donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghazanfar Jawaid
Title :
   Qareena Se Guzarne Ka Tasawwur Agar


زندگی صرف کھیل و ادادکاری کا نام نہیں


قرینہ سے گزارنے کا تصور اگر

 

غضنفر جاوید اورنگ آباد

 


    آزادی کے بعد مسلمانوں و پا رلیمانی الیکشن کے بعد کر سچنوں کے تحفظ کی ابتر صو رتحال ہر دو کے اپنے پسندیدہ کھیل فٹبال کی سی بری درگت بننا ایک معنوں میں یو پی اے حکومت کے بجائے این ڈی اے حکومت کے بر سر اقتدار آنے کی وجہ سے اسے سیاسی زکا م کا نام بھی دیا جا  سکتا ہے۔ بات چل رہی تھی فٹبال کی تب اس کے ماہرین فٹ بال کھلا ڑیوں کو اردو لفظ  ’’د ‘‘ سے شروع ہونے والے چار الفا ظ  دل ‘ دماغ‘ دم ‘ دوڑ ‘ کے بر وقت استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ ہمارے دیش کے مخلص سیا ستداں شاید اسی فا رمولہ پر عمل آوری کے ذریعہ اپنے بے حس (دل) ‘شاطر (دماغ) ‘ غیر ہندو طبقوں پر ہند توا مسلط کرنے کا (دم) ‘ اور فرقہ پرستی کی دیوانہ وار (دوڑ)کی معرفت جس قسم کی سر گرمیاں انجام دینے میں وہ مبتلا ہیں اس کا واضح ٹریلر ناگپور میں منعقدہ آر ایس ایس کی نمائندہ پرتیندھی سبھا نے حال ہی میں اپنی میٹنگ کے اختتام کے بعد پریس کا نفرنس میںدکھلا یا  ہے۔ ذکر چل رہا تھا فٹ بال کے اس گیم میں کرکٹ کی طرح‘گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر میچ فکسنگ کی قطعی صلاحیت نہ ہونے نیز ابھی بھی یہ گیم صنف نازک کی لاتوں سے محفوظ و بچا ہواہونا کم از کم فٹ بال پریمیوں کے لئے یہ بات اطمینان کا باعث ہو سکتی ہے۔

    کرکٹ اور میچ فکسنگ کے معاملے کے ضمن میں ہمارا یہنقطہ نظرہے کہ ایک زمانہ میں کرکٹ صرف شرفاء و با کردار افراد کا پسندیدہ گیم تھا ۔ یہ تو زمانہ کے تغیرات اور ترقی کا طفیل ہے کہ اسے بھی زمانہ کی ہوا لگنے کی وجہ سے اسے سردی زکام کی طرحکرپشن کا چسکہ سا لاحق ہو گیا ہو ۔ چند دن قبل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم  شیخ حسینہ نے اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کی شکست و ہندوستانی ٹیم کی فتح کے لئے پا کستانی پنچوں کی سازش کو اس کا سبب بتلایا تھا ۔ اگر مو صوفہ اس امر کا الزام دس بارہ دن کا وقفہ گزرنے کے بعد کرتیں تب ہمیں اپریل فول بننے میں شرمندگی کی بجائے لطف سا آتا ۔ ہمارے دعوے کے بموجب جس زمانہ میں کرکٹ شرفا ء کا کھیل تھا اسی زمانہ میں منصور علی خاں عرف نواب آف پٹودی نے اپنی اعلی تعلیم کے حصول کے دوران برٹ فورڈ شائر سے کیا تھا جہاں انھیں اپنے زمانہ کے بین الاقوامی کوچ فرینک وولی نے کرکٹ کے ابتدائی گر سے انہیں واقف کر وایا ۔بعد میں پٹودی نے آکسفورڈ یو نیورسٹی کے پہلے ہندوستانی کپتان کی حیثیت سے اس ٹیم کی قیادت کی تھی۔ نواب آف پٹودی نے ہندوستانی ٹیم کے کپتان اور مینیجر کی حیثیت سے اپنا اور کر کٹ کا نام روشن کیا ۔ ایک حادثہ میں ان کی سیدھی آنکھ ضائع ہو گئی تھی بعد میںمصنوعی آنکھ بٹھائی گئی تھی ۔شاید اس مصنوعی آنکھ کی ستم ظریفی تھی کہ وہ آنکھ شرمیلا ٹیگور سے ٹکرانے کے نتیجے میں وہ بیگم عائشہ سلطان بن کر ان کی زندگی میں آئیں۔ شرمیلا ٹیگور کا تعلق ممتاز شاعر رابندر ناتھ ٹیگور گھرانہ سے تھا۔

