donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Shafiqur Rahman
Title :
   Insani Huqooq Ke Alambardar

انسانی حقوق کے علم بردار


حافظ شفیق الرحمن


لندن سے لے کر واشنگٹن تک۔۔۔ پیرس سے لے کر سڈنی تک۔۔۔ گلی گلی، محلے محلے اور نگر نگر بنیادی انسانی حقوق کا ڈھول بج رہا ہے۔۔۔ دھم! دھم!! دھم!!! وہ شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔۔۔ سفید سامراج نے ایشیاء سے افریقہ تک قدم قدم ڈالروں کی بوریوں کی بارش کر دی ہے۔ این جی اوز کے چوہے اور چوہیاں ان بوریوں کے آس پاس منڈلا رہے ہیں، جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ ان بوریوں کو کترنا شروع کر دیتے ہیں۔ امریکی ڈالر کھا کھا کر ان دیسی چوہوں اور چوہیوں کو بد ہضمی کی شکایت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔ وہ جہاں تہاں، ادھر اُدھر‘‘ امریکی متلیاں‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔آج ہمارے ہاں ان گنت این جی اوز کے باڑے ہیں، ان باڑوں میں امریکی ڈالروں اور برطانوی پاؤنڈوں کے کھونٹوں پر بندھی روشن خیال خارش زدہ بکریاں، گدھے اور گھوڑے امریکی ڈالروں کا چارہ ’’تناول فرمانے‘‘ کے بعد پاکستانیت، اسلامیت اور مشرقیت کے خلاف ممیانے، ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے اور ہنہنانے میں مصروف ہیں، ان کا ایجنڈہ اس قوم کو صرف یہ باور کروانا ہے کہ انسانی حقوق کے ’’اصلی تے وڈے‘‘ محافظ صرف امریکی ہیں یا مغربی ممالک! سقوط ہسپانیہ15ویں صدی کے آخری عشرے میں ہوا۔۔۔آئیے تاریخ کی انگلیاں پکڑ کر غرناطہ، قرطبہ اور اشبیلیہ کے دہشت و ہیبت زدہ گلی کوچوں اور سنسان وویران ایوانوں اور میدانوں میں چلیں ۔۔۔ اور۔۔۔دیکھیں کہ بین المذاہب اور بین الادیان رواداری، برداشت اور تحمل کا درس دینے والے 21ویں صدی کے مغربی حکمرانوں کے صلیبی انتہا پسند آباء و اجداد کے ہاتھوں انسانیت کی قبا کس طرح تارتار ہوئی۔۔۔اس طرح تار تار ہوئی کہ تاریخ چنگیزیت اور صلیبیت کو ہم پلہ قرار دینے پر مجبور ہوگئی۔۔۔شیخ منظور الٰہی ’’نیرنگ اندلس‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’غرناطہ میں دو سو پبلک لائبریریاں اور ایک درجن رہائشی مکان ایسے تھے جہاں بیش بہا کتابوں اور مخطوطات کا ذخیرہ تھا جن میں قرآن کریم کے ہزار ہا نسخے اور عالمانہ تفسیریں تھیں۔ طب اور علم افلاک پر نادر کتابیں تھیں، فلسفے کی کتابوں میں ابن رشد کے نایاب متون شامل تھے، ایسے گوہر آبدار صدیوں کی ذہنی کاوش کا ثمر تھے جن کی ترتیب و تزئین میں سینکڑوں کاتب، نقاش، زرکوب اور جلد ساز برسوں منہمک رہے تھے۔ کتاب میں آب زر استعمال ہوا تھا۔ حاشیے میں کہیں بیل بوٹے اور گلکاری تھی کہیں متنوع رنگوں کا فشار۔ یکم دسمبر 1499ء کو حملہ آوروں نے اس میراث پر ہلہ بول دیا، وہ صدیوں کی عقل و دانش کا نچوڑ ریڑھیوں میں ڈال کر لے گئے۔ دن بھر باب الرملا کے تلے کتابوں کے انبار ایک پہاڑ کی شکل اختیار کرتے رہے۔ لوگوں کو تماشا دیکھنے کے لیے اکٹھا کیا گیا۔ غم و غصہ سے چور مسلم معززین ، آئمہ، تجار، اہل حرفہ اور کاشتکار وہاں موجود تھے، ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا، چہرے نفرت و حقارت کا مرقع تھے، کچھ خالی الذہن ہو کر فضا میں تک رہے تھے۔ اشارہ پا کر الاؤ روشن کیا گیا، جہنمی شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے۔ ثانیہ دو ثانیہ کربناک سناٹا تھا، پھر صدیوں کا علمی خزینہ خاکستر ہوتا دیکھ کر افسردہ مجمع سے دلدوز چیخیں سنائی دیں، ساتھ ہی ازلی و ابدی صداقت کے اثبات میں اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ گونجا۔ مجمع چھٹنے لگا، نیلگون آسمان پر ٹانکے ہوئے ستارے سلگتے اوراق کو بھسم ہوتا دیکھا کیے‘‘۔ ایک اور مورخ لکھتا ہے کہ


