donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Ayaz Ahmad Roohvi
Title :
   Mianamar : Masoom Musalmano Ka Maqtal

 

میانمار :معصوم مسلمانوں کا مقتل 
 
سید ایازاحمد روہوی ، کلکتہ
 ( Mob:09339150332) 
 
میانمار (سابق برما ) میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ ترکی کے محکمہ مذہبی امور اور مختلف غیر جانب دار نیوز ایجنسیوں کی اطلاع کے مطابق میانمار میں اب تک ہزاروں نہتے مسلمانوں کا قتل کیا جاچکا ہے اور قتل عام کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے اس قتل عام کے خلاف کوئی سخت ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے میانمار کے دہشت پسند بدھسٹوں کے حوصلے زیادہ بلند ہوگئے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام اور مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی میں شدت پیدا کردی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میانمار سے مسلمانوں کے وجود کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے بلکہ کئی مسجدوں کو شہید کردیئے جانے کی خبر موصول ہوئی ہے۔ ان تمام واقعات کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک جانب میانمار میں شدت پسند بدھسٹ جس میں بدھ بھکشو بھی شامل ہیں، روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، ان کے گھروں میںآگ لگا رہے ہیں، ان کی عبادت گاہوں کومنہدم کر رہے ہیں اور انہیں وطن سے بے وطن کررہے ہیں تو دوسری جانب مسلم ممالک کے سربراہان انتہائی خاموشی کے ساتھ اس ظلم و بربریت کے رقصِ شیطانی کو بڑی بے غیرتی کے ساتھ تماشائی بنکر دیکھ رہے ہیں۔ ان کی ملی حمیت اور غیرت اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ وہ میانمار کے اپنے دینی بھائیوں کے قتل عام کے خلاف کسی طاقت کا استعمال تو دور کسی طرح کاسیاسی یاسفارتی دبائو بنانے سے بھی قاصر ہیں۔ عالمی برادری بھی تعصب کا ذلیل ترین مظاہرہ کرتے ہوئے قتل عام کا تماشادیکھ رہی ہے۔ اپنا ملک ہندستان نے بھی کوئی ردعمل ابھی تک ظاہر نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان تو خود انتشار کا شکار ہوکر اپنے وجود کو بچانے کی فکرمیں ہے اس لئے ان خلفشار زدہ ملکوں سے کسی ردعمل کی امید کرنا فضول ہے۔ میانمار ان ملکوں کے پڑوس میں واقع ہے۔ ہندستان کی مسلم تنظیمیں بھی میانمار کے مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ظلم کے خلاف کوئی موثر تحریک یا پھر ملکی سطح پر احتجاج درج کرانے سے قاصر ہیں جبکہ مصر کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازہر نے میانمار میں معصوم مسلمانوں قتل عام کے خلاف دنیابھرمیںموجود میانمار کے سفارتخانوں   کے باہر پرامن احتجاج نیز گھیرائو کا مطالبہ کیا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ابتک دنیا کے کسی بھی ملک میں میانمار کے سفارتخانہ جاکر احتجاج درج نہیں کرایا گیا ہے اورنہ ہی کسی ملک نے میانمار سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ میانمار ایک دہشت گرد قاتل ملک ہے کیونکہ اس ملک کا صدر مسلمانوں کے قاتلوں کا دوست اور مسلمانوں کو ملک بدرکردیئے جانے کا زبردست حمایتی ہے۔ وہ اپنے ملک کے مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے قاتلوں کو مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ میانمار کا شیطان صفت صدر تھین سین انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ میانمار کے روہنگیا مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جائیں ۔ اس ظالمانہ بیان کے بعد بدھسٹ بھکشوئوں نے مسلمانوں پر پورے زور وشور کے ساتھ بزن بول دیا ہے۔ 
 
حملے صرف روہنگیا مسلمانوں پر نہیں کئے جارہے ہیں۔ بلکہ اب سارا میانمار اس حملے کی زد میں ہے۔ بودھ بھکشوئوں کے ذریعہ چلائے جارہے اس نسلی اور مذہبی تشدد نے اشارہ دے دیا ہے کہ اب پورے خطہ میں یہ آگ مزید سلگے گی اور ایسا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ خبروں کے مطابق سری لنکا کے کولمبو میں کپڑوں کی ایک مشہور دکان اور فیکٹری پر حملہ کرکے آگ لگادی گئی جوایک مسلمان کی تھی۔ اس دوران پولس خاموش تماشائی بنی رہی۔ 
 