    شرمیلا ٹیگور نے بھی فلم کی کہانی کے تقاضوں کے تحت بغیر شرمائے جھجکے فلموں میں جو اداکاری کا مظاہرہ کیا اس کی بدولت انھیں با لی ووڈ کی بو لڈ اداکارہ کے خطاب سے نوازا گیا ۔ روایت ہے کہ پہلوان جب بو ڑھا ہو جائے تب اسے احتراماً استاد اور حجام کے بو ڑھے ہونے پر اسے خلیفہ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس حساب سے شرمیلا ٹیگور کو سائیڈ ہیروئین یا کیر کٹر ایکٹر میں اداکاری کی زحمت سے نجات ایک معنوں میں وہ فلم سنسر بورڈکی صدر نشین کے عہدہ پر فائز کردی گئیں۔ انہی کے صاحبزادہ سیف علی خان کو اپنے والد کی روایت کا پاس رکھتے ہوئے کرکٹ کے میدان میں نئے جھنڈے گاڑنا چا ہئے تھا۔ لیکن انھوں نے اپنی ماں کا پلو تھا منے کے طفیل انھوں نے فلموں میں اداکاری و ہدایت کاری کے ذریعہ اپنی شناخت بنائی ۔ ان کی پہلی شادی امریتا سنگھ سے ہونے کے بعد باہم رضامندی سے ہر دو میں طلاق واقع ہو گئی ۔ اوردوسری بیوی کی حیثیت سے راج کپور کی پوتی کرینہ کپور ان کی زندگی میں وارد ہوئیں۔ شرمیلا ٹیگور نے بڑے چاؤ سے اپنی بہو کو گلے لگایا ۔ فلم انڈسٹری کی جا نی مانی شخصیتوں نے شادی کے استقبالیہ میں شرکت کے ذریعہ نئے جوڑے کو خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے نیک خوہشات کا اظہاربھی کیا۔
    پا رلیمانی الیکشن کے بعد اتر پردیش کے اسمبلی ضمنی انتخابات کے دوران لو جہاد کے پرو پیگنڈہ کی بی جے پی کو کیا قیمت چکانی پڑی اس کا بی جے پی کو نتائج کے بعد اندازہ ہوا۔ مگر آر ایس ایس نے اس موضوع کو اچھال کر اپنے ترجمان پنچ جنیہ کے ٹائٹل پیج پر کرینہ کپور کی تصویر شائع کر کے اسے لو جہاد کا تاثر دینے کی جو کوشش کی اس کے رد عمل میں سیف علی خان کو یہ صفائی پیش کرنا پڑی کہ ان کی یہ شادی لو جہاد کا نتیجہ نہیں اور کرینہ کپور حسب سابق اپنے سابق دھرم سے ہی وابستہ ہیں ۔ شایدلو جہاد کی پرو ڈکشن منیجر وشو ہندو پریشد کے لئے یہ اس کا بونس ہی تھا کہ سیف علی خان کی ہمشیرہ سوہا علی خان کے بوائے فرینڈکنال کھیمو کے ساتھ اس کے مذہبی رسوم و عقائدکے بموجب ان کی شادی انجام دینا پڑی ہو ۔

