donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Fazil Hussain Perwez
Title :
   Rah Gayi Rasm AzaN Rooh Belali Na Rahi


رہ گئی رسم اذاں روح بلالیؓ نہ رہی


ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

چیف ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘حیدرآباد۔

فون:9395381226


    ابھی چند دن پہلے کی بات ہے!

    ایک ادارہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ شہ نشین پر چند نامور مسلم سیاسی قائدین، ماہرین تعلیم اور سماجی کارکنان تشریف فرما تھے۔ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا‘ ایک غیر مسلم سرکاری عہدیدار نے تقریر شروع کی ہی تھی کہ قریب کی مسجد میں اذان کی آواز بلند ہوئی۔ کسی نے توجہ نہیں دی‘ ایک لحیم شحیم نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور شہ نشین کے قریب آکر تقریر روکنے کے لئے کہا۔ غیر مسلم مقرر کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اس نے شہ نشین پر موجود حضرات کی طرف دیکھا۔۔۔ ایک صاحب نے اشارہ سے سمجھایا کہ اذان ہورہی ہے۔ کچھ دیر تقریر روک دی جائے۔ غیر مسلم مقرر احتراماً ’’اٹینشن‘‘ ہوگیا۔۔۔ پھر چونک کر شہ نشین پر بیٹھے حضرات کی طرف دیکھنے لگا‘ اس کی آنکھوں میں حیرانی کے سائے لہرانے لگے۔۔۔ کیوں کہ جس شخص نے اشارہ سے اذان کے دوران خاموشی اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ اب وہی مسلم سیاستدان کے ساتھ قہقہے لگارہا تھا۔ اس مقرر نے ایک نظر اس نوجوان پر ڈالی جس نے کھڑے ہوکر تقریر روکنے دینے کے لئے کہا تھا مگر اسے مایوسی ہوئی کیوں کہ وہ نوجوان اپنی نشست پر بیٹھا اپنے موبائل پر یا تو کوئی ’’گیم‘‘ کھیل رہا تھا یا کوئی ویڈیو کلیپنگ دیکھنے میں مشغول تھا۔

    اذان کی آواز سنائی دیتی رہی۔۔۔ لوگ جن میں بیشتر مسلمان ہی تھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔۔۔ اور وہ بے چارہ غیر مسلم مقرر شاید یہی سوچتا کھڑا رہ گیا کہ ’’اذان‘‘ شاید مسلمان کے لئے گپ شپ کا ’’بریک‘‘ ہے اور اس کا احترام شاید غیر مسلم کے لئے لازم ہے۔۔۔

    اذان ختم ہوئی۔ شہ نشین پر بیٹھے نالائق مسلم سیاستدان‘ ماہرین تعلیم نے بھی گپ شپ ختم کی۔۔۔ اور پھر غیر مسلم عہدیدار نے تقریر مکمل کی۔

    جب تک تقریب جاری تھی وہ بے چارہ اپنے خیالات میں گم صم بیٹھا رہا۔ یقینا اس کے ذہن میں کئی سوال ابھر رہے ہوںگے کہ یہ کیسی قوم ہے جو اپنے مذہبی رسومات کے احترام کے لئے دوسری اقوام کو تو مجبور کرتی ہے مگر خود اس کا احترام نہیں کرتی۔۔۔

