donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Tahir
Title :
   Taasub

تعصب
 
…محمد طاہر…
 
گجراتی کی کہاوت تو یہ ہے ’’کوّے ہر جگہ کالے ہوتے ہیں‘‘۔ جناب ارشاد احمد عارف کا ارشاد مگر یہ ہے کہ ایک ملک ایسا ہے جہاں کوّے سفید بھی ہوتے ہیں۔ بھئی ضرور ہوتے ہوں  گے، اب امریکا کو ہی دیکھیے جہاں کی ہر سیاہ شے بھی سفید ہے۔ امریکی ریاست فلوریڈا کی عدالت نے گزشتہ ہفتے بالآخر سفید فام جارج زمرمین کو ایک سترہ سالہ سیاہ فام کے قتل کے  مقدمے میں بے گناہ قرار دے دیا۔ زمرمین نے 26 فروری 2012ء کی رات ٹریون مارٹن کو محض اس کی رنگت کی بناء پر مشکوک سمجھتے ہوئے گولی مار دی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کے
 خلاف فلاڈلفیا، سان فرانسسکو، شکاگو اور واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکا کے تقریباً ایک سو شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ بدترین نسلی تعصب پر مبنی اس واقعے نے پورے امریکا  کو تاریخ کی عدالت میں برہنہ کھڑا کردیا ہے۔ دنیا کے سب سے روشن خیال اور ترقی یافتہ ملک میں ایک مرتبہ پھر نسلی امتیاز، نظامِ انصاف اور ہتھیاروں کی نگرانی سے متعلق بہت سے  سوالات بآندازِ دگر کھڑے ہوگئے ہیں۔
 
مغرب ایک مکمل دھوکا ہے، اس کی تمام برتری دراصل اُس کے نسلی تسلط کے مکروہ ذہن سے وابستہ ہے۔ یہ تعلیم اور ہمہ گیر ارفع انسانی خیالات و نظریات پر یقین کا معاملہ نہیں، جیسا  کہ بعض روشن خیال دانشور یا پیٹ سے سوچنے والے مفکرین باور کراتے ہیں۔ امریکا اور یورپی اقوام کی نام نہاد ترقی اور روشن خیالی دراصل ایک منظم جبر کا تاریخی سلسلہ ہے، اور کچھ  نہیں۔ یہ نسلی برتری کا ایک حیرت انگیز جنون ہے، جس نے قوت کے ذریعے دنیا بھر کے وسائل کا ہی نہیں بلکہ علم کا بھی استحصال کیا۔ اگرچہ ابراہم لنکن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
“Achievement has no color”مگر حقائق کا ایک رنگ امریکا میں ضرور ہوتا ہے جس کا اظہارادبیات میں نوبل اور ناول میں پلٹزر پرائز پانے والی معروف سیاہ فام ٹونی موریسن (Toni Morrison) نے اِن الفاظ میں کیا تھا:
“In this country American means white.”
 
یہ کسی اور کے نہیں خود امریکی صدر کے الفاظ ہیں، بارک اوباما نے حالیہ واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’ٹریون مارٹن کو نشانہ بنایا گیا تو میں نے کہا تھا کہ یہ میں بھی ہوسکتا تھا۔  باَلفاظِ دیگر آج سے 35 برس پہلے میں خود بھی ٹریون مارٹن ہوسکتا تھا۔‘‘ اوباما نے صرف اتنا ہی نہیں کہا بلکہ یہ بھی کہ معدودے چند ہی افریقی امریکی ہوں گے جنہیں نسلی امتیاز کا کوئی  تجربہ نہ ہوا ہوگا۔ اِن الفاظ میں ماضی اور حال کا امریکا سمٹ آیا ہے۔
 
امریکی تاریخ نسلی جنون میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی تاریخ ہے۔ اب تک کے اعدادوشمار میں یہ بتایا جاتا رہا کہ امریکا نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں 70 لاکھ ریڈ انڈین  (سرخ ہندی) قتل کیے۔ لیکن مائیکل مین کی کتاب “The Dark Side of Democracy”  نے اعدادوشمار کے ذریعے امریکی بہیمیت اور سفاکی کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے۔
 
 مائیکل مین کے مطابق امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سرخ ہندیوں کی تعداد دس کروڑ ہے۔ مصنف کے مطابق مہذب، روشن خیال اور انسانی حقوق کے علَم بردار امریکا کے کم  ازکم پانچ صدور کے جاری کردہ بہیمانہ فرامین کے نتیجے میں امریکا کے اصل باشندوں کو ہلاک کیا جاتا رہا۔ اِن صدور میں جیفرسن، واشنگٹن، جیکسن، لنکن اور روزویلٹ شامل تھے۔ جارج  واشنگٹن نے ریڈانڈین کو بھیڑیے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دونوں وحشی شکاریوں میں صرف شکلوں کا فرق ہے‘‘۔ اُس نے اپنے جنرل کو اِروکوئس (Iroquois) قبیلے پر حملے کا حکم  دیتے ہوئے کہا تھا:
’’اُن کی آبادیوں کی تباہی وبربادی اور اُن کی تمام باقیات کے خاتمے تک امن کا کوئی  نغمہ سننے کی ضرورت نہیں۔‘‘
 
