donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Asmatullah
Title :
   Rushwat Khori Ki Lat Ne Insan Ko Kitna Gira Diya Hai


رشوت خوری کی لت نے انسان کو کتنا گرادیا

 

اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ بھوارہ، مدھوبنی

(بہار)


    انعام اللہ ایک جوان ذہین اور ہوشیار لڑکا ہے اسے دین کی باتوں سے دلچسپی ہے وہ لوگوں کو دین کی باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ اس کی بات غور سے سنتے ہیں لیکن انعام اللہ پھر بھی اداس رہتا ہے اس کی وجہ خود اس کے گھر میں اس کے سواء کوئی نماز نہیں پڑھتا۔ فجر کے وقت کلام پاک کی تلاوت کے بجائے فلمی گانے ہوتے ہیں اور رات کو کتوں کی بھیانک صدا۔ انعام اللہ کی امی بہت ہی کم گھر میں رہتی ہیں۔ وہ خود باہر رہتی اور ادھر ادھر گھومتی اور فلمیں دیکھنے اور ٹی وی پر سیریل دیکھتی اور اس کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتی۔ انعام اللہ کی بہن سعدیہ ہے اس کے چست لباس سے انعام اللہ کو نفرت ہے انعام اللہ کبھی ان کو دنیا کی باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ پھر اپنے گھر میں وہ کیسے رہے؟ تنہائی کے اوقات میں وہ ان کو صراط مستقیم پر لانے کی تدبیریں سوچتا، نماز میں اپنے والد اور والدہ کے لئے دعائیں کرتا۔ ابھی اس کے ایم اے آخری سال ہے۔ کالج کے راستے میں ابا کا دفتر بھی پڑتا ہے۔ وہاں بیٹھے بھکاری کو پیسہ دینا کبھی نہیں بھولتا، لیکن کیا بات ہے چند دنوں سے مسلسل وہ ایک بزرگ شخص کو ہیڈآفس کی سیڑھیوں پر بیٹھا دیکھتا ہے۔ انعام اللہ سوچتا اس شخص کو یہاں کیا کام ہوگا۔ یہاں کیوں بیٹھا ہے انعام اللہ ایک دن اس شخص کے قریب گیا ، پوچھا چچا جان میں آپ کو چند دنوں سے برابر یہاںدیکھ رہا ہوں آپ کیوں بیٹھے رہتے ہیں چچاجان؟انعام اللہ کے لہجہ میں ہمدردی تھی وہ ہمیشہ ہر انسان کے ساتھ اچھے سے پیش آتے۔ ہمت کرکے بزرگ شخص نے کراہتے ہوئے جواب دیا ’’کیا کروں بیٹا!قسمت ہی نے کچھ ایسا کھیل کھیلا ہے اتنی جائیداد رکھتے ہوئے بھی آج میں مجبور ولاچار ہوں اور دو وقت سے کھانے کو ترس رہا ہوں۔ میری ایک جوان لڑکی ہے کلثوم ، ابھی انٹرامتحان دے رہی ہے اور محلہ کے بچوں کو پڑھاتی ہے کچھ روپے مل جاتے ہیں اسی میں ہمارا گزر بسر ہوجاتا ہے مجھے لڑکی کی شادی کی فکر ہے، زمین ہے لیکن اس پر کاشتکارقبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ بس اس سلسلہ میں دو تین دن سے پھر رہا ہوں۔ اگر زمین ہاتھ آجائے تو لڑکی کی شادی کسی اچھے گھرانے میں کردیتا‘‘

    بزرگ شخص نے ٹھنڈی سانس لے کر بولا اس ہیڈآفس کے لوگ کہتے ہیں ۵ہزار روپے ہوں تو کام بن جائیگا کیا کروں بیٹا کہاں سے لائوں؟ بزرگ شخص کی آواز بری دھیمی ہوگئی تھی، سچ کہتا ہوں بیٹا دو دن سے گھر میں فاقہ ہے، بیڑی سگریٹ کی طلب تھی سو وہ جاتی رہی میں ۵ ہزار روپے کہاں سے لائوں؟‘‘ بزرگ نے سکتے لگاکر گرگرانے لگا۔

    بزرگ شخص کی بات سن کر انعام اللہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے بزرگ شخص کو ۱۰۰ کا نوٹ دیا اور بولا ’’لو چچاجان ! اس وقت میرے پاس یہی سوروپے ہیں اسے رکھ لو اور گھر جاکر کام چلا لو میں پھر اسی وقت کل آئوں گا۔ اگر کام ۵ہزار میں بن سکتا ہے تو میں وہ بھی دوں گا۔ انعام اللہ نے آنکھ خشک کرکے کہا ’’آپ رہتے کہاں ہو چچا جان!‘‘ بزرگ ۱۰۰ کا نوٹ قمیص کی جیب میں ڈالتے ہوئے بولا’’مدھوبنی نورگنج بستی میں رہتا ہوں‘‘ بزرگ کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ لڑکا اس کی کیاکرے گا ۔ وہ سمجھا کہ شاید وقتی ہمدردی کے جذبے سے دریافت کررہا ہے۔ وہ تو سو کا نوٹ پاکر ہی بہت خوش تھا اور اس کے منہ سے دعائیں نکل رہی تھیں۔