    اذان کے احترام کے نام پر ملک میں کئی بار فسادات ہوچکے ہیں۔۔۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کی اکثریت ہمارے مذہبی جذبات کا احترام کرتی ہے‘ چند شیطان کے پجاری مذہبی دل آزاری کرتے ہیں۔۔۔ پندرہ بیس برس پہلے تک مسلم شادیوں میں بارات کے ساتھ بینڈ باجے کا رواج عام تھا۔ اگر بارات ہندو کی بھی ہوتی تو مسجد کے قریب بینڈ نوازی روک دی جاتی۔۔۔ اور کئی بار مسجد کے قریب بینڈ نوازی کی وجہ سے فسادات بھی ہوئے۔ تلنگانہ کے ایک گائوں میں اکثریتی طبقہ کی روٹی روزی بینڈ باجے پر ہی تھی۔۔۔ جب فرقہ پرستی کی وبا پھیلنے لگی تو بینڈ باجے والے بھی اس سے متاثر ہوئے اور ایک مرتبہ انہوں نے مسجد کے سامنے کافی دیر تک بینڈ بجایا۔۔۔ گائوں کے مسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ خاموشی اختیاری کی۔۔۔ تاہم اس کے بعد اپنی شادی بیاہ کی تقاریب میں بینڈ باجہ ترک کردیا۔۔۔ ظاہر ہے کہ روٹی روزی کا سوال تھا۔۔۔ اکثریتی طبقہ کے لوگوں نے معافی مانگی حتیٰ کہ مسلمانوں کے پیر تک پکڑ لئے۔۔۔

    حیدرآباد کے ہندو بھائیوں کی اکثریت مساجد اور اذان کی آواز کا احترام کرتی ہے۔۔۔ ہندو تہواروں کے موقع پر لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ گانے بجانے کی آواز بلند ہوتی ہے۔ بیشتر مقامات پر اذان کے ساتھ یا تو آواز کم کردی جاتی ہے یا پھر کچھ دیر کے لئے روک دی جاتی ہے۔۔۔

    ’’لائوڈ اسپیکر پر اذان پر پابندی کے لئے کئی بار آوازیں اٹھائی گئیں۔۔۔ مسلمانوں نے متحد ہوکر اس کی مخالفت کی۔ کیوں کہ اسے  وہ اپنے مذہبی حقوق پر کاری ضرب سمجھتے ہیں۔ امریکہ اور بیشتر یوروپین ممالک میں اذان اور خطبات لائوڈ اسپیکر پر نہیں دیئے جاتے بلکہ مسلم گھروں میں اسپیکرس نصب ہیں اور ریڈیائی سسٹم کے ذریعہ مساجد سے مسلم گھروں میں اذان اور جمعہ کے خطبات نشر ہوتے ہیں۔ اذان کے مسئلہ پر ہم نے سکندرآباد کی مسجد کے امام اور مندر کے پجاری کے درمیان کے تنازعہ اور عدالت کے ذریعہ اس کی یکسوئی کا ایک واقعہ اپنے بڑوں سے سنا تھا۔ آپ نے بھی سنا ہوگا

    سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کے قریب مسجد اور مندر ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ اذان اور نماز کے اوقات کے دوران مندر میں گھنٹی بجانے اور اشلوک پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ جس سے مسلمانوں کی عبادت کا خشوع و خضوع متاثر ہونے لگا۔ معاملہ عدالت میں پیش ہوا۔ جج صاحب (غالباً جسٹس تارکنڈے) نے تمام واقعات کی سماعت کے بعد پجاری اور امام صاحب کو طلب کیا۔ سوال کیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ امام صاحب نے بتایا کہ اذان کے ساتھ ہی مندر سے بھجن لائوڈ اسپیکر پر شروع کیا جاتا ہے‘ نماز کے اوقات میں بھی یہ جاری رکھتے ہیں‘ جس کی وجہ سے نہ تو اذان سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی نماز سکون سے ادا کی جاسکتی ہے۔ پجاری نے کہا کہ مسجد سے اذان کی آواز سے مندر میں پوجا میں خلل پررہاہے۔

    جج صاحب نے پجاری سے کہا کہ وہ بھجن سنائے۔ پجاری نے فوری بھجن شروع کردیا۔ اس کے بعد جج نے امام صاحب سے کہا کہ وہ اذان کہے۔ امام صاحب نے کہا۔۔۔ جناب عالی اذان کے اوقات مقرر ہیں۔۔۔ ہر وقت اذان نہیں جاسکتی۔

