donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Aye Meri Khake Watan Tera Saga Beta Hoon Main

اے مری خاکِ وطن تیرا سگا بیٹا ہوں میں


حفیظ نعمانی

 

کئی دن پہلے مسٹر ارون شوری (جو کبھی شری اٹل بہاری باجپئی کے خاص رفیقوں میں سے ایک ہوا کرتے تھے) نے کہا تھا کہ مودی صاحب کے طرز حکومت کی ناکامی کی حد یہ ہے کہ کچھ لوگ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یاد کرنے لگے ہیں۔ بیشک یہ ان کا خیال تھا جسے زبان حلق نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن پنڈت جواہر لال نہرو کی 125  ویں سالگرہ کے موقع پر بولتے ہوئے سردار جی نے جو لہجہ اختیار کیا یا جیسی بزرگی کا انداز اپنایا اس سے اندازہ ہوگیا کہ وہ اب اپنی ناکام قیادت کے گھیرے سے نکلنے کی جدوجہد شروع کرنے والے ہیں۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کا یہ کہنا کہ ملک اینٹ اور گارے سے نہیں بنتا بلکہ اقدار اور روایات سے بنتا ہے۔ عدم تشدد، رحم، انصاف، آزادی، وقار، بھائی چارہ اور تنوع ہماری خصوصیات ہیں۔ ان میں کسی طرح کی بھی کمی ملک کو کمزور کردے گی۔ یا ان کا یہ یاد دلانا کہ پنڈت نہرو نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ آر ایس ایس اسی طرح آگے بڑھ رہی ہے جیسے جرمنی میں نازیوں نے اپنے پیر پسارے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے پنڈت نہرو کے یہ الفاظ بھی یاد دلائے کہ ’ہم نے آئین میں سیکولر لفظ تو شامل کردیا لیکن اس کے معنی عملی طور پر کیا ہیں یہ آنے والی نسلوں کو نہیں بتایا۔‘

اب 62  سال کے بعد اندازہ ہورہا ہے کہ ملک کے بڑوں نے وہی غلطی کی جو ہندوستان میں آنے والے اور یہیں کسی کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کرلینے کے بعد بس جانے والے مسلمانوں نے کی تھی کہ اپنی شریک زندگی کو کلمہ نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کی موٹی موٹی باتیں تو بتادیں مگر انہیں اسلامی معاشرہ میںرہنا نہیں سکھایا۔ یہی وجہ ہے آج اچھے اچھے دیندار خاندانوں میں جانے کتنی رسمیں وہ موجود ہیں جن کا اسلامی معاشرہ میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

پنڈت نہرو نے ٹھیک کہا تھا کہ ہم نے سیکولر بن کر دکھایا نہیں کہ اسے اپنانے کے بعد کیسی کیسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ یہ شاید پنڈت نہرو کا اپنی آخری عمر میں پچھتاوا میں سے ایک تھا آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ ہر وہ عبادت گاہ جو آزادی کے وقت جس کی تھی اور اس میں جس طرح عبادت ہوتی تھی اس میںکوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ نہرو نے بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد خون خرابہ کے ڈر سے اس پر عمر بھر خاموشی اختیار کئے رہنے سے ہی ثابت کردیا کہ سیکولرزم کا خون کرنے والوں میں پہلا خنجر اُن کا ہی تھا اور دوسرا اُن کے انتہائی پیارے دوست اور ساتھی کیلاشی ناتھ کاٹجو کا تھا جنہوں نے وہ بات کہہ دی جو اُن کے بعد ہر ریاست کے وزیر اعلیٰ نے دانت سے پکڑلی اور جہاں بھی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی وہاں کے وزیر اعلیٰ نے کہہ دیا کہ ابتدا مسلمانوں نے کی تھی اور کسی بڑے نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ ہندوستان میں جو مسلمان رہ گئے ہیں وہ ہندوئوں کی اتنی بڑی تعداد پر حملہ کرنے میں پہل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیںسکتے۔