    انعام اللہ کالج سے واپسی میں آج دوست عاصم سے ملنے کے بجائے سیدھا گھر آگیا، بزرگ کی بات اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی لیکن اسے پیسہ نہیں مل سکا دوسرے دن انعام اللہ نے مجبوراً اپنی سائیکل، گھڑی، انگوٹھی فروخت کردی۔ کچھ رقم اس کے پاس جمع ہوگئی کسی نہ کسی طرح ۵ ہزار روپے جمع کرکے ہیڈآفس آیا دیکھا بزرگ شخص مایوس ومغموم بیٹھا تھا، ’’یہ لو چچا جان ۵ہزار روپے‘‘بزرگ شخص نے نوٹوں کو دیکھ کر کانپ سا گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر اعتماد نہیں ہورہا تھا، انعام اللہ بزرگ شخص کو آفس کے اندر لایا ، بزرگ شخص کا یہ مقدمہ انعام اللہ کے والد کی ہی عدالت میں تھا۔ پھر بھی انعام اللہ گھبرایا نہیں بولا ! لیجئے ابوجان پانچ ہزار روپے اور اس غریب بے سہارا کا کام کردیجئے‘‘

    اپنے بیٹے کو بزرگ کے ساتھ دیکھ کر امان صاحب کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا جو اس بافتہ حالت میں بولے ۔۱۔۔۔۔ن۔۔۔۔ع۔۔۔ا۔۔۔م۔۔۔۔ انعام اللہ تم یہاں‘‘ انعام اللہ کوئی جواب دیئے بغیر گردن جھکائے نکل آیا چند ساعت بعد بزرگ شخص آتا نظر آیا۔ انعام اللہ نے بڑھ کر سوالیہ نظروں سے اسے تاکا۔ بزرگ قریب آکر خوشی کا اظہار کیا اور انعام اللہ سے بولا ’’بیٹے صاحب کہتے ہیںکہ کل کام ہوجائے گا۔ مجھے زمین مل جائے گی۔ مجھے چار بجے تک رکنے کو کہا ہے‘‘ پھر بزرگ شخص انعام اللہ کو دعائوں سے نوازنے لگا۔ اس کے بعد انعام اللہ چلا گیا بزرگ شخص اسی طرح بیٹھا رہا ۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی ۔ چپراسی دفتر کو تالا لگارہا تھا۔ بزرگ نے چپراسی سے پوچھا ’’ کیا سب چلے گئے، چپراسی نے کہا ہاں بڑے میاں! لیکن تم اب تک بیٹھے ہو‘صاحب نے مجھے بیٹھنے کو کہا تھا شاید بھول گئے ہوں گے‘‘۔بزرگ شخص کی آواز رندھ گئی، اگلے دن انعام اللہ ہیڈآفس کی طرف گیا تو اس نے دیکھا۔ بزرگ شخص مراپڑا ہے۔ کافی لوگ جمع ہے ، دو آدمی بات کررہے تھے انعام اللہ دھیان سے سننے لگا۔ بڑے صاحب کو مخالف سمت سے دس ہزار مل گئے انہوں نے بزرگ شخص سے بات بھی نہ کی۔ پانچ ہزار بھی ہضم کر گئے۔ افسوس! کچھ انسانوں کے لئے پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

رشوت خوری نے انسان کو کتنا گرادیا
زندگی تو کیا ،کتنے کو موت کی نیند سلادیا

    گفتگو سننے کے بعد انعام اللہ کے حواس باختہ ہوگئے اسے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی، بزرگ شخص کی لاش کو لے کر انعام اللہ اس کی جھونپڑی کی طرف روانہ ہوگیا بھیڑ کو دیکھ کر کلثوم دوڑی ہوئی آئی تاکہ وہ بھی تماشابینوں میں شامل ہوجائے۔ جوں ہی باہر نکلی دیکھا، انعام اللہ باپ کے مردہ جسم کو اٹھائے لارہا ہے ۔ کلثوم کے منہ سے دردناک چیخ نکلی، چراغ بجھ گیا، میں لاوارث اور یتیم ہوگئی، یہ کہہ کر کلثوم بیہوش ہوگئی، لاش کی تدفین کے بعد انعام اللہ تین بجے گھر آیا چند لمحے سوچ کر ایک کاغذ پر کچھ تحریر کرنے لگا، لکھنے کے بعد باہر چلا گیا، سات بجے کے قریب انعام اللہ کے والد امان آتے ہی انعام اللہ کو پکارا۔ سعدیہ بولی ’’بھیا ابھی تھوڑی دیر پہلے کہیں گئے ہیں‘‘ امان نے بات سنی ان سنی کردی اور سیدے انعام اللہ کے کمرے کی طرف گئے ۔ دیکھا تو میز پر ایک پرچہ پڑا ہے۔ امان صاحب اسے پڑھنے لگے جس پر لکھا تھا ’’ابا جان! آج آپ کو رشوت خوری کی لت نے کتنا گرادیا آپ نے ایک کمزور اور مظلوم شخص کو آخرت کے سفر پر روانہ کردیا اور برے آدمی کا کام کردیا اس کی سزا اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور دیں گے۔ بزرگ شخص قیامت کے دن آپ کا دامن پکڑے گا ، ابوجان! رشوت حرام ہے لیکن آپ نے اسے حلال جانا میں اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں اس لئے میں گھر چھو ڑ رہا ہوں، اللہ کی زمین بہت وسیع ہے محنت کروں گا اور حلال کمائی کھائوں گا۔ گھر میں اس وقت قدم رکھوں گا جب سب لوگ اسلام کے مطابق زندگی گزارے۔

