donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Safdar Hamdani
Title :
   Lahore Me Uzadari Ki Tareekh

لاہور میں عزاداری

 

 کی تاریخ


صفدر ھمٰدانی۔۔ لندن


حسین تیرا حیسن میرا حسین سب کا
حسین حیدر کا مصطفیٰ کا حسین رب کا

کربلا میں61 ہجری میں اسلام کو ملوکیت سے بچانے اور فاسق و فاجر یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار پر اللہ کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ و علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے خانوادے اور عزیز و اقربا کے علاوہ اپنے ساتھی جانثاروں کی جو لازوال قربانی پیش کی اسکی یاد لگ بھگ چودہ صدیوں سے دنیا کے کونے میں منائی جاتی ہے۔

فکری یزید کے مقابلے میں فکر حسینی کی ابدی فتح نے یزید کو ابد تک لے لیئے ایک گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔

بلا تفریق مسلک ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا باعث‘ آئمہ معصومین اور خاص کر سید مظلومین سرکار سید الشہدائ￿  حضرت امام حسین کی مجالس عزاداری کے سیاسی مراسم ہیں اور یہی چیز تمام مسلمانوں اور خاص طور سے ملت شیعت  کی محافظ ہے۔

سید المظلومین امام حسین کی ہمیشہ کے لئے عزاداری منانے اور اہل بیت رسول  کی مظلومیت اور بنی امیہ ‘ کہ جن کا وجود نحس دنیا سے مٹ چکا ہے کے ظلم کی فریاد بلند کرنے کے سلسلے میں آئمہ مسلمین کی زبردست تاکید ‘‘مظلوم کی ظالم کے ظلم کے خلاف فریاد ‘‘ہے۔ جسے ہر حال میں  زندہ رہنا چاہئے اور کربلا کا سب سے بڑا درس اپنے عہد کے یزید کی شناخت اور فکر حسینی سے اسے شکست دینا ہے

دنیا بھر میں کچھ شہر ایسے ہیں جنکا محرم تاریخی گردانا جانا جاتا ہے جن میں لکھنؤ کے علاوہ بغداد، کربلا،  نجف، کاظمین، تہران، مشہد، قم،کویت،بحرین کے کچھ شہر،ترکی کے شہر ،لبنان ،یمن اور مغربی ممالک میں امریکہ کے شہر شکاگو،ہیوسٹن،لاس اینجلس،برطانیہ میں لندن،برمنگھم،بریڈ فورڈ،مانچسٹر،کینیڈا میں ٹورنٹو اور یورپ میں ہیگ،برسلز اور پیرس جیسے شہر شامل ہیں۔

تاریخ عزاداری کے بارے میں کوئی بہت زیادہ تحقیق کام نہیں ہوا ہے ماسوائے کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر کوششیں کی ہیں۔ یورپ کی عزاداری کی تاریخ کے بارے میں میں خود برسلز کے عمران چوہدری اور سید علی رضا کے ساتھ کئی سال سے مل کر کام کر رہا ہوں لیکن ان دوستوں کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی بہت زیادہ اہم بات نہ ہو اس لیئے یہ منصوبہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔

معروف ادیب، محقق اور صحافی حیدر طباطبائی نے کچھ عرصہ پہلے لندن کے عزا خانوں کے بارے میں ایک مختصر سا تحققیقی مضمون لکھا تھا اور اسی طرح امریکہ اور یورپ میں کچھ احباب نے اپنے اپنے طور پر کچھ مضامین لکھے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس عزاداری کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا کوئی کام نہیں ہوا۔

