donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Owaisi Aaye Aur Ab Aaate Rahenge

اویسی آئے اور اب آتے رہیں گے


حفیظ نعمانی

 

مسٹر اسدالدین اویسی سے معلوم نہیں کیوں ہماری حکومت خوفزدہ تھی کہ اُترپردیش میں ان کے بیان کے مطابق ان کا داخلہ بند تھا؟ یہ تو یاد نہیں کہ اس وقت وزیر اعلیٰ کون تھا؟ جب اُترپردیش کے کسی نہ کسی شہر کے متعلق سنا جاتا تھا کہ مولانا عبید اللہ خاں اعظمی کا داخلہ روک دیا گیا۔ لکھنؤ میں تو سامنے کی بات ہے کہ لال باغ پارک کے جلسہ کا دن بھر اعلان ہوا کہ مولانا تشریف لانے والے ہیں اور ان کے بزرگ مولانا مظفر حسین کچھوچھوی جلسہ کا افتتاح فرمائیں گے۔ مولانا کچھوچھوی آئے جلسہ شروع ہوا اور انہوں نے تقریر بھی شروع کردی لیکن محسوس یہ ہوا کہ جیسے ہر کسی کو مولانا عبیداللہ خاں کا انتظار ہے۔ تقریر کے دوران مولانا نے بھی یہ بات محسوس کرلی اور ناراض ہوکر کہا کہ کیا عبیداللہ عبیداللہ کررہے ہو۔ وہ میرا شاگرد ہے۔ میری سنو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟

اور بعد میں معلوم ہوا کہ لکھنؤ کی سرحد سے مولانا اعظمی کو واپس کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا ایک نہیں نہ جانے کتنے شہروں میں ہوا۔ لیکن اس کا نہ تو کسی پارٹی کی مقبولیت پر اثر پڑا اور نہ حکمراں پارٹی سے نفرت میں اضافہ ہوا۔ بس یہ ہوا کہ ایک سیاسی پارٹی نے یہ سوچ کر کہ اگر مولانا کو راجیہ سبھا کا ممبر بناکر اپنی پارٹی کے جلسوں میں استعمال کیا جائے تو 75  فیصدی مسلمان ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ اور وہ راجیہ سبھا کے ممبر بن گئے۔ لیکن انہوں نے راجیہ سبھا کے دوسرے ممبروں کو دیکھا کہ ان کی تقریر کا لہجہ کیا ہے؟ موضوع کیا اور انداز تقریر کیا ہے تو مولانا کو محسوس ہوا کہ یہ ان کی دنیا نہیں ہے اور انہوں نے منھ پر ٹیپ لگالیا۔

چھ برس کے بعد کانگریس نے سوچا کہ وہ مولانا کو اپنی گود میں بٹھالے۔ تو اس نے انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے ممبر بنوا دیا۔ لیکن نہ کسی پارٹی کو نفع ہوا نہ نقصان مولانا اعظمی 12  برس شاہانہ زندگی گذارکر گھر آگئے اور ایک مسلمان بھی نہیں ہے جو یاد کرتا ہو کہ وہ مولانا جن کا داخلہ بند کردیا جاتا تھا کہاں ہیں؟ اور وہ اب ٹھاکر امرسنگھ کی اس پارٹی کے لیڈر ہیں جس کا نہ لوک سبھا میں کوئی ممبر ہے نہ اسمبلی میں، نہ کارپوریشن میں اور نہ اعظم گڑھ کی میونسپلٹی میں۔ اور مولانا کے پاس وہ علم پورے کا پورا موجود ہے زبان بھی ہے جس پر پابندی تھی اور اُسی طرح قلم بھی وہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن نہ کوئی بلاتا ہے اور نہ داخلہ بند ہوتا ہے۔

ملک کے جس صوبہ اور جس شہر میں داخلہ بند اور داخلہ کھلا کی حماقت حکومت نے کی ہے اس نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا کہ ایک معمولی مولوی کو بڑا بنا دیا اور جاہلوں، جذباتی لوگوں اور ناسمجھوں کو ان کا ہی جیسا لیڈر اویسی کی شکل میں دے دیا۔ اویسی صاحب حیدر آباد کی اس بھٹی کے تپے ہوئے لوگوں میں سے ہیں جہاں کے کروڑوں مسلمان آصف جاہی مسلم ریاست کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اور کانگریس کو بلکہ سردار پٹیل کو ریاست کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ملک کی سیکڑوں چھوٹی بڑی ریاستیں ہندوستان کی حکومت کا حصہ بنیں۔ لیکن جیسا اور جتنا خون حیدر آباد میں بہا ہے اور مسلمانوں کا بہا ہے۔ اسے جب ہم سیکڑوں میل دور رہنے والے نہ بھول سکے تو اس شہر کے رہنے والوں کے بیٹے اور پوتے کیسے بھول سکتے ہیں؟ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے دوسرے مسلم لیڈروں کے مقابلہ میں اسدالدین اویسی صاحب کا لہجہ زہرآلود ہے۔ مثلاً کسی نے اس کی حمایت نہیں کی کہ بھارت ماتا کی جے بولنا چاہئے۔ لیکن اویسی صاحب نے اس میں چاقو کو شامل کرلیا کہ کوئی گردن پر چاقو رکھ کر کہلائے تب بھی نہیں کہوں گا اور ان کی اولادیں جو مولانا اعظمی کی تقریروں کے کیسیٹ بلیو فلموں کی طرح چھپاکے ایک دوسرے کو دیا کرتی تھیں انہیں ان کی پسند کی زبان بولنے والے اویسی صاحب مل گئے تو انہوں نے ان کی جے کرنا شروع کردی۔