      ہم اس بات کی تشریح ضروری سمجھتے ہیں کہ شرمیلا ٹیگور کے خسر نواب افتخار علی خان پٹودی کے آٹھویں نواب ہونے کیعلاوہ وہ  نواب آف بھو پال کے داماد بھی تھے۔ ان کی اہلیہ نواب آف بھو پال کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے پٹودی ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ  بھوپال کے بھی نواب تسلیم کئے گئے۔ 1952ء میں پو لو کھیلنے کے دوران زخمی ہونے پر ان کی کی موت واقع ہو گئی تھی ۔ ان کے انتقال کے بعد منصور علی خاں نے بیک وقت پٹودی اور بھوپال کے نواب کی ذمہ داریوںکا جائزہ حاصل کیا ۔ 1971 ء میں مرکزی حکومت کے قانون کیتحت ملک کے سابق راجاؤں نوابوں کے اعزازات و وظائف سلب کر لیے جانے کا اثر پٹودی و بھو پال کے نواب کی حیثیت سے نواب منصور علی خان کو بھی بھگتنا پڑا۔ اعزازات سلب کر نے کے ساٹھ سال بعد 2011ء میں پٹودی ریاست کے باون گاؤں کے سر پنچوں نے سیف علی خان سے اظہار یگانگت کے نام پر ایک پرو گرام کا انعقاد کرتے ہوئے اعزاز و تعظیم کی علامت کے طور پر انھیں سفید پگڑیاں باندھی تھیں۔ اس تقریب میں ہریانہ کے سابق وزیر اعلی بھو پندر سنگھ ہڈا نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ سابق ریاست بھو پال کے رجسٹرڈچیریٹیبل ادارے ‘ مساجد اور دیگر اداروں کی اندازاً قیمت بیس ہزار کروڑ سے زائد ہے ۔ ان اداروں کی تو لیت کی ذمہ داریاں سیف علی خان کی چھو ٹی بہن صبا علی خان انجام دیتی ہیں۔ مکہ و مدینہ میں حاجیوں کے قیام کے لئے ریاست بھو پال کی جانب سے رباط تعمیر کئے گئے تھے۔ سیف علی خان کی زیر نگرانی ٹرسٹ کی جانب سے عازمین حج کو ان رباط میں قیام کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ بھوپال میں دس ایکڑ پر محیط ہوٹل پٹودی پیلیس میں اکثر و بیشتر ہندی و انگریزی فلموں کی شو ٹنگ کی جاتی تھی ۔ سیف علی خان نے اس ہوٹل کو بند کرکے اسے اپنے بزرگوں کی یا دگار کے طور پر اسے ڈیولپ کرنے کا انہوں نے منصوبہ بنایا ہے ۔          

    نواب آف پٹودی شرمیلا ٹیگور و ان کے صاحبزادہ سیف علی خان کے تعلق سے یہ عام تاثر ہو سکتا ہے کہ یہ اجڑے ہوئے نواب گھرانے کے بگڑے ہوئے افراد ہیں جو وقت اور حالات کی مجبوری کے تحت کرکٹ اور فلموں کے ذریعہ اپنی گزر بسر کرنے پر مجبور ہوں۔ صرف بھو پال میں ان کے زیر نگرانی اداروں کی مالیت جب بیس ہزار کروڑ روپیوں سے زیادہ ہے ۔ اسکے سوا بھو پال کے قلب شہر میں دس ایکڑ اراضی پر ہو ٹل پٹودی پیلیس کے سوا نواب آف بھو پال کے وارث کی حیثیت سے وہ جس جائیداد کے مالک ہیں اس کے سوا ان کی آبائی ریاست پٹودی میں ان کی آبائی جائیدادوں کا تخمینہ لگانے پر ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کم از کم پچاس ہزار کروڑ کے قریب جانے کے امکان کے  تحت اگر یہ خاندان گوارہ کرے تب ان کے لئے فلموں سے کنارہ کشی آحتیار کرتے ہوئے با وقار زندگی گزارنا اتنا دشوار نہیں ۔ بے شک ایک فنکار کی حیثیت سے انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ اپنی صلاحیتوں سے ایمانداری سے نبھایا اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ پٹودی اور بھو پال کی عوام کی ان سے جو توقعات ہیں اور سابق والئی ریاست کی حیثیت سے ان کی جو ذمہ داریاںو فرائض ہیںاس سمت بھی اگر یہ نواب اور بیگم توجہ کریں ۔تب اس کی تکمیل پر انہیں جو حقیقی مسرت و سکون ہی نہیں ضمیر کی آواز کی فطری عکاسی کا پرتو کہلانے کا انہیں جو موقع نصیب ہوگا وہ مصنوعی اداکاری کے ذریعہ عوام کو تفریح پہنچانے سے زیادہ پر اثر اور حقیقی ثابت ہوگا۔صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔ ہم آخر میں سابق ریاست کے ایک با عزت شہزادہ کا بھی حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی زندگی میں بھی ایک پری چہرہ فلمی اداکارہ داخل ہونے پر ان کے والد نے اس سے شادی کی اجازت نہ دے کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اپنے خاندان کی داغ دار نسل پیدا کرنا انھیں کسی قیمت پر گوارہ نہیں ۔اسی کو قرینہ کی زندگی گزارنے کی حکمت عملی کہہ سکتے ہیں!

(یو این این)


9325144847

******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 585