donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title :
   Ham To Kabhi Ke Mar Chuke

 

ہم تو کبھی کے مرچکے
 
ایم ودود ساجد
 
سپریم کورٹ کے ایک معروف ہندو وکیل نے‘جو میرے دیرینہ رفیق بھی ہیں‘ مجھے فون کرکے بتایا کہ’ سابق چیف جسٹس آف انڈیاآنجہانی جسٹس جے ایس ورماکی یاد میں ایک قانونی امدادی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز ہے جوملک بھرمیں جھوٹے معاملات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کی موثر اورمفت پیروی کریگی۔‘بظاہر یہ کوئی متحیرالعقول بات نہیں تھی۔لیکن اس تجویز نے میرے ذہن کے بہت سے گوشوں کو وا کرڈالا۔مجھے ایک ساتھ بہت سے واقعات یاد آگئے اور اپنے دوست کی تجویز پر’صاد‘ کرنے کے بعد میں ان واقعات کو سمیٹنے لگا۔
 
ہم بھی کیسے عجیب وغریب معاشرہ کا حصہ ہیں۔ جب شخصیات زندہ ہوتی ہیں تو ان کی نہ قدر کرتے ہیں اور نہ ان کی توقیر کا ہمیں خیال آتا ہے۔اس ضمن میں مجھے سابق چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس وی این کھرے یاد آتے ہیں۔جسٹس کھرے ابھی بقید حیات ہیں۔وہ ہندوستان کے ۳۳ویں چیف جسٹس تھے اور ۱۹دسمبر ۲۰۰۲سے دومئی ۲۰۰۴تک یعنی ۵۰۰دنوں تک اس عہدہ پر رہے۔سپریم کورٹ کا سربراہ ہونے کے ناطے ان ۵۰۰ایام میں اگرانہوں نے صرف وہی ایک فیصلہ کیا ہوتا‘جس کا ذکر اگلی سطورمیں آرہا ہے‘ توکم سے کم میرے نزدیک انہوں نے نظام عدل کے تمام تقاضوں کو پورا کردیا ہوتا۔سچ تو یہ ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد اورتاریخی فیصلہ تھا۔انہوں نے گجرات کے بدنام زمانہ فسادات (۲۰۰۲)کے ایک ایسے معاملہ کی ازسرنوتفتیش کا حکم دیا جس کا مقدمہ سفلی عدالت میں فیصل ہوچکا تھا۔بیسٹ بیکری مقدمہ کو انہوں نے گجرات سے باہر‘مہاراشٹر کو منتقل کیا اور جسٹس اریجیت پسایت کی بنچ کو وہ اہم مقدمہ سونپا۔نچلی عدالت نے اس مقدمہ کے تقریباً تمام کلیدی ملزموں کو چھوڑ دیا تھا۔جسٹس پسایت نے ایک زبردست عالمانہ فیصلہ کیا اور دوران تبصرہ کم سے کم ایک مثال ایسی دی جس نے مقدمہ کے فیصلہ کو بھاری بھر کم بنادیا۔انہوں نے کہا کہ اگر چہار دیواری خودہی بے ایمان ہوجائے تو پھر رکھوالی کون کرے گا؟جسٹس پسایت نے تھامس ہارڈی کے ناول کا وہ حصہ بھی نقل کیا جس میں اس نے منچلے بچوں کے ہاتھوں میں مکھیوں اور پتنگوں کے حشرکا خاکہ کھینچا ہے۔انہوں نے اس مثال کے ذریعہ گجرات کے بے بس مسلمانوں کووزیر اعلی نریندر مودی کے ہاتھوں میں ان بے ضررمکھیوں سے تعبیر کیا تھا جن سے وہ کھیلتا ہے اور نیم جاں کرکے انہیں فضامیں اچھال دیتا ہے۔
 
