donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz
Title :
   Muslim Seyasat o Qayadat Ki Apne Masayal Se Andekhi Kiyon


مسلم سیاست وقیادت کی اپنے مسائل سے ان دیکھی کیوں؟


عارف عزیز

(بھوپال)


    ۶۸ برس کی طویل مدت سے ہندوستان مسلم سیاست مسلمانوں کے مسائل کا علم اٹھائے مستقبل کی طرف رواں دواں ہے لیکن آج تک اسے منزل مقصود تک پہونچنے کی نوبت تو کیا آتی منزل کے سراغ کی حد تک بھی کامیابی نصیب نہیںہوسکی، چھ دہائیوں سے زیادہ مدت کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا اس وقفہ میں دنیا نے کتنے ہی انقلابات دیکھ لئے انسان نے خلاء میں پرواز کرکے ستاروں کے جہاں تک رسائی حاصل کرلی ۔ قومیت کے رنگوں میں علاقائیت کی رنگ آمیزی سے ایک نیا مرکب تیار ہوگیا قوموں کی جارحیت، مذہب کی ناقدری اور تاریخ کی دیرینہ اقدار سے بغاوت کے رجحان کی مذمت اور مقابلہ کی روایتیں شکست وریخت کا شکار ہوگئیں، ہمسایہ ملک پاکستان کی مشرقی بازو کے بنگلہ دیش بننے سے قومی سا  لمیت کی نفی کردی گئی، امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کے مقابلہ میں عملی طور پردنیا کی بے بسی کا اظہار ہوگیا، خودہندوستان میں حکمراں جماعت کانگریس کا فلک بوس محل منہدم ہوگیا، اپوزیشن کے بطن سے جنتا پارٹی وجود میں آئی اور وہ بھی کئی حصوں میںمنقسم ہوگئی اسی کے ایک حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھ سال تک مثبت سیکولرازم کو اپنایا مگر اس تجربہ میں مایوسی کا شکار ہوکر وہ پھر سے جن سنگھ کی جارحانہ قوم پرستی کی طرف واپس ہوگئی۔

    لیکن افسوس کہ مسلم اقلیت اور ا س کی سیاست وقیادت پر اس تمام عمل، زمانے کی گردش اور تبدیلیوں کی گھٹا  کاکوئی اثر نہیں ہوا اس کی ضرورتیں،اس کی مشکلات ، اس کے مطالبات اور اس کے سوچنے سمجھنے کے انداز اور تخمینوں میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا ہے حالانکہ اس کے ارد گرد کے حالات، چاروں طرف کی فضا اور ماحول میں زمین وآسمان کا اختلاف پیدا ہوگیا ہے، پس منظر تو دور، پیش منظر اور قریب ترین مناظر میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوگئیں لیکن اس عرصہ میں خود مسلمانوں کے حالات قطعی غیرمتاثر اور غیر متحرک رہے ہیں وہ ٹھیک اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں ۱۸۵۷ء میں یعنی سرسید کے عہد میں تھے، ایک تہذیب کا تحفظ جو ان کے ثقافتی تشخص کوبرقرار رکھ سکے، ایک یونیورسٹی جو ان کی تعلیمی کفالت کا بوجھ اٹھا سکے، ایک زبان جس کے ذریعہ وہ اپنی ذہانت وقابلیت کے جوہر دکھاسکیں ، سرکاری ملازمتیں ہوں جن میں تناسب کے اعتبار سے انہیں نمائندگی ملے، سیاست وانتظامیہ میں ان کا حصہ محفوظ کردیا جائے جس کوکوئی ہاتھ نہ لگائے اور اس میں وہ اپنے لائق افراد کوکھپاسکیں اور نصاب تعلیم میں اصلاح کی جائے تاکہ وہ اپنے مذہب و ثقافت کو برقرار رکھ سکیں اور ان کے پرسنل لا کو بھی تحفظ حاصل ہو۔

    اس طرح فوری حل طلب مسائل کی جو فہرست مسلمان گزشتہ ۶۸ برس سے اٹھائے پھر رہے ہیں ان میں ایسا کوئی پہلو نظر نہیں آتاجس کا سرسید اور ان کے رفقاء ڈیڑھ سو برس پہلے اظہار نہ کرچکے ہوں۔ 