میانمار کے بعد تشدد کی آگ نے سری لنکا کو ا پنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں تشدد پسند بدھسٹوں نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔ ویسے سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کوئی نیا نہیں ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف فساد کا اثر سری لنکا میںنظر آگیا ہے، اب یقینی طورپر اس فساد کے اثر سے تھائی لینڈ ،ملیشیا اور انڈو نیشیا بھی بچ نہیں سکتے۔ جہاں تک انڈونیشیا اورملیشیا کا تعلق ہے تو دونوں مسلم اکثریت والے ممالک ہیں جہاں بدھسٹ اپنی مکمل آزادی کے ساتھ رہتے ہیں مگر اب اس بات کا خدشہ ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھتے ہوئے ملیشیا اور انڈونیشیا میں انتقامی کارروائیوں کاسلسلہ شروع ہوا تو اس کو روکنا مشکل ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ میانمار کی مسلم دشمن حکومت ہوش میں آئے اور شرپسند بدھسٹوں کو قابو میں کرے ورنہ دوسرے ملکوں میں اسکی قیمت چکانے کے لئے تیار رہے۔ 
 
میانمار میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ صرف وہاں کی حکومت بلکہ بودھ مذہب پر بھی بدنما داغ ہے۔ گوتم بدھ کی تعلیم کو عام بدھسٹ تود ور کی بات بدھسٹ راہبوں نے بھی یکسر بھلا دیا ہے۔ اگر وہ گوتم بدھ کی تعلیم کویاد رکھتے تو پھر یقینا مساوات اور بھائی چارگی کے سبق کو فراموش نہ کرکے ملک کی ایک کمزور اقلیت مسلمان کے خلاف قتل عام کی تحریک نہیں چلاتے۔ ہندستان میں آکر یہی بدھسٹ اپنی سادگی، نرمیت اور عبادت و ریاضت کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اگریہ واقعی بودھ مذہب کے سچے پیروکار ہوتے تو آج آئے دن میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں ہورہا ہوتا۔ ہم لوگوں نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات میں اعتدال پسندی کو زیادہ اہمیت دی تھی مگر آج ان کے ماننے والے خصوصی طورپر بودھ راہب گوتم کے تمام مذہبی اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ظلم وبربریت کا عریاں مظاہرہ کررہے ہیں۔ عمل اور عدم تشدد (اہنسا) بودھ مذہب کا بنیادی اصول ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بودھ مذہب کا خاتمہ قریب ہے جبھی تو بودھ مذہب کے  پیروکار اپنے مذہبی احکام اور اصول کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں اور بودھ مذہب کے عدم تشدد کے فلسفے کو ترک کرکے اس مذہب کو اندھے کنویں میں غرق کرنے پر آمادہ ہیں۔ 
 
مغربی میڈیا نے میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے موضوع پر ایک دم چپی سادھ رکھی ہے۔ دوسری طرف ساری دنیا کے ٹھیکہ دار امریکہ نے میانمار کے تشدد پر گول مول رویہ اختیار کررکھا ہے کیونکہ اسے چین کے خلاف میانمار کو مہرہ بنانا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش بھی میانمار کے مسلمانوں کے معاملہ میں خاموش ہے تو اب بھلا کوئی بتائے کہ پھر کس سے امید کی جاسکتی ہے۔ بنگلہ دیش اگر چاہتا تو اپنے پڑوسی ملک میں مسلمان بھائیوں کے قتل عام کاسخت نوٹس لیتا مگر بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی صورت میں وہاں ایک  ملحدانہ حکومت قائم ہے جہاں مذہب اسلام کے شیدا ئیوں اور داعیان اسلام پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیاہے پھر ا یسی ملحدانہ حکومت سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ 
میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کاسب سے بڑا ویلن اور اپنے وقت کا نمرود ایک تشدد پسند بدھسٹ راہب ویرا تھو ہیجو خود کو برمی بن لادن کہتا ہے اور میانمار میں مسلمانوں کے خلاف اس نے ایک بڑی مہم چھیڑرکھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بہت جارح رویہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ میانمار میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مسلمان اس سے قبل کئی بدھسٹ ممالک پر قبضہ کرچکے ہیں اس لئے میانمار میںان کی نسل کشی کرکے انہیں روکنا ضروری ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میانمار میں مسلمان صرف 5فیصد ہیں۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں جو صدیوں سے اس خطہ میں رہ رہے ہیں پھر بھی انہیں مکمل شہریت سے محروم رکھا گیا ہے اور اب انہیں زندگی سے ہی محروم کردیا جارہا ہے۔ گوتم بدھ بے شک امن اورمساوات کے پیامبر تھے لیکن آج میانمار ، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں انہی کے ماننے والے راہبوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعے کی تاریخ گواہ بن رہی ہے۔ شاید پھر کسی کو پھرکسی کا امتحان مقصود ہے۔
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
**************
Comments


Login

You are Visitor Number : 564