اہلِ ایران نے اپنے ملک کے مختلف شہروں میں خاص طور پر مشہد،قم اور تہران میں عزادری کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا قابل قدر کام کیا ہے لیکن یہ سارا کام فارسی زبان میں ہے جسے انگریزی کے علاوہ دیگر عالمی زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اردو میں اس حوالے سے کچھ کتابچے اور مضامین گاہے بگاہے شائع ہوتے رہے ہیں لیکن برصغیر میں عزاداری کی تاریخ کے حوالے سے شائع ہونے والی تحقیقی کتابوں میں سب سے اہم کتاب میری نظر میں معروف شاعر اور مرثیہ نگار مرحوم شاہد نقوی کی
‘‘عزاداری۔۔تہزیبی،ادبی،اور ثقافتی منظر نامے‘‘   کے عنوان سے ہے جو مارچ 2002میں لاہور سے شائع ہوئی تھی اور عجب اتفاق ہے کہ شاید قدرت نے شاہد نقوی کو اسی کام کے لیئے زندہ رکھا تھا کہ ادھر یہ موقر تحقیقی کتاب شائع ہو کر مارکیٹ میں آئی اور ادھر شاہد نقوی گلے کے کینسر میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے سدھارے لیکن جانے سے پہلے ہم جیسے طالب علموں کو اس تحقیقی دولت کا ورثہ عنایت کر گئے۔

خالق لوح و قلم اس قلم کے صدقے میں انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے کہ اس تحقیقی کتاب کو جو دراصل ایک تنہا آدمی کا کام نہیں ایک مکمل جماعت کا کام ہے انہیں مکمل کرنے میں کوئی بارہ سال سے زائد کا عرصہ لگا تب جا کر 564صفحات کی یہ کتاب منظر عام پر آ سکی اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے پس پشت معروف صنعت کار اور عاشق آل رسول سر مراتب علی مرحوم کے خانوادے کا مکمل تعاون شاہد نقوی کو حاصل تھا وگرنہ شاید یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکتا۔

‘‘عزاداری‘‘ نامی اس کتاب اور شاہد نقوی مرحوم کے بارے میں پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ اس وقت میرا موضوع لاہور میں عزاداری کی تاریخ ہے۔

نشریات کی دنیا میں ایک واحد تحقیقی دستاویزی پروگرام 1975میں خود میں نے اپنے والد مرحوم مصطفیٰ علی ھمدانی کی تحقیقی معاونت سے تیار کیا تھا جس کا نام تھا‘‘لاہور میں عزاداری کی تاریخ‘‘ اور یہ پروگرام اسوقت پاکستان بھر کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر بھی ہوا تھا اور کئی برسوں تک ریڈیو پاکستان کی صوتی مرکزی لائبریری سنٹرل پروڈکشن میں بھی محفوظ رہا اور ہر محرم پر مختلف اسٹیشن اسے مقامی طور پر بھی نشر کرتے رہے تا ہم اب معلوم نہیں کہ یہ پروگرام محفوظ ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں کسی قسم کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کی نہ روایت ہے اور نہ رواج۔

پاکستان ٹیلی ویڑن کے لاہور مرکز نے بھی 80کے عشرے میں اسی موضوع پر ایک دستاویزی پروگرام تیار کیا تھا لیکن عہد حاضر میں ان ذرائع ابلاغ کے اداروں سے بھی ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

برصغیر پاک و ہند میں جنوبی ہند وہ پہلا علاقہ ہے جہاں امام مظلوم کی عزاداری کی بنیاد رکھی گئی اور اس عظیم مقصد کے لیئے عزا خانے تعمیر ہوئے اور رثائی ادب تخلیق ہونے لگا اور پھر شمالی ہند میں دہلی کے بعد لکھنؤ اس تہذیبی روایت کا مرکز بنا۔ اس عزاداری کی ترویج میں صوفیا اور فقرا کا بہت بڑا کردار رہا ہے کہ وہ جہاں جہاں گئے ہیں انہوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہے۔