    زبان وتعلیم کے بارے میں عرضداشت اور محضر مرحوم سرآغاخاں نے بھی ۲۰ ویں صدی کے آغاز میں پیش کیاتھا آج بھی مختلف تنظیمیں یہ کام نہایت اپنی صوابدید کے مطابق انجام دے رہی ہیں۔ اردو کے قاتل کبھی انگریزتھے، آج قومی حکومت بن گئی ہے، سرکاری نوکریوں سے محرومی کا شکوہ ایک زمانے میں وائسرائے سے کیا جاتا تھا آج صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ سے کیا جارہا ہے۔ تہذیب اور مذہب کی حفاظت کا مطالبہ کل بیرونی حکمرانوں کے سامنے پیش کیا جاتاتھا آج اس کی مخاطب قومی قیادت بن گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بدنصیب اقلیت گذشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکی البتہ حالات کے سردگرم کااثر اس کے چہرہ پر ضرور مرتب ہوکر اس کی جھریوں میں اضافہ کر گیا ہے ماضی کی خود اعتمادی آج کمزوری میں بدل گئی ہے۔

    بے عملی اور بے حسی کی یہ منزل نہایت خوفناک ہے اور پوری ملت کی تباہی کا خطرہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے مثال کے طور پر اردو زبان کی بقاء اور ترقی کا سوال آئے تو اس اقلیت کا حال دیکھنے کے قابل  ہوتا ہے وہ حکومت پر، اس کی نیت پر، فرقہ وارانہ تعصب پر اور امتیازی سلوک پر ایسے ایسے الزامات عائد کردیتی ہے کہ سننے والوں کواس کی ہوشمندی کا معترف ہونا پڑتا ہے لیکن اردو کی ترقی میں عملی جدوجہد کا مرحلہ آئے یا خود اپنی اولاد کو اردو سکھانے کی ذمہ داری سامنے آئے تو سارا جوش وخروش ٹھنڈا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ حکومت خود ہی اردو کو اہمیت دے، خودہی اس کی تعلیم کا نظم کرے، خود ہی اس کے لئے اسکول کھولے اور خود ہی ان اسکولوں کے لئے طلباء بھی فراہم کرے۔ اگر حکومت ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اردو خواہ مٹ جائے وہ زبانی تنقید کے بجائے ہاتھ پائوں ہلانے کے لئے ہرگز تیار نہ ہوگی۔

    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مذکورہ بے عملی، دورنگی اور تشکیک کے جتنے بھی اثرات آج مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں وہ موثر مسلم قیادت کے فقدان کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ فعال اور موثر ہوتی تو کم از کم ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ضرور کرتی جو مرکز سے لے کر ریاستی پیمانے تک بعض ممکنہ سہولتیں مہیا کرانے کے بارے میںکی جاچکی ہیں اور جن کو نافذ کرانے میں خود مسلمان اور ان کی تنظیموں کی بھلائی مضمر ہے۔

    مذکورہ تمام رپورٹوں، جائزوں اور فیصلوں کے بارے میں بحیثیت اقلیت  مسلمان حکمرانوں کو متوجہ کرسکتے ہیں ان پر اخلاقی دبائو بھی ڈال سکتے ہیں مگرایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری لسانی، مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے بھی موجودہ صورت حال کو من وعن قبول کرلیا ہے اور وہ اس سلسلہ میں کہنے سننے کی بھی زیادہ قائل نہیں رہیں۔ اس جمود کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا خوش کن اعلانات کے باوجود عمل کے نام پر ’’کچھ نہیں‘‘ کی تختی لگی رہے گی اس کے علاوہ مسلم اقلیت خود بھی اپنے مسائل کے لئے جب تک ہاتھ پیر نہیںہلائے گی اس کے شب وروز نہیں بدلیں گے ، پہلا کام خود مسلمانوں اور ان کی سیاست وقیادت کے دعویداروں کو کرنا ہوگا اس کے بعد حکومت وقت کی باری آئے گی۔٭٭

www.arifaziz.com
E-mail:arifazizbpl@rediffmail.com

*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 733