donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : F I Faizi
Title :
   Jurm Ki Naviyat Aik Magar Saza Alag Kiyon

جرم کی نوعیت ایک مگر سزا الگ کیوں؟


ایف آئی فیضی


 ممبئی میں مارچ 1993 میں یکے بعد دیگرے 12 دھماکوں میں257افراد ہلاک ہوئے تھے اور 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے 1993 ممبئی بم دھماکوں میں مجرم یعقوب میمن کی کیوریٹوپٹیشن کو خارج کرتے ہوئے سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔21 مارچ 2013 کو ٹاڈا کورٹ نے میمن کو دھماکوں کا مجرم پاتے ہوئے پھانسی کی سزا دی تھی۔یاد رہے کہ میمن کے علاوہ تمام 10 مجرموں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔یعقوب میمن کو 30 جولائی کو پھانسی دی جانی ہے۔جو اس کا یوم پیداش بھی ہے۔

پچھلے برس عام انتخابات سے پہلے یہ بحث چل رہی تھی کہ سنہ 1984 میں دو دن کے اندر چار ہزار سکھوں کے قتلِ عام کے لیے راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہیے یا نہیں۔ یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران راہل گاندھی سے دہلی کے قتلِ عام کے بارے میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی ذمے داروں کے بارے میں پو چھا گیا۔ راہل گاندھی نے جواب دیا کہ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔اس سے پہلے گجرات کے وزیرِاعلی نریندرمودی سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ گجرات کے سنہ 2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے مسلمانوں سے معافی مانگیں۔یعنی خود ہی قاتل بھی اور خود ہی منصف بھی؟

ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کے خلاف عموما کوئی کارروائی نہیں کیا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد سنہ 1992 -93 میں ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔

سال 1993 کے ممبئی بم دھماکے کیس میں مجرم ٹھہرائے گئے اور موت کی سزا پائے یعقوب مینن کو 30 جولائی کو پھانسی دی جا سکتی ہے۔ٹاڈا کورٹ نے اس کے خلاف موت وارنٹ جاری کر دیا ہے۔ ذرائع سے ملی معلومات کے مطابق، یعقوب کو اس ماہ کی 30 تاریخ کو صبح 7 بجے ناگپور سینٹرل جیل میں پھانسی دی جا سکتی ہے۔ اگر یعقوب کو پھانسی ہوئی تو اس کیس میں یہ پہلی پھانسی ہوگی ۔ ٹاڈا کورٹ نے 27 جولائی 2007 کو یعقوب کو مجرمانہ سازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی ۔ اس کے بعد اس نے بامبے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور صدر تک کے پاس اپیل کی، لیکن اس کی اپیل مسترد کر دی گئی ۔ اب اس کے پاس کیوریٹو درخواست واحد راستہ ہے، جس پر پھانسی سے پہلے سماعت ہو سکتی ہے.

 مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے پھانسی کی تاریخ اور وقت کو پہلے ہی منظوری دے دی ہے۔کورٹ اور ناگپور انتظامیہ کو بھی اس کی معلومات دے دی گئی ہے۔یعقوب کے خاندان کو بھی اس بارے میں بتا دیا گیا ہے.

یعقوب میمن کے معاملے میں آگے کیا ہو سکتا ہے؟

٭    یعقوب بہت دنوں سے جیل میں بند ہیں تو وہ ذہنی طور پر صحت مند نہ ہونے کی بات کہہ سکتے ہیں۔لیکن اس کے لئے طبی ثبوت کی ضرورت ہوگی۔

٭    جو دماغی طور پر صحت نہ ہو اسے موت کی سزا دینا صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ہندوستان کے سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ جس انسان کا دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اسے موت کی سزا دینا ظلم ہے۔

٭    سپریم کورٹ نے اس بارے میں ہدایات طے کئے ہیں۔جیسے جسے موت کی سزا دی جا رہی ہو اس کے رشتہ داروں کو کم سے کم 10 دن پہلے خبر مل جانی چاہئے تاکہ وہ آکر مل سکیں۔

٭    یہ بھی انتظام ہونا چاہئے کہ سزا پانے والے شخص کے رشتہ دار اس شخص کا جنازہ میں شامل ہو سکے۔    

٭    اگر سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ملزم کے خلاف ہو تو گورنر یا صدر سے سزائے موت معاف کرنے کی عرضی دی جا سکتی ہے اور جب تک اس عرضی پر فیصلہ نہ آ جائے مجرم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

٭    ملک کا صدر موت کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ساتھ ہی جس ریاست کی عدالت نے موت کی سزا دی ہے وہاں کے گورنر کے پاس بھی معافی دینے کا قانونی حق ہے۔
    
ہندوستان میں 2006 سے 2008 تک بم دھماکوں کی چھ واقعات میں 120 سے زیادہ افراد ہلاک اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ابتدائی تفتیش میں ان بم دھماکوں میں راشٹر یہ سو ئم سنگھ (آر ایس ایس) سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر منسلک لوگوں کے نام سامنے آئے تھے۔یہ واقعات ’بھگوا دہشت گردی یا ہندو شدت پسندی‘کے نام سے مشہور ہیں۔

 18 فروری 2007 کو دہلی سے اٹاری جا رہی سمجھوتہ ایکسپریس میں ہریانہ کے پانی پت کے قریب ہوئے دھماکے میں 68 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ہریانہ پولیس اور مہاراشٹر کے اے ٹی ایس نے اپنی تفتیش میں ایک ہندو بنیاد پرست تنظیم ’ابھینوبھارت‘کی طرف اشارہ کیا تھا۔ابھینوبھارت کے خالق مبینہ طور پر فوج کے ایک افسر کرنل شری کانت پروہت تھے۔

مالیگاوں میں آٹھ ستمبر 2006 کو چار دھماکے ہوئے تھے۔. ان میں سے تین دھماکے حمیدہ مسجد میں ہوئے تھے۔ان حملوں میں 31 لوگ مارے گئے تھے اور 312 لوگ زخمی ہوئے تھے۔مہاراشٹر اینٹی ٹیرر سکواڈ (اے ٹی ایس) نے حملوں کے سلسلے میں نو مسلمان نوجوانوں کو پکڑا تھا اور چار کو مفرور قرار دیا تھا ۔ اے ٹی ایس نے 13 کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔اس کے بعد جولائی 2007 میں سی بی آئی کو یہ معاملہ حوالے کر دیا گیا تھا،سی بی آئی نے 11 فروری، 2010 کو انہی ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔این آئی اے نے 12 دوسرے لوگوں کو اس معاملے میں ملزم بنایا جو کہ سوامی اسیمانند یا ی سنگھ سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر جڑے ہوئے تھے۔2012 سے 2013 کے درمیان این آئی اے نے چار لوگوں منوہر نروارا، لکشمن داس مہاراج، رام لکھن داس مہاراج اور کالو پنڈت کو گرفتار کیا تھا۔لیکن باقی بچے ہوئے ملزم ابھی تک فرار ہے اور این آئی اے کی جانب سے اہم ملزم بنائے گئے سنیل جوشی کا2007 میں قتل ہو چکاہے۔این آئی اے کو اس قتل کا معاملہ یہ سوچ کر سونپا گیا کہ ان کے قتل کے پیچھے انہی لوگوں کا ہاتھ ہے جو بم دھماکے میں ملوث رہے ہیں۔لیکن این آئی اے سے لے کر حال ہی میں یہ معاملہ مدھیہ پردیش پولیس کو سونپ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ گرفتار کئے گئے چار ملزمان پر اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 495