خود مجلس عزا کی تاریخ بھی ایک الگ اور نہایت وسیع موضوع ہے تاہم موجودہ تحقیقی وسائل کے ساتھ پہلی مجلس عزا کے ڈانڈے جنگ صفین سے ملتے ہیں کہ یہاں سے واپسی پر ارض نینوا پہنچ کر زبان حضرت امیر علیہ السلام کی زبان سے شہادت کا جو اظہار ہوا اسکی تفصیل مقاتل میں موجود ہے تا ہم کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی کے بعد پہلی مجلس عزا کی تاریخ امام حسین کے چہلم کے موقع پر 20صفر 61ہجری میں ملتی ہے جس میں صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری کے علاوہ سید سجاد امام زین العابدین اور امام حسین کی شیر دل بہن سیدہ زینب سلام اللہ بھی شامل تھیں اور پھر امام زین العابدین کی وہ مجالس جو انہوں نے اپنے بابا کی یاد میں برپا کیں اور ایسی تما عزائی مجالس میں نثری بیان کہیں نہیں ملتا بلکہ یہ ساری تاریخ منظوم مجالس کی ہے۔

اس قسم کی تمام مجالس کو عزائی محققین نے مجازی مجالس کانام دیا ہے اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے کہ جو مجلس عزا اہتمام کے ساتھ اور ذاکر کی ذاکری میں اور خواتین کو پس پردہ جگہ دیکر ہوئی اسکے بانی مدفون با ارض طوس اور شہنشاہ مشہد مقدس امام سید علی رضا ہیں اور اس میں ڑاکری کا اعزاز دعبل خزاعی کو ملا تھا جنکی وفات 246ہجری میں ہوئی تھی۔

مجلس عزا کی اس نہایت مختصر تاریخ کے بعد ایک نظر محرم الحرام کے عزائی جلوسوں کی تاریخ پر ڈالیں تو پہلا جلوس تو دس محرم اکسٹھ ہجری کے بعد اگلے روز کوفہ وشام جانے والا وہ قافلہ تھا جس کے آگے آگے نوک سناں پر شہدا کے سر تھے اور انکے پیچھے پابند سلاسل خانوادہ اہلبیت۔ اور یہی جلوس جب دمشق میں دربار یزید میں پہنچا تو یہاں جناب زینب سلام اللہ اور امام سید سجاد نے جو دو تاریخی خطبے دیئے وہ پہلے احتجاجی خطبے تھے جنہوں نے دربار یزیز کو ہلا کر رکھ دیا۔

آگے بڑھنے سے پہلے آیئے ایک مختصر سی نظر تحقیق کے آئینے میں پہلے عزا خانے پر ڈالتے ہیں

موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا.. ہاں مگر نامِ حسین ابنِ علی رہ جائے گا
 
میں نے عزاداری کی تاریخ کے بارے میں اگر چہ لاہور کے حوالے سے لکھنے کی ابتدا کی تھی لیکن پڑھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے پہلی قسط میں تاریخ کے اجمالی ذکر کو جس طرح سراہا ہے وہ میرے لیئے حوصلہ افزا ہے۔ مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ ایسے موضوع پر ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے لیکن ایسی تحقیق کے لیئے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ مجھ جیسے فقیر کو دستیاب نہیں اور جنہیں دستیاب ہیں انکا یہ موضوع نہیں۔

اس کے باوجود اپنے پڑھنے والوں سے میرا یہ وعدہ کے جب بھی اس قلمی جہاد میں ذراسا بھی دم لینے کی فرصت ملی تو انشااللہ عزاداری کی عالمی تاریخ پر ایک مفصل تحقیق انہی کالموں کے حوالے سے لکھوں گا۔

گزشتہ کالم یعنی اس سلسلے کی پہلی قسط میں بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ‘‘آگے بڑھنے سے پہلے آیئے ایک مختصر سی نظر تحقیق کے آئینے میں پہلے عزا خانے پر ڈالتے ہیں‘‘۔
محققین یہ بات پورے وثوق سے نہیں بتا سکتے کہ دنیا میں پہلا عزا کہاں قائم ہو اتھا لیکن قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ پہلا عزا خانہ عراق کے شہر بغداد میں معزالدولہ ویلمی بویہی نے ہی بنوایا تھا لیکن تاریخی ثبوت کے ساتھ اس قیاس کو یقین میں نہیں بدلا جا سکتا۔ تاریخ میں مراکش کے کچھ قدیم ترین عزا خانوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے لیکن ان تذکروں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کیا دنیا کا پہلا معلوم عزا خانہ کیا کہیں قائم ہو اتھا؟