’’رومن کیتھولک چرچ کی قتل و غارت سے سپین میں 15 لاکھ مور (مسلمان) قتل ہوئے جب کہ جنوبی امریکا اور یورپ میں 20 لاکھ یہودی اور میکسیکو، کیوبا، سینٹ ڈومنگو اور امریکا میں ڈیڑھ کروڑ ریڈ انڈینیز عرصہ40 سال کے دوران عیسائیت کے نام پر تہ تیغ کئے گئے۔‘‘ (ڈبلیو۔ سی۔ براؤنلی: 1834)
آئیے! آج کی اس نشست میں انسانی حقوق کے دوسرے عظیم علمبردار ’’گریٹ برٹن‘‘ کے بانیوں کی ’’انسان دوستی‘‘ کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں!


’’جن دلخراش خوادث اور جاں گداز وقائع سے 1857ء عبارت ہے اس سے پاکستانی اور ہندوستانی کماحقہ واقف ہیں۔ اب تو خیر انگریز جا چکے ہیں اور تاریخ کا گرد و غبار بھی سرعت سے دھل رہا ہے، لیکن 1857ء کے لرزہ خیز حالات خود انگریزوں کے عہد میں سامنے آ گئے تھے، اس بارے میں برباد�ئعامہ کی جزئیات تک محفوظ ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ 1857ء کا خمیازہ تمام ہندوستانیوں کو بھگتنا پڑا اور مسلمانوں کے دوش بدوش ہندو بھی لڑے تھے ، لیکن جو مصائب مسلمانوں پر ٹوتے، اس کے ماتم سے تاریخ انسانی کبھی فارغ نہیں ہو سکتی۔ ان لاکھوں مسلمانوں کو جو نصاریٰ کی اطاعت کے خلاف تھے اور جن کے رگ و ریشہ میں راست باز علماء نے اپنی مساعی پیہم سے جوشِ جہاد بھر دیا تھا، ایک ایک کر کے ختم کیا گیا۔


’’لارڈ ابرٹس‘‘کے نزدیک اس کام کا ایک مقصد تھا کہ ’’ان بدمعاش مسلمانوں کو بتا دیا جائے کہ خدا کے حکم سے صرف انگریز ہی ہندوستان میں حکومت کریں گے۔‘‘۔۔۔چنانچہ لارنس نے باغیوں کی اس عبرت ناک سرکوبی پر اپنی والدہ کو ایک خط میں اظہار مسرت کرتے ہوئے لکھا:’’ہم پشاور سے جہلم پہنچے اور راستہ میں کچھ کام بھی کرتے چلے آئے، باغیوں سے اسلحہ چھینا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا اور توپ سے باندھ کر اڑا دینے کا جو طریقہ ہم نے استعمال کیا، اس سے لوگوں کے دل پر ہماری ہیبت بیٹھ گئی۔‘‘۔۔۔ایک پادری بیوہ رقمطراز ہیں:’’بہت سے قیدیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ وہ موت کی کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے تو بقیۃ السیف کو توپوں سے باندھ کر اڑایا گیا۔‘‘۔۔۔جنرل نکلسن نے مسٹر ایڈورڈ کو ایک خط میں لکھا:’’ہمیں ایک ایسا قانون پاس کرنا چاہئے کہ ہم انگریز عورتوں اور بچوں کے قاتلوں کو زندہ جلا سکیں، یا ان کی کھالیں اتار لیں یا گرم سلاخوں سے مدارات کریں، پھانسی ایک معمولی سزا ہے۔‘‘۔۔۔نکلسن کا ان دنوں ایک ہی نعرہ تھا ’’پھانسی پر لے چلو‘‘


