donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ejaz Ahmad Nadwi
Title :
   Yeh Andaze Sahafat Kaisa Hai

یہ انداز صحافت کیسا ہے

 

    اعجاز احمد ندوی


    موبائل : 9889407160
 


فرانس کی بدنام زمانہ میگزین چارلی ہیبدو کے ہیڈ کواٹر پر قاتلانہ حملے سے ایک بار دنیا میں یہ سوال پھر سے بڑی زور شور سے اٹھایا جارہا ہے کہ یہ حملہ در حقیقت اسلامی دہشت گردی کا عکاس ہے اور اظہار رائے کی آزادی کے خلاف اسلامی انتہا پسندی کی ایک مثال ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اس میگزین کو ہمدردی حاصل ہوگئی اور اس کے حق میں مظاہرے واحتجاج بھی ہوئے اور چند لمحوں ہی میں پوری دنیا میں چارلی میگزین کی شہرت عام ہوگئی اور پھر اس کے بعد مذہب اسلام پر کیچڑ اچھالنے کا ایک سیلاب آگیا اور دشمنانِ اسلام کا رخ اسلام کی طرف یک بیک پھر گیا۔

فرانس کی اس چارلی ہیبدو نامی میگزین کا تنازعات سے پرانا رشتہ ہے یہ ایک کارٹون میگزین ہے اور اس نے تمام مذہبی رہ نمائوں کامذاق اڑانا اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ یہ میگزین حالاں کہ ہر مذہب پر تنقید وتنقیص کا دعویٰ کرتی ہے لیکن آج تک اس نے صرف مذہب اسلام اور پیغمبر ؐاسلام کی ہی توہین کی ہے، یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اس نے نبیؐ آخر الزماں کی شان میں کوئی گستاخی کی ہو بلکہ جب ڈنمارک میں توہین رسالت کا سانحہ پیش آیا تھا اس کے بعد سے ہی اس میگزین نے متعدد بار ایسی نازیبا حرکتیں کی ہیں جس سے پیغمبر ؐاسلام کی ذات محترم براہِ راست نشانہ تضحیک بنتی ہے، چارلی ہیبدو نے سب سے پہلے ۲۰۰۷ئ؁ میں نبی کریم ؐ کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے، جس کے خلاف فرانس کی دو بڑی مسلم تنظیموں نے مقدمہ بھی قائم کیا تھا اس میگزین کی اسلام دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۱۱ئ؁ میں اس نے ایک خصوصی ضمیمہ ’’شریعہ ہیبدو‘‘کے نام سے شایع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ اہانت آمیز بات بھی کہی تھی کہ وہ پیغمبرؐ اسلام کو اس کا ایڈیٹرانچیف بنائے گی۔

درحقیقت اس طرح کی سرگرمیوں سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یورپ بالخصوص فرانس اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی تعداد سے خوفزدہ ہے اس لیے اسلام دشمن طاقتیں اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی مسلسل کوشش کررہی ہیں تاکہ فرانس اور پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ماحول بناکر قبول اسلام کرنے سے لوگوں کو روکا جاسکے۔ فرانس میں اسلام کے غلبہ اور ان کی برتری کا خوف ان ناقدین اسلام پر بری طرح چھایا ہوا ہے اور وہاں کے ارباب دانش وفکر اور اصحاب فلم وصحافت اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ہراساں ہیں۔ ان کے ذہنی دیوالیہ پن اور اندرونی خوف کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ اس خونی واردات والے دن چارلی ہیبدو میگزین نے اپنے سر ورق پر افسانہ نگار مائیکل والے باک کا کارٹون  شایع کیا گیا تھا جس میں دکھا گیا تھا کہ وہ سگریٹ پیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ۲۰۲۰ئ؁ میں رمضان کے روزے رکھے گا۔

اصل میں مائیکل والے باک نے حال ہی میں ایک ناول لکھا ہے جس میں اس نے اس بات کو خصوصی طور پر نمایاں کیا ہے اور وہاں موجود غیر مسلم آبادی کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی  ہے کہ اگر اسی طرح لو گ اسلام قبول کرتے رہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو ۲۰۲۰ئ؁ تک سارے فرانس پر مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوجائے گا اور زمام اقتدار ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی جس کی بدولت وہ سارے فرانس کو زبردستی اسلام کو قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔

یورپ کی اسلام دشمنی اور اس طرح کا اہانت آمیز رویہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی بھی موقع وہ اپنے ہاتھ سے نہیں گنواتا۔ ڈنمارک کے بد طینت صحافی نے جب رسولؐرحمت عالم کے کارٹون شایع کیے تھے اور رد عمل کے طور پر پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس بدبختانہ گستاخی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی اور دنیا نے یہ بھی دیکھا تھا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن کسی بھی حالت میں پیغمبر ؐانسانیت کی شان میں ذرہ برابر گستاخی اور بے ادبی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔بجائے اس کے صحافتی دنیا اور قلم کار نیز فلم میکر اس احتجاج سے سبق حاصل کرتے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کے بجائے جسے وہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر انجام دے رہے ہیں۔ دیگر ملکی ، سیاسی، معاشی معاملات کی جانب لوگوں کو متوجہ کرتے اور افغانستان ، فلسطین، شام میں جاری جارحانہ کاروائیوں سے دنیا کو باخبر کرتے۔ انہوںنے مزید اسی روش غلط کو اپنائے رکھا اور یہ سب کام آزادی رائے کے نام پر ہوتا رہا ہے لگاتا ر اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی توہین کی جاتی رہی ہے۔

چارلی ہیبدو پر حملہ شان رسالت مآب ؐ کی گستاخی کی انتقامی کاروائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور پوری دنیا کو عالمی میڈیا کے ذریعہ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کو اسلامی دہشت گردی سے سخت خطرہ ہے اس لیے ہم سب کو متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، اسی بہانے وہ سماج میں مذہبی منافرت اور اسلام سے لوگوں میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور تمام مذاہب کے پیروکاروں میں اندیشہ ڈال رہے ہیں کہ اگر اسی طرح اسلامی دہشت گردی جاری رہی تو وہ دن دور نہیںجب پوری دنیا سے سارے مذاہب کا خاتمہ ہوجائے گا اور اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے گی۔

چارلی ہیبدو اور اس طرح کے دیگر ادارے جس طرح سے صرف اسلام کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور اسلام کے خلاف عالمی رائے ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کے پس پردہ بھی وہی صیہونی ذہنیت کارفرما ہے جس نے اسرائیلی تحفظ کے لیے تمام مسلم ممالک میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اس واقعہ کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہودی لابی کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے ، جب کہ فرانس کے دیگر اخباروں نے اسے امریکی سازش قرار دیا ہے اگر اس واقعہ کی واقعی اور غیر جانب دارانہ تحقیق کی جائے تو یقینا اس میں بھی انہیں عناصر کا ہاتھ نکلے گا جو پوری دنیا کے امن وشانتی کے دشمن اور اپنے تحفظ کے لیے ہر طرح کی خبیث سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جنہیں ڈر ہے اسلام کی نشر واشاعت سے ،جنہیں خوف ہے اسلامی نظام حیات کے غلبہ کا اورجنہیں اندیشہ ہے اپنے وجود کا۔

پیرس کے واقعہ کو براہِ راست اسلامی دہشت گردی سے جوڑ کر دکھایا گیا اور پورا عالمی میڈیا ایک زبان ہوکر چیخ اٹھا کہ یہ صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے، یہ مذہب کے نام پر دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ہے، یہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کا نمونہ ہے، اشتعال انگیزی اور جھوٹ وفریب کا ایک ہوا کھڑا کردیا گیا اور پوری دنیا چارلی کی لے میں سرتال بجانے لگی، اور سب کی تان اسلام دشمنی پرہی ٹوٹتی نظر آئی۔

عجیب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ چارلی ہیبدونے اس واقعہ سے عالمی ہمدردی حاصل کرلی جس سے اس کی اشاعت پر بھی خاطر خواہ اثر پڑا اس کے علاوہ اس نے آزادیٔ رائے کے نام پر خوب شور مچایا اور میڈیا کے جذبات بھی اس کے ساتھ ہوتے گئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا صرف اسلام کی توہین کرنا اور اس کی تعلیمات کو مسخ کرکے بدنام کرنا ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، کیا یہی صحافت کا مشن ہے، یورپ میں عیسائیت کے خلاف لب کشائی تو جرم سمجھی جاتی ہے لیکن اسلام کی اور رسولؐ اسلام کی بے عزتی، توہین وتضحیک کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔

اس سانحہ کے بعد یہ سوال بھی شدت سے حل کا منتظر ہے کہ کیا اظہار رائے کے نام پر آپ کسی کی توہین، عصمت دری اور بدنامی کرسکتے ہیں اور آپ کو اس کا حق ہے، تو اگر آپ کسی کے خلاف اظہار رائے کا حق رکھتے ہیں تو دوسرا بھی کسی طرح کے اظہار کا حق رکھتا ہے اور اس کے لیے آپ کو تیار بھی رہنا چاہیے۔یہ الگ بات ہے کہ پیرس کی یہ کارروائی خود ساختہ سازش کا ایک ڈرامہ ہے۔

اس پورے واقعہ کے بعدشرپسند اور زرخرید میڈیا نے تو وہی ٹیپ بجایا ہے جو ان کے آقائوں کی منشا تھی لیکن باشعور اور غیر جانب دار دانشوروں نے چارلی ہیبدو کی اس حرکت کی سخت مزمت کی ہے اور انہوں نے کسی خاص مذہب کے پیشوا کی توہین کو غیر ذمہ دارانہ عمل قرار دیا ہے۔ اس طرح کی اظہار رائے کو صحافت کی آزادی کے استعمال کو غلط اور نامناسب بتایا ہے جس سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔پیرس کی واردات کے تناظر میں فرانس کے پوپ کا یہ بیان حقیقت کے قریب اور اہمیت کا حامل ہے کہ اگر کوئی میری ماں پہ انگلی اٹھاتا ہے تو اسے میرا گھونسہ کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اب یہ موضوع بھی زیر بحث آگیا ہے کہ صحافت کو آزادیٔ اظہار رائے کا حق کس نے دیا ہے اور کتنا دیا ہے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ صحافت کی سماج میں بہت ہی اہمیت ووقعت ہے، اور اس نے معاشرے اور حکومتوں کی اصلاح اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے کا فریضہ انجام دیا ہے، آج کی تعلیمی، معاشی ترقی میں اور جرائم وبدعنوانی کے خاتمہ میں بھی اسکا کلیدی کردار رہا ہے، لیکن یہی میڈیا اگر اپنی تمام توانائی کسی کو بدنام ، بدچلن ثابت کرنے میں صرف کرنے لگے اپنے فرض منصبی کو بھول کر کسی کے ذاتی معاملات میں دل چسپی لینے لگے اور مذہبی عقیدتوں کو نشانۂ ملامت بنانے کا کاروبار کرنے لگے تو اس پر سوال اٹھانا لازمی ہوجاتا ہے کہ تنقید وتنقیص اور کسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کا حق کس نے دے دیا اور کس قانون نے صحافت کے اس طرز کو روا رکھا ہے، کس باشعور سماج نے اسے مذہبی اعمال کی تضحیک کی اجازت دی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ اب عالمی دانش ور باہمی غورفکر کے بعد میڈیا کے لیے بھی ایک ڈیڈ لائن بنائیںاور اس کے اختیارات کا منشور تیار کریںجس طرح ہتک عزت کا قانون موجود ہے اور اس کے علاوہ ہتک عدالت اور جج اور قانون کی توہین کا قانون ہے، حتیٰ کہ ملک کے قومی نشانات اور علامات کی توہین کا قانون ہے۔ اسی طرح میڈیا کی بدزبانی اور مذاہب پر اس کے تنقیدی حملوں کے خلاف بھی ایسی ہی عالمی گائڈ لائن تیار کی جائے تاکہ شرپسند عناصر امن وامان کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کرسکیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کا دروازہ یہیںبند ہوجائے ورنہ اس کے پس پردہ صہیونیت کی اسلام دشمنی اور اسلام کے نام پر قتل وغارت گری کی یہ خوف ناک سازش اسی طرح کے گل کھلاتی رہے گی اور اس کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پر پھوڑا جاتا رہے گا۔

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 533