donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Obaidullah Nasir
Title :
   Aayin Ki Pasdari Ke Half Ki Khelaf Warzi

آئین کی پاسداری کے حلف کی خلاف ورزی


عبیداللہ ناصر


گذشتہ دنوں آگرہ  میں چند نا عاقبت اندیش مسلمانوں نے مبینہ طور سے وشو ہند و پریشد کے ایک مقامی لیڈر کو قتل کردیا تھا اس مجرمانہ حرکت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے پولیس نے جن چار مسلمانوں کو گرفتار کیاہے ان کے خلاف ٹھوس ثبوت اکٹھا کر کے عدالت میں مقدمہ قائم کرکے اور پورے معاملہ کی گہرائی سے چھان بین کر کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے اس معاملہ میں کسی کے ساتھ نہ کوئی مروت کی جانی چاہئے ار نہ ہی کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار جرم اور وہ بھی قتل جیسا بہیمانہ جرم کسی بھی حالت میں ناقابل قبول ہے اور پھر اس طرح کے مجرمانہ واقعات تو در اصل اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے اور اجتماعی خودکشی کے مترادف ہیں کیونکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس وقت پورے ملک میں جارحانہ ہندو تو ابال پر ا?یا ہوا ہے اور بات بے بات پر بڑے بڑے فساد ہورہے ہیں جن میں مسلمانوں کوہی جان و مال کا زبردست نقصان اٹھانا پڑتاہے ان حالات میں اگر چند مسلمانوں نیکوئی مجرمانہ حرکت انجام دی ہے توانہوں نے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی خودکشی اور بربادی کی جانب قدم بڑھانا جرم کو کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں قرار دیا جاسکتاہے خصوصاً ایسے واقعات جو اجتماعی تباہی و بربادی کا باعث بنیں جرم کو مزید سنگین بنادیتے ہیں۔

وشو ہندو پریشد کے اس لیڈر کے قتل کے بعد اگرچہ پولیس نے ملزموں کو گرفتار کر لیاہے لیکن اس کے قتل پر ہوئے تعزیتی جلسے میں مرکزی وزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل رام شنکر کھتریا اور کئی ممبران پارلیمنٹ اسمبلی اور دیگر لیڈروں نے جس طرح کی اشتعال انگیز باتیں کیں اور جس طرح چند سر پھروں کی مجرمانہ حرکت کو پورے ایک فرقہ کا جرم قرار دے کر اس فرقہ سے بدلا لینے اور کھلے عام ڈرانے دھمکانے والے بیانات دئے وہ من و عن انگریزی روز نامہ انڈین اکسپرس نے شائع کردیاتھا دوسرے دن راجیہ سبھا میں کانگریس کے غلام نبی آزاد سی پی ایم کے سیتارام یچوری سمیت اپوزیشن کے سبھی لیڈرواں نے آگرہ میں مرکزی وزیر حکمراں جماعت کے ممبران پارلیمنٹ واسمبلی کے ان اشتعال انگیز بیانوں پر حکومت کو گھیرا جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دیدہ دلیری کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مذکورہ تعزیتی جلسے کے ویڈیو دیکھے ہیں اور اس میں انہیں کوئی قابل اعتراض بات نہیں دکھائی دی حالانکہ رام شنکر کتھریا نے پہلے خود اپنے اشتعال انگیز بیان کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈر کے قتل سے علاقہ کے ہندو ئوں میں زبردست ناراضگی پائی جاتی ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی تقریر میں کیا تھا لیکن بعد میں جب اخبار نویسوں نے ان کو بری طرح گھیر لیا تو انہوں نے پلٹی مارتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کسی فرقہ کا نام نہیں لیا تھا حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان کا اور ان کے دیگر ساتھیوں کا روئے سخن کس جانب تھا۔

رام شنکر کتھریا اور دیگر لیڈروں کے ایسے اشتعال انگیز بیان کو ئی نئی بات نہیںہیں مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اس طرح کے فرقہ پرست عناصر کو کھیل کھیلنے کا موقع ملا ہے یوگی ادتیہ ناتھ ہوں یا ساکشی مہاراج یا دوسرے لیڈر ان یہ سب آئین ہند کی حلف لینے کے باوجود اپنے زہریلے بیانوں سے ملک کے سماجی ماحول کو پراگندہ کرتے رہتے ہیںجس سے ہندستانی مسلمانوں کو ذہنی اذیت اورکرب میں مبتلا کرتے وہ کوئی ذہنی آسودگی بھلے حاصل کرلیں مسلمانوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچارہے ہیں اس کے برخلاف ان کی ان بے ہودہ حرکتوں کی قیمت ان کی پارٹی کو ہی ادا کرنی پڑ رہی ہے اور عالمی برادری میں ہندوستانی کی پوزیشن خراب ہوتی ہے جس کی تازہ ترین مثال دہلی اور بہارکے بعد  یوپی قانون ساز کونسل کے الکشن میں بی جے پی کی ذلت آمیز شکست اور امریکی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سیملک میں اقلیتوں کے حقوق کو لے کر مودی جی کو لکھا 

جانے والا خط ہے۔

یہی نہیں حقوق انسانی کے لئے سرگرم عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا بھی کہنا ہے کہ ہندستان میں حکمران جماعت کے کچھ رہنمائوں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کا چلن تشویش ناک ہے ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ حکومت ہند ملک میں اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی عالمی رپورٹ 2016 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندستان میں حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔اس رپورٹ میں 90 سے زیادہ ممالک میں حقوق انسانی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیاہے۔رپورٹ کے مطابق جہاں ہندستان میں  بر سر اقتدر بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماو?ں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے وہیں ہندو قوم پرست گروپوں کی جانب سے انھیں ہراساں بھی کیا جاتارہا اور کچھ واقعات میں نوبت اقلیتوں پر حملوں تک بھی جاپہنچی۔جنوبی ایشیا کے لئے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر مینا کشی گنگولی نے کہا کہ حکومت ہند کی جانب سے تنقید کو دبانے کی کوشش ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچارہی ہے۔انہوںنے کہا کہ ’انکار یا جوابی رد عمل کے بجائے حکومت کوبرداشت اور پرا من مباحثے کو فروغ دینا چاہئے اور تشدد کرنے یا اسے فروغ دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے۔

وزیر اعظم نریندر مودی بارہا سب کا ساتھ سب کا وکاس اپنی حکومت کی پالیسی قرار دیتے رہیہیں لیکن اپنی ہی پارٹی کے ان لیڈروں کے بیان کے خلاف کارروائی کرنا تو در کنار ان کے خلاف نہ کبھی بولے اور نہ اس کی مذمت کی جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ سب کچھ ان کی خاموش منظوری سے ہورہاہے اور وہ اس معاملہ میں دوہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ مرکزی وزرائ￿ اور ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کے فرقہ وارانہ بیانات اس حلف کی کھلی خلاف ورزی ہیں جس کی پاسداری کا حلف ان لوگوں نے عہدہ سنبھالتے وقت لیاتھا۔صدر جمہوریہ ہند اور ملک کے چیف جسٹس نہ صرف ا?ئین ہند کے پاسبان بلکہ اس پر عمل در آمد کے بھی ذمہ دار ہیں اگر مودی حکومت ان عناصر خصوصاً مرکزی وزیروں اور ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی نہیںکرتی تو صدر جمہوریہ اور چیف جسٹس کو از خود ان بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے کیونکہ اصل ملک دشمن یا راشٹردروہی تو یہی لوگ ہیں جو ملک کی سماجی ہم ا?ہنگی کو نقصان پہنچاکر اسے اندرسے کھوکھلا کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

(یو این این)

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576