یہ مقدمہ ممبئی ہائی کورٹ کو سونپتے وقت جن لوگوں نے جسٹس کھرے کو زبانی تبصرہ کرتے ہوئے سنا تھا وہ بتائیں گے کہ ایسا غصہ عام طورپر جج نہیں کرتے۔انہیں اگر غصہ آتا بھی ہے تو وہ اسے مخفی رکھتے ہیں۔لیکن گجرات کے بے بس مسلمانوں کے احوال سن کرجسٹس کھرے اپنے غصہ کی شدت پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے پوری طاقت سے کہا تھا کہ ’اگر وزیر اعلی راج دھرم نہیں نبھاسکتا تو وہ کرسی چھوڑ دے۔‘انہوں نے کہا تھا کہ’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجرات میں انصاف کا حصول ناممکن ہوگیا ہے‘۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں حکومت گجرات میں اب اعتماد نہیں رہا۔ریاستی حکومت نے بیسٹ بیکری واقعہ کے ملزموں کو چھوڑے جانے کے خلاف جو اپیل تیار کی تھی وہ بہت بودی اور بے دست وپا تھی۔جسٹس کھرے نے اسے دیکھ کر کہا تھا کہ چھ مہینے کا وکیل بھی اس سے اچھی اپیل بنالے گا۔انہوں نے اپریل ۲۰۰۴میں سماعت کے دوران حکومت گجرات کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم جدید عہد کے نیرو بن گئے تھے جو اس وقت کہیں اور دیکھنے لگتا ہے جب بے قصورعورتوں او رمعصوم بچوں کو زندہ جلایا جاتا ہے‘۔ واقعہ یہ ہے کہ بیسٹ بیکری مقدمہ میں جسٹس ورمااورجسٹس اریجیت پسایت نے جو قانونی تبصرے کئے تھے وہ حکومت گجرات کو برخاست کرنے کیلئے مناسب ‘معقول اور فوری جواز کیلئے کافی تھے۔لیکن ایسا کرنے کیلئے ہمت درکار ہوتی ہے۔ اس ملک کی سیاست کا حال یہ ہے کہ جب آر ایس ایس پر پابندی لگانی ضروری ہوجائے تو وہ جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگادیتی ہے۔جسٹس جے ایس ورما اس حوالہ سے بھی یاد رکھے جانے کے اہل ہیں کہ انہوں نے جماعت اسلامی کوغیر قانونی تنظیم قرار دینے کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور دوران مقدمہ قابل لحاظ تبصرے کئے تھے۔یہ جسٹس ورما ہی تھے جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت سے متعلق ایک مقدمہ میں کارسیوکوں کو غنڈوں اور جرائم پیشہ اوباشوں کا ایک گروہ بتایا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد پر حملہ اس ملک کے سیکولرزم پر حملہ تھا ۔یوپی حکومت کولعن طعن کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد اس کے قبضے میں ایک امانت تھی جس کی حفاظت ضروری تھی۔یہ جسٹس ورما ہی تھے جنہوں نے سات جنوری ۱۹۹۳کوبابری مسجد کے تعلق سے دفعہ ۱۴۳کے ضمن میں صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا تھا کہ پہلے حکومت یہ بتائے کہ وہ عدالت کی رائے پرعمل بھی کرے گی۔ظاہر ہے کہ بد دیانت حکمرانوں کی نیت میں فتور تھالہذا انہوں نے جسٹس ورما کے اس سوال پرمجرمانہ خاموشی اختیار کرلی۔
جسٹس ورما ۲۵مئی ۱۹۹۷سے ۱۷جنوری۱۹۹۸تک یعنی ۲۹۸دنوں تک ملک کے چیف جسٹس رہے۔دوران فساد وہ قومی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ تھے۔لہذا مارچ ۲۰۰۲میں کمیشن نے ان کی قیادت میں گجرات کا دورہ کرکے ایک رپورٹ تیار کی۔انہوں نے واضح طورپرلکھا کہ اس فساد کے لئے حکومت اور پولس دونوں کی مجرمانہ غفلت اورناکارکردگی ذمہ دار ہے۔گجرات فسادات کے تعلق سے یہ پہلی’عدالتی مداخلت‘تھی۔انہوں نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کہا کہ تفتیشی عمل کومتاثر کیا جارہا ہے لہذا گودھرا‘گلبرگہ سوسائیٹی‘نرودہ پاٹیا‘بیسٹ بیکری اور سردار پورہ واقعات کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے۔یہ جسٹس ورما ہی تھے جنہوں نے حقوق انسانی کمیشن کا سربراہ ہونے کے ناطے بیسٹ بیکری کے مجرموں کو چھوڑے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے اس مقدمہ کی از سر نو تفتیش اور ریاست سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں حکومت گجرات کو سخت ہدف تنقید بنایاتھا اور ان مقدمات کو فیصل کرنے کیلئے ’تیز رفتار عدالتوں‘کی تشکیل کی ہدایت دی تھی۔ 
 
اس موقعہ پر مجھے جسٹس ورما سے ان کے گھر پر اور جسٹس کھرے سے لکھنؤ ایر پورٹ پر ہونے والی ملاقات یاد آتی ہے۔یہاں تفصیل کا وقت نہیں لیکن دوران گفتگو دونوں کے دل میں مظلوم انسانیت کا جو دردمیں نے محسوس کیا تھا اس کی روشنی میں ہندوستانی مسلمان ان جیسے ’انصاف کے رکھوالوں‘کے مقروض ہیں۔کیا وجہ ہے کہ انہیں صرف دوسرے یاد رکھتے ہیں اور ہم بھول جاتے ہیں؟یہ قانونی امدادی کمیٹیاں ہم کیوں نہیں بناتے اور کیوں مسلمانوں کے متمول اور صاحبان خیر اس میں حصہ نہیں لیتے؟کیوں ہم اپنے ان محسنوں کی یاد میں علمی اور کارآمد پروگرام نہیں کرتے ؟ہم ہرکس وناکس کے انتقال پر تعزیتی بیانات کی جھڑی لگادیتے ہیں لیکن سیکولرزم اور حق وانصاف کے ان چراغوں کے بجھنے پر ان کی یاد میں ایک ’چراغ‘بھی روشن کرتے ہوئے ہمیں تکلف ہوتا ہے۔ہمیں تو مردہ پرستی سے باہر نکل کر ان محسنوں کی توقیر کیلئے محفلیں سجانی چاہئیں جو ابھی زندہ ہیں اور جن کے دم سے سیکولرزم زندہ ہے۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شے زندہ ہے مگر ہمارے احساس کی موت ہوچکی ہے۔بھلا موت کابھی کوئی علاج ہے؟
+++++++++++++++++++++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 699