    جج نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔ چوں کہ اذان صرف مقررہ اوقات ہی میں دی جاتی ہے اور بھجن کبھی بھی پڑھا جاسکتا ہے اس لئے اذان اور نماز کے اوقات میں مندر کے لائوڈ اسپیکر سے بھجن روک دیا جائے۔

    یہ ہمارے عدلیہ کی غیر جانبداری۔۔۔ رواداری اور سیکولر کردار کی بہترین مثال ہے جس کی ہم ستائش کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اذان کا احترام کرتے ہیں۔۔۔ اذان صبح سے رات تک پانچ بار مسجد کے میناروں سے مؤذن یہ اعلان کرتا ہے۔۔۔ اور ہمیں یاد دلاتا ہے۔۔۔

اللہ اکبر اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)، اشھد ان لا الہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی بندگی کا حقدار نہیں)، اشہد ان محمدا رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں)، حی علی الصلوٰۃ (آئو نماز کے لئے)، حی علی الفلاح (آئو بھلائی کی طرف)، اللہ اکبر  اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)، لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)۔

    مؤذن کی آواز ہمارے ایمان کو تازہ کرتی ہے۔۔۔ یہ احساس دلاتی ہے کہ سوائے رب العزت کے کوئی بڑا نہیں۔۔۔ سب اس کے بندے ہیں۔۔۔ اس کی عبادت کرو۔۔۔ کیوں کہ اس میں دنیا اور آخرت کی سرخروئی ہے۔ اذان‘ نماز کی ادائیگی کے لئے وقت کا تعین بھی ہے اور یاددہانی بھی۔۔۔۔

    مولانا مودودی نے تفہیم الاحادیث (جلد سوم) میں اذان کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب نماز باجماعت کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا تو اول اول اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت اس بارے میں نہیں آئی تھی کہ نماز کے لئے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ بعض لوگوں نے رائے دی کہ آگ جلائی جائے تاکہ اس کا دھواں بلند ہوتے دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ نماز کھڑی ہورہی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں نے ناقوس بجانے کی رائے دی۔ لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ پہلا یہودی کا اور دوسرا طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ اس دوران حضرت عبداللہ بن زبیر انصاری ص نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ناقوس لئے جارہا ہے انہوں نے اس سے کہا اے بندہ خدا یہ ناقوس بیچتا ہے؟ اس نے پوچھا اس کا کیا کروگے؟ آپؓ نے کہا کہ نماز کے لئے لوگوں کو بلائیںگے۔ اس نے کہا میں اس سے ا چھا طریقہ تمہیں بتلاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے اذان کے الفاظ انہیں بتائے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنا خواب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا آپ ا نے فرمایا یہ سچا خواب ہے۔ اٹھو اور بلال کو ایک ایک لفظ بتاتے جائو، یہ بلند آواز سے پکارتے جائیںگے۔ جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عمرؓ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ خدا کی قسم آج میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ حضورا نے فرمایا فللہ الحمد۔

    نماز کے لئے اذان کا طریقہ مشورے سے نہیں بلکہ الہام سے ہوا۔۔۔ مولانا مودودی کے مطابق مشکوٰۃ اور دوسری کتب حدیث میں جو روایات آئی ہیں ان کی روشنی میں جس روز ان صحابیوں کو خواب میں اذان کی ہدایت ملی ہے اسی روز خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی بذریعہ وحی یہ حکم آگیا تھا۔

    بہرحال اذان سن کر شیطان مردود دور بھاگ جاتا ہے اور پھر تکبیر ختم ہوتے ہی واپس آکر وسوسے ڈالنے لگتا ہے۔ اذان۔۔۔ مسلمانوں کی وحدت کی پہچان ہے۔ اِدھر مسجد کے مینار سے صدا بلند ہوئی۔۔۔ ادھر مسلمان جوق در جوق مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔ یہ کل تک کی بات ہے۔ آج حالات بدل گئے ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی والے محلوں میں بھی جہاں ہر چند قدم پر مساجد ہیں اذان کی آواز گونجتی ہے۔۔۔ احتراماً کسی نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر ٹوپی پہننے کی رسم ادا کی۔۔۔ خواتین نے سر پر دوپٹہ سیدھا کرلیا۔۔۔ بس ختم۔۔۔