    خط پڑھتے ہی امان صاحب تیزی سے گھر کے اندر گئے گاڑی نکالی اور انعام اللہ کی تلاش جاری کردی۔ ادھر انعام اللہ گھر سے نکل کر سیدھا اپنے دوست اقبال کے پاس گیا وہاں پر بیٹھے اقبال کی بیوی شبنم اور عاصم دوست کو بھی بلالئے اس نے اپنا سارا قصہ سنایا ، ان سب نے انعام اللہ کو تسلی دی اور کہا یہ ساری چیزیں تو ٹھیک ہے لیکن تمہیں اس طرح بھاگنا نہیں چاہئے تھا ، انعام اللہ بولا! ویسے تو میں گھر سے بھاگ کر نہیں آیا ہوں کل صبح چلا جائوں گا، اقبال، عاصم اور انعام اللہ نے ایک ہی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی اور پھر بستر پر دراز ہوگئے۔ اقبال وقت کا پابند تھا وہ جلد ہی سوگیا، مگر انعام اللہ کی آنکھ سے نیند میلوں دور تھی، اچانک اسے کیا سوجھی کہ بستر سے اٹھ کر سیدھا بزرگ شخص کے گھر گیا ۔ دیکھا تو مکان خالی تھا۔

    انعام اللہ کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے کہ کلثوم کہاں ہوگی۔ مکان کیوں خالی ہے۔ اتنے میں فجر کی اذان ہوئی ، انعام اللہ نے قریب کی مسجد میں نماز ادا کی اور تھکا تھکا گھر واپس آیا۔ دیکھا تو دالان میں اس کے ابا سر پر ٹوپی رکھے قرآن سامنے رکھے دعا میں مشغول ہیں۔ انعام اللہ کو پہلے خود پر اعتبار نہ ہوا قریب جاکر دیکھا تو شک حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ جوں ہی امان صاحب نے نظر آیا انعام اللہ کو دیکھا ،دیکھتے ہی بجلی کی سی تیزی بڑھ کر انعام اللہ کو گلے لگا لیا انعام اللہ کی آواز سن کر ماں، بہن دوڑی ہوئی آئی اور الحمدللہ کہہ کر اللہ کا شکریہ ادا کیا۔

    انعام اللہ حیران تھا کہ رات گھر سے باہر رہنے پر کس قدر تبدیلی۔ یہی سوچ کر انعام اللہ خوشی خوشی اپنے کمرے کی سمت ہی بڑھنے کو تھا کہ سعدیہ نے راستہ روک لیا اور بولی آں۔۔۔۔آں۔۔۔ آں۔۔۔ بھیا جان اس طرح ہے دھڑک اندر نہیں جاسکتے جانتے نہیں اس میں پ۔۔۔ پ۔۔۔۔ پ۔۔۔۔ ر۔۔۔  ر۔۔۔ر۔۔۔د۔۔۔۔د۔۔۔۔د۔۔۔د۔پردہ ہے۔ ہاں پردہ ۔ سعدیہ پھر بولی آخر انعام اللہ نے پوچھ ہی لیا۔ آخر ہے یہ کون؟ سعدیہ شوخی سے جواب دیا۔ ابو جان کلثوم کے گھر جاکر اسے یہاں لے آئے ہیں۔ اور وہ میری ہونے والی بھابی ہیں۔ پچھے بھیاجان‘‘ انعام اللہ خوشی سے مچل اٹھا اور کہنے لگا آج اس گھر میں دو دو خوشی ، کہہ کر انعام اللہ اپنے دوست کے گھر روانہ ہوگیا۔

دور تک صبح کے آثار نہیں تھے لیکن
دل کو امید بڑی ہے کہ اجالا ہوگا

(یو این این)

    آج واقعی میں میرے گھر میں اجالا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح میرے گھر کو ہمیشہ اجالا رکھے۔٭٭


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 631