ہوسکتا ہے کہ کسی اور محقق کے سامنے کوئی اور مستند نکتہ ہو اس ضمن میں لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں تو ایک حوالہ جسٹس امیر علی تاریخ کی کتاب‘‘ہسٹری آف سیراسنز599‘‘ میں ملتا ہے جس میں انہوں نے پہلی باقاعدہ امام بارگاہ بنوانے والے کا نام شاہ المعز لکھا ہے جس نے مصر کا شہر قاہرہ آباد کیا تھا۔ مصر کے فاطمی بادشاہوں میں سے المعز نے جب قاہرہ کے محلات تعمیر کروائے تو انکے ساتھ مجالس عزا کے لیئے مخصوص عمارتیں بھی بنوائیں۔

تاریخ کے مضمون سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیئے بتاتا چلوں کہ ‘‘سلطنت فاطمیہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 297ھ میں شمالی افریقہ کے شہر قیروان میں قائم ہوئی۔ اس سلطنت کے بانی عبیداللہ المہدی کے بارے میں  چونکہ کہا جاتا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ کی اولاد میں سے تھا اس لئے اسے سلطنت فاطمیہ کہا جاتا ہے ۔اسی سلطنت فاطمیہ کے  کے ایک حکمران المعز (341ھ تا 365ھ) نے 358ئ￿  میں مصر بھی فتح کرلیا۔ المعز فاطمی حکومت کا سب سے قابل حکمران تھا۔ وہ افریقہ سے مصر آگیا اور اسی نے قاہرہ کی بنیاد ڈالی۔المعز کے بعد اس کا بیٹا عزیز (365ھ تا 386ھ ) تخت پر بیٹھا۔ وہ بھی ایک قابل حکمران تھا۔ اس کے زمانے میں شام،حجاز اور یمن پر بھی فاطمیوں کا قبضہ ہوگیا اور اس طرح فاطمی حکومت اسلامی دنیا کی سب سے بڑی حکومت بن گئی‘‘۔ تاریخی حوالے سے پہلا عزا خانہ بنوانے کا اعزاز اسی المعز کو جاتا ہے(تحقیق کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے)۔

برصغیر میں مجالس اور عزاخانوں کا وجود تیمور سے بہت پہلے پایا جاتا ہے اور اغلب ہے کہ بھارت میں مسلم حکومت کی ابتدا سے ہی کسی شیعہ حاکم وقت نے کوئی عزا خانہ تعمیر کروایا ہو لیکن تغلق عہد میں یہ بات ثبوت کے ساتھ ملتی ہے۔ہندوستان میں مملوک سلاطین دہلی کے بعد
1290ئ￿  سے 1320ئ￿  تک خلجی بادشاہ ہندوستان پر حکمران رہے اورخلجی خاندان کی بنیاد جلال الدین خلجی نے رکھی اورخلجی خاندان کے بعد سلطان غیاث الدین تغلق 1320 تا 1325ئ￿ نے دہلی پر تغلق خاندان کی حکومت قائم کی اور 1413ئ￿  میں اس کی وفات کے بعد تغلق خاندان کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔

ایک بات پوری تاریخی صداقت کے ساتھ ملتی ہے کہ جونپور میں سلاطین شرقیہ نے قیام سلطنت کے بعد عزا خانے تعمیر کروائے۔  جونپورجنوبی ہند کا تاریخی شہر جسے سلطان فیروز شاہ تغلق نے تعمیر کرایا۔ جونا خان نے جو بعد میں السطان المجاہد ابوالفتح محمد شاہ کا لقب اختیار کرکے سریر آرائے سلطنت ہوا اپنے نام پر اس کا نام جون پور رکھا جوسلطنت تغلق کے بعد شاہان شرقی کا درالخلافہ رہا۔ تا ہم تاریخ میں بھارت کے شہر لکھنؤ کے عزا خانوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔یہاں شہرہ آفاق عزا خانوں میں عزا خانہ آصفی، چھوٹے امام باڑے ، شاہ نجف اور اب امام باڑہ سبطین آباد مبارک شامل ہیں۔