    پہلے مائیں اذان کے ساتھ بچوں کو مسجد کے لئے بھیج دیا کرتی تھیں۔۔۔ اب وہ روایت بھی ختم ہونے لگی۔ پہلے اذان کی آواز کے ساتھ ریڈیو بند کردیئے جاتے تھے۔ اب ریڈیو کا دور پہلے جیسا نہیں رہا۔۔۔ ٹی وی کی آواز کم کردی جاتی ہے۔ سر پر پلو ضرور ڈال لیتی ہیں اذان کی آواز ختم ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتی ہیں۔۔ اذان ختم ہوئی، ٹی وی کا والیوم بڑھ گیا۔ اب اگر بچوں کو نماز کے لئے مسجد بھیجیں تو خود انہیں بھی نماز کے لئے اٹھنا ہوگا۔ اور اگر وہ اٹھ  جائیں تو ساس بہو کا اتنا دلچسپ سیریل چھوٹ نہیں جائے گا! ایسا حال ہر گھر کا نہیں ہے۔ اب بھی ہزاروں مسلم گھرانوں میں ٹی وی نہیں ہے، اگر ہے بھی تو اذان اور نماز کے اوقات کے دوران انہیں بند کردیا جاتا ہے۔

    اذان۔۔۔ کا  احترام یہ نہیں ہے کہ ریڈیو، ٹی وی بند کردیا جائے یا آواز ختم کردی جائے۔ اصل احترام تو یہ ہے کہ جو پیغام جو دعوت دی جارہی ہے اس پر لبیک کہا جائے۔ اگر ہم ایسا کریں تو کس کی کیا مجال جو ہماری طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھے۔

    اکثر تقاریب کے دوران اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ یقینا کاروائی روک دینی چاہئے۔ ہم احترام کریںگے تو دنیا بھی کرے گی‘ اگر ہم خود تقدس کو پامال کریںگے تو دنیا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارا لحاظ کرے۔

    اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ تقریب کے دوران اذان کی آواز کے ساتھ بعض حضرات نماز کے لئے یااس بہانے جلسہ گاہ سے باہر نکلنے لگتے ہیں جس سے وقتی طور پر نظام درہم برہم ہوجاتا ہے‘ ایسے موقعوں پر یہ اعلان کیا جاسکتا ہے کہ تقریب کے فوری بعد باجماعت نماز کا انتظام ہے۔ اکثر ہم نماز قضا کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔۔۔ اپنے آپ کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ اذان کی آواز ہی سنائی نہیں دی۔نماز کے اوقات میں سبھی کو معلوم ہیں۔ اذان کی آواز سنائی نہ بھی دے تو ہمارے دماغ میں الارم ہونا چاہئے۔۔۔ خوف خدا سب سے بڑا الارم ہے۔ ویسے کلائی پر گھڑی، دیوار پر گھڑی نماز کے اوقات بتاتی ہیں۔ موبائل فون میں گھڑی بھی ہے الارم بھی۔ بلکہ بعض حضرات نے تو اذان رنگ ٹون رکھی ہے۔۔

    بہرحال اذان کا احترام کیجئے۔۔۔ سر پر ہاتھ رکھ کر۔۔ پلو ڈال کر نہیں۔۔۔ نماز ادا کرکے مسجدوں کو آباد کرکے۔۔۔

    ایسے وقت جب ہم بابری مسجد کی شہادت کی ۲۳ویں برسی کا اہتمام کررہے ہیں یہ عزم کرلیں کہ ہر ایک اذان کے ساتھ ہمارے قدم مسجد کی طرف اٹھنے لگیںگے۔۔۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو مسجدوں کی شہادت پر ہمارا احتجاج، ہمارا غم صرف دکھاوا اور ڈھکوسلا ہے۔

(یو این این)

********************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 762