا ہے۔ 

    نیز زمانہ جاہلیت میں جس قسم کے غلط تصورات اور بد عقیدگی کا رواج تھا اس چیز کو اسلام نے آہستہ آہستہ ختم کردیا ، اس لئے کہ اسلام کے سائے میں ایک پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل ضروری تھی جیساکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ر سول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور ماہِ صفر کے نحوست کا تصور یا ماہِ صفر کو ماہِ محرم کرنا اور بدر و روح کا منتقل ہونا یا اُلوّ کے ذریعہ بدشگونی لینا یا موذی جانوروں سے فی نفسہٖ نقصان پہنچنے کا تصور کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ؐ ! کیابات ہے کہ ایک صحت مند اونٹ دوسرے بیمار (کھجلی والے ) اونٹ سے مل کر بیمار ہوجاتا ہے ؟ تو آپ نے سوال کیا کہ اس پہلے بیمار اونٹ کی بیماری کہاں سے آئی؟۔‘‘

    حق بات یہ ہے کہ نفع ونقصان کا تعلق یا خیرو شر کا پہنچنا اللہ کی طرف سے ہے اور وہی مسبب الاسباب ہے، اس کے ذریعہ ہی ہر چیز میں بھلائی یا برائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ دور جاہلیت میں لوگ ماہ ِصفر کے بارے میں نحوست تصور کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکل جاتے تھے یا اپنے ذاتی مفادات یا جنگ وجدل کی خاطر ماہِ محرم کو ماہِ صفر کی جگہ میں رکھ کر جنگ جاری رکھتے تھے اسلام نے اس ردو بدل کو عملِ کفر قرار دے کر منع فرمایا۔ 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 568