اب یہ سیکولرزم کے کریاکرم کی ابتدا ہے کہ موہن بھاگوت جو حکومت کے حقیقی سربراہ ہیں انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہم سیکولرزم کو نہیں مانتے اور مودی صاحب عدم رواداری یا عدم تحمل اظہار رائے مذہب اعتقادات اور خیالات پر حملوں کو ایسی غلط بات نہیں سمجھتے کہ ان کے لگام لگائیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک ہی بات کو ملک کے بہت بڑے دانشور، ادیب، فنکار اور عالم ہندو یا سکھ کہیں  تو ان کو کانگریس یا بایاں بازو سے وابستہ سمجھا جائے اور اتفاق سے کوئی مسلمان وہی بات کہہ دے تو اس کے رشتے پاکستان اور حافظ سعید یا دائود ابراہیم سے جوڑدیئے جائیں۔

بالی ووڈ میں اتفاق سے تین خان ہیں جو اپنی ذہانت، صلاحیت اور محنت کی وجہ سے سب سے اوپر آگئے ہیں۔ ان کے نام شاہ رُخ خاں، عامر خاں اور سلمان خاں ہیں۔ شاہ رُخ خاں کی بیوی بھی ہندو ہیں اور عامر کی بھی۔ سلمان خاں کی ماں، بھابھی بہنوئی کوئی ایسا نہیں جو ہندو مسلم اتحاد کا نمونہ نہ ہوں۔ وہ جس دنیا میں ہیں وہاں کسی مسلمان کا مسلمان بنے رہنا سزا کے لئے تو ہے، انعام کے لئے نہیں ہے۔ شاہ رُخ خاں نے بھی اپنے کو شاید ملک کے ان لوگوں میں سمجھ لیا جو جسے چاہے کچھ بھی کہہ دیں کوئی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن شاہ رُخ کے دبی دبی آواز میںاظہار رائے پر چند گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ گورکھ پور کے آدتیہ ناتھ نے ان کے سرُ حافظ سعید سے ملا دیئے۔ ایک وزیر نے کہہ دیا کہ کھائیں ہندوستان کا اور گائیں پاکستان کی۔ ایک نے کہہ دیا کہ انہیں پاکستان چلا جانا چاہئے اور آدتیہ ناتھ نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہندو اُن کی فلموں کا بائیکاٹ کردیں تو وہ سڑک کے مسلمان ہوجائیں گے۔

یہ بات وہ نہیں ہے جو مودی کے آنے کے بعد شروع ہوئی ہے۔ 1967 ء میں ہمارے خلاف جو مقدمات کی جھڑی لگادی گئی تھی ان میں ایک مقدمہ اس جرم میںتھا جس کی تفصیل آج بھی ایک نمونہ ہے۔ اسی زمانہ میں مسز سبھدرا جوشی ایک ہفتہ وار رسالہ ’لنک‘ (LINK)   نکالتی تھیں۔ اس میں ان کے ہی قلم کا لکھا ہوا مضمون تھا۔ جسے ہم نے اپنے اس زمانہ میں اخبار میں ترجمہ کرکے نقل کردیا اور نیچے لکھ دیا۔ ’’بشکریہ لنک‘‘ جب عدالت میں پہونچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ سبھدرا جوشی کے مضمون پر ہے۔ ہم نے اس کا ہندی رسم الخط میں ترجمہ کرکے لگا دیا۔ معلوم ہوا کہ عدالت کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہے تو وہ انگریزی میں چھپا ہوا رسالہ ہی شامل کردیا۔