جیفرسن کے دورِصدارت میں ریڈانڈین کی دو لاکھ مربع میل زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ اُس کا حکم یہ تھا کہ ’’دشمن قبائل کی جڑیں کاٹ دو اور اُنہیں مسی سپی سے پرے دھکیل دو… اِن  وحشی قبائل کے مکمل خاتمے کے سوا کوئی بات اہم نہیں۔‘‘ ایک اور امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے ریڈ انڈین کے خلاف اپنے زہریلے ارشادات کا سلسلہ جاری رکھا۔ جیکسن نے بھی اِن  قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھی… اور لنکن کا عہد بھی اِسی نوع کی بدترین نسل کشی کا رہا۔ قتل وغارت گری کے اِس وحشیانہ کھیل سے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں تک کو استثنیٰ نہیں
 ملا۔ سرخ ہندیوں کی کتنی ہی ’’ملالائیں‘‘ کسی عالمی فورم پر تشنہ کلام ہی جانیں ہار بیٹھیں۔ اُن کے مرثیے تک کسی نے نہیں پڑھے۔ محض نسلی امتیاز کی بناء پر ریڈ انڈین کی نسل کشی کے  لیے اُنہیں اقساط میں موت دینے کا نہایت اذیت ناک کھیل کھیلا گیا۔ صرف کیلی فورنیا کی مثال کافی ہوگی جہاں نسل کشی کے بہیمانہ طریقوں نے انسانیت کا سر شرم سے ایسے جھکایا ہے  کہ اب کبھی سر بلند نہ ہوسکے گا۔ امریکی جمہوری درندوں نے سرخ ہندی عورتوں کو مردوں سے علیحدہ کردیا تھا تاکہ اُن کی نسلی افزائش دائمی طور پر رُک جائے۔ اُن میں لواطت کو
 فروغ دینے کی پشت پر یہ مکروہ سوچ تھی کہ بیماریاں اُنہیں گھیر لیں۔ مردوں سے دور کی گئی عورتوں کو کسبیوں کی زندگی جینے پر مجبور کردیا گیا۔ صحت کی سہولتوں سے محروم یہ عورتیں  متنوع بیماریوں کی جب پوٹلیاں بن گئیں تو اُنہیں پھر سرخ ہندی مردوں کی طرف دھکیل دیا جاتا، اور یوں جنسی بیماریاں کمزور صحت اور تولیدی صلاحیتیں سلب کرنے کا محرک ثابت  ہوئیں۔ آمریتیں بہت دور اور دیر تک دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں مگر جمہوری استبداد جب منظم جبر کا روپ دھار لے تو کیا کیا قیامتیں بپا کرسکتا ہے، اس کا اندازہ مائیکل مین کی
 کتاب پڑھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ روشن خیالوں، سائنس پسندوں اور جمہوریت کے اِن علَم برداروں کے منظم جمہوری جبر کا نتیجہ صرف کیلی فورنیا میں یہ نکلا کہ 1848ء  سے 1860ء  تک یہاں کی سرخ ہندی آبادی پندرہ لاکھ سے سکڑ کر صرف اکتیس ہزار تک رہ گئی۔ اِس کے بالکل برعکس اسی عرصے میں وہاں کی سفید فام آبادی 25 ہزار سے بڑھ کر ساڑھے تین  لاکھ ہوگئی۔ سرخ ہندی آبادی میں اِس تنزلی کی اہم ترین وجہ عورتوں کی اپنے مردوں سے بالجبر علیحدگی تسلیم کی گئی۔ یہ مظلوم عورتیں اپنے دشمنوں کے بچوں کو تو جنم دے سکتی تھیں
 
 مگر خود اپنے بچوں کو نہیں۔ ظلم کی اِس لہولہو تاریخ کا حامل امریکا آج ’’ملالاؤں‘‘کی رومانوی تکریم کا شاندار مشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ مگر شرم تو اُن دانشوروں کو نہیں آتی جو  امریکیوں کے پھونکے ہوئے منتروںکو ٹیپ کے بند کی طرح گاتے گنگناتے ہوئے خود امریکا کے اندر جھانکنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کرتے۔ امریکی آموختے سے ترتیب پانے والے ’’ا  ب پ‘‘ پہ ’’نئے یقین‘‘ کی نئی ’’جدوجہد‘‘ کرنے والوں کے لیے ایک اور طرح کی تاریخ بھی سامنے رکھ دینی چاہیے۔
 
کیلی فورنیا کی اسی ریاست میں سترہ بڑے لسانی گروہوں کی دو سو کے قریب زبانیں اور بولیاں تھیں مگر امریکا کی تعلیم پسندی،جمہوریت اور روشن خیالی نے اِن بولیوں اور زبانوں کو بھی  منظم طور پر قتل کردیا۔ اب بنیادی حقوق کے علَم بردار امریکا نے اس ریاست میں صرف دو زبانوں کو باقی رہنے دیا ہے۔ وہاں کے اصل باشندوں کی زبانیں نوہاٹلا، موجاوے، نواجو،  چوکٹو، پِما، اور ہوپی کا کوئی نام ونشان تک باقی نہیں رہ گیا۔ امریکی تب اجتماعی طور پر خود کو حیران پاتے ہیں جب اُنہیںجارج زمرمین کی شکل میں خود کو تولنے ٹٹولنے کا کوئی حیران کن
 لمحہ میسر آتا ہے۔ تب وہ سوچتے ہیں کہ بھلا ہم خود احتسابی کے قابل بھی ہوسکتے ہیں؟ وہ اپنے کووں کو کبھی کالا تسلیم نہیں کرتے۔ مگر نسل کشی کی تاریخ کے یہ تمام کالے کوّے اُن  کی روشن خیالی اور جمہوریت پسندی کی منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرتے رہیں گے۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 737