donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Farooq Ahmad
Title :
   Barma Ke Haalaat Se Sabaq Len

سوشل میڈیا کے مجاہدبننے سے بہتر ہے کہ عملی اقدامات کی جانب غوروفکر کریں


دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو جو عزم و ہمت رکھتے ہیں


برما کے حالات سے سبق لے کر ہم اپنے طور پر مکمل تیاری کا عزم کریں


تحریر:سید فاروق احمدسید علی

اورنگ آباد مہاراشٹر9823913213

sfahmed.syed@gmail.com

 


محترم قارئین کرام۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔


امید کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔اور ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کے حالات اور خصوصاً برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ظلم وجبر کی داستان سوشل میڈیا پر پڑھ اور دیکھ کر کافی غمزدہ بھی ہوںگے کیونکہ تمام مسلمان ایک فرد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھوںمیں تکلیف ہوجائے تو وہ خودپورا تکلیف میں مبتلائ￿  ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے تووہ خودپورا تکلیف میں مبتلائ￿  ہوجاتا ہے۔ (مسلم)ایک جسم کی مانند جتلانے سے یہ حدیث مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے قربت کا احساس دلاتی ہے یہاں تک کہ ایک  واحدمسلم فرد کے درد میں تمام مسلمان شریک ہوتے ہیں اور وہ اس کے درد کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی جسم کے حصے ہیں چاہے وہ کسی بھی وطن سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی زبان کے بولنے والے ہوں یا کسی بھی نسل سے ہوں۔ یہ تمام روایتیں قران کی آیتوں کے ان حصوں کی مزید وضاحت کرتی ہیں جو یہ بتلاتی ہیں کہ صرف مومنین ہی آپس میں بھائی ہیں ( الحجرات) اور مومنین آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحمت ہیں(الفتح)۔ پہلی روایت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق پر زور دیتی ہے اورآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرنے پر اکساتی ہے اورانہیں گناہوں کے علاوہ ہر عمل میں ایک دوسرے کے مددگاربتلاتی ہے۔چنانچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا تحفظ اور ان کا امن وامان اْن کا مشترک معاملہ ہے جس سے وہ سب یکساں طور پر متاثر ہوتے ہیں۔لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے ایک عام مسلمان یہ پوچھ رہا ہے کہ ہم کیا کریںدعا کریںیا دوا کریں اگر دوا کریں بھی تو کس طرح۔۔۔۔۔۔؟؟؟

لیکن دوسری طرف دیکھاجائے تو ہماری قوم کے سوشل میڈیا کے مجاہدین کا حال یہ ہے کہ انہیں جمعہ مبارک کے میسجز بھیج کر جنت مل جانیکا یقین ہے۔انہیں اپنے تحفظ کی بھیک ایسے گروہ سے مانگنی پڑ رہی ہو جواسکا جانی دشمن ہے۔انہیں عملی بھاگ دوڑ کی بجائے درودو?وں کے تحفے بھیجنے پر جنت کی حوروں کی رفاقت کایقین ہے۔ایک پوسٹ شیئر نہ کرنے پر خارج از اسلام کرنے یا ہونے کی لت لگ چکی ہے۔انہیں یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ کلام اللہ ایک جھاڑ پھونک کی گائڈہے ،بیماری سے شفا،دکان ومکان کی حفاظت اور تجارت وکاروبار کی خیرو برکت کی کتاب ہے ، مزید برآں مردوں پر پڑھا جانے والا ایک نوشتہ ہے۔جس قوم کو قرآن کریم کے مکمل نظام حیات ہونے کے مفہوم سے ایسے دور ہٹادیا گیاہو جیسے کہ کم سنی میں بچوں کو مضرت رساں اشیائ￿  سے دور ہٹادیاجاتاہے۔جس قوم کے رہنماو?ں کا سیاسی شعور اس حد تک گر چکا ہو کہ وہ اپنے محبوب نبی کی شان میں گستاخی کوسیاسی مسئلہ کہہ کر ٹال دیا کرتے ہو۔جس قوم کا بچہ بچہ (اصل راہزنوں کو راہبر اور)اصل راہبروں کو راہزن کہتے نہ تھکتا ہو،اور ذرہ برابر نہ ہچکچاتا ہو۔تو کیا کبھی ایسی افسردہ و پڑمردہ قوم میں عمربن عبدالعزیز، محمدبن قاسم، صلاح الدین ایوبی، محمد بن فاتح اور محمودغزنوی جیسے جانباز غازیان کا پیدا ھونا ممکن ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟

مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی مشہور کتاب غبارِ خاطر میں قوموں کے عروج و زوال میں ان کے رویوں پر مبنی کچھ نہایت عبرت انگیز واقعات پیش کئے ہیں۔جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ یوروپ کے اْجڑ وحشی پوپ کی مسلط کردہ صلیبی جنگ کا ایندھن بن رہے تھے۔ عین اْن دنوں کا واقعہ ہے جب مسلمان اور صلیبی لشکر مصر کی سر زمین پر ا?منے سامنے تھے۔ اْس وقت صلیبیوں کی حالت ایک صلیبی نائٹ نے ان الفاظ میں بیان کی ہے۔ ایک رات ہم دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی برجیوں پر پہرہ دے رہے تھے، تو اچانک دیکھا کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہیں، لا کر نصب کر دیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہو گئے۔ ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت پادشاہ سنتا تھا، تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے ہوئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر نجات دہندہ سے التجائیں کرتا۔ مہربان مولیٰ! میرے آدمیوں کی حفاظت کر! لیکن بالاآخر کوئی دْعا بھی سْودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ صلبیوں نے تاریخی شکست کھائی اور لاکھوں لاشیں چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کرنا پڑی۔اور دوسری طرف یہ لکھا کہ۔۔۔اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علمائ￿  کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ علماء ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کر دینا چاہئے کہ انجاحِ مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اور عرب پر غلامی کے دور کا ا?غاز ہو گیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیرِ بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اْدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں۔ اِدھر لوگ ختمِ خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے، "یا مقلب القلوب یا محوّل الاحوال" کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالاآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا۔ جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو، دوسری طرف ختم خواجگان!

دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ وسائل بہم پہنچاتے اور اْن کا بہترین استعمال کرتے ہیں، بے ہمتوں کے لیے دعا ترکِ عمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ ہوتی ہے۔

(اقتباس: غبارخاطر)
مولانا کی باتیں دانشوروں کی باتیں سب سر ا?نکھوں پر مگر یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ روہنگیا مسلمان مزاحمت کیوں نہیں کر رہے ہیں۔اور موجودہ حالات میں دفاع کے ساتھ ساتھ حملہ کرنے کا بھی وقت ہے تواگر روہنگیا مسلمان کم از کم ایک کے بدلے ایک کو بھی مارے ہوتے تو اب تک لاکھوں ظالم مر چکے ہوتے اور تہلکہ مچ جاتایہ تو صحیح وقت تھا مسلمانوں کے جذبہ بہادری اور شوق شہادت کے ظاہر ہونے کاپھر یہ رحم کی بھیک مانگنا اور اسی پر اکتفا کر لینا کہاں سے سیکھ گئے ؟؟
کیا انہیں پتا نہیں ہے مسلم دنیا کے حکمران اب بزدل اور ناکارہ ہیں ؟؟؟