سر ہنری کاٹن کی یاد داشتوں میں درج ہے:’’میں نے اپنے سکھ اردلی کی خواہش پر ان بد بخت مسلمانوں کو عالم نزع میں دیکھا، جنہیں مشکیں کس کے، زمین پر برہنہ بدن لٹا دیا گیا اور ان کے تمام جسم پر گرم تانبے کی سلاخیں داغ دی گئیں، میں نے انہیں پستول سے ختم کر دینا مناسب سمجھا، بد نصیب قیدیوں کے جلتے ہوئے گوشت سے مکرو ہ بد بو نکل کر آس پاس کی فضا کو منموم کر رہی تھی۔‘‘۔۔۔مسٹر ڈی لین ایڈیٹر ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کا اقتباس ذیل اس کی ڈائری کے صفٖحہ 43سے ماخوذ ہے:’’زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم پر سؤر کی چربی ملنا یا زندہ آگ میں جلانا اور ہندوستانیوں کو مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کریں، یقیناًعیسائیت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے۔‘‘ ۔۔۔’’مجینڈی‘‘ لکھتا ہے:’’وہ رات ہم نے جامع مسجد میں پہرہ دیتے ہوئے بسر کی، ہمارا زیادہ وقت ان قیدیوں کو گولی مارنے یا پھانسی دینے میں گزرا جن کو ہم نے صبح کے وقت گرفتار کیا تھا لیکن ان کے چہروں سے شجاعت اور ضبط کے آثار مترشح تھے، جو کسی بڑے مقصد پر جان دینے کی علامتیں تھیں۔‘‘۔۔۔جنرل نیل نے حکم دیا:’’فتح پور کے قصبے کو حراست میں لے کر تمام آبادی کو تہہ تیغ کر دو اور سرغنوں کے سر عمارت پر لٹکا دو۔‘‘۔۔۔’’ہم پھانسی دیتے وقت عام طور پر درخت اور ہاتھی کو استعمال کرتے تھے، یعنی ملزم کو ہاتھی پر بٹھا کر درخت کے نیچے لے جاتے، اوپر سے رسی ڈال کر ہاتھی کو ہنکار دیا جاتا تو ملزم لٹک کر تڑپنے او ر جانکنی کے وقت انگریزی کے ہندسے 8 کی دلچسپ شکل بن کر رہ جاتا۔‘‘۔۔۔عورتوں نے عصمت دری کے خوف سے خودکشیاں کر لیں اور مردہ سپاہیوں کی لاشوں کوبھی درختوں پر لٹکا دیا گیا۔


دہلی اور لکھنؤ کے شاہی خاندانوں پر جوبیتی وہ ایک مستقل خونیں باب ہے، دہلی کا حال تو یہ تھا کہ جس شخص کے چہرے پر ڈاڑھی نظر آتی، یا کسی کے پاجامہ کا پائنچہ اونچا معلوم ہوتا، وہ تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا۔
(ماخوذ از سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ / مصنف آغا شورش کاشمیریؒ )


کاش! عامر میر، عاصمہ جہانگیر،آئی اے رحمن، وجاہت مسعود، طاہرہ مظہر علی خان اور اقلیتوں کے حقوق کے دیگرچیمپین ان تاریخی حقائق پر بھی نگاہ ڈال سکیں۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 624