جب بحث ہونے لگی تو ہم نے جج صاحب سے معلوم کیا کہ کیا قانون کی کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ حکومت کے کسی فیصلہ یا کسی پالیسی پر کس کس زبان میں تنقید جرم نہیں ہے اور وہی تنقید اردو میں چھاپ دی جائے تو وہ جرم ہوجاتی ہے؟ بات صرف یہ ہے کہ ہندوستان ہندوئوں کا ملک ہے وہ اپنے گھریلو معاملات میں جو چاہیں مشورہ دیں اور جس پر چاہے تنقید کریں مسلمانوں کو وہی باتیں اردو میں کہنے کا حق نہیں ہے۔ اور دستور میں کیا لکھا ہے اس پر وہ حکومت عمل کرتی ہے جس کے پاس انتظامیہ بھی ہے اور عدلیہ بھی۔ لیکن ایک حکومت وہ ہے جو خود ہی انتظامیہ ہے، خود ہی عدلیہ ہے اور خود ہی سب کچھ ہے۔ اس نے سیکولرزم نہ کہیں دیکھا ہے نہ اس کے بارے میںپڑھا ہے اور نہ وہ جاننا یا پڑھنا چاہتی ہے اور یہ وہ حکومت ہے جو مندر سے اعلان کراتی ہے کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے اور ہندو دوڑ پڑتے ہیں۔ اخلاق نام کے ایک شریف مسلمان سے نہ سوال کرتے ہیں اور نہ اس کا جواب سنتے ہیں بس مارنا شروع کردیتے ہیں اور جان لے لیتے ہیں وہی حکومت اس کے بیٹے کو یہ سمجھ کر چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ مرگیا۔ حد یہ ہے کہ وہ اس فریج کو اور اس کے سامان کو لے جانے کی بھی زحمت نہیں اٹھاتے جس میںرکھا ہوا گوشت پولیس لے جاکر اس کی تحقیق کراتی ہے اور وہ بکرے کا نکلتا ہے۔ اور ان میں سے جن لڑکوں کو کسی رپورٹ کی بناء پر پکڑکر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ تب مودی حکومت کے وزیر درجنوں قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ کر آتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ جنہیںپکڑا ہے وہ بے گناہ ہیں اور ان کے پاس سب سے بڑا ثبوت بے گناہی کا یہ ہے کہ وہ ہندو ہیں۔

اس کے بعد مین پوری میں جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے ہماچل میں جس ٹرک ڈرائیور کو اسی طرح مارا جیسے دادری میںاخلاق کو مارا تھا اور کل کی ہی خبر ہے کہ دینی مدرسہ کے ایک مہتمم کو گائے کی چوری کے الزام میں اتنا مارا کہ وہ بھی مرگئے۔ اس حکومت کا طریقہ یہ ہے کہ جو چاہو افواہ اُڑادو اور پھر اتنا مارو کہ مرجائے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ مودی سرکار میں یا ہر سرکار کی عدالتوں میں برسوں مقدمہ چلتا ہے۔ جبکہ سزا ہاتھ کے ہاتھ دینا چاہئے۔ یہ حکومت بھی انڈین مجاہدین کی طرح ہے۔ اس کا نہ دفتر ہے نہ اس کے وزیر نہ سفیر لیکن اب حکم صرف اس کا ہی چلتا ہے۔ وہی کسی ایسے ہندو دانشور کو اس کے گھر جاکر گولی مارکر آسانی سے آجاتا ہے جو اندھ وشواش کی مخالفت میں مضامین لکھے۔ یہ جو ایوارڈ واپس کئے جارہے ہیں صدر کے محل تک مارچ ہورہا ہے اور جسے اب فلم انڈسٹری والوں اور سابق فوجیوں نے بھی اپنا لیا ہے وہ مودی صاحب کی خاموشی ہے اگر اس غنڈہ گردی کو ان کی حمایت حاصل ہے تو اس کا بھی اظہار کردیں اور اگر وہ اسے غلط سمجھتے ہیں تو ان کا وہی علاج کریں جو وہ دوسروں کا کررہے ہیں۔

(یو این این)


************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 579