موجودہ حالات میں تو بچہ بچہ اشتعال میں ہونا چاہیے تھا۔ہندوستان و پاکستان انڈونیشیا او رملیشیاء کے مسلمانوں….!!!!!! حالات کو دیکھ کر اب تم سب تیاری کر لو۔عنقریب برما کی تاریخ ہم پر دہرائی جانے والی ہے۔ہمیں کچھ باتیں سیکھنی ہے موجودہ حالات سے ہمیں کسی مسلم ملک یا حکمران سے مدد کی بھیک نہیں مانگنا ہے کیوں کہ کوئی نہیں آنے والا یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کے مرنا تو ہے ہی مگر دشمن کو مار کر کم از کم ایک کے بدلے ایک کا عدد یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھا دیں جنگ بدر کی تاریخ یاد رکھیں ،ہتھیار کی کمی اور دشمن کی تعداد کی زیادتی اہل ایمان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی موقع آنے پر زمین کی مٹی اٹھا کر دشمنوں کی آنکھ میں جھونک کر انہیں کا ہتھیار ان سے چھین کر لڑا جا سکتا ہیاب وقت صرف قوم کے جوانوں کا نہیں بچوں عورتوں اور بوڑھوں کے لڑنے کا بھی ہیاپنے گھر کی عورتوں اور بچوں اور جوانوں کی ذہن سازی اور تربیت شروع کر دیں اب  رحم کی اور مدد کی بھیک مانگنے کی عادت چھوڑ دیں اور اپنی مدد آپ کرنا سیکھیںابھی تو قومی ترانہ اور تین طلاق جیسے مسائل میں الجھا کر ہمیں ذہنی طور پر مغلوب کیا جا رہا ہے 
پھر جسمانی طور پر بھی غلبہ پانے کی کوشش بھی ہو گی ہی
تو پہلے سے تیاری کر لینا چاہیے ہمیں
کم از کم اپنی ذہن سازی کر لینی چاہیے کہ ہمارا نمبر آنے ہی والا ہے
بچوں کو تربیت گاہ بھیجیں اب مارشل آرٹ،کْشتی،چھلانگیں لگانا،حملہ کرنا ،دفاع کرنا،خالی ہاتھ ہوتے ہوئے ہتھیاروں سے مسلح لوگوں سے لڑنا۔۔وغیرہ

اللہ کا واسطہ اب تو جاگ جاو? مسلمانوںکیا برما کے حالات دیکھ کر بھی آنکھ نہیں کھل رہی ہے ؟؟ہر قسم کی تربیت سے آراستہ فوج سیدھے سادے مسلمانوں پر حملہ کر رہی ہے برما میں۔۔اپنا سوچیں ہم لوگ کیا تربیت یافتہ ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ تیاری ہے ؟؟؟ہوش میں آ جائیں اب اور اپنی اپنی تربیت شروع کریں ،ذہن سازی کریں فن سپہ گری جو ہمارے اسلاف سے ہم تک منتقل ہوا اور ہم نے گنوا دیا اسے پھر سے بحال کریں نئے زمانے کے اعتبار سے نئے انداز کے دفاعی طریقے دریافت کیجیے برما کے مسلمانوں کی فکر و مدد کے ساتھ ساتھ اپنی تیاری بھی شروع کیجیے۔

عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ:
قتلت یوم قتل الثور الابیض *(میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا)۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی.  ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا. ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے.۔شیر نے ایک چال چلی* لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا. لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی.۔  لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا. پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا بہت آوازیں دیں پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا. مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا۔وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا۔ تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا.  جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو  لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا)۔امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے. سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی. کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں. 
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا. 
ہم نے باری باری افغانستان عراق فلسطین شام بوسنیا چیچنیا کشمیر برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضائ￿  کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر "بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی. 
ذرا غور کیجییئ￿  بھائی کہ کہی ہم سب بھی لال بیل تو نہیں بن گئے ہیں...!!!* 
اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ: قتلت یوم قتل الثور الابیض ""مومنوں متّحد ہوجاو?۔ہمارے نوجوانوں سے خصوصاً کہونگا کہ وہ سوشل میڈیا کے مجاہدبننے کے بجائے حقیقی معنوں میںعملی میدان میں آگے آئیںعلماء  رہنمائی میں اپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کریں۔بے جا اور فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے بجائیدین اسلام کی حفاظت اور اس کی سربلندی کے لئے نئے نئے پلان تیار کیجئے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں باتیں کرنے سے زیادہ عملی اقدامات کی طرف غوروفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بولا چالا معاف کرا زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔
دعا کی خصوصی درخواست۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ حافظ

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 674