عزا خانوں کی نہایت مختصر ترین تاریخ کے بعد ایک اور اہم موضوع عزاداری کے ضمن میں ‘‘تعزیہ داری‘‘ کی تاریخ کا ہے اور اسکا آغاز بھی برصغیر میں عید تیموری سے ہوتا ہے۔

 یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ‘‘تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں تیموری سلطنت کے نام سے قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔تیمور لنگ (پیدائش: 1335ئ￿ ، وفات: 1405ئ￿ ) تیموری سلطنت کا بانی 1366ئ￿  میں بلخ میں تخت نشین ہوا اور18 فروری 1405ئ￿  کو اس کا انتقال ہوگیا۔‘‘

تیمور کے زمانے میں 803ہجری کے محرم میں تعزیہ داری کی بنیاد ملتی ہے جب پہلے پہل مٹی کا تعزیہ بنایا گیا اور پھر لکڑی کے تعزیے بنے اور
شاید اسی لیئے ایک خاص قسم کے تعزیے کو تیموری تعزیہ کہا جانے لگا۔

تاریخ میں ہندؤں،آدی واسیوں، بھانڈوں اور طوائفوں کے بھی الگ الگ تعزیوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ میں نے خود راولپنڈی اور حیدر آباد کے علاوہ کئی شہروں میں اہل سنت کے مخصوص تعزیے دیکھے ہیں۔

ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔

تعزیہ داری کے بارے میں انگریزی زبان کی تاریخ میں دو انگریز خواتین مسز میر حسن اور فینی پارکس کے علاوہ شاہ نصیر الدین کے مصاحب ولیم نائٹن کے نام بہت مستند شمار کیئے جاتے ہیں۔لکھنؤ کے آصفی امام باڑے کا ‘‘لاڈو ساقن کا تعزیہ،ریاست جاورہ اور حسین ٹیکری کا تعزیہ،روہڑی کا چار سو سال پرانا تعزیہ، باون ڈنڈوں کا تعزیہ،چالیس منبروں کی زیارت اور پھر پاکستان میں ملتان شہر کے تعزیے تاریخی اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

ملتان کا شمار پاکستان کے اْن شہروں میں ہوتا ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے ذوالجناح، علم اور تعزیے کے چارسو سے زائد ماتمی جلوس نکلتے ہیں ۔ لیکن اِن میں بڑی تعداد تعزیے کیجلوسوں کی ہوتی ہے ۔

تا ہم تین سو سے اوْپر نکالے جانے والے تعزیوں میں نمایاں مقام اندرونِ شہر کے پاک گیٹ سے برآمد ہونے والے قدیمی اْستاد اور شاگرد کے تعزیوں کو ہی حاصل ہے ۔
اِن میں سے اْستاد کا تعزیہ ایک سو اسی سال سے زیادہ پْرانا بتایا جاتا ہے ۔ شاگرد کا تعزیہ بھی اِتنا ہی پرانا تھا لیکن یہ ایک دفعہ گِر کر اور دوسری دفعہ جل کر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا ۔

روایت کے مطابق لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اْستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے اٹھارہ سو پچیس میں یہ شاندار تعزیہ تیار کیا تھا ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اْستاد کو اِس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں پانچ سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ بعض لوگ یہ مْدت سولہ سال بتاتے ہیں ۔

شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش تھا اور وہ اْستاد پیر بخش کے شاگردوں کی اْس ٹیم کا حصہ تھے جِس نے اْستاد کا تعزیہ تیار کیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اِلہی بخش دِن میں اْستاد کے ساتھ کام کرتے اور رات میں ایک خفیہ جگہ پر ویسا ہی تعزیہ بناتے تھے۔

اْستاد اور شاگرد کے تعزیے کی یہ  روایت  کم و بیش دو صدیاں گذرنے کے بعد بھی قائم ہے ۔ ملتان میں آج بھی تعزیوں کے مرکزی جلوس کی قیادت اْستاد کا لافانی تعزیہ کرتا ہے جِس کے پیچھے شاگرد کا تعزیہ اور پھر دوسرے تعزیے ہوتے ہیں ۔