ہمیں ذاتی طور پر معلوم ہے کہ دو بڑے اسپتال اویسی صاحب کی سرپرستی میں چل رہے ہیں جہاں ہر مرض کا علاج بھی ہوتا ہے اور ہر دوا کم قیمت پر ملتی ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ ایک میڈیکل کالج بھی وہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جب بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع میں اپنی پارٹی کے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو ہم نے لکھنؤ میں بیٹھ کر ہی اس کی مخالفت میں درجنوں مضمون لکھے اور وہ کشن گنج جہاں اویسی صاحب کا پہلا جلسہ ہوا تھا اور جس میں معتبر دوستوں کے مطابق 75  ہزار سے زیادہ مسلمان تھے۔ جن میں اکثریت جوانوں کی تھی۔ اسی کشن گنج میں اویسی صاحب کے امیدوار کی ضمانت ضبط کرادی۔ بات صرف اتنی تھی کہ ان سب کو محبت بھرے انداز میں اور دلیلوں کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تم اپنے ساتھ دشمنی کرو گے۔ ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ اویسی صاحب نے جو امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ اگر یہ سب بھی جیت جائیں تو بہار کے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہونچائیں گے؟ اس وقت ہم نے ممبئی کی مثال دی تھی کہ وہ کتنا فائدہ پہونچارہے ہیں؟ اور یہ تو اب اویسی صاحب نے خود یکھ لیا کہ ان کے دو ممبروں میں سے ایک ممبر کو اجلاس کی مدت تک کے لئے اسپیکر نے بھارت ماتا کی جے نہ کہنے کے الزام میں اسمبلی سے نکال دیا اور عمارت میں داخلہ پر بھی پابندی گلادی۔ اور اویسی صاحب نے کس کا کیا بگاڑ لیا جبکہ ان کا ایم ایل اے دو کوڑی کا ہوگیا؟

اگر اویسی صاحب اترپردیش میں قدم جمانا چاہتے ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ اس صوبہ میں ایک مسیحا ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی بھی گذرے ہیں جن پر پورا اُترپردیش اس لئے جان دیتا تھا کہ ان سے بڑا اس وقت کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ صبح سے دوپہر تک 64  مریضوں کو مفت دیکھتے تھے، ان سے فیس نہیں لیتے تھے اور شام کو صرف دس مریض دیکھتے تھے جن سے پہلے دس، بعد میں بیس روپئے لے لیا کرتے تھے اور محترم حضرات یا قریبی تعلق والوں کے لئے تو وہ گھر کی مرغی دال برابر بن جاتے تھے۔ اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے جب کہیں آواز دی وہ صدا بصحرا ثابت نہیں ہوئی۔ اب برسوں سے ایک ڈاکٹر اور لیڈر بننا چاہتے ہیں جو تین ایم ایل اے تو کامیاب کراسکے۔ اس کے آگے اب ان کی تقریر بطور اشتہار چھپتی ہے جس کے لئے وہ ہزاروں روپئے پھونک رہے ہیں۔

اویسی صاحب اُترپردیش میں ڈاکٹر فریدی تو کیا ڈاکٹر ابرار بھی نہ بن پائیں گے۔ کیونکہ نواب شجاع الدولہ سے نواب واجد علی شاہ تک کا زمانہ وہ نہیں تھا جس میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے فوج کشی کی تھی بلکہ وہ تھا جب انگریز آئے تھے اور اس  زمانہ کے بعد گومتی ندی نے نہ جانے کتنی کروٹیں بدل لیں۔ اویسی صاحب نے دیویٰ کے مزار سے ہوتے ہوئے لکھنؤ میں قدم رکھا ہے اور وہ ہر سیاسی لیڈر کی طرح حضرت شاہ وارث کے مزار پر چادر چڑھاتے ہوئے ندوہ آئے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں وہ مقام ہیں جہاں مانگو نہ مانگو صرف دعا ملتی ہے۔ جبکہ سیاسی لیڈر کی بھوک کا علاج دعا نہیں ووٹ ہے ہم نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ زندہ باد کے نعرے بھی لگے اور کالے جھنڈے بھی دکھائے گئے۔ ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ کم از کم اُترپردیش میں جے بھیم کے نعرے کے جملہ حقوق کی دعویدار مس مایاوتی موجود ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ اگر ملک میں مسلمان اور بھیم کے ماننے والے ایک ہوجائیں تو پھر سو برس وہی حکومت کریں گے۔ لیکن جے بھیم والوں کو برہمن نے ہندو بناکر ان کا دماغ آسمان پر کردیا ہے۔ اب یہ تو ہوسکتا ہے کہ راہل گاندھی جیسے اختیارات والے نائب صدر اویسی صاحب یا کوئی مسلمان ہوجائے۔ لیکن صدر اور وزیر اعظم مسلمان اب بھیم کو بابا کہنے والے بھی برداشت نہیں کریں گے جس کا اندازہ مس مایاوتی، نسیم الدین صدیقی اور ستیش مصرا کے باہمی رشتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے ہمارا مشورہ ہے کہ   ؎

دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار
شیخ صاحب زمانہ نازک ہے

(یو این این)

فون نمبر: 0522-2622300  
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 648