donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sanbhali
Title :
   Ittehade Ummat - Waqt Ki Zarurat


اتحاد امت ۔ وقت کی ضرورت


محمد نجیب قاسمی سنبھلی


غزوۂ احزاب سے واپسی پر نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو فوراً بنو قریظہ روانہ فرمایااور کہا کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھو۔ راستہ میں جب نماز عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو صحابہ کرام میں عصرکی نماز پڑھنے کے متعلق اختلاف ہوگیا۔ ایک جماعت نے کہا کہ حضور اکرم ﷺکے فرمان کے مطابق ہمیں بنو قریظہ ہی میں جاکر نماز عصر پڑھنی چاہئے خواہ عصر کی نماز قضا ہوجائے، جبکہ دوسری جماعت نے کہا کہ آپ ﷺکے کہنے کا منشا یہ تھا کہ ہم عصر کی نماز کے وقت میں ہی بنو قریظہ پہونچ جائیںگے،لیکن اب چونکہ عصر کے وقت میں بنو قریظہ کی بستی میں پہونچ کر نماز عصر پڑھنا ممکن نہیں ہے،لہذا ہمیں عصر کی نماز ابھی پڑھ لینی چاہئے۔ اس طرح صحابہ کرام دو جماعت میں منقسم ہوگئے، کچھ حضرات نے نماز عصر وہیں پڑھی ، جبکہ دوسری جماعت نے بنو قریظہ کی بستی میں جاکر قضا پڑھی۔ جب صبح نبی اکرم ﷺبنو قریظہ پہونچے اور اس واقعہ سے متعلق تفصیلات معلوم ہوئیں تو آپﷺنے کسی جماعت پر بھی کوئی تنقید نہیں کی اورنہ ہی اس اہم موقع پرآپ ﷺنے کوئی ہدایت جاری کی، جس سے معلوم ہوا کہ اختلاف تو کل قیامت تک جاری رہے گا اور اس نوعیت کا اختلاف مذموم نہیں ہے۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

 اسلام میں اختلاف کی گنجائش تو ہے مگر بغض وعناد اور لڑائی جھگڑا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا: آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ (سورۃ الانفال ۴۶)  آج دنیاوی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہیں، جس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ لہذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اختلاف کو صرف اظہار حق یا تلاش حق تک محدود رکھیں۔ اپنا موقف ضرور پیش کریں، لیکن دوسرے کی رائے کی صرف اس بنیاد پر مخالفت نہ کریں کہ اس کا تعلق دوسرے مکتب فکر سے ہے۔ ہمیں امت مسلمہ کے شیرازہ کو بکھیرنے کے بجائے اس میں پیوندکاری کرنی چاہئے۔ فروعی مسائل میں اختلاف کی صورت میں دیگر مکاتب فکر کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنا موقف ضرور پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن دوسرے مکتب فکر کی رائے کی تذلیل اور رسوائی ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔

امت مسلمہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے چاروں ائمہ کی تقلید کے مسئلہ پر متفق چلی آرہی ہے۔ اور چاروں ائمہ کی تقلید قرآن وحدیث کی اتباع ہی ہے۔ اگر آپ قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی ان ائمہ کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں تو عصر حاضر کے بعض حضرات کی رائے پر عمل کرکے ان کی تقلید کرلیں، لیکن ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ وتابعی حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی قرآن وحدیث پر مبنی رائے کو قرآن وحدیث کے خلاف اور اکیسویں صدی میں پیدا ہوئے عالم دین کی رائے کو قرآن وحدیث کے عین مطابق قرار دینا امت کے درمیان ایک فتنہ برپا کرنا نہیں تو پھر کیا ہے؟ چند حضرات اختلافی مسائل کو اس طرح عوام الناس کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ آج کے دور کا عالم دین تو غلطی کرہی نہیں سکتا ہے لیکن صحابۂ کرام کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علمی ورثہ کے وارث بنے حضرت امام ابوحنیفہ  ؒ غلطی کرتے ہیں، بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کی طرف منسوب اقوال اور علماء احناف کے اقوال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جو اکیسویں صدی کے عالم نے سمجھا ہے وہ ہی صرف اور صرف صحیح ہے اور جو حضرت امام حنیفہ ؒ اور علماء احناف نے سمجھا ہے وہ سب غلط ہے۔

لہذا اشد ضرورت ہے کہ ائمہ اربعہ کی قرآن وحدیث پر مبنی ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔ ائمہ کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعما ل نہ کئے جائیں۔ فروعی مسائل میں عوام الناس کو الجھایا نہ جائے بلکہ انہیں مبادیٔ اسلام سے واقف کرایا جائے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد سورہ فاتحہ کو صحیح طریقہ سے پڑھنا نہیں جانتی، لیکن بعض حضرات ان کی سورہ فاتحہ کی تجوید میں اصلاح کے بجائے ان کے سامنے حضرت امام ابوحینفہ ؒ اور علماء احناف کے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کو اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف نے یہ کہا جبکہ قرآن وحدیث میں یہ مذکور ہے، حالانکہ امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کے دلائل توریت یا زبوریا انجیل یا رامائن یا گیتا سے نہیں لئے گئے ہیں بلکہ ان کی رائے قرآن وحدیث سے ہی مدلل ہے اور وہ اپنے زمانے میں علم وعمل کے درخشاں ستارہ تھے۔

سعودی عرب کی موجودہ حکومت (جو اختلافی مسائل میں عموماً حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی رائے کو ترجیح دیتی ہے جیساکہ شاہ عبد العزیز ؒ نے کہا ہے) کا بھی یہی موقف ہے کہ فروعی مسائل میں امت مسلمہ کے اختلافات کو حق وباطل کی جنگ کی طرح لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔ بلکہ چاروں ائمہ کی قرآن وحدیث پر مبنی رائے کا مکمل احترام کیا جائے۔ امام حرم شیخ عبد الرحمن السدیس نے برصغیر کی اہم علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے سفر کے دوران فرمایا تھا کہ ان فروعی مسائل میں اختلاف کا حل نہ آج تک ہوا ہے اور نہ بظاہر ہوگا۔ سعودی عرب کے سابق بادشاہ شاہ عبد اللہ ؒ نے نہ صرف امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر کو جوڑنے کے لئے خصوصی ہدایات جاری فرمائیں بلکہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان بھی اختلافات کو کم کرنے پر زور دیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے لاکھوں ریال خرچ کرکے متعدد کانفرنسوں کا انعقاد کرایا۔ لہٰذا ہم اپنی صلاحیتیں فروعی مسائل میں امت مسلمہ کو تقسیم کرنے میں نہیں بلکہ امت کے درمیان اتحاد واتفاق پیدا کرنے میں لگائیں، جو وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ اسلام مخالف طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گی۔ امت مسلمہ کے تقریباً ۹۵ فیصد کو قرآن وحدیث کی روشنی میں چاروں ائمہ کی رائے پر عمل کرنے دیں، جیساکہ عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔

 (www.najeebqasmi.com)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 778