میں جب 2007میں مرثیہ نوتصنیف پڑھنے کے لیئے پہلی بار ملتان گیا تھا تو اسوقت ان تعزیوں میں ایک جدت ہوئی تھی اور پہلی بار ریمورٹ کنٹرول کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والا تعزیہ بھی دکھائی دیا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے اونچے تعزیوں کو بجلی کی تاروں سے بچانے کے لیئے ریمورٹ کے ساتھ تعزیے کو نیچے کر کے باآسانی گزار دیا جاتا اور پھر ریمورٹ سے بلند کر دیا جاتا۔

اْستاد کا تعزیہ  پچیس فْٹ بلند اور آٹھ فْٹ چوڑا ہے اور اِس تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اور ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اوراسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں۔
شاگرد کے تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اوراونچائی بھی پچیس فْٹ ہے جبکہ چوڑائی ساڑھے آٹھ فْٹ ہے ۔لیکن شاگرد کا موجودہ تعزیہ مشین کی مدد سے تیار کردہ ہے جو انْیس سو چوالیس میں اْس وقت بنایا گیا جب شاگرد کے تعزّیے کو پراسرار طور پر آگ لگی اور وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔

بات سمیٹنے کی کوشش کرتا تو مزید پھیلتی چلی جا رہی ہے اور تحقیق کے دوران پاکستان کے حیدرآباد میں گزشتہ 36 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے نکالے جانے والے ماتمی جلوس کے بارے میں کچھ نایاب باتیں سامنے آئی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایلی کاٹ کون تھا ؟

بتایا جاتا ہے کہ ایلی کاٹ ایک ’گورا‘ تھا اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کئے عزا داری میں پیش پیش نظر آتا تھا اور بیلے ڈانس کا رسیا یہ  ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور عبدالغفور چانڈیوکی زبانی واقعہ کربلا سن کر ایسا مسلمان ہوا کہ  گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔

چارلی ایلی کاٹ کا مسلم نام علی گوھر تھا اور اسکی پیدائش کہاں ہوئی اسکے بارے میں کچھ علم نہیں لیکن ایلی کاٹ سے علی گوہر وہ 66برس پہلے بنا تھا اورچار ربیع الاول کو سترہ اپریل انیس سو اکہتر کو وہ انتقال کر گیا اور اسیماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا

 ان کی انگریزوالدہ کا تعلق کلکتہ سے تھا اور وہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں ڈاکٹر تھیں اور والد جنگلات کے محکمے میں تھے۔چارلی کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس پر نذر و نیاز کرتیں تھیں۔ چارلی اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ وہ خود محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر تھے۔ عبدالغفور چانڈیو جو ان کا ڈرائیور تھا۔ اْس سے ’مولا علی اور امام حسین‘ کی شہادت اور ان کی زندگی کے بارے میں سن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلہ میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔
عبدالغفور کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے بتایاکہ ایلی کاٹ نے ان کے والد عبدالغفور سے ماتمی جلوس نکالنے پر اصرار کرتے رہے اور جب حیدرآباد کے پکے قلعے میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار یکم محرم کو جب ذوالجناح کا جلوس نکالا جانے لگا تو اسی روز چارلی کی والدہ انتقال کر گئیں۔ لیکن اس عاشق حسین  ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہوگیا۔

ایلی کاٹ کی بیوی اسے چھوڑ کر دو بیٹیوں سمیت واپس انگلینڈ چلی گئی تا ایلی  کاٹ یعنی علی گوہر قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پرگیا اور وہاں اس نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔

یہ ایک الگ اور منفرد سی کہانی تھی ایک عاشق اہلبیت کی۔ اس محبت کے پودے کا بیج کہاں ہوتا ہے اور اسے کس وقت شجر سایہ دار بننا ہوتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

اگلی   قسط میں مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کرؤں گا اور برصغیر کر چند اہم شہروں کے ساتھ ساتھ لاہور کی عزاداری کا ذکر ہو گا جو دراصل اس تحریر کا محرک ہے

(یو این این)

****************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 614